اور عائشہ آ گئی ۔۔۔ قدرت اللہ شہاب

کھوکھرا پار کے مقام پر سرحد عبور کرتے ہوئے ہندوستانی کسٹم چوکی والوں نے عبد الکریم اور اس کی بیوی کو تو جانے دیا۔ لیکن ان کی تین چیزوں کو مزید تحقیق کے لیے اپنے پاس رکھ لیا۔ یہ تین چیزیں سنگر سوئنگ مشین، ہرکولیس کا بائیسکل اور عبد الکریم کی جواں سال بیٹی عائشہ پر مشتمل تھیں۔

دو دن اور ایک رات کی منت سماجت کے بعد بہ ہزار دقت جب یہ چیزیں واپس ملیں تو سلائی کی مشین کے کئی کل پرزے غائب تھے۔ بائیسکل کی گدی، ٹائر اور ٹیوبیں ندارد تھیں اور عائشہ۔۔۔

خیر، یہ بھی غنیمت تھا کہ اگر اللہ نے چاہا تو سلائی کی مشین کے کل پرزے بھی نئے ڈلوا لیے جائیں گے۔ بائیسکل کی گدی، ٹائر اور ٹیوبیں بھی اور آ جائیں گی اور عائشہ۔۔۔ ؟

عائشہ کا بھی اللہ مالک ہے۔ عبد الکریم کو جو ایمان غیب کی پر اسرار طاقتوں پر تھا، اس میں آج معمول سے بہت زیادہ کشف کی کیفیت جھلک رہی تھی۔

جب وہ ریلوے اسٹیشن پر پہنچے، تو مقامی والنٹیروں نے انہیں گوشت کے سالن کا ایک پیالہ اور چار تازہ تازہ نان کھانے کو دئیے۔ سفید سفید، نرم نرم، سوندھے سوندھے نان دیکھ کر عبد الکریم نے اپنی بیوی کی ران پر چوری سے چٹکی بھری اور سرگوشی میں کہا ’’میں نے کہا عائشہ کی ماں دیکھتی ہو، کیا خالص اور کرارے نان ہیں۔ اس سال بمبئی میں کیا پڑا تھا؟ چار برس سے ستھرے آٹے کی صورت کو ترس گئے تھے۔ واہ، کیا مکھن کے پیڑے پیدا کئے ہیں میرے مولا نے۔‘‘

جب وہ گاڑی کے ڈبے میں سوار ہوئے تو کچھ مسافر اپنے جان پہچان لوگوں کے ساتھ علیک سلیک میں مشغول تھے۔ ’’اسلام علیکم‘‘ ’’وعلیکم سلام‘‘ السلام و علیکم رحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘ عبد الکریم نے پھر اپنی بیوی کو جھنجھوڑا۔ ’’عائشہ کی ماں سنتی ہو؟ کیا دھوم دھڑکے کے ساتھ دعا سلام ہو رہی ہے۔ واہ، اسلام کی تو شان ہی اور ہے۔ سالی بمبئی میں تو بندے ماترم بندے ماترم سنتے کان پک گئے تھے۔ خدا کی قسم آج تو میرا سینہ بھی جاری ہو رہا ہے۔ واہ، کیا بات ہے میرے مولا کی۔‘‘ عبد الکریم نے اپنے اغل بغل بیٹھے ہوئے مسافروں کے ساتھ بڑے جوش و خروش سے ہاتھ ملانا اور گونج گونج کر اسلام علیکم کہنا شروع کر دیا۔ اگر اس کی بیوی اسے پکڑ کر واپس نہ بٹھا لیتی تو نہ جانے وہ کب تک اس کاروائی میں لگا رہتا۔

جب گاڑی چلی تو عبد الکریم نے بڑے انہماک کے ساتھ اس کے پہیوں کی گڑگڑاہٹ کو سنا۔ باہر تار کے کھمبوں سے حساب لگا کر ٹرین کی رفتار کا جائزہ لیا۔ ’’واہ‘‘ اس نے اپنی بیوی کو پھر جھنجھوڑا۔ ’’طوفان میل کیا چیز ہے اس کے سامنے۔ مزا آ گیا گاڑی میں بیٹھ کر۔ عائشہ کی ماں، تم بھی اپنی تسبیح نکال لو اور کھلم کھلا اطمینان سے بیٹھ کر اللہ کا نام لو۔ کیا مجال ہے کہ کوئی پیچھے سے آ کر تمہاری گردن کاٹ لے۔‘‘

ایک اسٹیشن کے بعد دوسرا اسٹیشن آتا گیا۔ گاڑی رکتی اور چلتی رہی، مسافر اترتے اور سوار ہوتے گئے۔ عبد الکریم کھڑکی سے منہ باہر لٹکائے اپنے ماحول کو اپنے دل، سینے اور آنکھوں میں جذب کر رہا تھا۔ صاف ستھری وردی والا گارڈ، جس کے سر پر جناح کیپ، ہاتھ میں سبز اور سرخ جھنڈیاں اور منہ میں سیٹی تھی پلیٹ فارموں پر چیلوں کی طرح جھپٹتے ہوئے قلی۔ بھنبھناتی ہوئی مکھیوں سے لدے ہوئے مٹھائیوں اور کھانے کے خوانچے، باہر حد نگاہ تک پھیلے ہوئے میدان، اکا دکا گاؤں کے کچے پکے مکانوں سے نکلتا ہوا دھواں، جوہڑوں پر پانی بھرتی ہوئی، کپڑے دھوتی ہوئی عورتیں، گرد و غبار میں اٹے ہوئے ننگ دھڑنگ بچے آسمان کی طرف منہ اٹھا اٹھا کر روتے ہوئے کتے، بلیاں، گدھ، کہیں کہیں کسی گائے یا بیل یا بھینس کی سڑی ہوئی متعفن لاش۔۔۔

جب حیدر آباد کا اسٹیشن آیا، تو سب سے پہلے عبد الکریم کی نگاہ ایک رنگین بورڈ پر پڑی، جس پر ایک دل ہلا دینے والی مار کٹائی سے بھرپور فلم کا اشتہار تھا۔ یہ دیکھ کر اس کی باچھیں کھل گئیں۔ اسی پلیٹ فارم پر کچھ سپاہی دس بارہ ملزموں کو گھیرے میں لیے کھڑے تھے اور ایک مجسٹریٹ صاحب کرسی پر ڈٹے بر سر عام عدالت لگائے بیٹھے تھے اور بغیر ٹکٹ سفر کرنے والوں کو دھڑا دھڑ جرمانے کی سزا سنا رہے تھے۔ سرکار کا یہ رعب داب دیکھ کر عبد الکریم بڑا متاثر ہوا اور اس نے حسب معمول اپنی بیوی کی توجہ اس طرف منعطف کرنے کے لیے اس کی ران پر چٹکی لی۔

’’عائشہ کی ماں انتظام ہو تو ایسا ہو۔ سالی بمبئی میں کسی ٹکٹ بابو کی مجال ہے کہ بغیر ٹکٹ والوں کی روک ٹوک کرے۔ واہ، حکومت کا سلیقہ بھی مسلمان کے خون میں ہی ہے۔ میں تو پہلے ہی کہتا تھا کہ یہ لالہ لوگوں کے بس کا نہیں ہے۔۔۔‘‘

عائشہ کی ماں بڑی دلجمعی سے سیٹ پر اکڑوں بیٹھی تھی۔ اس نے اپنی گٹھڑی سے ایک ہزار ایک منکوں والی تسبیح نکال لی تھی اور اب بڑے انہماک سے اس پر اللہ تعالیٰ کے ننانوے ناموں کا ورد کرنے میں مشغول تھی۔

’’عائشہ بیٹی۔‘‘ عبد الکریم نے اپنی بیٹی کو پکارا۔ ’’دیکھتی ہو اپنی اماں کے ٹھاٹھ۔ واہ کیا بات ہے اپنے وطن کی بیٹی، اس کالے صندوق سے میری ٹوپی بھی تو نکال دو ذرا۔ اب یہاں کس سالے کا ڈر ہے۔‘‘

عائشہ نے میکانکی طور پر صندوق کھولا۔ اور ٹوپی نکال کر اپنے باپ کے حوالے کی۔ یہ ایک پرانی سرمئی رنگ کی جناح کیپ تھی، جسے پہن کر عبد الکریم کسی وقت بھنڈی بازار کے پر جوش جلسوں میں شامل ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب چار سال سے یہ ٹوپی صندوق میں بند تھی۔ اور اس پر لگا ہوا نکل کا چاند تارا زنگ آلود ہو کر ٹوپی کی رنگت کے ساتھ مل جل گیا تھا۔

ٹوپی اوڑھ کر عبد الکریم سینہ تان کر بیٹھ گیا۔ اور کھڑکی سے باہر اڑتی ہوئی گرد کو دیکھنے لگا۔ عائشہ بھی باہر کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ایک اکتائی ہوئی بیزار نگاہ، جس کے سامنے کسی منزل کا نشان نہ ہو۔ وہ بار بار کوشش کرتی تھی کہ دل ہی دل میں دعائے گنج العرش کا ورد کرے۔ اس دعا نے اس کی بہت سی مشکلیں حل کر دی تھیں۔ لیکن آج اس دعا کے الفاظ اس کے ہونٹوں پر لرز کر رہ جاتے تھے اور زبان تک نہ پہنچتے تھے۔ اس کا دل بھی اندر ہی اندر پکار رہا تھا کہ اب یہ عظیم الاثر دعا بھی اس کی مشکل آسان نہ کر سکے گی۔ اب وہ ایک ایسی منزل پر پہنچ چکی تھی جہاں خدا کی خدائی بھی چارہ ساز نہیں ہوتی۔ توبہ، یہ تو بڑا کفر ہے۔ خدا کی ذات تو قادر مطلق ہے۔ اگر وہ چاہے تو گردش ایام کا رخ پیچھے کی طرف موڑ دے اور زمانے کو از سر نو اس لمحے شروع کر دے۔ جب عائشہ ابھی کھوکھرا پار کے قریب ہندوستانی کسٹم چوکی پر نہ پہنچی تھی۔۔۔

کراچی پہنچ کر سب سے پہلا مسئلہ سر چھپانے کی جگہ تلاش کرنے کا تھا۔ کچھ دوسرے لوگوں کی دیکھا دیکھی عبد الکریم نے اپنا سامان اسٹیشن کے باہر ایک فٹ پاتھ پر جما دیا اور عائشہ اور اس کی ماں کو وہاں بٹھا کر مکان کی تلاش میں نکل گیا۔ کچھ رات گئے جب وہ لوٹا، تو دن بھر کی دوڑ دھوپ سے بہت تھکا ہوا تھا۔ لیکن اس کے چہرے پر بشاشت اور اطمینان کے آثار جھلکتے تھے۔

’’عائشہ کی ماں۔‘‘ عبد الکریم نے فٹ پاتھ پر پاؤں پسار کے کہا ’’ہماری کراچی کے سامنے سالی بمبئی کی کچھ حقیقت ہی نہیں۔ تمہارے سر کی قسم! ایسے ایسے عالیشان محل کھڑے ہیں کہ نہ کبھی دیکھے نہ سنے۔ ایک سے ایک بڑھ کے سیٹھ بھی موجود پڑا ہے۔ تمہاری قسم ایک ایک سیٹھ بمبئی کے چار چار مارواڑیوں کو اپنی جیب میں ڈال سکتا ہے اور پھر موٹریں؟ کا ہے کو سالی بمبئی نے ایسی لچھے دار موٹریں دیکھی ہوں گی۔ پاس سے گزر جائیں، تو سمجھو جیسے کسی نے ریشم کا تھان کھول کر سڑک پر بچھا دیا ہے۔ اب ذرا ٹھکانے سے بیٹھ جائیں تو تمہیں بھی گھما پھرا لاؤں گا۔ طبیعت خوش ہو جائے کی کراچی کی بہار دیکھ کر۔‘‘

’’مکان کا کچھ ہوا؟‘‘ عائشہ کی ماں حقیقت کی طرف آئی۔

’’اجی ابھی کیا جلدی پڑی ہے۔ اللہ نے چاہا تو سب انتظام ہو جائے گا۔ آج میں نے گھوم پھر کر پگڑی کے ریٹ دریافت کر لیے ہیں۔ خدا کی قسم، عائشہ کی ماں، سالی بمبئی کراچی کے سامنے کوئی چیز ہی نہیں۔ پگڑی کے جو گنڈے دار ریٹ یہاں اٹھتے ہیں بے چارے بمبئی والوں نے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھے ہوں گے۔‘‘

عبد الکریم کا اب یہ معمول ہو گیا تھا کہ وہ علی الصبح منہ اندھیرے چل کھڑا ہوتا۔ کبھی بس میں بیٹھتا، کبھی ٹرام میں، کبھی رکشہ پر، کبھی پیدل، کیماڑی، کلفٹن، بندر روڈ، صدر، فرئیر پارک، اسمبلی ہال، چیف کورٹ، جیل، پیر الٰہی بخش کالونی، خدا داد کالونی، ناظم آباد، منگھو پیر، قائد اعظم کا مزار۔۔۔ کوئی مقام ایسا نہ تھا جس کا اس نے بنظر غائر جائزہ نہ لیا ہو۔ اور کوئی جائزہ ایسا نہ تھا جس نے اس کے خون کی گردش تیز اور اس کے دل کو شاد نہ کیا ہو۔ اور عبد الکریم کو کراچی کے فقیر بھی بڑے نجیب الطرفین نظر آئے تھے جو ماچس کی ڈبیاں اور اخبار بیچ بیچ کر بڑی خوش اسلوبی سے بھیک مانگتے تھے۔ بمبئی کی طرح نہیں کہ ایک سے ایک بڑا مشٹنڈا لٹھ لیے پھرتا ہے اور بھیک یوں مانگتا ہے جیسے دھمکی دے کر قرض وصول کر رہا ہو!

ایک روز وہ جمعہ کی نماز پڑھنے جامع مسجد گیا۔ نمازیوں کا بہت ہجوم تھا۔ مصر، شام، عراق، حجاز اور ایران سے بڑے بڑے لوگ ایک کانفرنس کے سلسلے میں کراچی آئے ہوئے تھے۔ نماز کے بعد انہوں نے پاکستان کے متعلق بڑی شاندار تقریریں کیں۔ اللہ اکبر کے نعرے بلند ہوئے۔ لوگ اٹھ اٹھ کر ان کے ہاتھ چومنے لگے۔ گلے ملنے لگے اور چاروں طرف جوش و خروش کا ایک عجیب عالم چھا گیا۔ یہ سماں دیکھ کر عبد الکریم کی آنکھوں سے بے اختیار خوشی کے آنسو بہنے لگے اور جب سب لوگ چلے گئے تو اس نے اللہ تعالیٰ کے حضور میں شکرانہ کے دو رکعت نفل ادا کئے۔

بمبئی میں عبد الکریم کے پاس بھنڈی بازار کے عقب میں ایک چھوٹی سی کھولی تھی۔ ایک تاریک سا، گھناؤنا سا کمرہ، نہ کوئی برآمدہ، نہ صحن، نہ تازہ ہوا، نہ دھوپ اور پھر ہر مہینے پورے ساڑھے دس روپے کرایہ کے ٹھیک یکم کو ادا نہ ہوں تو سیٹھ کے گماشتے کی گھرکیاں اور دھمکیاں الگ۔ لیکن اس کے مقابلے میں اب کراچی میں زندگی بڑے مزے سے بسر ہوتی تھی۔ جس فٹ پاتھ پر اس نے پہلے روز اڈا جمایا تھا اب وہاں کوئی بارہ فٹ لمبی اور دس فٹ چوڑی جگہ گھیر کر اس نے دوسرے لوگوں کی دیکھا دیکھی لکڑی کے تختے جوڑ کر اور پرانی بوریوں کے پردے تان کر ایک چھوٹی سی کٹیا بنا لی تھی۔ کھلی ہوا تھی۔ دھوپ اور روشنی بے روک ٹوک آتی جاتی تھی۔ پاس ہی بجلی کا کھمبا تھا۔ جس کے بلب کی روشنی عین اس کے کمرے پر پڑتی تھی۔ پانی کا نل دور نہ تھا اور پھر نہ کرائے کا جھگڑا، نہ ہر مہینے سیٹھ کے گماشتے کی چیخ، اتفاق سے آس پاس کے ہمسائے بھی شریف لوگ تھے اور ان سب کی آپس میں بڑے اطمینان سے بسر ہوتی تھی۔

بمبئی میں عبد الکریم نے بہت سے کاروبار بدلے تھے۔ اخیر میں جب کانگرسی حکومت نے امتناع شراب کا حکم لگایا، تو عبد الکریم کے لیے ایک مستقل ذریعہ معاش کی صورت پیدا ہو گئی تھی۔ ایکسائز کے عملے، دیسی شراب کشید کرنے والوں اور بغیر پرمٹ کے شراب پینے والوں سے اس کے بہت اچھے تعلقات تھے اور وہ ان تینوں کی مناسب خدماتے کے عوض اپنے لیے دو ڈھائی سو روپے ماہوار پیدا کر لیتا تھا۔ کراچی پہنچنے کے بعد اس نے چھان بین کی تو معلوم ہوا کہ مملکت خدا داد کے دار الخلافہ میں فی الحال حرمت شراب کا حکم نازل نہیں ہوا۔

یہ دیکھ کر اس کے دل میں بہت سی بد گمانیوں نے سر اٹھایا۔ اگرچہ وہ چور بازار میں شراب کا کاروبار کر لیا کرتا تھا لیکن وہ اسے ایک حرام چیز ضرور سمجھتا تھا۔ اور اس نے خود کبھی اس کو منہ نہیں لگایا تھا۔ جب کانگرس والوں نے شراب پر پابندی کا قانون لگایا تو وہ اپنے دوستوں کے سامنے بڑی بڑی ڈینگیں مارا کرتا تھا کہ ہندوؤں نے یہ کام کی بات مسلمانوں کے مذہب سے سیکھی ہے۔ لیکن اب کراچی میں یہ دگرگوں حالت دیکھ کر اسے بڑا ذہنی صدمہ پہنچا۔ اس نے بہت سے لوگوں سے اس کے متعلق کرید کرید کر پوچھا، لیکن کوئی اس کی خاطر خواہ تشفی نہ کر سکا۔ آخر ایک روز جب وہ حکیم نجیب اللہ خاں کے مطب میں بیٹھا گپیں ہانک رہا تھا تو باتوں باتوں میں شراب کا مسئلہ بھی چھڑ گیا۔ حکیم صاحب اپنے محلے میں بڑے جید عالم تصور کیے جاتے تھے اور وہ دوا دارو کے علاوہ مسئلہ مسائل سے بھی خلق خدا کی خدمت کیا کرتے تھے۔ عورتوں میں ہسٹریا کے مرض کو دوا کے بغیر محض روحانی وسائل سے رفع کر دینا ان کا خیال کمال تھا۔ عبد الکریم کے شکوک سن کر حکیم صاحب مسکرائے اور عقلی، برہانی اور قرآنی زاویوں سے شراب پر بڑی فصاحت و بلاغت سے روشنی ڈالنے لگے۔ ہر امر میں نیکی اور بدی دونوں کے راستے وا ہوتے ہیں۔ انسان کا کمال یہ ہے کہ وہ بدی سے منہ جوڑے اور نیکی کو اختیار کرے۔ اسی طرح شراب کے فائدے اور گناہ بھی اس کے سامنے ہیں۔ یہاں بھی انسان کی قوت اختیار کا امتحان ہے۔ شراب پر قانونی بندش لگا کر انسان کو اس امتحان سے محروم کرنا سراسر مشیت ایزدی کے خلاف ہے۔

عبد الکریم پر ان تفسیرات کا بہت اثر ہوا اور اسلام، ایمان اور قرآن کے نئے نئے اسرار اس پر منکشف ہونے لگے۔ ’’عائشہ کی ماں۔‘‘ اس نے کہا، ’’غلامی کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے بھلا؟ پچاس برس ہو گئے سالی بمبئی میں رہتے۔ نمازیں پڑھیں، قرآن شریف بھی سیکھا۔ لیکن کیا مجال جو کبھی سینے میں ایمان کی روشنی پیدا ہوئی۔ اب یہاں آ کر نئے نئے راز کھلنے لگے ہیں۔ سچ کہتے ہیں کہ ایمان کا مزا بھی آزادی کے ساتھ ہے۔‘‘

’’اسی لیے تو حدیث شریف میں آیا ہے کہ غلام ملک میں جمعہ کی نماز تک جائز نہیں۔‘‘

شراب کی طرف سے مطمئن ہو کر عبد الکریم نے کئی دوسرے کاروباروں کی طرف رجوع کیا۔ لیکن اسے اپنے چور بازار کے تجربات کام میں لانے کی کہیں کوئی صورت نظر نہ آئی۔ شراب ہے تو کھلم کھلا بک رہی ہے۔ آٹا ہے تو بر سر عام چار آنے سیر کے حساب ڈھیروں ڈھیر مل رہا ہے۔ کپڑے کی بھی قلت نہیں۔ چینی عام ہے۔ اب چور بازار چلے تو کس چیز کے سہارے چلے؟ پہلے ان نے پان بیڑی بیچنے کی کوشش کی۔ پھر آئس کریم اور پھلوں کے ٹھیلوں پر قسمت کو آزمایا۔ ا سکے بعد کپڑے کی ایک چھوٹی سی دکان کھولی۔ گزارے کے لیے پیسے تو ہر جگہ سے نکل آتے تھے۔ لیکن زندگی عزیز کی چاشنی ختم ہو گئی تھی اور سیدھی طرح دکان پر بیٹھے بیٹھے عبد الکریم کا جی بیزار ہو جاتا تھا۔ وہ کسی پر خطر، زیر زمین قسم کے بیوپار کا متلاشی تھا جس کا تجربہ اس نے زندگی کے بہترین سال صرف کر کے حاصل کیا تھا۔ لیکن فی الحال اس کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ اس لیے اسے دل اور دماغ پر ہمیشہ ایک مستقل اکتاہٹ چھائی رہتی۔

بمبئی میں اگر کسی وجہ سے اس پر بیزاری یا اکتاہٹ کا حملہ ہوتا تھا تو وہ جی بہلانے کے لیے کسی چوبارے پر گانا سننے چلا جایا کرتا تھا۔

کراچی میں آئے ہوئے اسے کئی مہینے ہو گئے تھے اور اس نے یہاں کا چپہ چپہ دیکھ ڈالا تھا۔ لیکن اب تک اسے کہیں ایسے بازار کا نشان نظر نہ آیا تھا جہاں وہ گھڑی دو گھڑی کو کلفت مٹانے کے لیے ہو آیا کرے۔ اس نے چھان بین کی تو معلوم ہوا کہ چکلوں پر قانونی بندش لگی ہوئی ہے اور جس طرح بمبئی میں شراب بند ہے، اسی طرح کراچی میں رنڈیوں کا پیشہ منع ہے۔ عبد الکریم نے یہ خبر بڑی صفائی قلب کے ساتھ عائشہ کی ماں کو سنائی اور وہ دونوں دیر تک فٹ پاتھ پر اپنی جھونپڑی کے سامنے چارپائی پر بیٹھے قرآن اور ایمان کی روح پرور باتیں کرتے رہے۔

چکلوں کے سلسلے میں جو تحقیقات عبد الکریم نے کی تھی اس کے دوران اس پر یہ حقیقت کھل گئی تھی کہ اس میدان میں بلیک مارکیٹ کے وسیع امکانات ہیں۔ اس کی کچھ ایسے لوگوں سے شناسائی بھی ہو گئی تھی جو اس بیوپار میں بڑی دسترس رکھتے تھے اور عبد الکریم کے پرانے تجربات کی بنا پر اسے معقول کمیشن پر اپنا شریک کار بنانے کے لیے آمادہ تھے۔ ایک کانے دلال نے شاید عائشہ کو بھی کہیں دیکھ لیا تھا چنانچہ اس نے رائے دی کہ اگر عبد الکریم اس کی رفاقت کرے تو وہ بہت جلد ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کے مالک بن جائیں گے۔ جب عبد الکریم کو اس کی نیت کا علم ہوا تو اس نے اپنا جوتا کھول کر اس کانے کی بر سر عام خوب مرمت کی اور مسجد میں جا کر ساری رات سجدے میں پڑا روتا رہا کہ اس کے دل میں ایسے ذلیل کام کا خیال بھی آیا۔ یا غفور الرحیم یہ اسی سیاہ کارانہ خیال کی سزا ہے، کہ اب لوگ اس کی عائشہ کی طرف بھی نظریں اٹھانے لگے ہیں۔ یا اللہ توبہ، یا اللہ توبہ۔۔۔

رات بھر خشوع و خضوع کے ساتھ استغفار کر کے عبد الکریم کا دل پھول کی طرح ہلکا ہو گیا۔ علی الصبح منہ اندھیرے جب وہ گھر واپس لوٹا، تو اس کی بیوی انتظار کرتے کرتے چٹائی پر سو گئی تھی۔ عائشہ فجر کی نماز سے فارغ ہو کر تلاوت قرآن میں مصروف تھی۔ اس کی آواز میں بڑا سوز حزیں تھا۔ اور جب وہ آہستہ آہستہ قرات کے ساتھ خدا کا کلام پڑھتی تھی تو فضا میں ایک عجیب عرفان چھا جاتا تھا۔ عبد الکریم خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھا سنتا رہا اور سوچتا رہا کہ کیا یہی وہ معصومیت کا فرشتہ ہے جس کے متعلق ایک بد معاش دلال نے سیاہ کاری کی ہوس کی تھی۔

عبد الکریم کی توبہ اور استغفار نے بڑا اثر دکھایا۔ کپڑے کی دکان خوب چل نکلی۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے عبد الکریم نے پیر الٰہی بخش کالونی میں ساڑھے چار ہزار روپے میں دو کمرے کا پختہ مکان خرید لیا۔ زندگی میں پہلی بار عائشہ کی ماں کو اپنی ملکیت کا مکان نصیب ہوا تھا۔ وہ اسے شیشے کی طرح صاف رکھنے لگی۔ دن میں کئی کئی بار سیمنٹ کا فرش دھویا جاتا۔ دیواریں جھاڑی جاتیں اور صبح شام اندر باہر فینائل کا چھڑکاؤ ہوتا، تاکہ مکھیاں اندر نہ آنے پائیں۔ علی الصبح منہ اندھیرے عبد الکریم کی بیوی تو مکان کی صفائی میں مصروف ہوتی اور عائشہ دالان میں بیٹھ کر قرآن پڑھتی۔ عبد الکریم دیر تک بستر پر اپنے ماحول کے عرفان میں سرشار پڑا رہتا۔ انڈوں، پراٹھوں اور چائے کا ناشتہ کر کے جب وہ دکان کھولتا تو اس کا ظاہر اور باطن بڑے مطمئن اور آسودہ ہوتے تھے۔

رفتہ رفتہ عائشہ کے لیے پیام بھی آنے لگے۔ جس روز اس کی منگنی ہوئی وہ بے اختیار ساری رات مصلے پر پڑی روتی رہی۔ رخصتی کے روز وہ کئی بار روتے روتے بے ہوش ہوئی۔ عبد الکریم اور عائشہ کی ماں کا بھی برا حال تھا۔ عائشہ کا خاوند بجنور کا مہاجر تھا اور ٹنڈو آدم خاں میں آڑھتی کی دکان کرتا تھا۔ جس روز وہ سسرال سدھاری تو گویا عبد الکریم کا گھر سنسان ہو گیا۔ دوسرے روز حسب معمول اس کی آنکھ منہ اندھیرے کھلی۔ لیکن دالان میں عائشہ کی آواز نہ پا کر وہ کروٹ بدل کر پھر سو گیا۔ جب وہ دن چڑھے اٹھا تو اس کے بدن میں بڑی آلکس تھی۔ جیسے افیونی کو افیون یا شرابی کو شراب سے ناغہ ہو گیا ہو۔ اس نے طوعاً و کرہاً منہ ہاتھ دھویا۔ ناشتہ کیا اور کپڑے بدل کر دکان پر چلا گیا۔ دکان میں بھی اس کی طبیعت کچھ اچاٹ اچاٹ سی رہی۔ اس لیے دکان کو معمول سے پہلے بند کر کے وہ جی بہلانے کے لیے گھومنے نکل گیا۔ رات کو بہت دیر سے لوٹا اور بغیر کھانا کھائے سو گیا۔

اب اس کا معمول ہو گیا تھا کہ صبح دیر سے اٹھتا۔ بہت دیر سے ناشتہ کرتا۔ کوئی دن ڈھلے دکان پر جاتا اور آدھی آدھی رات گئے گھر لوٹتا۔ رفتہ رفتہ اس نے دکان کے لیے ایک ملازم رکھ لیا اور سارا دن سونے اور رات رات بھر باہر رہنے لگا۔ سر شام اس کے برآمدے میں کئی قسم کے دلالوں کا جمگھٹا لگ جاتا تھا۔ ان میں وہ کانا دلال بھی ہوتا تھا جسے عبد الکریم نے ایک روز سر عام جوتوں سے پیٹا تھا۔

ایک دو بار عبد الکریم کی بیوی نے ان لوگوں کے متعلق پوچھ گچھ کی تو اس نے بڑی صفائی سے ٹال دیا۔

’’عائشہ کی ماں! اب میں نے ایک دو اور بیوپار بھی کھول لیے ہیں۔ اللہ نے چاہا تو بڑی کامیابی ہو گی۔ تم ذرا جلدی سے ان بھلے آدمیوں کے لیے چائے پانی بھجوا دو۔‘‘

عبد الکریم کے نئے بیوپار بھی چمک اٹھے۔ چھ سات مہینوں میں اس نے پیر الٰہی بخش کالونی والا مکان چھوڑ کر بندر روڈ پر ایک دو منزلہ کوٹھی خرید لی۔ صدر دروازے پر ’’سیٹھ عبد الکریم بمبئی والا‘‘ کا بورڈ لگ گیا۔ سواری کے لیے موٹر آ گئی اور گھر میں کام کاج کے لیے نوکر چاکر مقرر ہو گئے۔ اب عائشہ کی ماں کو بھی فرصت نصیب ہوئی۔ اور وہ آدھی آدھی رات اٹھ کر تہجد گزارتی تھی۔۔۔ اور اپنی ایک ہزار ایک، دانوں والی تسبیح پر اللہ کے ایک سو ننانوے ناموں کا ورد کر کے اپنے شوہر کی کمائی میں برکت اور کشائش کی دعائیں کیا کرتی تھی۔

ایک رات جب عبد الکریم گھر آیا، تو عائشہ کی ماں نے اس کے پاؤں دباتے ہوئے کہا ’’اے جی۔۔۔ میں نے کہا، کچھ سنتے ہو؟‘‘

’’کیا بات ہے عائشہ کی ماں؟‘‘ عبد الکریم نے بے توجہی سے پوچھا۔ دن بھر کی ریاضت سے وہ بہت تھکا ہوا اور کسل مند تھا۔

’’خیر سے ٹنڈو آدم خاں سے آدمی آیا تھا۔ اللہ رکھے، تمہاری بیٹی پر خدا نے اپنی رحمت کی ہے۔ اگلے مہینے تم بھی نانا ابا کہلانے لگو گے!‘‘

’’اللہ تعالیٰ کا شکر ہے۔ عائشہ کی ماں، اگلی جمعرات کو یتیم خانہ کے بچوں کو بلا کر کھانا کھلا دینا۔ مجھے کام میں یاد رہے نہ رہے، تم ضرور یاد رکھنا اور ہاں۔۔۔ عائشہ کی ماں، کچھ زیورات اور کپڑے بھی بنوا رکھو۔ جب تم گھی کھچڑی لے کر جاؤ گی، تو خالی ہاتھ تو نہ جاؤ گی۔ اللہ رکھے اب دو پیسے آئے ہیں تو اپنی بیٹی پر بھی ارمان نکال لو۔‘‘

’’اے ہے‘‘ عائشہ کی ماں نے تنک کر کہا ’’یہ تم کیسی باتیں کرتے ہو، میں بھلا گھی کھچڑی لے کر کہاں جاؤں گی، میری بچی اللہ رکھے بڑی الہڑ اور انجان ہے۔۔۔ میں نے اسے دن پورے کرنے یہاں بلا لیا ہے۔ اللہ نے چاہا تو پرسوں دوپہر کی گاڑی سے آ جائے گی۔ تم بھی موٹر لے کر چلنا۔ ہم عائشہ کو اسٹیشن پر لینے جائیں گے۔‘‘

یہ خبر سن کر عبد الکریم اپنے بستر پر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس کی آنکھوں پر مکڑی کے جالے سے تن گئے اور اسے یوں محسوس ہونے لگا جیسے گھر کے در و دیوار اس کا منہ چڑا چڑا کر پکار رہے ہوں، کہ اب عائشہ آ رہی ہے۔ عائشہ آ رہی ہے، عائشہ آ رہی ہے۔۔۔

وہ ساری رات بستر پر پڑا کروٹیں بدلتا رہا۔ صبح معمول سے پہلے اٹھ بیٹھا۔ نہا دھو کر کپڑے بدلے، ناشتہ کیا اور سیدھا اپنے کپڑے کی دکان پر جا بیٹھا۔ اس کا ملازم جو پچھلے آٹھ ماہ سے تن تنہا اس دکان کو اپنے من مانے طریقے پر چلا رہا تھا، مالک کو آتے دیکھ کر گھبرا گیا۔ لیکن عبد الکریم نے حساب کتاب کے متعلق کوئی باز پرس نہ کی۔ وہ سارا دن دکان پر کھویا کھویا سا بیٹھا رہا۔ اس کے بہت سے یار دوست اس کی تلاش میں وہاں بھی آ پہنچے۔ لیکن وہ کام کا بہانہ کر کے سب کو دکھائی سے ٹالتا رہا۔ تیسرے پہر وہ کانا دلال بھی حسب معمول اس کی تلاش میں وہاں آیا۔ اس کی صورت دیکھتے ہی عبد الکریم آپے سے باہر ہو گیا۔ اور لوہے کا گز اٹھا کر دیوانہ وار اس کی طرف لپکا۔

’’خبردار! اگر تم میری دکان پر چڑھے تو تمہاری ٹانگیں توڑ ڈالوں گا۔ سالے حرامی نے ساری کراچی میں گندگی پھیلا رکھی ہے۔۔۔ جاؤ بھاگو یہاں سے، ورنہ ابھی پولیس کو خبر کرتا ہوں، سالا دَلّا۔۔۔‘‘

سر شام دکان بند کر کے عبد الکریم سیدھا مسجد میں چلا گیا، اور دیر تک سجدے میں پڑا بلک بلک کر روتا رہا۔ دعا کے کلمات رہ رہ کر اس کی زبان پر آتے تھے لیکن ہونٹوں پر لرز کے رہ جاتے تھے۔ جیسے کوئی کبوتر اپنے آشیانے پر بار بار آئے اور اسے ویران پا کر پھڑپھڑاتا ہوا واپس چلا جائے۔

شاید عبد الکریم سجدے میں پڑے پڑے ہی سو گیا۔ کیونکہ جب کسی نے اس کو بلا کر جگایا تو فجر کا وقت تھا۔ مؤذن صبح کی اذان دے رہا تھا۔ نیند کے خمار میں عبد الکریم کو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ یہ اذان کی آواز نہیں، بلکہ دور کہیں بہت دور کوئی چیخ چیخ کر پکار رہا ہے، کہ اب عائشہ آ رہی ہے، عائشہ آ رہی ہے، عائشہ آ رہی ہے۔۔۔‘‘

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے