یہی سچ ہے ۔۔۔ منو بھنڈاری/ اعجاز عبید

منو بھنڈاری کی یہ کہانی بہت مشہور ہوئی تھی، اور اسی کہانی کی بنیاد بنا کر ۱۹۷۴ء کی فلم ’رجنی گندھا‘ بنائی گئی تھی۔ اس فلم کے ہدایت کار تھے باسو چٹرجی، اور فلم کے اداکار تھے امول پالیکر، ودیا سنہا اور دنیش ٹھاکر۔ اس فلم نے ۱۹۷۵ء کا بہترین فلم کا فلم فئر اوارڈ حاصل کیا تھا۔ اور حکومت ہند کا سلور لوٹس اوارڈ بھی مکیش کو اسی فلم کے ایک گیت کے لئے دیا گیا تھا۔ ۲۰۱۲ء میں اسی پر بنگلہ فلم ’ہوٹھات سے دن‘ بھی باسو چٹرجی نے ہی بنائی تھی۔

پیش ہے منو بھنڈاری کی اصل کہانی۔

 

1

کانپور

سامنے آنگن میں پھیلی دھوپ سمٹ کر دیواروں پر چڑھ گئی اور کندھے پر بستہ لٹکائے ننھے ننھے بچوں کے جھنڈ کے جھنڈ دکھائی دیے، تو یکا یک ہی مجھے وقت کا احساس ہوا۔ گھنٹہ بھر ہو گیا یہاں کھڑے کھڑے اور سنجے کا ابھی تک پتہ نہیں! جھنجھلاتی سی میں کمرے میں آتی ہوں۔ کونے میں رکھی میز پر کتابیں بکھری پڑی ہیں، کچھ کھلی، کچھ بند۔ ایک پل میں انہیں دیکھتی رہتی ہوں، پھر بے مقصد سی کپڑوں کی الماری کھول کر سرسری سی نظر سے کپڑے دیکھتی ہوں، سب بکھرے پڑے ہیں۔ اتنی دیر یوں ہی بیکار کھڑی رہی، انہیں ہی ٹھیک کر لیتی۔ لیکن دل نہیں چاہتا اور پھر بند کر دیتی ہوں۔

نہیں آنا تھا تو بیکار ہی مجھے وقت کیوں دیا؟ پھر یہ کوئی آج ہی کی بات ہے! ہمیشہ سنجے اپنے بتائے ہوئے وقت سے گھنٹے دو گھنٹے دیری کر کے آتا ہے، اور میں ہوں، کہ اسی لمحے سے انتظار کرنے لگتی ہوں، اس کے بعد لاکھ کوشش کر کے بھی تو کسی کام میں اپنا من نہیں لگا پاتی۔ وہ کیوں نہیں سمجھتا کہ میرا وقت بہت قیمتی ہے، تھیسس پوری کرنے کے لیے اب مجھے اپنا سارا وقت پڑھائی میں ہی لگانا چاہیئے۔ پر یہ بات اسے کیسے سمجھاؤں!

 

 

2

 

میز پر بیٹھ کر میں پھر پڑھنے کی کوشش کرنے لگتی ہوں، پر دل ہے کہ لگتا ہی نہیں۔ پردے کے ذرا سے ہلنے سے دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے اور بار بار نظر گھڑی کے سرکتے ہوئے کانٹوں پر دوڑ جاتی ہے۔ ہر لمحے یہی لگتا ہے، وہ آیا! آیا!

تبھی مہتا صاحب کی پانچ سال کی چھوٹی بچی جھجکتی سی کمرے میں آتی ہے، ’’آنٹی، ہمیں کہانی سناؤ گی؟‘‘

’’نہیں، ابھی نہیں،بعد میں آنا!‘‘ میں رکھائی سے جواب دیتی ہوں، وہ بھاگ جاتی ہے۔ یہ مسز مہتا بھی ایک ہی ہیں! یوں تو مہینوں شاید میری صورت نہیں دیکھتیں، پر بچی کو جب، تب میرا سر کھانے کو بھیج دیتی ہیں۔ مہتا صاحب تو پھر بھی کبھی کبھی آٹھ دس دن میں خیریت پوچھ ہی لیتے ہیں، پر وہ تو بیحد اکڑو معلوم ہوتی ہیں۔ اچھا ہی ہے، زیادہ دلچسپی دکھاتی تو کیا میں اتنی آزادی سے گھوم پھر سکتی تھی؟

کھٹ کھٹ کھٹ وہی جانی پہچانی آہٹ! تو آ گیا سنجے۔ میں زبردستی ہی اپنا سارا دھیان کتاب میں مرکوز کر لیتی ہوں، رجنی گندھا کے ڈھیر سارے پھول لیے سنجے مسکراتا سا دروازے پر کھڑا ہے۔ میں دیکھتی ہوں، مگر مسکرا کر استقبال نہیں کرتی۔ ہنستا ہوا وہ آگے بڑھتا ہے اور پھولوں کو میز پر پٹک کر، پیچھے سے میرے دونوں کندھے دباتا ہوا پوچھتا ہے، ’’بہت ناراض ہو؟‘‘

رجنی گندھا کی مہک سے جیسے سارا کمرا مہکنے لگتا ہے۔

’’مجھے کیا کرنا ہے ناراض ہو کر؟‘‘ رکھائی سے میں کہتی ہوں، وہ کرسی سمیت مجھے گھما کر اپنے سامنے کر لیتا ہے، اور بڑے دلار کے ساتھ ٹھوڑی اٹھا کر کہتا، ’’تمہیں بتاؤ کیا کرتا؟ کوالٹی میں دوستوں کے بیچ پھنسا تھا۔ بہت کوشش کر کے بھی اٹھ نہیں پایا۔ سب کو ناراض کر کے آنا اچھا بھی نہیں لگتا۔‘‘

جی چاہتا ہے، کہہ دوں – ’’تمہیں دوستوں کا خیال ہے، ان کے برا ماننے کی فکر ہے، بس میری ہی نہیں!‘‘ پر کچھ کہہ نہیں پاتی، ایک ٹک اس کے چہرے کی سمت دیکھتی رہتی ہوں، اس کے سانولے چہرے پر پسینے کی بوندیں چمک رہی ہیں۔ کوئی اور وقت ہوتا تو میں نے اپنے آنچل سے انہیں پونچھ دیا ہوتا، پر آج نہیں۔ وہ زیرِ لب مسکرا رہا ہے، اس کی آنکھیں معذرت طلب کر رہی ہیں، پر میں کیا کروں؟ تبھی وہ اپنی عادت کے مطابق کرسی کے ہتھے پر بیٹھ کر میرے گال سہلانے لگتا ہے۔ مجھے اس کی اسی بات پر غصہ آتا ہے۔ ہمیشہ اسی طرح کرے گا اور پھر دنیا بھر کا لاڑ دلار دکھلائے گا۔ وہ جانتا جو ہے کہ اس کے آگے میرا غصہ ٹک نہیں پاتا۔ پھر اٹھ کر وہ پھول دان کے پرانے پھول پھینک دیتا ہے، اور نئے پھول لگاتا ہے۔ پھول سجانے میں وہ کتنا ماہر ہے! ایک بار میں نے یوں ہی کہہ دیا تھا کہ مجھے رجنی گندھا کے پھول بڑے پسند ہیں، تو اس نے معمول ہی بنا لیا کہ ہر چوتھے دن ڈھیر سارے پھول لآ کر میرے کمرے میں لگا دیتا ہے۔ اور اب تو مجھے بھی ایسی عادت ہو گئی ہے کہ ایک دن بھی کمرے میں پھول نہ رہیں تو نہ پڑھنے میں دل لگتا ہے، نہ سونے میں۔ یہ پھول جیسے سنجے کی موجودگی کا احساس دیتے رہتے ہیں۔

تھوڑی دیر بعد ہم گھومنے نکل جاتے ہیں۔ یکایک ہی مجھے اِرا کے خط کی بات یاد آتی ہے۔ جو بات سننے کے لیے میں سویرے سے ہی بے چین تھی، اس غصے میں جانے کیسے اسے ہی بھول گئی!

’’سنو، اِرا نے لکھا ہے کہ کسی دن بھی میرے پاس انٹرویو کا بلاوا آ سکتا ہے، مجھے تیار رہنا چاہیئے۔‘‘

’’کہاں، کلکتہ سے؟‘‘ کچھ یاد کرتے ہوئے سنجے پوچھتا ہے، اور پھر یکایک ہی اچھل پڑتا ہے، ’’اگر تمہیں وہ جاب مل جائے تو مزہ آ جائے، دیپا، مزہ آ جائے!‘‘

ہم سڑک پر ہیں، نہیں تو ضرور اس نے جذبات میں آ کر کوئی حرکت کر ڈالی ہوتی۔ جانے کیوں، مجھے اس کا اس طرح خوش ہونا اچھا نہیں لگتا۔ کیا وہ چاہتا ہے کہ میں کلکتہ چلی جاؤں، اس سے دور؟

تبھی سنائی دیتا ہے، ’’تمہیں یہ جاب مل جائے تو میں بھی اپنا تبادلہ کلکتہ ہی کروا لوں، ہیڈ آفس میں۔ یہاں کی روز کی کچ کچ سے تو میرا من اوب گیا ہے۔ کتنی ہی بار سوچا کہ تبادلے کی کوشش کروں، پر تمہارے خیال نے ہمیشہ مجھے باندھ لیا۔ آفس میں شانتی ہو جائے گی، پر میری شامیں کتنی ویران ہو جائیں گی!‘‘

اس کے لہجے کی نمی نے مجھے چھو لیا۔ یکایک ہی مجھے لگنے لگا کہ رات بڑی سہانی ہو چلی ہے۔

ہم دور نکل کر اپنی پسندیدہ ٹیکری پر جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ دور دور تک ہلکی سی چاندنی پھیلی ہوئی ہے اور شہر کی طرح یہاں کا ماحول دھوئیں سے بھرا ہوا نہیں ہے۔ وہ دونوں پیر پھیلا کر بیٹھ جاتا ہے اور گھنٹوں مجھے اپنے آفس کے جھگڑے کی بات سناتا ہے اور پھر کلکتہ جا کر ساتھ زندگی بتانے کی اسکیمیں بناتا ہے۔ میں کچھ نہیں بولتی، بس ایک ٹک اسے دیکھتی ہوں، دیکھتی رہتی ہوں۔

جب وہ چپ ہو جاتا ہے تو بولتی ہوں، ’’مجھے تو انٹرویو میں جاتے ہوئے بڑا ڈر لگتا ہے۔ پتہ نہیں، کیسے کیا پوچھتے ہوں گے! میرے لیے تو یہ پہلا ہی موقع ہے۔‘‘

وہ کھلکھلا کر ہنس پڑتا ہے۔

’’تم بھی ایک ہی مورکھ ہو! گھر سے دور، یہاں کمرا لے کر اکیلی رہتی ہو، ریسرچ کر رہی ہو، دنیا بھر میں گھومتی پھرتی ہو اور انٹرویو کے نام سے ڈر لگتا ہے۔ کیوں؟‘‘ اور گال پر ہلکی سی چپت جما دیتا ہے۔ پھر سمجھاتا ہوا کہتا ہے، ’’اور دیکھو، آج کل یہ انٹرویو وغیرہ تو سب دکھاوا ہوتے ہیں۔ وہاں کسی جان پہچان والے سے انفلوئینس ڈلوانا جا کر!‘‘

’’پر کلکتہ تو میرے لیے ایک دم نئی جگہ ہے۔ وہاں اِرا کو چھوڑ کر میں کسی کو جانتی بھی نہیں۔ اب ان لوگوں کی کوئی جان پہچان ہو تو بات دوسری ہے‘‘ مجبور سی میں کہتی ہوں۔

’’اور کسی کو نہیں جانتیں؟‘‘ پھر میرے چہرے پر نظریں گڑا کر پوچھتا ہے، ’’نشیتھ بھی تو وہیں ہے؟‘‘

’’ہو گا، مجھے کیا کرنا ہے اس سے؟‘‘ میں ایک دم ہی بھنا کر جواب دیتی ہوں، پتہ نہیں کیوں، مجھے لگ ہی رہا تھا کہ اب وہ یہی بات کہے گا۔

’’کچھ نہیں کرنا؟‘‘ وہ چھیڑنے کے لہجے میں کہتا ہے۔

اور میں بھبھک پڑتی ہوں ’’دیکھو سنجے، میں ہزار بار تم سے کہہ چکی ہوں، کہ اسے لے کر مجھ سے مذاق مت کیا کرو! مجھے اس طرح کا مذاق ذرا بھی پسند نہیں ہے!‘‘

وہ کھلکھلا کر ہنس پڑتا ہے، پر میرا تو موڈ ہی خراب ہو جاتا ہے۔

ہم لوٹ پڑتے ہیں۔ وہ مجھے خوش کرنے کے ارادے سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیتا ہے۔ میں جھپٹ کر ہاتھ ہٹا دیتی ہوں، ’’کیا کر رہے ہو؟ کوئی دیکھ لے گا تو کیا کہے گا؟‘‘

’’کون ہے یہاں جو دیکھ لے گا؟ اور دیکھ لے گا تو دیکھ لے، آپ ہی کڑھے گا۔‘‘

’’نہیں، ہمیں پسند نہیں ہیں یہ بے شرمی!‘‘ اور سچ ہی مجھے راستے میں ایسی حرکتیں پسند نہیں ہیں چاہے راستا ویران ہی کیوں نہ ہو، پر ہے تو راستہ ہی، پھر کانپور جیسی جگہ۔

کمرے میں لوٹ کر میں اسے بیٹھنے کو کہتی ہوں، پر وہ بیٹھتا نہیں، بس، بانہوں میں بھر کر ایک بار چوم لیتا ہے۔ یہ بھی جیسے اس کا روز کا معمول ہے۔

وہ چلا جاتا ہے۔ میں باہر بالکنی میں نکل کر اسے دیکھتی رہتی ہوں، اس کا جسم چھوٹا ہوتے ہوتے سڑک کے موڑ پر جا کر غائب ہو جاتا ہے۔ میں ادھر ہی دیکھتی رہتی ہوں۔ بے مقصد سی کھوئی کھوئی سی۔ پھر آ کر پڑھنے بیٹھ جاتی ہوں۔

رات میں سوتی ہوں، تو دیر تک میری آنکھیں میز پر لگے رجنی گندھا کے پھولوں کو ہی دیکھتی رہتی ہیں۔ جانے کیوں، اکثر مجھے شک ہو جاتا ہے کہ یہ پھول نہیں ہیں، مانو سنجے کی لا تعداد آنکھیں ہیں، جو مجھے دیکھ رہی ہیں، سہلا رہی ہیں، دلار رہی ہیں۔ اور اپنے کو یوں لا تعداد آنکھوں سے متواتر دیکھے جانے کے تصور سے ہی میں شرما جاتی ہوں۔

میں نے سنجے کو بھی ایک بار یہ بات بتائی تھی، تو وہ خوب ہنسا تھا اور پھر میرے گالوں کو سہلاتے ہوئے اس نے کہا تھا کہ میں پاگل ہوں، نری مورکھ ہوں!

کون جانے، شاید اس کا کہنا ہی ٹھیک ہو، شاید میں پاگل ہی ہوؤں!

 

کانپور

میں جانتی ہوں، سنجے کا دل نشیتھ کو لے کر اکثر مشکوک ہو اٹھتا ہے، پر میں اسے کیسے وشواس دلاؤں کہ میں نشیتھ سے نفرت کرتی ہوں، اس کی صرف یاد سے میرا دل نفرت سے بھر اٹھتا ہے۔ پھر اٹھارہ سال کی عمر میں کیا ہوا پیار بھی کوئی پیار ہوتا ہے بھلا! نرا بچپن ہوتا ہے، محض پاگل پن! اس میں ہیجان رہتا ہے پر استقلال نہیں، گتی رہتی ہے پر گہرائی نہیں۔ جس تیزی سے وہ شروع ہوتا ہے، ذرا سا جھٹکا لگنے پر اسی رفتار سے ٹوٹ بھی جاتا ہے۔ اور اس کے بعد آہوں، آنسوؤں اور سسکیوں کا ایک دور، ساری دنیا کی بے معنویت اور خودکشی کرنے کے بے شمار پلان اور پھر ایک تیکھی نفرت۔ جیسے ہی زندگی کو دوسری بنیاد مل جاتی ہے، ان سب کو بھولنے میں ایک دن بھی نہیں لگتا۔ پھر تو وہ سب ایسی بے وقوفی لگتی ہے، جس پر بیٹھ کر گھنٹوں ہنسنے کی طبیعت ہوتی ہے۔ تب یکایک ہی اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ یہ سارے آنسو، یہ ساری آہیں اس عاشق کے لیے نہیں تھیں، بلکہ زندگی کے اس خالی پن کے لیے تھیں، جس نے جیون کو بے رنگ بنا کر بوجھل کر دیا تھا۔

تبھی تو سنجے کو پاتے ہی میں نشیتھ کو بھول گئی۔ میرے آنسو ہنسی میں بدل گئے اور آہوں کی جگہ کلکاریاں گونجنے لگیں۔ پر سنجے ہے کہ جب تب نشیتھ کی بات کو لے کر بیکار ہی اداس سا ہو اٹھتا ہے۔ میرے کچھ کہنے پر وہ کھلکھلا ضرور پڑتا ہے، پر میں جانتی ہوں، وہ مکمل طور سے مطمئن نہیں ہے۔

اسے کیسے بتاؤں کہ میرے پیار کا، میرے کومل جذبات کا، مستقبل کے میرے بے شمار منصوبوں کا اکلوتا مرکز سنجے ہی ہے۔ یہ بات دوسری ہے کہ چاندنی رات میں، کسی ویران جگہ میں، پیڑ تلے بیٹھ کر بھی میں اپنی تھیسس کی بات کرتی ہوں، یا وہ اپنے آفس کی، دوستوں کی باتیں کرتا ہے، یا ہم کسی اور موضوع پر بات کرنے لگتے ہیں پر اس سب کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہم پیار نہیں کرتے! وہ کیوں نہیں سمجھتا کہ آج ہماری جذباتیت حقیقت میں بدل گئی ہے، سپنوں کی جگہ ہم حقیقت میں جیتے ہیں! ہمارے عشق کو پختگی مل گئی ہے، جس کا سہارا پا کر وہ اور گہرا ہو گیا ہے، مستقل ہو گیا ہے۔

پر سنجے کو کیسے سمجھاؤں یہ سب؟ کیسے اسے سمجھاؤں کہ نشیتھ نے میری بے عزتی کی ہے، ایسی ہتک، جس کی کسک سے میں آج بھی تلملا جاتی ہوں، تعلق توڑنے سے پہلے ایک بار تو اس نے مجھے بتایا ہوتا کہ آخر میں نے ایسا کون سا جرم کر ڈالا تھا، جس کی وجہ سے اس نے مجھے اتنی سخت سزا دے ڈالی؟ ساری دنیا کی نفرت، مذاق اور رحم دلی کا زہر مجھے پینا پڑا۔! نیچ کہیں کا! اور سنجے سوچتا ہے کہ آج بھی میرے من میں اس کے لیے کوئی نرم گوشہ ہے! چھی! میں اس سے نفرت کرتی ہوں! اور سچ پوچھو تو اپنے کو خوش قسمت سمجھتی ہوں، کہ میں ایک ایسے آدمی کے چنگل میں پھنسنے سے بچ گئی، جس کے لیے پیار محض ایک کھلواڑ ہے۔

سنجے، یہ تو سوچو کہ اگر ایسی کوئی بھی بات ہوتی، تو کیا میں تمہارے آگے، تمہاری ہر صحیح غلط کوشش کے آگے، یوں خود کو سپرد کر دیتی؟ تمہارے بوسوں اور گلے لگنے کی حرکتوں میں اپنے کو یوں بکھرنے دیتی؟ جانتے ہو، شادی سے پہلے کوئی بھی لڑکی کسی کو ان سب کا حق نہیں دیتی۔ پر میں نے دیا۔ کیا صرف اسی لئے نہیں کہ میں تمہیں پیار کرتی ہوں، بہت بہت پیار کرتی ہوں،؟ وشواس کرو سنجے، تمہارا میرا پیار ہی سچ ہے۔ نشیتھ کا پیار تو محض فریب تھا، بھرم تھا، جھوٹ تھا۔

 

کانپور

پرسوں مجھے کلکتہ جانا ہے۔ بڑا ڈر لگ رہا ہے۔ کیسے کیا ہو گا؟ مان لو، انٹرویو میں بہت نروس ہو گئی، تو؟ سنجے کو کہہ رہی ہوں، کہ وہ بھی ساتھ چلے، پر اسے آفس سے چھٹی نہیں مل سکتی۔ ایک تو نیا شہر، پھر انٹرویو! اپنا کوئی ساتھ ہوتا تو بڑا سہارا مل جاتا۔ میں کمرا لے کر اکیلی رہتی ہوں، یوں اکیلی گھوم پھر بھی لیتی ہوں، تو سنجے سوچتا ہے، مجھ میں بڑی ہمت ہے، پر سچ، بڑا ڈر لگ رہا ہے۔

بار بار میں یہ مان لیتی ہوں، کہ مجھے نوکری مل گئی ہے اور میں سنجے کے ساتھ وہاں رہنے لگی ہوں، کتنا خوبصورت تصور ہے، کتنا نشیلا! پر انٹرویو کا خوف نشے سے بھرے اس خوابوں کے جال کو تتر بتر کر دیتا ہے۔

کاش، سنجے بھی کسی طرح میرے ساتھ چل پاتا!

 

کلکتہ

گاڑی جب ہاؤڑہ اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر داخل ہوتی ہے تو جانے کیسے عجیب سے شبہات، عجیب سے ڈر سے میرا من بھر جاتا ہے۔ پلیٹ فارم پر کھڑے بے شمار مردوں عورتوں میں میں اِرا کو ڈھونڈھتی ہوں، وہ کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ نیچے اترنے کے بجائے کھڑکی میں سے ہی دور دور تک نظریں دوڑاتی ہوں، آخر ایک قلی کو بلا کر، اپنا چھوٹا سا سوٹ کیس اور بستر اتارنے کا حکم دے کر میں نیچے اتر پڑتی ہوں، اس بھیڑ کو دیکھ کر میری دہشت جیسے اور بڑھ جاتی ہے۔ تبھی کسی کے ہاتھ کے لمس سے میں بری طرح چونک جاتی ہوں، پیچھے دیکھتی ہوں، تو اِرا کھڑی ہے۔

رو مال سے چہرے کا پسینہ پونچھتے ہوئے کہتی ہوں، ’’اوف! تمہیں نہ دیکھ کر میں گھبرا رہی تھی کہ تمہارے گھر بھی کیسے پہنچوں گی!‘‘

باہر آ کر ہم ٹیکسی میں بیٹھتے ہیں۔ ابھی تک میں سوستھ نہیں ہو پائی ہوں، جیسے ہی ہاؤڑہ پل پر گاڑی پہنچتی ہے، ہگلی کے پانی کو چھوتی ہوئی ٹھنڈی ہوائیں تن من کو ایک تازگی سے بھر دیتی ہیں۔ اِرا مجھے اس پل کی خصوصیات بتاتی ہے اور میں متعجب سی اس پل کو دیکھتی ہوں، دور دور تک پھیلی ہگلی کی وسعت کو دیکھتی ہوں، اس کی چھاتی پر کھڑی اور تیرتی ان گنت کشتیوں کو دیکھتی ہوں، بڑے بڑے جہازوں کو دیکھتی ہوں۔۔۔

اس کے بعد بہت ہی بھیڑ بھری سڑکوں پر ہماری ٹیکسی رکتی رکتی چلتی ہے۔ اونچی اونچی عمارتوں اور چاروں طرف کے ماحول سے کچھ عجیب سی عظمت کا احساس ہوتا ہے، اور اس سب کے بیچ جیسے میں اپنے کو بڑا کھویا کھویا سا محسوس کرتی ہوں، کہاں پٹنہ اور کانپور اور کہاں یہ کلکتہ! میں نے تو آج تک کبھی بہت بڑے شہر دیکھے ہی نہیں!

ساری بھیڑ کو چیر کر ہم ریڈ روڈ پر آ جاتے ہیں۔ چوڑی اور شانت سڑک۔ میرے دونوں طرف لمبے چوڑے کھلے میدان۔

’’کیوں ارا، کون کون لوگ ہوں گے انٹرویو میں؟ مجھے تو بڑا ڈر لگ رہا ہے۔‘‘

’’ارے، سب ٹھیک ہو جائے گا! تو اور ڈر؟ ہم جیسے ڈریں تو کوئی بات بھی ہے۔ جس نے اپنا سارا کیریر اپنے آپ بنایا، وہ بھلا انٹرویو میں ڈرے!‘‘ پھر کچھ دیر ٹھہر کر کہتی ہے، ’’اچھا، بھیا بھابھی تو پٹنہ ہی ہوں گے؟ جاتی ہے کبھی ان کے پاس بھی یا نہیں؟‘‘

’’کانپور آنے کے بعد ایک بار گئی تھی۔ کبھی کبھی یوں ہی خط لکھ دیتی ہوں‘‘

’’بھئی کمال کے لوگ ہیں! بہن کو بھی نہیں نبھا سکے!‘‘

مجھے یہ ذکر قطعی پسند نہیں۔ میں نہیں چاہتی کہ کوئی اس موضوع پر بات کرے۔ میں خاموش ہی رہتی ہوں۔

اِرا کا چھوٹا سا گھر ہے، خوبصورت ڈھنگ سے سجایا ہوا۔ اس کے شوہر کے دورے پر جانے کی بات سن کر پہلے تو مجھے افسوس ہوا تھا، وہ ہوتے تو کچھ مدد ہی کرتے! پر پھر یکایک لگا کہ ان کی غیر موجودگی میں میں شاید بہتر آزادی کا احساس کر سکوں۔ ان کا بچہ بھی بڑا پیارا ہے۔

شام کو اِرا مجھے کافی ہاؤس لے جاتی ہے۔ اچانک مجھے وہاں نشیتھ دکھائی دیتا ہے۔ میں سکپکا کر نظر گھما لیتی ہوں، پر وہ ہماری میز پر ہی آ پہنچتا ہے۔ مجبور ہو کر مجھے ادھر دیکھنا پڑتا ہے، نمسکار بھی کرنا پڑتا ہے، اِرا کا تعارف بھی کروانا پڑتا ہے۔ اِرا پاس کی کرسی پر بیٹھنے کی دعوت دے دیتی ہے۔ مجھے لگتا ہے، میری سانس رک جائے گی۔

’’کب آئیں؟‘‘

’’آج سویرے ہی۔‘‘

’’ابھی ٹھہرو گی؟ ٹھہری کہاں ہو؟‘‘

جواب اِرا دیتی ہے۔ میں دیکھ رہی ہوں، نشیتھ بہت بدل گیا ہے۔ اس نے شاعروں کی طرح بال بڑھا لیے ہیں۔ یہ کیا شوق چرایا؟ اس کا رنگ سیاہ پڑ گیا ہے۔ وہ دبلا بھی ہو گیا ہے۔

کچھ خاص بات چیت نہیں ہوتی اور ہم لوگ اٹھ پڑتے ہیں۔ اِرا کو منو کی فکر ستا رہی تھی، اور میں خود بھی گھر پہنچنے کو بے چین ہو رہی تھی۔ کافی ہاؤس سے دھرم تلا تک وہ پیدل چلتا ہوا ہمارے ساتھ آتا ہے۔ اِرا اس سے بات کر رہی ہے، مانو وہ اِرا کا ہی دوست ہو! اِرا اپنا پتہ سمجھا دیتی ہے اور وہ دوسرے دن نو بجے آنے کا وعدہ کر کے چلا جاتا ہے۔

پورے تین سال بعد نشیتھ کا یوں ملنا! نہ چاہ کر بھی جیسے سارا ماضی آنکھوں کے سامنے کھل جاتا ہے۔ بہت دبلا ہو گیا ہے نشیتھ! لگتا ہے، جیسے من میں کہیں کوئی گہرا درد چھپائے بیٹھا ہے۔

مجھ سے الگ ہونے کا دکھ تو نہیں ستا رہا ہے اسے؟

تصور چاہے کتنا بھی شیریں کیوں نہ ہو، احساس تشنگی دور کر دینے والا ہی کیوں نہ ہو، پر میں جانتی ہوں، یہ جھوٹ ہے۔ اگر ایسا ہی تھا تو کون اسے کہنے گیا تھا کہ تم اس تعلق کو توڑ دو؟ اس نے اپنی مرضی سے ہی تو یہ سب کیا تھا۔

یکایک ہی میرا من کڑوا ہو اٹھتا ہے۔ یہی تو ہے وہ شخص جس نے مجھے بے عزت کر کے ساری دنیا کے سامنے چھوڑ دیا تھا، محض مذاق کا نشانہ بنا کر! اوہ، کیوں نہیں میں نے اسے پہچاننے سے انکار کر دیا؟ جب وہ میز کے پاس آ کر کھڑا ہوا، تو کیوں نہیں میں نے کہہ دیا کہ معاف کیجئے، میں آپ کو پہچانتی نہیں؟ ذرا اس کا کھسیانا تو دیکھتی! وہ کل بھی آئے گا۔ مجھے اسے صاف صاف منع کر دینا چاہیئے تھا کہ میں اس کی صورت بھی نہیں دیکھنا چاہتی، میں اس سے نفرت کرتی ہوں!

اچھا ہے، آئے کل! میں اسے بتا دوں گی کہ جلدی ہی میں سنجے سے شادی کرنے والی ہوں، یہ بھی بتا دوں گی کہ میں پچھلا سب کچھ بھول چکی ہوں، یہ بھی بتا دوں گی کہ میں اس سے نفرت کرتی ہوں، اور اسے زندگی میں کبھی معاف نہیں کر سکتی۔

یہ سب سوچنے کے ساتھ ساتھ جانے کیوں، میرے دل میں یہ بات بھی اٹھ رہی تھی کہ تین سال ہو گئے، ابھی تک نشیتھ نے شادی کیوں نہیں کی؟ کرے نہ کرے، مجھے کیا؟

کیا وہ آج بھی مجھ سے کچھ امید رکھتا ہے؟ ہوں! مورکھ کہیں کا!

سنجے! میں نے تم سے کتنا کہا تھا کہ تم میرے ساتھ چلو، پر تم نہیں آئے۔ اس وقت جبکہ مجھے تمہاری اتنی اتنی یاد آ رہی ہے، بتاؤ، میں کیا کروں؟

 

کلکتہ

نوکری پانا اتنا مشکل ہے، اس کا مجھے گمان تک نہیں تھا۔ اِرا کہتی ہے کہ ڈیڑھ سو کی نوکری کے لیے خود منسٹر تک سفارش کرنے پہنچ جاتے ہیں، پھر یہ تو تین سو کا جاب ہے۔ نشیتھ سویرے سے شام تک اسی چکر میں بھٹکا ہے، یہاں تک کہ اس نے اپنے آفس سے بھی چھٹی لے لی ہے۔ وہ کیوں میرے کام میں اتنی دلچسپی لے رہا ہے؟ اس کی جان پہچان بڑے بڑے لوگوں سے ہے اور وہ کہتا ہے کہ جیسے بھی ہو گا، وہ کام مجھے دلا کر ہی مانے گا۔ پر آخر کیوں؟

کل میں نے سوچا تھا کہ اپنے سلوک کے روکھے پن سے میں واضح کر دوں گی کہ اب وہ میرے پاس نہ آئے۔ پونے نو بجے کے قریب، جب میں اپنے ٹوٹے ہوئے بال پھینکنے کھڑکی پر گئی، تو دیکھا، گھر سے تھوڑی دور پر نشیتھ ٹہل رہا ہے۔ وہی لمبے بال، کرتا پاجامہ۔ تو وہ وقت سے پہلے ہی آ گیا! سنجے ہوتا تو گیارہ کے پہلے نہیں پہنچتا، وقت پر پہنچنا تو وہ جانتا ہی نہیں۔

اسے یوں چکر کاٹتے دیکھ کر میرا دل جانے کیسا ہو اٹھا۔ اور جب وہ آیا تو میں چاہ کر بھی اس سے برا سلوک نہیں کر سکی۔ میں نے اسے کلکتہ آنے کا مقصد بتایا، تو لگا کہ وہ بڑا خوش ہوا۔ وہیں بیٹھے بیٹھے فون کر کے اس نے اس نوکری کے بارے میں ساری معلومات حاصل کر لی، کیسے کیا کرنا ہو گا، اس کا منصوبہ بھی بنا ڈالا، بیٹھے بیٹھے فون سے آفس کو اطلاع بھی دے دی کہ آج وہ آفس نہیں آئے گا۔

میری حالت عجیب ہو رہی تھی۔ اس کے اس اپنے پن سے بھرے برتاؤ کو میں قبول بھی نہیں کر پاتی تھی، نکار بھی نہیں پاتی تھی۔ سارا دن میں اس کے ساتھ گھومتی رہی، پر کام کی بات کے علاوہ اس نے ایک بھی بات نہیں کی۔ میں نے کئی بار چاہا کہ سنجے کی بات بتا دوں پر بتا نہیں سکی۔ سوچا، کہیں وہ سن کر یہ دلچسپی لینا کم نہ کر دے۔ اس کے آج دن بھر کی کوششوں سے ہی مجھے کافی امید ہو چلی تھی۔ یہ نوکری میرے لیے کتنی ضروری ہے، مل جائے تو سنجے کتنا خوش ہو گا، ہماری ازدواجی زندگی کے ابتدائی دن کتنے سکھ میں بیتیں گے!

شام کو ہم گھر لوٹتے ہیں۔ میں اسے بیٹھنے کو کہتی ہوں، پر وہ بیٹھتا نہیں، بس کھڑا ہی رہتا ہے۔ اس کے چوڑے ماتھے پر پسینے کی بوندیں چمک رہی ہیں۔ یکایک ہی مجھے لگتا ہے، اس سمے سنجے ہوتا، تو؟ میں اپنے آنچل سے اس کا پسینہ پونچھ دیتی، اور وہ کیا بنا بانہوں میں بھرے، بنا پیار کئے یوں ہی چلا جاتا؟

’’اچھا، تو چلتا ہوں‘‘

مشینی طور سے میرے ہاتھ جڑ جاتے ہیں، وہ لوٹ پڑتا ہے اور میں ٹھگی سی دیکھتی رہتی ہوں۔

سوتے وقت میری عادت ہے کہ سنجے کے لائے ہوئے پھولوں کو نہارتی رہتی ہوں، یہاں وہ پھول نہیں ہیں تو بڑا سونا سونا سا لگ رہا ہے۔

پتہ نہیں سنجے، تم اس پل کیا کر رہے ہو! تین دن ہو گئے، کسی نے بانہوں میں بھر کر پیار تک نہیں کیا۔

 

کلکتہ

آج سویرے میرا انٹرویو ہو گیا ہے۔ میں شاید بہت نروس ہو گئی تھی اور جیسے جوابات مجھے دینے چاہیئے، ویسے نہیں دے پائی۔ پر نشیتھ نے آ کر بتایا کہ میرا چنا جانا قریب قریب طے ہو گیا ہے۔ میں جانتی ہوں، یہ سب نشیتھ کی وجہ سے ہی ہوا۔

ڈھلتے سورج کی دھوپ نشیتھ کے بائیں گال پر پڑ رہی تھی اور سامنے بیٹھا نشیتھ اتنے دن بعد ایک بار پھر مجھے بڑا پیارا سا لگا۔

میں نے دیکھا، مجھ سے زیادہ وہ خوش ہے۔ وہ کبھی کسی کا احسان نہیں لیتا، پر میری خاطر اس نے نہ جانے کتنے لوگوں کو احسان لیا۔ آخر کیوں؟ کیا وہ چاہتا ہے کہ میں کلکتہ آ کر رہوں اس کے ساتھ، اس کے پاس؟ ایک عجیب سے اضطراب سے میرا تن من سہر اٹھتا ہے۔ وہ ایسا کیوں چاہتا ہے؟ اس کا ایسا چاہنا بہت غلط ہے، قطعی درست نہیں ہے! میں اپنے دل کو سمجھاتی ہوں، ایسی کوئی بات نہیں ہے، شاید وہ صرف میرے تئیں کی گئی نا انصافی کے عوض کے لیے یہ سب کر رہا ہے! پر کیا وہ سمجھتا ہے کہ اس کی مدد سے نوکری پا کر میں اسے معاف کر دوں گی، یا جو کچھ اس نے کیا ہے، اسے بھول جاؤں گی؟ نا ممکن! میں کل ہی اسے سنجے کی بات بتا دوں گی۔

’’آج تو اس خوشی میں پارٹی ہو جائے!‘‘

کام کی بات کے علاوہ یہ پہلا جملہ میں اس کے منہ سے سنتی ہوں، میں اِرا کی طرف دیکھتی ہوں، وہ اس تجویز کی تائید کر کے بھی منو کی طبیعت کا بہانا لے کر اپنے کو کاٹ لیتی ہے۔ اکیلے جانا مجھے کچھ اٹپٹا سا لگتا ہے۔ ابھی تک تو کام کا بہانا لے کر گھوم رہی تھی، پر اب؟ پھر بھی میں منع نہیں کر پاتی۔ اندر جا کر تیار ہوتی ہوں، مجھے یاد آتا ہے، نشیتھ کو نیلا رنگ بہت پسند تھا، میں نیلی ساڑی ہی پہنتی ہوں، بڑے چاؤ اور تیاری سے اپنا میک اپ کرتی ہوں، اور بار بار اپنے کو ٹوکتی جاتی ہوں۔ کس کو رجھانے کے لیے یہ سب ہو رہا ہے؟ کیا یہ نرا پاگل پن نہیں ہے؟

سیڑھیوں پر نشیتھ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہتا ہے، ’’اس ساڑی میں تم بہت سندر لگ رہی ہو۔‘‘

میرا چہرہ تمتما جاتا ہے، کنپٹیاں سرخ ہو جاتی ہیں۔ میں چپ چاپ ہی اس جملے کے لیے تیار نہیں تھی۔ یہ سدا چپ رہنے والا نشیتھ بولا بھی تو ایسی بات۔

مجھے ایسی باتیں سننے کی ذرا بھی عادت نہیں ہے۔ سنجے نہ کبھی میرے کپڑوں پر دھیان دیتا ہے، نہ ایسی باتیں کرتا ہے، جب کہ اسے پورا حق ہے۔ اور یہ بنا حق کے ایسی باتیں کرے؟

 

3

 

پر جانے کیا ہے کہ میں اس پر ناراض نہیں ہو پاتی ہوں، بلکہ ایک پر مسرت لرزش محسوس کرتی ہوں، سچ، سنجے کے منہ سے ایسا جملہ سننے کو میرا دل ترستا رہتا ہے، پر اس نے کبھی ایسی بات نہیں کی۔ پچھلے ڈھائی سال سے میں سنجے کے ساتھ رہ رہی ہوں، روز ہی شام کو ہم گھومنے جاتے ہیں۔ کتنی ہی بار میں نے سنگھار کیا، اچھے کپڑے پہنے، پر تعریف کا ایک لفظ بھی اس کے منہ سے نہیں سنا۔ ان باتوں پر اس کا دھیان ہی نہیں جاتا، یہ دیکھ کر بھی جیسے یہ سب نہیں دیکھ پاتا۔ اس جملے کو سننے کے لیے ترستا ہوا میرا دل جیسے رس سے نہا جاتا ہے۔ پر نشیتھ نے یہ بات کیوں کہی؟ اسے کیا حق ہے اس کا؟

کیا سچ مچ ہی اسے حق نہیں ہے؟ نہیں ہے؟

جانے کیسی مجبوری ہے کہ میں اس بات کا جواب نہیں دے پاتی ہوں، فیصلہ کن لہجے اور دو ٹوک طریقے سے نہیں کہہ پاتی کہ ساتھ چلتے اس آدمی کو سچ مچ ہی میرے بارے میں ایسی نا مناسب بات کہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

ہم دونوں ٹیکسی میں بیٹھتے ہیں۔ میں سوچتی ہوں، آج میں اسے سنجے کی بات بتا دوں گی۔

’’سکائی روم!‘‘ نشیتھ ٹیکسی والے کو حکم دیتا ہے۔

‘ٹن’ کی گھنٹی کے ساتھ میٹر ڈاؤن ہوتا ہے اور ٹیکسی ہوا سے باتیں کرنے لگتی ہے۔ نشیتھ بہت الرٹ سا کونے میں بیٹھا ہے، بیچ میں اتنی جگہ چھوڑ کر کہ اگر ہچکولا کھا کر بھی ٹیکسی رکے، تو ہمارا لمس نہ ہو سکے۔ ہوا کے جھونکے سے میری ریشمی ساڑی کا پلو اس کے پورے بدن کو سہلاتا ہوا اس کی گودی میں پڑ کر پھرپھراتا ہے۔ وہ اسے ہٹاتا نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے، یہ ریشمی، معطر پلو اس کے تن من کو رس سے بھگو رہا ہے، یہ لمس اسے مسرت کا احساس دے رہا ہے، میں فتح کے نا قابلِ بیان احساس سے بھر جاتی ہوں۔

آج بھی میں سنجے کی بات نہیں کہہ پاتی۔ چاہ کر بھی نہیں کہہ پاتی۔ اپنی اس مجبوری پر مجھے اپنے پر غصہ بھی آتا ہے، پر میرا منہ ہے کہ کھلتا ہی نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ میں جیسے کوئی بہت بڑا جرم کر رہی ہوؤں، پر پھر بھی میں کچھ نہیں کہہ سکی۔

یہ نشیتھ کچھ بولتا کیوں نہیں؟ اس کا یوں کونے میں دبک کر بے جان سا بیٹھا رہنا مجھے قطعی اچھا نہیں لگتا۔ یکایک ہی مجھے سنجے کی یاد آنے لگتی ہے۔ اس وقت وہ یہاں ہوتا تو اس کا ہاتھ میری کمر میں لپٹا ہوتا! یوں سڑک پر ایسی حرکتیں مجھے خود پسند نہیں، پر جانے کیوں، کسی کی بانہوں کی لپیٹ کے لیے میرا من للک اٹھتا ہے۔ میں جانتی ہوں، کہ جب نشیتھ بغل میں بیٹھا ہو، اس لمحے ایسی تمنا کرنا، یا ایسی بات سوچنا بھی کتنا غلط ہے۔ پر میں کیا کروں؟ جتنی تیز رفتاری سے ٹیکسی چلی جا رہی ہے، مجھے لگتا ہے، اتنی ہی تیز رفتار سے میں بھی بہی جا رہی ہوں، نا مناسب، اور غلط سمتوں کی طرف۔

ٹیکسی جھٹکا کھا کر رکتی ہے تو میرا ہوش واپس آتا ہے۔ میں جلدی سے داہنی اور کا پھاٹک کھول کر کچھ اس ہڑبڑی سے نیچے اتر پڑتی ہوں، مانو اندر نشیتھ میرے ساتھ کوئی بد تمیزی کر رہا ہو۔

’’اجی، ادھر سے اترنا چاہیئے کبھی بھی؟‘‘ ٹیکسی والا کہتا ہے مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے۔ ادھر نشیتھ کھڑا ہے، ادھر میں، بیچ میں ٹیکسی!

پیسے لے کر ٹیکسی چلی جاتی ہے تو ہم دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہو جاتے ہیں۔ یکایک ہی مجھے خیال آتا ہے کہ ٹیکسی کے پیسے تو مجھے ہی دینے چاہیئے تھے۔ پر اب کیا ہو سکتا تھا! چپ چاپ ہم دونوں اندر جاتے ہیں۔ آس پاس بہت کچھ ہے، چہل پہل، روشنی، رونق۔ پر میرے لیے جیسے سب کا وجود ہی مٹ جاتا ہے۔ میں اپنے کو سب کی نظروں سے ایسے بچا کر چلتی ہوں، مانو میں نے کوئی جرم کر ڈالا ہو، اور کوئی مجھے پکڑ نہ لے۔

کیا سچ مچ ہی مجھ سے کوئی جرم سرزد ہو گیا ہے؟

آمنے سامنے ہم دونوں بیٹھ جاتے ہیں۔ میں ہوسٹ ہوں، پھر بھی اس کا پارٹ وہی ادا کر رہا ہے۔ وہی آرڈر دیتا ہے۔ باہر کی ہلچل اور اس سے بھی زیادہ دل کی ہلچل میں میں اپنے کو کھویا کھویا سا محسوس کرتی ہوں،

ہم دونوں کے سامنے بیرا کولڈ کافی کے گلاس اور کھانے کا کچھ سامان رکھ جاتا ہے۔ مجھے بار بار لگتا ہے کہ نشیتھ کچھ کہنا چاہ رہا ہے۔ میں اس کے ہونٹوں کی دھڑکن تک محسوس کرتی ہوں، وہ جلدی سے کافی کا سٹرا منہ سے لگا لیتا ہے۔

مورکھ کہیں کا! وہ سوچتا ہے، میں بے وقوف ہوں، میں اچھی طرح جانتی ہوں، کہ اس وقت وہ کیا سوچ رہا ہے۔

تین دن ساتھ رہ کر بھی ہم نے اس موضوع کو نہیں چھیڑا۔ شاید نوکری کی بات ہی ہمارے دماغوں پر چھائی ہوئی تھی۔ پر آج! آج یقیناً ہی وہ بات آئے گی! نہ آئے، یہ کتنا غیر معمولی ہے! مگر نہیں، معمول شاید یہی ہے۔ تین سال پہلے جو باب سدا کے لیے بند ہو گیا، اسے الٹ کر دیکھنے کی ہمت شاید ہم دونوں میں سے کسی میں نہیں ہے۔ جو رشتہ ٹوٹ گیا، ٹوٹ گیا۔ اب ان پر کون بات کرے؟ میں تو کبھی نہیں کروں گی۔ پر اسے تو کرنا چاہیئے۔ توڑا اس نے تھا، بات بھی وہی شروع کرے۔ میں کیوں کروں، اور مجھے کیا پڑی ہے؟ میں تو جلدی ہی سنجے سے شادی کرنے والی ہوں، کیوں نہیں میں اسے ابھی سنجے کی بات بتا دیتی؟ پر جانے کیسی مجبوری ہے، جانے کیا ہے کہ میں منہ نہیں کھول پاتی۔ یکایک مجھے لگتا ہے جیسے اس نے کچھ کہا۔

’’آپ نے کچھ کہا؟‘‘

’’نہیں تو!‘‘

میں کھسیا جاتی ہوں۔

پھر وہی خاموشی! کھانے میں میرا ذرا بھی دل نہیں لگ رہا ہے، مگر چلتی مشین کی طرح میں کھا رہی ہوں، شاید وہ بھی ایسے ہی کھا رہا ہے۔ مجھے پھر لگتا ہے کہ اس کے ہونٹ پھڑک رہے ہیں، اور سٹرا پکڑے ہوئے انگلیاں کانپ رہی ہیں۔ میں جانتی ہوں، وہ پوچھنا چاہتا ہے، ’’دیپا، تم نے مجھے معاف تو کر دیا نا؟‘‘

وہ پوچھ ہی کیوں نہیں لیتا؟ مان لو، اگر پوچھ ہی لے، تو کیا میں کہہ سکوں گی کہ میں تمہیں زندگی بھر معاف نہیں کر سکتی، میں تم سے نفرت کرتی ہوں، میں تمہارے ساتھ گھوم پھر لی، یا کافی پی لی، تو یہ مت سمجھو کہ میں تمہاری وعدہ خلافی کی بات کو بھول گئی ہوں؟

اور یکایک ہی پچھلا سب کچھ میری آنکھوں کے آگے تیرنے لگتا ہے۔ پر یہ کیا؟ نا قابل برداشت تذلیل، درد، غصہ اور تلخیاں کیوں نہیں یاد آتیں؟ میرے سامنے تو پٹنہ میں گزاری سہانی شاموں اور چاندنی راتوں کی وہ تصویریں ابھر کر آتی ہیں، جب گھنٹوں قریب بیٹھ، خاموش سے ہم ایک دوسرے کو بس دیکھا کرتے تھے۔ بنا لمس کے بھی جانے کیسا نشہ دل کو بھگوتا رہتا تھا، جانے کیسی مسرت میں ہم ڈوبے رہتے تھے ایک انوکھی، سپنوں بھری دنیا میں! میں کچھ بولنا بھی چاہتی تو وہ میرے منہ پر انگلی رکھ کر کہتا، ’’اپنے پن کے یہ پل ان کہے ہی رہنے دو، دیپا!‘‘

آج بھی تو ہم خاموش ہی ہیں، ایک دوسرے کے قریب ہی ہیں۔ کیا آج بھی ہم اپنے پن کے انہیں لمحوں میں گزر رہے ہیں؟ میں اپنی ساری قوت لگا کر چیخ پڑنا چاہتی ہوں، نہیں! نہیں! نہیں! پر کافی سپ کرنے کے علاوہ میں کچھ نہیں کر پاتی۔ میرا یہ اختلاف دل کی نہ جانے کون سیا تھاہ گہرائیوں میں ڈوب جاتا ہے!

نشیتھ مجھے بل نہیں دینے دیتا۔ ایک عجیب سا جذبہ میرے دل میں اٹھتا ہے کہ چھینا جھپٹی میں کسی طرح میرا ہاتھ اس کے ہاتھ سے چھو جائے! میں اپنے لمس سے اس کے دل کے تاروں کو جھنجھنا دینا چاہتی ہوں، پر ایسا موقع نہیں آتا۔ بل وہی دیتا ہے، مجھ سے تو اختلاف بھی نہیں کیا جاتا۔

من میں شدید طوفان! پر پھر بھی بے شکل سے جذبے کے ساتھ میں ٹیکسی میں آ کر بیٹھتی ہوں، پھر وہی خاموشی، وہی دوری۔ پر جانے کیا ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ نشیتھ میرے بہت پاس آ گیا ہے، بہت ہی قریب! بار بار میرا دل چاہتا ہے کہ کیوں نہیں نشیتھ میرا ہاتھ پکڑ لیتا، کیوں نہیں میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیتا؟ میں ذرا بھی برا نہیں مانوں گی، ذرا بھی نہیں! پر وہ کچھ بھی نہیں کرتا۔

سوتے وقت روز کی طرح میں آج بھی سنجے کا دھیان کرتے ہوئے ہی سونا چاہتی ہوں، پر نشیتھ ہے کہ بار بار سنجے کی شکل کو ہٹا کر خود آ کھڑا ہوتا ہے۔

 

کلکتہ

اپنی مجبوری پر بری طرح جھنجھلا جاتی ہوں، آج کتنا اچھا موقع تھا ساری بات بتا دینے کا! پر میں جانے کہاں بھٹکی تھی کہ کچھ بھی نہیں بتا پائی۔

شام کو مجھے نشیتھ اپنے ساتھ ‘لیک’ لے گیا۔ پانی کے کنارے ہم گھاس پر بیٹھ گئے۔ کچھ دور پر کافی بھیڑ بھاڑ اور چہل پہل تھی، مگر یہ جگہ نسبتاً پر امن تھی۔ سامنے لیک کے پانی میں چھوٹی چھوٹی لہریں اٹھ رہی تھیں۔ چاروں اور کے ماحول کا کچھ انوکھا سا اثر دل پر پڑ رہا تھا۔

’’اب تو تم یہاں آ جاؤ گی!‘‘ میری طرف دیکھ کر اس نے کہا۔

’’ہاں!‘‘

’’نوکری کے بعد کیا ارادہ ہے؟‘‘

میں نے دیکھا، اس کی آنکھوں میں کچھ جاننے کا اضطراب پھیلتا جا رہا ہے، شاید کچھ کہنے کا بھی۔ مجھ سے کچھ جان کر وہ اپنی بات کہے گا۔

’’کچھ نہیں!‘‘ جانے کیوں میں یہ کہہ گئی۔ کوئی ہے جو مجھے کچوٹے ڈال رہا ہے۔ کیوں نہیں میں بتا دیتی کہ نوکری کے بعد میں سنجے سےشادی کروں گی، میں سنجے سے پیار کرتی ہوں، وہ مجھ سے پیار کرتا ہے؟ وہ بہت اچھا ہے، بہت ہی! وہ مجھے تمہاری طرح دھوکا نہیں دے گا، پر میں کچھ بھی تو نہیں کہہ پاتی۔ اپنی اس بے بسی پر میری آنکھیں چھلچھلا آتی ہیں۔ میں دوسری طرف منہ پھیر لیتی ہوں۔

’’تمہارے یہاں آنے سے میں بہت خوش ہوں!‘‘

میری سانس جہاں کی تہاں رک جاتی ہے آگے کے الفاظ سننے کے لیے، پر شبد نہیں آتے۔ بڑی قاطر ملتجی اور رحم بھری نظروں سے میں اسے دیکھتی ہوں، مانو کہہ رہی ہوؤں کہ تم کہہ کیوں نہیں دیتے نشیتھ، کہ آج بھی تم مجھے پیار کرتے ہو، تم مجھے سدا اپنے پاس رکھنا چاہتے ہو، جو کچھ ہو گیا ہے، اسے بھول کر تم مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہو؟ کہہ دو، نشیتھ، کہہ دو! یہ سننے کے لیے میرا دل بے چین ہو رہا ہے، چھٹپٹا رہا ہے! میں برا نہیں مانوں گی، ذرا بھی برا نہیں مانوں گی۔ مان ہی کیسے سکتی ہوں، نشیتھ! اتنا سب ہو جانے کے بعد بھی شاید میں تمہیں پیار کرتی ہوں،۔ شاید نہیں، سچ مچ ہی میں تمہیں پیار کرتی ہوں!

میں جانتی ہوں،۔ تم کچھ نہیں کہو گے، سدا کے ہی کفایت شعار جو ہو۔ پھر بھی کچھ سننے کا اضطراب لیے میں تمہاری طرف دیکھتی رہتی ہوں، پر تمہاری نظر تو لیک کے پانی پر جمی ہوئی ہے شانت، خاموش!

اپنے پن کے یہ لمحے ان کہے بھلے ہی رہ جائیں پر ان بوجھے نہیں رہ سکتے۔ تم چاہے نہ کہو، پر میں جانتی ہوں، تم آج بھی مجھے پیار کرتے ہو، بہت پیار کرتے ہو! میرے کلکتہ آ جانے کے بعد اس ٹوٹے رشتے کو پھر سے جوڑ نے کی بات ہی تم اس وقت سوچ رہے ہو۔ تم آج بھی مجھے اپنا ہی سمجھتے ہو، تم جانتے ہو، آج بھی دیپا تمہاری ہے! اور میں؟

لگتا ہے، اس سوال کا جواب دینے کی ہمت مجھ میں نہیں ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ جس بنیاد پر میں تم سے نفرت کرتی تھی، اسی بنیاد پر کہیں مجھے اپنے سے نفرت نہ کرنی پڑے۔

لگتا ہے، رات آدھی سے بھی زیادہ ڈھل گئی ہے۔

 

کانپور

دل میں بے انتہا خواہش ہوتے ہوئے بھی نشیتھ کی ضروری میٹنگ کی بات سن کر میں نے کہہ دیا تھا کہ تم اسٹیشن مت آنا۔ اِرا آئی تھی، پر گاڑی پر بٹھا کر ہی چلی گئی، یا کہوں کہ میں نے زبردستی ہی اسے بھیج دیا۔ میں جانتی تھی کہ لاکھ منع کرنے پر بھی نشیتھ آئے گا اور وداع کے ان آخری لمحوں میں مَیں اس کے ساتھ اکیلی ہی رہنا چاہتی تھی۔ دل میں ایک دبی سی امید اب بھی تھی کہ چلتے وقت ہی شاید وہ کچھ کہہ دے۔ گاڑی چلنے میں جب دس منٹ رہ گئے تو دیکھا، بڑی بے چینی سے ڈبوں میں جھانکتا جھانکتا نشیتھ آ رہا تھا۔ پاگل! اسے اتنا تو سمجھنا چاہیئے کہ اس کے انتظار میں میں یہاں باہر کھڑی ہوں!

میں دوڑ کر اس کے پاس جاتی ہوں، ’’آپ کیوں آئے؟‘‘ پر مجھے اس کا آنا بڑا اچھا لگتا ہے! وہ بہت تھکا ہوا لگ رہا ہے۔ شاید سارا دن بہت مصروف رہا اور دوڑتا دوڑتا مجھے سی آف کرنے یہاں آ پہنچا۔ دل چاہتا ہے کچھ ایسا کروں، جس سے اس کی ساری تھکان دور ہو جائے۔ پر کیا کروں؟ ہم ڈبے کے پاس آ جاتے ہیں۔

’’جگہ اچھی مل گئی؟‘‘ وہ اندر جھانکتے ہوئے پوچھتا ہے۔

’’ہاں!‘‘

’’پانی وانی تو ہے؟‘‘

’’ہے۔‘‘

’’بستر پھیلا لیا؟‘‘

میں جھنجھلا پڑتی ہوں، وہ شاید سمجھ جاتا ہے، سو چپ ہو جاتا ہے۔ ہم دونوں ایک پل کو ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں۔ میں اس کی آنکھوں میں کچھ عجیب سے سائے دیکھتی ہوں، مانو کچھ ہے، جو اس کے دل میں گھُٹ رہا ہے، اسے مَتھ رہا ہے، پر وہ کہہ نہیں پا رہا ہے۔ وہ کیوں نہیں کہہ دیتا؟ کیوں نہیں وہ اپنے دل کی اس گھٹن کو ہلکی کر لیتا؟

’’آج بھیڑ خاص نہیں ہے‘‘ چاروں طرف نظر ڈال کر وہ کہتا ہے۔

میں بھی ایک بار چاروں سمت دیکھ لیتی ہوں، پر نظر میری بار بار گھڑی پر ہی جا رہی ہے۔ جیسے جیسے وقت سرک رہا ہے، میرا دل کسی گہرے دباؤ میں ڈوب رہا ہے۔ مجھے کبھی اس پر رحم آتا ہے تو کبھی جھنجھلاہٹ۔ گاڑی چلنے میں صرف تین منٹ باقی رہ گئے ہیں۔ ایک بار پھر ہماری نظریں ملتی ہیں۔

’’اوپر چڑھ جاؤ، اب گاڑی چلنی والی ہے۔‘‘

بڑی مجبور سی نظروں سے میں اسے دیکھتی ہوں، مانو کہہ رہی ہوؤں’ تمہیں چڑھا دو‘۔ اور پھر دھیرے دھیرے چڑھ جاتی ہوں، دروازے پر میں کھڑی ہوں، اور وہ نیچے پلیٹ فارم پر۔

’’جا کر پہنچنے کی خبر دینا۔ جیسے ہی مجھے ادھر کچھ قطعی طور سے معلوم ہو گا، تمہیں اطلاع دوں گا۔‘‘

میں کچھ بولتی نہیں، بس اسے دیکھتی رہتی ہوں۔

سیٹی۔۔۔ ہری جھنڈی۔۔۔ پھر سیٹی۔ میری آنکھیں چھلچھلا آتی ہیں۔

گاڑی ایک ہلکے سے جھٹکے کے ساتھ سرکنے لگتی ہے۔ وہ گاڑی کے ساتھ قدم آگے بڑھاتا ہے اور میرے ہاتھ پر دھیرے سے اپنا ہاتھ رکھ دیتا ہے۔ میرا رواں رواں سہر اٹھتا ہے۔ دل چاہتا ہے چلاّ پڑوں – میں سب سمجھ گئی، نشیتھ، سب سمجھ گئی! جو کچھ تم ان چار دنوں میں نہیں کہہ پائے، وہ تمہارے اس لمحے بجر کے لمس نے کہہ دیا۔ وشواس کرو، اگر تم میرے ہو تو میں بھی تمہاری ہوں، بس تمہاری، صرف تمہاری! پر میں کچھ کہہ نہیں پاتی۔ بس، ساتھ چلتے نشیتھ کو دیکھتی بھر رہتی ہوں، گاڑی کے رفتار پکڑتے ہی وہ ہاتھ کو ذرا سا دبا کر چھوڑ دیتا ہے۔ میری چھلچھلائی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں۔ مجھے لگتا ہے، یہ لمس، یہ سکھ، یہ پل ہی سچ ہے، باقی سب جھوٹ ہے، اپنے کو بھولنے کی، دھوکا دینے کی، چھلنے کی نا کام کوشش ہے۔

آنسو بھری آنکھوں سے میں پلیٹ فارم کو پیچھے چھوٹتا ہوا دیکھتی ہوں، ساری شکلیں دھندلی سی دکھائی دیتی ہیں۔ لا تعداد ہلتے ہوئے ہاتھوں کے بیچ نشیتھ کے ہاتھ کو، اس ہاتھ کو، جس نے میرا ہاتھ پکڑا تھا، ڈھونڈنے کی ناکام سی کوشش کرتی ہوں، گاڑی پلیٹ فارم کو پار کر جاتی ہے، اور دور دور تک کلکتہ کی جگمگاتی بتیاں دکھائی دیتی ہیں۔ دھیرے دھیرے وے سب دور ہو جاتی ہیں، پیچھے چھوٹتی جاتی ہیں۔ مجھے لگتا ہے، یہ ظالم ٹرین مجھے میرے گھر سے کہیں دور لے جا رہی ہے – ان دیکھی، انجانی راہوں میں گمراہ کرنے کے لیے، بھٹکانے کے لیے!

بوجھل دل سے میں اپنے پھیلائے ہوئے بستر پر لیٹ جاتی ہوں، آنکھیں بند کرتے ہی سب سے پہلے میرے سامنے سنجے کی شکل ابھرتی ہے، کانپور جا کر میں اسے کیا کہوں گی؟ اتنے دنوں تک اسے دھوکہ دیتی آئی، اپنے کو فریب دیتی آئی، پر اب نہیں۔ میں اسے ساری بات سمجھا دوں گی۔ کہوں گی، سنجے جس رشتے کو ٹوٹا ہوا جان کر میں بھول چکی تھی، اس کی جڑیں دل کی کن اتھاہ گہرائیوں میں جمی ہوئی تھیں، اس کا احساس کلکتہ میں نشیتھ سے مل کر ہوا۔ یاد آتا ہے، تم نشیتھ کو لے کر ہمیشہ ہی مشکوک رہتے تھے، پر تب میں تمہیں محض حاسد سمجھتی تھی، آج قبول کرتی ہوں، کہ تم جیتے، میں ہاری! سچ ماننا سنجے، ڈھائی سال میں خود اس گمان میں تھی اور تمہیں بھی دھوکے میں ڈال رکھا تھا، پر آج بھرم کے، دھوکے کے سارے ہی جال تار تار ہو گئے ہیں۔ میں آج بھی نشیتھ کو پیار کرتی ہوں، اور یہ جاننے کے بعد، ایک دن بھی تمہارے ساتھ اور فریب کرنے کا حوصلہ کیسے کروں؟ آج پہلی بار میں نے اپنے رشتوں کا تجزیہ کیا، تو جیسے سب کچھ ہی نمایاں ہو گیا اور جب میرے سامنے سب کچھ ظاہر ہو گیا، تو تم سے کچھ بھی نہیں چھپاؤں گی، تمہارے سامنے میں چاہوں تو بھی جھوٹ نہیں بول سکتی۔

آج لگ رہا ہے، تمہارے لئے میرے دل میں جو بھی جذبہ ہے وہ پیار کا نہیں، صرف احسان مندی کا ہے۔ تم نے مجھے اس وقت سہارا دیا تھا، جب اپنے والد اور نشیتھ کو کھو کر میں چور چور ہو چکی تھی۔ سارا سنسار مجھے ویران نظر آنے لگا تھا، اس وقت تم نے اپنے پیار بھرے لمس سے مجھے جلا دیا، میرا مرجھایا، مردہ دل ہرا ہو اٹھا، میں حد درجہ احسان مند ہو اٹھی، اور سمجھنے لگی کہ میں تم سے پیار کرتی ہوں، پر پیار کی بے سدھ گھڑیاں، وہ سارے محبت بھرے لمحے، اپنے پن کے وہ پل، جہاں الفاظ کم پڑ جاتے ہیں، ہماری زندگی میں کبھی نہیں آئے۔ تمہیں بتاؤ، آئے کبھی؟ تمہارے بے شمار بوسوں کے بیچ بھی، ایک پل کے لیے بھی تو میں نے کبھی تن من کی سدھ بھلا دینے والے جذبے یا نشہ محسوس نہیں کیا۔

سوچتی ہوں، نشیتھ کے چلے جانے کے بعد میری زندگی میں ایک عظیم الشان، بہت بڑا حالی پن آ گیا تھا، ایک کھوکھلا پن آ گیا تھا، تم نے اس کی خالی جگہ بھر دی۔ تم اصل میں محض ایک خالی حصے میں لگایا جانے والا لکڑی کا ٹکڑا تھے، میں غلطی سے تمہیں محبوب سمجھ بیٹھی۔

مجھے معاف کر دو سنجے اور لوٹ جاؤ۔ تمہیں مجھ جیسی ان گنت دیپائیں مل جائیں گی، جو سچ مچ ہی تمہیں محبوب کی طرح پیار کریں گی۔ آج ایک بات اچھی طرح جان گئی ہوں، کہ پہلا پیار ہی سچا پیار ہوتا ہے، بعد میں کیا ہوا پیار تو اپنے کو بھولنے کا، دھوکا دینے کی ایک کوشش بھر ہوتا ہے۔

اسی طرح کی ان گنت باتیں میرے دماغ میں آتی ہیں، جو میں سنجے سے کہوں گی۔ کہہ سکوں گی یہ سب؟ لیکن کہنا تو ہو گا ہی۔ اس کے ساتھ اب ایک دن بھی فریب نہیں کر سکتی۔ من سے کسی اور کی عبادت کر کے تن سے اس کی ہونے کی ادا کاری کرتی رہوں؟ چھی! نہیں جانتی، یہی سب سوچتے سوچتے مجھے کب نیند آ گئی۔

لوٹ کر اپنا کمرا کھولتی ہوں، تو دیکھتی ہوں، سب کچھ جوں کا توں ہے، صرف پھول دان کے رجنی گندھا مرجھا گئے ہیں۔ کچھ پھول جھڑ کر زمین پر ادھر ادھر بھی بکھر گئے ہیں۔

آگے بڑھتی ہوں، تو زمین پر پڑا ایک لفافہ دکھائی دیتا ہے۔ سنجے کی لکھائی ہے، کھولا تو چھوٹا سا خط تھا:

 

دیپا

تم نے تو کلکتہ جا کر کوئی اطلاع ہی نہیں دی۔ میں آج آفس کے کام سے کٹک جا رہا ہوں، پانچ چھ دن میں لوٹ آؤں گا۔ تب تک تم آ ہی جاؤ گی۔ جاننے کو بے چین ہوں، کہ کلکتہ میں کیا ہوا؟

تمہارا

سنجے

 

ایک لمبی گیری سانس نکل جاتی ہے۔ لگتا ہے، ایک بڑا بوجھ ہٹ گیا۔ اس عرصے میں تو میں اپنے کو اچھی طرح تیار کر لوں گی۔ نہا دھوکر سب سے پہلے میں نشیتھ کو خط لکھتی ہوں، اس کی موجودگی سے جو جھجک میرے ہونٹ بند کئے ہوئے تھی، دور رہ کر وہ اپنے آپ ہی ٹوٹ جاتی ہے۔ میں واضح لفظوں میں لکھ دیتی ہوں، کہ چاہے اس نے کچھ نہیں کہا، پھر بھی میں سب کچھ سمجھ گئی ہوں، ساتھ ہی یہ بھی لکھ دیتی ہوں، کہ میں اس کی اس حرکت سے بہت دکھی تھی، بہت ناراض بھی، پر اسے دیکھتے ہی جیسے سارا غصہ بہہ گیا۔ اس اپنے پن میں غصہ بھلا ٹک بھی کیسے پاتا؟ لوٹی ہوں، تب سے نہ جانے کیسا نشہ اور رنگینی میری آنکھوں کے آگے چھائی ہے!

ایک خوبصورت سے لفافے میں اسے بند کر کے میں خود پوسٹ کرنے جاتی ہوں۔

رات میں سوتی ہوں، تو اچانک ہی میری نظر سونے پھول دان پر جاتی ہے۔ میں کروٹ بدل کر سو جاتی ہوں۔

 

کانپور

آج نشیتھ کو خط لکھے پانچواں دن ہے۔ میں تو کل ہی اس کے جواب کی راہ دیکھ رہی تھی۔ پر آج کی بھی دونوں ڈاکیں نکل گئیں۔ جانے کیسا سونا سونا، ان منا سا لگتا رہا سارا دن! کسی بھی تو کام میں جی نہیں لگتا۔ کیوں نہیں لوٹتی ڈاک سے ہی جواب دے دیا اس نے؟ سمجھ میں نہیں آتا، کیسے وقت گزاروں!

میں باہر بالکنی میں جا کر کھڑی ہو جاتی ہوں، یکایک خیال آتا ہے، پچھلے ڈھائی سالوں سے قریب اسی وقت، یہیں کھڑے ہو کر میں نے سنجے کا انتظار کیا ہے۔ کیا آج میں سنجے کا انتظار کر رہی ہوں،؟ یا میں نشیتھ کے خط کا انتظار کر رہی ہوں؟ شاید کسی کا نہیں، کیونکہ جانتی ہوں، کہ دونوں میں سے کوئی بھی نہیں آئے گا۔ پھر؟

بے مقصد سی کمرے میں لوٹ پڑتی ہوں، شام کا یہ وقت مجھ سے گھر میں نہیں کاٹا جاتا۔ روز ہی تو سنجے کے ساتھ گھومنے نکل جایا کرتی تھی۔ لگتا ہے، یہیں بیٹھی رہی تو دم ہی گھٹ جائے گا۔ کمرا بند کر کے میں اپنے کو دھکیلتی سی سڑک پر لے آتی ہوں، شام کا دھندلکا دل کے بوجھ کو اور بھی بڑھا دیتا ہے۔ کہاں جاؤں؟ لگتا ہے، جیسے میری راہیں بھٹک گئی ہیں، منزل کھو گئی ہے۔ میں خود نہیں جانتی، آخر مجھے جانا کہاں ہے؟ پھر بھی بے مقصدسی چلتی رہتی ہوں، پر آخر کب تک یوں بھٹکتی رہوں؟ ہار کر لوٹ پڑتی ہوں۔

آتے ہی مہتا صاحب کی بچی تار کا ایک لفافہ دیتی ہے۔

دھڑکتے دل سے میں اسے کھولتی ہوں، اِرا کا تار تھا – ‘اپائنٹ مینٹ ہو گیا ہے۔ مبارک!’

اتنی بڑی خوشخبری پا کر بھی جانے کیا ہے کہ خوش نہیں ہو پاتی۔ یہ خبر تو نشیتھ بھیجنے والا تھا۔ یکایک ہی ایک خیال دل میں آتا ہے: کیا جو کچھ میں سوچ گئی، وہ نرا گمان ہی تھا، صرف میرا تصور کا اندازہ؟ نہیں نہیں! اس لمس کو میں صرف گمان کیسے مان لوں، جس نے میرے تن من کو ڈبو دیا تھا، جس کے ذریعےاس کے دل کی ایک ایک پرت میرے سامنے کھل گئی تھی؟ لیک پر بتائے ان مدھر لمحوں کو محض گمان کیسے مان لوں، جہاں اس کی خاموشی ہی زبان بن کر سب کچھ کہہ گئی تھی؟ اپنے پن کے وہ ان کہے لمحے!تو پھر اس نے خط کیوں نہیں لکھا؟ کیا کل اس کا خط آئے گا؟ کیا آج بھی اسے وہی جھجک روکے ہوئے ہے؟

تبھی سامنے کی گھڑی ٹن ٹن کر کے نو بجاتی ہے۔ میں اسے دیکھتی ہوں، یہ سنجے کی لائی ہوئی ہے۔ لگتا ہے، جیسے یہ گھڑی گھنٹے سنا سنا کر مجھے سنجے کی یاد دلا رہی ہے۔ لہراتے یہ ہرے پردے، یہ ہری بک ریک، یہ ٹیبل، یہ پھول دان، سبھی تو سنجے کے ہی لائے ہوئے ہیں۔ میز پر رکھا یہ پین اس نے مجھے سالگرہ پر لا کر دیا تھا۔ اپنی ہوش مندی کے ان بکھرے دھاگوں کو سمیٹ کر میں پھر پڑھنے کی کوشش کرتی ہوں، پر پڑھ نہیں پاتی۔ ہار کر میں پلنگ پر لیٹ جاتی ہوں۔

سامنے کے پھول دان کا سونا پن میرے من کے سونے پن کو اور زیادہ بڑھا دیتا ہے۔ میں کس کر آنکھیں موند لیتی ہوں، ایک بار پھر میری آنکھوں کے آگے لیک کا شفاف، نیلا پانی ابھر آتا ہے، جس میں چھوٹی چھوٹی لہریں اٹھ رہی تھیں۔ اس پانی کی طرف دیکھتے ہوئے نشیتھ کی صورت ابھر کر آتی ہے۔ وہ لاکھ پانی کی طرف دیکھے، پر چہرے پر لکھی اس کے دل کی ہلچل کو میں آج بھی، اتنی دور رہ کر بھی محسوس کرتی ہوں، کچھ نہ کہہ پانے کی مجبوری، اس کی گھٹن آج بھی میرے سامنے ابھر اٹھتی ہے۔ دھیرے دھیرے لیک کے پانی کی وسعت سمٹتی جاتی ہے، اور ایک چھوٹی سی رائٹنگ ٹیبل میں بدل جاتی ہے، اور میں دیکھتی ہوں، کہ ایک ہاتھ میں پین لیے اور دوسرے ہاتھ کی انگلیوں کو بالوں میں الجھائے نشیتھ بیٹھا ہے وہی مجبوری، وہی گھٹن لیے۔ وہ چاہتا ہے، پر جیسے لکھ نہیں پاتا۔ وہ کوشش کرتا ہے، پر اس کا ہاتھ بس کانپ کر رہ جاتا ہے۔ اوہ! لگتا ہے، اس کی گھٹن میرا دم گھونٹ کر رکھ دے گی۔ میں یکایک ہی آنکھیں کھول دیتی ہوں، وہی پھول دان، پردے، میز، گھڑی!

آخر آج نشیتھ کا خط آ گیا۔ دھڑکتے دل سے میں نے اسے کھولا۔ اتنا چھوٹی سی چٹھی!

 

ڈئر دیپا

تم اچھی طرح پہنچ گئی، یہ جان کر خوشی ہوئی۔

تمہیں اپنے اپائنٹ مینٹ کا تار تو مل ہی گیا ہو گا۔ میں نے کل ہی اِرا جی کو فون کر کے اطلاع دے دی تھی، اور انہوں نے بتایا تھا کہ تار دے دیں گی۔ آفس کی طرف سے بھی اطلاع مل جائے گی۔

اس کامیابی کے لیے میری جانب سے دلی مبارکباد قبول کرنا۔ سچ، میں بہت خوش ہوں، کہ تمہیں یہ کام مل گیا! محنت کام آ گئی۔ باقی پھر۔

نیک تمناؤں کا متمنی

نشیتھ

 

بس؟ دھیرے دھیرے خط کے سارے الفاظ آنکھوں کے آگے غائب ہو جاتے ہیں، رہ جاتا ہے محض، ’’باقی پھر!‘‘

تو ابھی اس کے پاس ‘کچھ’ لکھنے کو باقی ہے؟ کیوں نہیں لکھ دیا اس نے ابھی؟ کیا لکھے گا وہ؟

’’دیپ!‘‘

میں مڑ کر دروازے کی اور دیکھتی ہوں، رجنی گندھا کے ڈھیر سارے پھول لیے مسکراتا سا سنجے کھڑا ہے۔ ایک پل میں میں مکمل خالی سی اسے اس طرح دیکھتی ہوں، مانو پہچاننے کی کوشش کر رہی ہوں، وہ آگے بڑھتا ہے، تو میرے کھویا ہوا شعور لوٹتا ہے، اور میں باؤلی سی دوڑ کر اس سے لپٹ جاتی ہوں۔

’’کیا ہو گیا ہے تمہیں، پاگل ہو گئی ہو کیا؟‘‘

’’تم کہاں چلے گئے تھے سنجے؟‘‘ اور میری گفتگو ٹوٹ جاتی ہے۔ اچانک ہی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلتے ہیں۔

’’کیا ہو گیا؟ کلکتہ کا کام نہیں ملا کیا؟ مارو بھی گولی کام کو۔ تم اتنی پریشان کیوں ہو رہی ہو اس کے لیے؟‘‘

پر مجھ سے کچھ نہیں بولا جاتا۔ بس، میری بانہوں کی جکڑ کستی جاتی ہے، کستی جاتی ہے۔ رجنی گندھا کی مہک دھیرے دھیرے میرے تن من پر چھا جاتی ہے۔ تبھی میں اپنے گال پر سنجے کے ہونٹوں کا لمس محسوس کرتی ہوں، اور مجھے لگتا ہے، یہ لمس، یہ سکھ، یہ پل ہی سچ ہے، وہ سب جھوٹ تھا، دھوکا تھا، گمان تھا۔

اور ہم دونوں ایک دوسرے کے بازوؤں میں بندھے رہتے ہیں – اور پھر بوسوں پر بوسے ۔۔۔۔

***

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے