کلیات بیکل اتساہی ۔۔۔ سعید اختر اعظمی

 

غزلیہ غنائیہ اور نظمیہ تخلیقیت فیض ربانی کے ساتھ امانت خداوندی بھی ہے جبکہ شعری حسن پارے کی سادگی میں پرکاری پیدا کرنے کا عمل خیال افروز اور معنی خیز ہے۔ گیت اور غزل کے امتیازی رویے سے خط ثالثہ کھینچنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ بیکل اتساہی نے کبیر و نظیر اور رستحان کے افکار کو اپنا منہج بنایا اور نوجمالیاتی احساس و عرفان سے حسن پرور مافی الضمیر کا اظہار کیا۔ ان کی حساسیت اور وسیع المشربیت انفرادیت میں آفاقیت کا حوالہ ہے۔ یہ غنائی نگار خانہ جدے دیت پسندی سے عبارت نہیں بلکہ رنگ ہزاروں خوشبو کا ایک طلسم ہے۔ انہوں نے ہمہ جہت اجتماعی زندگی کی نا آسودگی، اقدار کی شکست و ریخت، سیاسی انتشار اور فرقہ وارانہ منافرت کے زیر اثر باغیانہ لہر کو جزو لازم بنایا جسے شاعری میں بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جسم کے نغماتی زیر و بم سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے جہاں انہوں نے والہانہ جذبوں کی معیت اختیار کی ہے وہیں جنس میں محبت سے عرفان تک کے تمام ارتفاعی مراحل بھی طے کئے ہیں۔

فراق گورکھپوری کی نظر میں وہ فن امیجری کو صحیح سمت دینے والے اور ابہام کو نئی جہت سے روشناس کرانے والے ہیں تو علی سردار جعفری انہیں مشاعروں میں گیتوں کو رواج دینے والا تسلیم کرتے ہیں۔ گوپی چند نارنگ کے نزدیک انہوں نے ادب کی معیار بندی میں اضافہ کیا ہے تو ڈاکٹر انصاری انہیں سرل سادھارن گیتوں میں تجلی فردوس کا بانکپن بھرنے والا مانتے ہیں۔ رفعت سروش کے خیال میں کلام بیکل میں دھرتی کی سکندھ کے ساتھ کھیتوں کی ہریالی اور باغ بغیچوں کی بہار بھی شامل ہے جو رنگ برنگے گلدستے کا احساس دلاتی ہے۔ بشیر بدر کے مطابق انہوں نے جن نئے حسی پیکروں، خوبصورت استعاروں اور ذاتی تشبیہات سے اپنے اظہار کی اکائی بنائی ہے وہی در اصل گیتوں کی جدید اور اچھی شاعری ہے۔ مبارک حسین مصباحی نے انہیں حافظ ملت سے قریب مانا ہے تو نظام صدیقی نے ان کی تخلیقی رعنائی و برنائی کو گریز اور فرار سے احتراز کا نام دیا ہے جبکہ عزیز اندوری نے ان کی معلومات اندوزی پر روشنی ڈالی ہے۔

مولوی محمد شفیع سے شفیع بیکل وارثی کا مرحلہ بحسن و خوبی طے ہوا اور جب جواہر لعل نہرو نے۔ ” یہ ہمارا اُتساہی شاعر ہے ” کہا تو ضلع کے لوگوں کے لئے بھی وہ اتساہی ہو گئے۔ پھر سبھی ”محمد شفیع” کو بھول گئے اور بیکل اتساہی زبان زد خاص و عام ہو گیا۔ مشاعروں، جلسوں اور کوی سمیلنوں میں شرکت سے فرصت پاکر انہوں نے رکشہ یونین اور مزدور یونین کو بھی وقت دیا۔ سنہ 1969 میں جب بلرامپور میں سیلاب آیا تو سنہ 1965 میں تعمیر کردہ مکان جسے نہرو نے مالی امداد دی تھی منہدم کر گیا۔ اسی میں ان کی کئی نادر کتب اور بیاضیں بھی ضائع ہو گئیں جس میں ابتدائی کلام بھی موجود تھا۔ اپنی یادداشت کے سہارے انہیں دوبارہ لکھا اور کتابوں میں محفوظ کیا۔ بیکل اتساہی کی زندگی جد و جہد سے عبارت رہی ہے۔ سنہ 1949 میں جب انہیں بیس ہلوں اور 50 ملازمین کا چارج دیا گیا تو وہ اس فرمان شاہی سے اوب گئے۔ غریب کسانوں اور مزدوروں کی حالت پر ترس کھا کر اپنی زمینوں کا ایک حصہ انہیں دے دیا اور باقاعدہ سرکاری کاغذات میں اندراج کر دیا۔ یہ زمیندارانہ مزاج کے خلاف تھا جس کی وجہ سے وہ گھر سے نکال دئے گئے۔ شری دت گنج بازار میں مڈل اسکول کرائے کے مکان میں کھولا اور ڈسٹرکٹ بورڈ سے منظور کرا کے معلم بن گئے۔ سنہ 1952 میں کانگریس کے ضلع سکریٹری بن کر الیکشن مہم میں شامل رہے اور اپنی تقریروں، گیتوں نیز پوسٹروں کے بل بوتے پر اسے جیت لیا۔ سنہ 1953 میں ڈسٹرکٹ بورڈ کے چیئر مین کی تنگ مزاجی سے تنگ آ کر مستعفی ہو گئے اور نیپال جا کر رانا شاہی کے خلاف تحریک میں بارودی شعبہ میں کام کرنے لگے۔ سنہ 1954 میں سوشلسٹ تحریک میں شامل ہوئے اور نہری ٹیکس کے خلاف رام منوہر لوہیا اور آچاریہ نریندر دیو کے ساتھ فتح گڑھ، بہرائج اور گونڈہ جیل کا سفر کیا۔ سنہ 1955 میں بلرام پور ٹریکٹر ایجنسی کا کاروبار شروع کیا۔ سوتنتر بھارت کمرشیل کمپنی بنا کر مختلف کاروبار کئے اور اپنے رفقاء کی فریب کاری سے تنگ آ کر اس سے الگ ہو گئے۔ انہوں نے دو شادیاں کیں اول صفیہ بیگم سے دوم صغری بیگم خانم سے جن سے دو اولادیں ہیں۔ سنہ 1944 سے شاعری کا آغاز ہوا جو تا حال جاری ہے۔

کتاب کے مرتب فاروق ارگلی نے اپنا صحافتی کیرئیر اسٹار پبلی کیشنز سے شروع کیا تھا۔ بعد ازاں وہ شمع سے وابستہ ہوئے اور فلموں کے حوالے سے بھی خاصا کام کیا۔ مینا کماری اور شاہ رخ خان پر ان کی کتابیں جلد ہی منظر عام پر آئیں ہیں۔ مخدوم محی الدین، امر قزلباش، احمد فراز اور مجاز وغیرہ کی کلیات ترتیب دینے کے بعد بیکل اتساہی کی تمام کتابوں کی یکجائی اپنے آپ میں ایک بڑا کارنامہ ہے جسے انہوں نے مساعی شاقہ سے کر دکھایا ہے۔ راشٹریہ سہارا میں شخصیات کی سالگرہ پر لکھنے کے علاوہ وہ ایسے مختلف شعراء کی کلیات پر بھی کام کر رہے ہیں جو اہل ادب اور محبان اردو کے لئے افادیت بخش ہے۔ خدا کرے یہ سلسلہ مزید دراز ہو۔

کلیات بیکل اتساہی اب تک شائع شدہ تمام منتشر و یکجا مجموعوں کی یکجائی ہے جس میں نعتیں، مناجات، دوہے، ہائیکو، ماہیے، منقبت، قطعات، غزلیات، گیت، منظومات، نظماوت، کنڈلگائیں اور بچوں کے لئے لکھی گئی نظمیں شامل ہیں۔ انہوں نے جس صنف کو بھی حرف و لفظ کا قالب عطا کیا زندہ جاوید بنا دیا۔ وہ خود اسے لفظوں کا فلک مانتے ہیں جو فن کی زمین سے ارتباط رکھتا ہے۔ قوس قزح کے یہ رنگ دیکھئے :

تو اپنی حمد کا اسلوب انتخابی دے

مرے خدا مجھے انداز بو ترابی دے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

قلم سے نور تو کاغذ سے نکہتیں پھوٹیں

یہ حرف و لفظ، یہ حسن کلام آپ کے نام

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نوشہ کون و مکاں اور صحابہ کا ہجوم

ماہ و انجم کی یہ بارات بھلی لگتی ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بدن کی آنچل سے سنولا گئے ہیں پیراہن

میں پھر بھی صبح کے چہرے یہ شام لکھتا ہوں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

چاندنی اپنی بانہیں پسارے ہوئے، لوریاں پربتوں کو سناتی رہی

جھیل کی آنکھ میں نیند الجھی رہی، اک کنول کا دیا جھلملاتا رہا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

حسن ہنگامہ بازار میں مصروف رہا

عشق تو چپ ہے سجائے ہوئے محفل تنہا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نئے موسم کے میک اپ نے روایت ہی بدل ڈالی

کلائی میں گھڑی کو دیکھ کر سب چوڑیاں ٹوٹیں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

دعائیں تپتے موسم کی ہنر رکھتی ہیں جادو کا

ذرا چھینٹے پڑیں بس کچی مٹی ہنسنے لگتی ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

تیرے شہر کی شام میں سونا برسا کرتا ہے

مرے گاؤں کی صبح میں چاندی دھلتی رہتی ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پہلی بار میں شہر گیا فٹ پاتھوں نے پوچھا

گاؤں سے تم آئے ہو بھوکے پیاسے لگتے ہو

ہچکی پر چٹھی کی آمد، سسرال سے بیٹی کے آنے پر ماں کے اشکوں کی مٹھاس، غربت میں شعور پردہ پوشی، چاند کے چھت پر آنے سے آنکھوں میں جگنوؤں کی کاشت، ممتا کی خوشبو سے دوری میں بچے کا اہکنا، عرق ندامت کی گنگوتری جل سے تعبیر، تنہائی پر یادوں کا پہرہ، پردیسی پرندوں کا گاؤں سے رخصت ہوتے ہوئے مڑ مڑ کر دیکھنا اور شہری تہذیب کے جھونکوں کی دیہی آنچل پر نظر ایسے استعارے ہیں جنہیں اپنے مخصوص اسلوب سے بیکل اتساہی نے سامع و قاری کے دل کی پکار بنا دیا ہے۔ انہوں نے جگر، اقبال، اصغر گونڈوی، نظیر اکبر آبادی، کبیر سے بھی استفادہ کیا ہے۔

عزم ابراہیم پیدا ہو تو پھر آگے بڑھوں

ہر قدم پر آگ ہے، ہر موڑ پر نمرود ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مومن نے ایمان دیا تھا غالب جان گنوائے تھے

ذوق غزل کا میر نہ ڈھونڈو آج سیاسی میروں میں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اتنی رنگین تھی کب غزل بیکل

اصغر خوش کلام سے پہلے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کسی کے عشق میں اس درجہ شوق جاں نثاری ہے

کہ ہر اک سانس عمر جاوداں معلوم ہوتی ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں تھا مستقبل کے احساسات کے جلووں میں گم

ذہن کو چونکا گئی ماضی کی پُروائی کہ بس

اودھی اور پوربی رنگ میں مناجات، نعت اور غزل کے تجربے کے ساتھ انہوں نے گیتوں میں اسے بخوبی برتا ہے :

نرمل جیوت چماچم چمکی عبداللہ کے آنگن سے

روپ دیکھن کا حور و ملائک جھک جھک تکیں جھروکن سے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اللہ سے بندن کے ناتاسندر بے جوڑ ملائے گیو

امی سگرو جگ باکھ دہس مل پارن ماسمجھائے گیو

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جب تجھے ساری دنیا سے فرصت نہیں

پیار کی بات مجھ سے کری کس لئے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

رات کی دیوی لٹ پھیلائے /چور ستے پہ دیپ جلائے / کروٹ لیں آکاش کے سائے / تارے کریں کلول رے پنچھی گیت بڑے انمول اپنے گیتوں میں انہوں نے وصل و فراق، چھیڑ خوباں، موسم باراں کی رومانیت و قہر سامانی اور سہاگن کے دل کی پکار کے ساتھ حالات حاضرہ پر اپنے کرب کا بھی اظہار کیا ہے :

عارض عارض دھوپ جیٹھ کی، زلف زلف امرائی

پلکوں پلکوں ساون بھادوں، اشک اشک شہنائی

انگڑائی ناگن بل کھائے کوندھا لپکے انگ

میں کس کے گیت لکھوں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یگ یگ پر منجدھار کی ارتھی ڈوب ڈوب اترائے

سلگتے چتا، شوالے مسجد، جل جوالا بل کھائے

دین دھرم بہہ جائے، بھگوان اپنا کلش بچائے

گیت سب ڈوب گئے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میناروں سے پھینک دئے سب ہتھ گولے بے لاگ

محرابوں سے پھوٹ پڑی ضد اور سازش کی آگ

منبر سے جاری ہے پھر بھی سیرت پر تقریر

نتیجہ جانیں سنت فقیر

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ جواہر لعل نہرو، مخدوم محی الدین، کنور سنگھ بیدی سحر، اندرا گاندھی، محمود درویش، راشد، محمد علی جوہر، سبھاش چندر بوس، شنکر  دیال شرما، ٹیپو سلطان، فاروق عبداللہ، مادھو راؤ سندھیا، علی سردار جعفری اور راجیو گاندھی کو خراج عقیدت بھی پیش کیا ہے۔ ارزاں قیمت پر یہ کتاب سبھی کے لئے تحفہ بیش بہا کی حیثیت رکھتی ہے۔

جولائی، اگست، ستمبر 2008

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے