ڈاکٹر خلیق انجم۔ اردو کا گوہر آبدار بھی چل بسا ۔۔۔۔ رئیس صمدانی

 

پڑوسی ملک بھارت سے افسوس ناک خبر ملی کے معروف ادیب اور عصر حاضر کے نامور محقق، انجمن ترقی اردو (ہند) دہلی کے سابق سیکریٹری موجودہ نائب صدر، ماہر غالبیات تنقید و تحقیق کے ماہر ڈاکٹر خلیق انجم 18اکتوبر2016ء کو صبح 10.30 بجے اس دنیائے فانی سے رحلت کر گئے۔ انا اللہ و انا علیہ راجعون، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ دنیائے اردو کے لیے ڈاکٹر خلیق انجم کا نام جانا پہچانا ہی نہیں بلکہ وہ معتبری کے بلند مقام پر تھے۔ بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان ہی نہیں بلکہ جہاں جہاں اردو بولی، پڑھی اور سمجھی جاتی ہے وہاں کے ادیبوں، شاعروں، محققین و تنقید نگاروں کے دلوں میں ان کے لیے بے بہا عزت و احترام پایا جاتا ہے۔ وہ  40سال انجمن ترقی اردو (ہند) سے وابستہ رہے، سیکریٹری کے علاوہ اپنی آخری سانسوں تک انجمن کے نائب صدر تھے۔

مجھے ڈاکٹر خلیق انجم کو قریب سے دیکھنے کا موقع اُس وقت ملا جب میں سرگودھا یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس میں تدریس سے وابستہ تھا۔ جامعہ سرگودھا کے شعبہ اردو کے زیر اہتمام دو روزہ انٹر نیشنل اردو کانفرنس 3-4 نومبر 2010ء کو منعقد ہوئی، کانفرنس کا موضوع تھا ’اردو زبان اور عصری آگہی‘۔ یہ ایک تاریخ ساز کانفرنس تھی۔ شاہینوں کے شہر سرگودھا میں اردو زبان کے حوالے سے اس نوع کا بین الاقوامی اجتماع اور بڑی تعداد میں بیرون ملک اور اندرون ملک کے اہل علم و دانش کا یکجا ہونا اور ادبی و تحقیقی مقالات پیش کرنا، خیالات و افکار کا تبادلہ کرنا، اردو زبان کی ترقی اور فروغ کے لیے اجتماعی آواز بلند کرنا اور مکالمہ کی صورت ترتیب دینا قابل تعریف بات ہی نہیں بلکہ ایک تاریخی واقعہ تھا۔ راقم کو اس کانفرنس میں بھر پور شرکت کا موقع ملا اور اردو کے اس عظیم دانشور کو قریب سے دیکھنے اور سننے کا موقع حاصل ہوا۔ سرگودھا جیسے شہر میں ‘ انٹر نیشنل اردو کانفرنس کا خواب شرمندہ تعمیر نہیں ہو سکتا تھا اگر کانفرنس کے انعقاد میں اردو کی نامور شخصیت، شعبہ اردو کے صدر پروفیسر ڈاکٹر طاہر تونسوی کی عملی جد و جہد شامل نہ ہوتیں۔ جن کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے کہا کہ’’ وہ طبعاً فعال شخصیت ہیں اور جس کام کو ہاتھ لگاتے ہیں اس کو ہر زاویے سے قابل توجہ بنا دیتے ہیں ‘‘۔ عطاء الحق قاسمی نے تونسوی صاحب کے بارے میں لکھا کہ’ ’یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی خوش قسمتی ہے کہ اسے ڈاکٹر طاہر تونسوی جیسا ایک فعال سربراہ میسر ہوا‘‘۔ میری خوش قسمتی کہ میں اور ڈاکٹر طاہر تونسوی جامعہ سرگودھا کے ٹیچرز ہاسٹل کے مکین تھے۔ وہ روم نمبر ۲اور میں روم نمبر ۵ کا رہائشی تھا، کھانے کی میز پر ساتھ ہوتے، ہم دونوں ہی دیر سے کھانا کھانے کے عادی تھے چنانچہ اکثر میرا کمرہ ڈائینگ روم بھی ہوا کرتا تھا۔ میرے ان سے دوستانہ مراسم تھے، رات گئے علمی و ادبی موضوعات پر گفت و شنید کا سلسلہ جاری رہتا، شعبہ اردو کے استاد ڈاکٹر خالد ندیم کے علاوہ طارق کلیم بھی اکثر ہماری محفل کا حصہ ہوا کرتے۔ اس حوالے سے میں شعبہ اردو کی علمی و ادبی سرگرمیوں کا شریک رہتا۔ کانفرنس میں بھارت، بنگلہ دیش، مصر، امریکہ کے علاوہ پاکستان کے تمام بڑے شہروں سے تعلق رکھنے والے اہل علم و دانش کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ڈاکٹر خلیق انجم اور شاہد ماہلی بھارت کے شہر دہلی سے تشریف لائے تھے۔ بنگلہ دیش سے کلثوم ابو البشر تھیں اور مصر سے ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم تھے۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے تقریباً تمام ہی بڑے ادیب کانفرنس میں شریک تھے۔ میری خوشی نصیبی کے کہ اس کانفرنس کے موقع پر بڑے بڑے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کو قریب سے دیکھنے اور سننے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر خلیق انجم کے مقالے کا عنوان تھا ’آزادی کے بعد برِصغیر میں اردو کے مسائل‘۔ راقم نے اس  کانفرنس کی روداد قلم بند کی تھی جو اردو کے ادبی جریدے ماہنامہ ’’نگارِ پاکستان‘‘ شمارہ1، جنوری 2011میں شائع ہوئی تھی۔

ڈاکٹر خلیق انجم کا شمار برصغیر کے صف اول کے محققین میں ہوتا تھا، انہوں نے اردو ادب کے حوالے سے جو ادب بھی تخلیق کیا وہ تعداد اور معیار کے اعتبار سے اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ ان کے رشحاتِ قلم سے 80تصانیف و تالیفات اور بے شمار مضامین منظر عام پر آئے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے آپ کو ادب کی کسی ایک یا چند اصناف تک محدود نہ رکھا بلکہ انہوں ادب کی ہر صنف پر قلم اٹھایا۔ اردو کی ترقی اور فروغ کے لیے انہوں نے کسی تنظیم، گروپ یا گروہ کا انتخاب نہیں کیا بلکہ جب جہاں اور جس پلیٹ فارم سے اردو کی ترقی اور فروغ کی تحریک کی بات ہوئی انہوں نے اسے لبیک کہا اور اس میں اپنا بھر پور حصہ ڈالا۔ انجمن ترقی ہند سے وہ کوئی چالیس برس مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ وہ بلا شبہ اردو کی تہذیبی و ثقافتی اقدار اور روایات کے علم بردار تھے۔ ان کی معروف تصانیف میں ذکر آثار الصّنادید، انتخاب خطوطِ غالبؔ، متنی تنقید، غالبؔ کا سفر کلکتہ اور ادبی معرکہ اور حسرت موہانی، مولوی عبدالحق۔ ادبی و لسانی خدمات وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ غالبؔ کے مکاتیب کے حوالے سے ڈاکٹر خلیق انجم کو غالبؔ پر اعلا درجے کی تحقیق کرنے والوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس موضوع پر ان کی اولین کاوش ’’غالب کی نادر تحریریں ‘‘ تھی اس کے بعد ’’غالب اور شاہان تیموریہ‘‘ ۱۹۷۴ء میں اور’ ’ غالب کچھ مضامین‘‘ منظر عام پر آئیں۔ مکا تیب غالبؔ کے حوالے سے ڈاکٹر خلیق انجم کی قابل قدر تحقیق پانچ جلدوں پر مشتمل مکاتیب غالبؔ کا مجموعہ ہے جو ہندوستان کے علاوہ انجمن ترقی اردو پاکستان نے یکے بعد دیگرے شا ئع کیا۔ ڈاکٹر خلیق انجم نے اپنی تصنیف غالبؔ کے خطوط کی جلد اول میں لکھا ہے کہ ’ ’سوانح نگاری کے بہترین مآخذ خطوط ہوتے ہیں۔ فن کار کے خاندانی حالات، اس کی زندگی کے بیشتر واقعات، اس کے عقائد و نظریات، اس کی سیرت و شخصیت کا پورا علم ان ہی خطوط سے ہوتا ہے، اپنے عصروں کو کس نظر سے دیکھتا ہے، اپنے فن اور خود اپنی ذات کے بارے میں اس کی کیا رائے ہے، یہ سب بہت واضح انداز میں تو فنکار کے خطوط میں، اور اکثر ذرا مبہم آپ بیتیوں اور روزنامچوں میں ملے گا‘‘۔ا س کے بعد وہ جوشؔ ملیح آباد کی نثر کی جانب متوجہ ہوئے، یادوں کی بارات کے علاوہ خطوط بھی جوش ؔ کی نثر کا ایک عمدہ نمونہ ہیں، اس حوالے سے ’جوشؔ بنام ساغرؔ‘تفصیلی مقدمہ کے ساتھ مرتب کی۔ ان کی کتاب ’مرزا محمد رفیع سوداؔ‘ کے بارے میں پروفیسر آل احمد سرور کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر خلیق انجم کی یہ تصنیف اردو تحقیق کے بلند ہونے کا پتا دیتی ہے۔ خاکہ نگاری کے حوالے ڈاکٹر خلیق انجم نے ’’عبدالحق کی خاکہ نگاری۔ فن اور تنقید‘‘ میں لکھا ہے ’’خاکہ نگاری کا فن بہت مشکل اور نازک فن ہے۔ اسے اگر نثر میں غزل کا فن کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ جس طرح غزل میں محدود الفاظ میں طویل مطالب ادا کرنے پڑتے ہیں ٹھیک اسی طرح خاکہ میں بھی مختصر الفاظ میں پوری شخصیت پر روشنی ڈالنی پڑتی ہے۔ کسی نے ایک سنگ تراش سے پوچھا کہ تم ایک پتھر سے اتنی خوبصورت مورت کس طرح تراش لیتے ہو۔ اس نے جواب دیا مورتی تو خود اس پتھر میں موجود تھی میں نے صرف زائد حصے کو علاحدہ کیا ہے۔ بالکل یہی کام خاکہ نگاری کا ہوتا ہے وہ سوانح عمری میں زائد حصے کو اس طرح الگ کر دیتا ہے کہ شخصیت اپنے اصل روپ میں ہمارے سامنے آ جاتی ہے ‘‘۔ خاکہ نگاری کے حوالے سے ڈاکٹر خلیق انجم نے کس قدر پیاری بات کہی، وہ اپنی شخصیت میں بھی یہی خاصیت لیے ہوئے تھے۔

ناصرؔکاظمی نے اپنے اس شعر میں بھی خوبصورت لوگوں کے اٹھ جانے کا ذکر  خوبصورت  اندازمیں کیا ہے ؎

اُٹھ گئے کیسے کیسے پیارے لوگ

ہو گئے کیسے کیسے گھر خاموش

اردو شاعری کی اثاث دلی اور لکھنؤ دبستان ہیں۔ دبستانِ دلی کی شاعری داخلیت پسندی کے گرد گھومتی ہے جس میں سوز و گداز، درد مندی، غم و الم، تصوف، حسن و جمال، احساسات حسن، خوبصورت تشبیہات، شفگتگی و ترنم، خلوص، سادگی، صداقت، خطابیہ انداز پایا جاتا ہے۔ دہلی اپنے اندر علم و ادب، شعر و دانش کی ایکا چھوتی اور طویل تاریخ لیے ہوئے ہے۔ اس شہر کو شاعری، علم و دانش اور فن کا منبع ہونے کا شرف حاصل رہا ہے۔ اس مٹی نے اردو زبان کے ایسے ایسے عظیم شاعروں اور ادیبوں کا جنم دیا ہے کہ صدیاں گزر جانے کے با وجود ان کا نام آج بھی دنیائے اردو ادب کے ماتھے کا جھومر ہے۔ دہلی دبستان کا اپنا رنگ ہے، دہلی اسکول آف اردو غزل کی وسعت اور اثرات  اردو شاعری پر ہمیشہ سایہ فگن رہیں گے۔ دبستان دہلی نے میر تقی میرؔ، سوداؔ، دردؔ، مصحفیؔ، انشاءؔ، میرحسن، داغؔ دہلوی، بیخودؔ دہلوی، مومن اور بے شمار عظیم شاعرو ادیب پیدا کیے۔ اس مٹی کی خصوصیات میں فارسی آمیز زبان، جذبات کا عشق اظہار، بے باکی، عشق مجازی، حزن و یاس، تصوف، سادگی اور اختصار کو کوئی سانی نہیں۔ مغلیہ دور سلطنت سے آج تک یہ شہر شاعری اور علم و دانش کے حوالے سے اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔ نور الحسن ہاشمی نے لکھا ہے ’’دہلی کا شاعر غم روزگار کا ستایا ہوا، غمِ عشق کا مارا ہوا، اسی لیے اس کے کلام میں دونوں کسک اور کھٹک پائی جاتی ہے۔ سیاسی حالات نے اسے قنوطی بنا دیا، تصوف نے اس میں روحانیت پیدا کی اور اس کے ساتھ ایک اخلاقی نصب العین اور تصوف عطا کیا‘‘۔ ہر زمانے میں اس شہر نے اردو کی بڑی شخصیات کو جنم دیا ہے، غالبؔ اور ان جیسے دیگر شعراء نے اپنے لہو سے شعر، علم و دانش کے چراغ  روشن کیے ہیں۔ اردو کی خدمت کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال ؔ نے دہلی کے بارے میں یہ خوبصورت شعر کہے ؎

اے جہان آباد ! اے گہوارۂ علم و ہنر

ہیں سرپا نالۂ خاموش تِرے بام در

ذرہ ذرہ میں ترے خوابیدہ ہیں شمس و قمر

یوں تو پوشیدہ ہیں ترے خاک میں لاکھوں گہر

دفن تجھ میں کوئی فخر روزگار ایسا بھی ہے

تجھ میں پنہاں کوئی موتی آبدار ایسا بھی ہے

اردو کے اس گوہرِ آبدار ڈاکٹر خلیق انجم کا وطن شہر دہلی تھا وہ اسی شہر میں 22اگست1935ء کو پیدا ہوئے تھے اور اپنی اکیاسی سالا زندگی گزارنے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دہلی کی مٹی کے ہو رہے۔ ان کا انتقال 18اکتوبر2016ء کو ہوا۔ ڈاکٹر خلیق انجم ہندوستان کے شہر دہلی میں ضرور رہتے تھے لیکن وہ اصل میں اردو زبان و ادب کے صفیر تھے، انہیں اردو سے عشق اور اردو بولنے والوں سے عقیدت تھی، اردو خواہ ہندوستان میں بولی جاتی ہو، پاکستان میں، بنگلہ دیش میں، لندن میں یا امریکہ میں وہ ہر جگہ خوشی خوشی جا کر اردو کی ترقی، بقا، تحفظ اور شعر و ادب کے سروں کو بلند کرنے میں اپنا حصہ ڈالا کرتے، اسی طرح دنیا کے جس ملک اور شہر میں اردو بولنے والے تھے وہ ڈاکٹر خلیق انجم سے اس طرح پیار کرتے اور عقیدت سے پیش آیا کرتے جیسے وہ ان کے ہی ہم وطن ہوں۔ پاکستانی ادیبوں اور شاعروں نے ڈاکٹر خلیق انجم کی وفات کو ایسا ہی محسوس کیا کہ جیسے وہ ایک پاکستانی ادیب و دانشور سے محروم ہو گئے ہوں۔ انہوں نے دہلی کالج سے اردو میں ایم کیا، 1950میں کروری مل کالج دہلی میں استاد ہو گئے، لکھنے پڑھنے اور درس و تدریس کے ساتھ ساتھ خود بھی آگے بڑھنے کی جد و جہد کرتے رہے، 1962ء میں پی ایچ ڈی کرنے میں کامیاب ہوئے، 1972میں دہلی میں محکمہ تعلیم میں ڈائریکٹر ہو گئے۔ انجمن ترقی ہند سے وابستہ رہے، جنرل سیکریٹری طویل عرصہ رہے۔ دنیا سے رخصت ہوتے وقت وہ انجمن ترقی اردو ہند کے نائب صدر تھے۔ ادبی رسالہ ’ادبی تبصرے ‘ دہلی مدیر رہے۔ جریدہ کتاب نما نے نے ’’ڈاکٹر خلیق انجم۔ شخصیت و ادبی خدمات ‘‘بھی شائع کیا۔

ڈاکٹر خلیق انجم کی شخصیت، علمی و ادبی خدمات کے حوالے سے اردو دنیا تحقیقی عمل جاری رکھے گی، ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر لکھا جائے گا اور تحقیق ہو گی۔ ڈاکٹر صاحب کی جدائی سے دنیائے اردو میں جو خلا پیدا وا ہے اس کی تلافی ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے