نظمیں ۔۔۔۔ مصحف اقبال توصیفی

 

خاک زاد

__________________

 

کسی سے کچھ نہیں لیا

کسی کو کچھ نہیں دیا

تو جیسے خالی ہاتھ آئے تھے، چلے گئے

تمام عمر ایک رہگذر بس ایک موڑ پر

نہ جانے کس کے انتظار میں کھڑے رہے

 

عجیب خواہشیں

کوئی طلسم۔ ایسی سیمیا کریں

یہ اپنی خاک۔ اس کی مانگ میں

مہ و نجوم کی طرح بکھیر دیں

کچھ ایسی کیمیا کریں

 

مگر وہ اک لمحہ تھا کہ ایک دن کہ اک صدی

وہ خاک۔ خاک ہی رہی

عجیب کھیل ہے یہ وقت کا کہ اک شجر کے

سائے میں

ابھی کمر میں اپنی سیدھی کر رہا تھا۔ دن ڈھلا ہی تھا

ہوا نے آ کے کان میں کہا

اٹھو …اٹھو … کہ زندگی کی شام ہو گئی

٭٭٭

 

 

 

میں کہہ رہا ہوں

__________________

 

اگر کوئی سچ ہے۔ بس یہی ہے

نہ تم رہو گی

نہ میں رہوں گا

 

بس ایک لمحہ

ہزار لمحوں، ہزار قرنوں، ہزار صدیوں کی دھند میں گُم

بس ایک لمحہ

جو ہر جگہ ہے

کہیں نہیں ہے

 

کہیں نہیں ہے

مگر ہمارے حسین صاحب

حسین صاحب ڈنر پہ آئے … وہ کہہ رہے ہیں کہ سچ تو یہ ہے

’’تمہاری بیوی بہت سگھڑ ہے

اور آج کھانا پلاؤ۔ زردہ، کباب ہر شئے

بہت ہی اچھی لذیذ اتنی کہ کیا بتاؤں‘‘

 

وہ خوش ہے کہتی ہے۔ ٹھیک ہے لیکن

آپ بھی کچھ کہیں تو جانوں

 

رسوئی میں کام کرتے کرتے وہ تھک گئی ہے

میں اس کے ہاتھوں کو تھامتا ہوں

میں اس کو سمجھا رہا ہوں۔ دیکھو

حسین صاحب کے ساتھ وہ لمحہ جا چکا ہے

جو سچ کے جگنو کی طرح چمکا تھا۔ سچ نہیں ہے

اگر کوئی سچ ہے۔ بس یہی ہے

نہ تم رہو گی

نہ میں رہوں گا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے