موہوم کی مہک (ابرار احمد) ۔۔۔ عارفہ شہزاد

ابرار احمد کی شاعری کی بنیادی خوبی کیمرے کی سی وہ تکنیک ہے جو اس کی شاعری کو تمثال کاری کا شاہکار بنا دیتی ہے۔ ایک ہی نظم میں منظر در منظر نئے سے نیا پہلو حواس پر منکشف ہوتا چلا جاتا ہے۔ اکثر اوقات ہر نیا مصرع نیا منظر بنتا ہے۔ اس کے ہاں بالعموم دو یا دو سے زائد حسیاتی تمثالیں بیک وقت، باہم آمیخت ہو جاتی ہیں۔ وہ نا صرف انسانی نفسیات کے مختلف پہلوؤں کے بیان پر قادر ہے بلکہ ایک ہی رخ کے ہشت رنگ دکھانے پر بھی کمال قدرت رکھتا ہے۔ موہوم کی مہک در اصل اس آٹھویں رنگ کی تلاش ہے جو کورا ہونے کے باوجود مہک دیتا ہے، باطن کی آنکھ اسے محسوس کر سکتی ہے!

اس کی شاعری محض نامحسوس کی تلاش نہیں ’سیر بین‘ جیسی نظموں میں وہ اسے عصری صورتحال کا بین عکس بنا کر پیش کرتا ہے۔ کرداری خود کلامیے کو طویل نظموں میں نبھانا بہت مہارت کا کام جو مذکورہ نظم میں بدرجہ اتم موجود ہے!

تاہم ابرار احمد کی شاعری کے متنوع پہلوؤں کے باوجود اگر آپ کا بھی یہی کہنا ہے کہ ’’ابرار احمد کی نظموں میں ہے ہی کیا سوائے ناسٹلجیا اور موت کے ‘‘ تو معاف کیجیے گا مجھے آپ کی نظم فہمی پر شبہ تو ہو گاہی ساتھ ہی اس بات کا بھی یقین ہو جائے گا کہ وہ نظمیں جو قاری سے براہ راست موانست کا رشتہ استوار کر لیتی ہیں آپ ان سے رشک ہی نہیں حسد میں بھی مبتلا ہیں! بات یہ ہے کہ جیسا ایک شاعر کہتا ہے ویسا دوسرا بھی کہے یہ ممکن نہیں۔ شاعری کا کوئی فارمولہ نہیں اور نہ تنقید کا یہ کام ہے کہ شاعر نمبر ایک اور نمبر دو گنواتی پھرے! تو پھر تنقید کا فریضہ کیا ہے؟ خدا کا واسطہ آپ مجھے رٹو طوطے کی طرح اس جواب سے بھی مت نوازیے گا کہ ’کھرے کو کھوٹے سے الگ کرنا‘ شاعری میں کیا کھرا ہے کیا کھوٹا اس کا فیصلہ کون کر سکتا ہے! کھرا اور کھوٹا پن ایک اضافی قدر ہے۔ جو آپ کے نزدیک کھرا ہے وہ میرے نزدیک کھوٹا بھی تو ہو سکتا ہے! تو پھر تنقید اپنا راستہ کیا متعین کرے؟ سادا سا جواب ہے ہر شاعر کے موضوع کو تلاشے اس کے مسئلے اور تخلیقی تجربے کا سراغ لگائے اور نظم فہمی کا راستہ ہموار کرے۔ اس سلسلے میں محض یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ فلاں کے ہاں جہان معنی آباد ہے۔۔ ۔  فلاں کی شاعری حیرت کدہ ہے! وغیرہم۔

اگر تنقید کو بھی ایسے ہی افسانوی بیانات سے سر پھوڑنا ہے تو ایسی تنقید کو سات سلام! تو پھر تنقید اپنا راستہ کیسے متعین کرے؟ سیدھا سا جواب ہے بین العلومی طریق کار اپنائے اور شاعری کی گتھیوں کو سلجھائے تاکہ قاری بھی شاعری کے اس حیرت کدے کے طلسم سے آشنا ہو۔ اتنی طویل تمہید باندھنے کا مقصود محض اتنا ہے کہ ابرار احمد ایساشاعر ہرگز نہیں جسے آپ علم عروض کی قلا بازیوں یا جناتی زبان کی پٹاری کھول کر جانچ سکیں۔ نہ اسے دقیق زبان کا خبط ہے نہ خلائی و خیالی دکھ لاحق ہیں۔ ہم کسی بھی شاعر کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے گھسا پٹا جملہ دہرا دیتے ہیں۔۔ ۔  کہ اسے ہست کا دکھ لاحق ہے! کیا ابرار احمد کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے؟ ارشد معراج اور فرخ یار کی کتابوں پر بات کرتے ہوئے میں نے بھی یہی جملہ دہرایا مگر غور کیجیے گا دونوں کے دکھ جھیلنے کے انداز میں فرق کا بیان میرے پیش نظر تھا۔ فرخ یار مست الست ہے مگر اس کیفیت سے اوپر اٹھ کر لکھنا جانتا ہے اور تلازمات کی ہنر کاری پر کامل قدرت رکھتا ہے جب کہ ارشد معراج کو ایک عجیب عالم دیوانگی لکھت پر مائل کرتا ہے۔ یہی ان کا نقطہ ممیزہ ہے۔ یوں ایک کا دوسرے سے فرق واضح ہے۔ مگر اس فرق کو دیکھنے کے لیے ان کی نظموں کی بار بار قرات ضروری ہے جو نہ تو ہمارے سہل پسند قاری کا وتیرہ ہے نہ خبط عظمت میں مبتلا نظم نگاروں کا۔ میں نے اس کام کا بیڑا اسی لیے اٹھایا ہے کہ ہم آپ مل کر شاعروں کے تخلیقی تجربے کے ادراک کے ذریعے صحیح معنوں میں اس سے حظ اندوز ہو سکیں۔

جملہ ہائے معترضہ بر طرف چلیے ذرا ابرار احمد کی موہوم کی مہک کا سراغ لگاتے ہیں۔ ایک کے بعد دوسری نظم کا موضوع ناسٹلجیا ۔۔۔۔ ابرار احمد ایسا کیوں کرتا ہے؟ کیا یہ موضوع کو دہرانے کا عمل شاعری کی خوبی ہے یا خامی؟ اگر یہ خامی ہے تو انیس کو بھی اس دائرے میں رکھ کر یک قلم مسترد کر دیجیے! بہت کم شاعر ایسے ہیں جو ایک ہی موضوع کے مختلف شیڈز ابھارنے پر قادر ہوں معاصر نظم میں ابرار احمد انھی معدودے چند شعرا میں سے ہے۔ یہ اور بات کے اس نے کبھی انیس کی طرح یہ دعوی نہیں کیا کہ اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں۔ آپ اس کی ناسٹیلجیائی نظموں میں سے کوئی سی دو نظمیں ایسی دکھا دیجیے جن میں ماضی کی ایک سی فضا بندی یا نظم کی تاثیر یا موضوع ایک سا ہو! وہ ماضی کی یادوں میں غرق نہیں ہوتا بلکہ انھیں relive کرتا ہے اور یہی فرق ہے مثبت اور منفی ناسٹیلجیا میں! آپ کہیں گے کہ ناسٹلجیا بھی مثبت ہو سکتا ہے؟؟؟ یہی وہ عام مغالطہ ہے جو انتظار حسین جیسے بڑے قلمکار کی تفہیم کہ راہ میں حائل رہا ہے۔ میں ابرار احمد کا تقابل انتظار حسین سے نہیں کر رہی کہ دونوں کا میدان سخن مختلف ہے۔ ایک نثر کا شاہسوار ہے دوسرا نظم کا! ایک نے علامتی پیرائے کو اختیار کیا تو دوسرا ابہام سے کوسوں دور ہے۔ تقابل کا باعث محض یہ ہے کہ دونوں کا نفسیاتی مسئلہ ناسٹیلجیا ہے۔ دونوں ماضی کی طرف دیکھتے ہیں۔ انتظار حسین کے حوالے سے اس زاویے سے بہت بات ہو چکی مگر ابرار احمد کی شاعری کی اسی قوت کو محض کم نظری کی بنا پر جھٹلایا جاتا ہے۔

علم نفسیات کہتا ہے ناسٹیلجیا دو قسم کا ہے : Restorative (قوت بخش) اور Reflective (متفکر)۔ سادہ لفظوں میں یوں کہیے موخر الذکر منفی رویہ ہے جو تفکر میں مبتلا کر دیتا ہے۔ جب کہ اول الذکر مثبت ہے جس میں مبتلا فرد ماضی کی خوش کن یادوں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ ان میں جیتا ہے اور ان یادوں کا اپنے حال سے موازنہ کرتا ہے اور پھر اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اگر ماضی کی کیفیت حال سے مختلف ہے تو مستقبل کے مختلف ہونے کا امکان بھی ہے! وہ تبدیلیوں پر غور کرتا ہے تاکہ وہ اپنی زندگی کو زیادہ سے مثبت انداز سے جی سکے۔ وہ جانتا ہے کہ ماضی، ماضی ہے گزر چکا اور جیسے ہم کسی اچھی فلم کو دیکھتے ہوئے یہ جانتے ہیں کہ یہ فلم ہی ہے اسی طرح یہ فرد جانتا ہے ماضی گزر چکا! ہم اچھی فلم یا موسیقی کو بار بار سننا چاہتے ہیں اسی طرح اس فرد کا ماضی کی طرف رجوع کا رویہ ہے۔ ماضی اس کے لیے خوشی ہے حال سے فرار کا راستہ نہیں! یہی ناسٹیلجیائی رویہ ابرار احمد کی بیشتر نظموں میں ہے۔ یہ رویہ بے شک زندگی کی رائے گانی اور فنا کی طرف توجہ مبذول کراتا ہے مگر یہاں بھی مثبت ناسٹیلجیا کا حامل شخص ایک saddist کے طور پر سامنے نہیں آتا بلکہ وہ حقائق کو کھلی آنکھ سے دیکھتا ہے انھیں قبول کرتا ہے اور لمحہ موجود میں جیتا ہے۔ موہوم کی مہک کی نظموں میں ایسے ہی ابرار احمد سے ہماری ملاقات ہوتی ہے!

جب ہم کسی شخص سے ملتے ہیں اور اسے اپنا اپنا محسوس کرتے ہیں تو سب سے پہلے کیا کرتے ہیں؟ Sharing۔۔ ۔  ماضی کی باتوں کی یادوں کی۔۔ ۔ ! قاری کئی شعرا سے موانست محسوس کرتے ہیں اور انھیں لگتا ہے کہ اس شاعر نے ان کے دل کی بات کی ہے۔ مگر ابرار احمد ایسا شاعر ہے جو قاری کو دو طرفہ تعلق میں باندھ لیتا وہ قاری کو اپنا سمجھتا ہے سو اس کے سامنے اپنے دکھ پھولتا ہے اپنے ماضی کی اچھی یادیں دہراتا ہے۔

بات طویل ہو گئی کہ درمیان میں تقابل اور تنقید کی گفتگو بھی لازم تھی۔ آخری بات یہ کہ ابرار احمد کی نثری نظموں میں بالخصوص، ایسی سطریں ہیں جو اپنے اندر چھوٹی چھوٹی مکمل نظمیں ہیں۔ بہت کم شاعر ایسے ہیں جن کی نظم اپنی اکائی میں بھی مکمل ہو اور اپنے مصرعوں کی پرداخت میں بھی کامل! بات یہ ہے کہ لفظوں کے طوطے مینا اڑانا کمال نہیں شاعری کا کمال وہ تاثیر ہے جو لفظ اور خیال کے ارتباط سے جنم لیتی ہے اور موہوم کی مہک کی کم و بیش تمام نظمیں ایسی ہی ہیں۔ یہ واحد کتاب ہے جس کی نثری نظموں کے عنوانات کے ساتھ ہی ایک دو قرات ہی میں اس کے مصرعے یادداشت کا حصہ بن جاتے ہیں ورنہ ہمارے عروضی خبطیوں کے نزدیک نثری نظم کو جھٹلانے کا سبب ہی یہی ہے کہ یاد نہیں رہتی! سو ایسے اصحاب کامل حسابی پہاڑے رٹا کریں۔۔ ۔  صاحب ہم نے تو موہوم کی مہک کو آنکھوں سے دیکھ لیا ہے!

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے