غزلیں ۔۔۔ ڈاکٹر رؤف خیرؔ

مجھے ٹوک مت خدارا، مجھے چھوڑ مت خدارا

میں علامت خطا ہوں، تو عطا کا استعارہ

 

مرے جاں نثار ہمدم مجھے یہ نہیں گوارا

مرے فائدے کی خاطر ہو ترا کوئی خسارہ

 

یہ فُرات ہے سراپا، وہ سمندر اور کھارا

ہے الگ الگ جو دھارا، ہے انا کا کھیل سارا

 

نہیں واپسی کا رستہ نہ سہی تری گلی سے

مجھے لوٹنا گوارا نہ ہے لوٹنے کا یارا

 

تری بے زبانیوں نے مجھے گُنگ کر دیا ہے

مجھے فون کرنے والے کبھی بات کر خدارا

 

اُسے زعمِ خود نمائی سے نکالیے خدارا

وہ بجائے خود نہ محفل نہ بجائے خود ادارہ

 

ترے گاؤں میں نہ جاؤں نہ زباں پہ نام لاؤں

یہی خیرؔ طے اگر ہے تو کہاں کا استخارہ

٭٭٭

 

 

 

 

بہت دنوں میں یہ عقدہ کھلا، مخالف ہے

جسے میں دوست سمجھتا رہا، مخالف ہے

 

بُرا نہ چاہا نہ احسان ہی کیا اُس پر

تو پھر وہ کس لیے آخر مرا مخالف ہے

 

میں منزلوں کے لیے، منزلیں ہیں میرے لیے

مری بلا سے جو ساری فضا مخالف ہے

 

جو حوصلہ ہے تو کھُل کر وہ سامنے آئے

پتہ چلے کہ موافق ہے یا مخالف ہے

 

نہیں ہوں میں جو کسی سلسلے سے وابستہ

اسی خیال سے ہر سلسلہ مخالف ہے

 

مرے لیے تو ہے دشمن بہ درجۂ اولیٰ

وہ نا بکار اگر آپ کا مخالف ہے

 

رؤف خیر اب اندھیر اور کیا ہو گا

ہوا تو خیر ہوا ہے، دیا مخالف ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے