غزلیں ۔۔۔ ڈاکٹر رؤف خیرؔ

ہوتا ہے آہٹوں سے بر آمد کوئی نہیں

شاید کوئی ضرور ہے شاید کوئی نہیں

 

اپنے سوائے بہر خوشامد کوئی نہیں

اپنی صدا ہے بر سر گنبد کوئی نہیں

 

تجھ سے مقابلے کا تو مقصد کوئی نہیں

تیرا وجود یار مرا رد کوئی نہیں

 

بیٹھے ہوؤں میں ٹھیرے ہوئے سوچتا ہے تو

تیرے ہوائے شہر میں خوش قد کوئی نہیں

 

قائل نہ حج و عمرہ نہ صوم و صلوٰۃ کے

کہنے کو مومنین ہیں مرتد کوئی نہیں

 

یوں تو رباعیات کے مجموعے ہیں کئی

مثل کلام حضرت امجدؔ کوئی نہیں

 

دیکھا کسی کو جب کبھی آئینہ دیکھ کر

ایسا لگا ہے خیرؔ کہیں بد کوئی نہیں

 

ہم لوگ طائرانِ سخن ہیں رؤف خیرؔ

حائل ہماری راہ میں سرحد کوئی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

تو حرفِ خوش رقم ہے سوادِ جریدہ میں

کوئی نہیں ہے تیرے سوا قلب و دیدہ میں

 

کیا لوگ تھے کہ جن کی ہوا ہی اکھڑ گئی

اب سانس لے رہے ہیں ہوائے خریدہ میں

 

بیداد چھوڑ ہم سے جیالوں کی داد دے

پھرتے ہیں سر کشیدہ فضائے کشیدہ میں

 

دنیا کا پیار اور یہ دنیا کی نفرتیں

کیا کیا سمیٹوں دامنِ تنگ و دریدہ میں

 

دیکھو سنی سنائی پہ کرتے نہیں یقیں

کچھ تو تمیز چاہئیے دیدہ شنیدہ میں

 

رکھتے تھے حاثیے پہ انھیں حاثیے کے لوگ

غالبؔ مگن تھے گلشنِ نا آفریدہ میں

 

پاس و لحاظِ خیرؔ کا مطلب ہے ردّ شر

کر لے شمار یہ بھی صفاتِ حمیدہ میں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے