غزلیں ۔۔۔ سحرتاب رومانی

ہو چکا جو بے صدا وہ ساز ہوں

دُور سے آتی ہُوئی آواز ہوں

 

اُس نے بخشا ہے مجھے ایسا کمال

بے ہنر ہو کر بھی سر افراز ہوں

 

غور کر اِس بات پر غصّہ نہ کر

جو تجھے حاصل ہے وہ اعزاز ہوں

 

روز اُڑتا بادلوں کے سنگ تھا

آج کل منسوخ اِک پرواز ہوں

 

مجھ کو دنیا سے گلہ ہے ہی نہیں

میں تو اپنے آپ سے ناراض ہوں

 

ہوں کہیں آغاز کا انجام میں

اور کہیں انجام کا آغاز ہوں

 

میری اپنی اِک الگ پہچان ہے

میں کراچی کی سحر آواز ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

دامنِ گرد میں سمٹ کر میں

رو پڑا دشت سے لپٹ کر میں

 

زندگی داد دے مجھے اِس پر

جی رہا ہوں گِھسٹ گِھسٹ کر میں

 

دیکھنا ہو تو دیکھتا ہوں پھر

عکس کو آئنے سے ہٹ کر میں

 

اُس کی خوشبو کشید کرتا ہوں

اکثر اُس سے لپٹ لپٹ کر میں

 

کینوس پر نگاہ ڈالوں گا

روشنائی ذرا اُلٹ کر میں

 

میری بوسیدگی میں ندرت ہے

اور نیا ہو رہا ہوں پھٹ کر میں

 

دیکھ کر اُس کو بھُول جاتا تھا

ورنہ آتا سبق تھا رٹ کر میں

 

جب میسر نہیں تھا پانی بھی

پی رہا تھا شراب ڈٹ کر میں

 

اُس کی محفل میں ایک بار گیا

پھر نہ آیا سحر پلٹ کر میں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے