علامہ اقبال کی ڈائری کے چند اندراجات ۔۔۔ ڈاکٹر رؤف خیر

ہر بڑا آدمی یاد داشت کے طور پر کچھ اہم نوٹس ایک ڈائری میں لکھتا ہی ہے۔ خاص طور پر سفر کرتے ہوئے تاریخی مقامات کی تفصیلات یا غیر معمولی واقعات اور قابل ترین شخصیات سے ملاقات اور کوائف لکھنا پڑھے لکھے لوگوں کا معمول ہے۔ اس قسم کی یاد داشتیں بعد میں مضمون رپورتاژ وغیرہ میں بڑی مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ ان کے علاوہ بعض نادر و نایاب کتابوں، رسائل و جرائد کے حوالے سے بڑی قیمتی معلومات پڑھنے میں آتی ہیں تو صاحبانِ ذوق ایک بیاض/ ڈائری میں درج کر لیتے ہیں۔ علامہ اقبال بھی اپنے مشاہدات و تجربات اور اپنے مطالعے کا نچوڑ نوٹ کر لیا کرتے تھے۔ علامہ اقبال کی ڈائری کے سوا سو (125) نوٹس انگریزی میں دریافت ہوئے جنھیں اقبال نے Stray Reflections کے نام سے لکھ رکھا تھا۔ اقبال سے پہلے رابندر ناتھ ٹیگور نے بھی اس طرح کے مختلف نوٹس لکھے تھے جو Stray Birds کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔

علامہ اقبال کے 1910ء سے لکھے ہوئے نوٹس Stray Reflections کا اردو ترجمہ ’’شذراتِ فکرِ اقبال‘‘ کے نام سے ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی نے کیا جنھیں دسمبر 1961ء میں لاہور سے اقبال کے فرزند جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال نے شائع کروایا۔ اس کا ایک اور ایڈیشن 1973ء میں بھی لاہور ہی سے شائع ہوا۔ علامہ اقبال کے مذکورہ سوا سو نوٹس کا اردو ترجمہ ہندوستان میں ماہر اقبالیات پروفیسر عبد الحق نے دہلی یونیورسی سے 1975 میں ’’بکھرے خیالات‘‘ کے نام سے شائع کیا۔

Stray Reflections میں علامہ اقبال نے بعض اہم شخصیات پر اپنے تفصیلی جذبات کا اظہار بھی کیا ہے۔ جیسے اورنگ زیب عالم گیر کے تعلق سے متعصب ذہنوں نے جب منفی خیالات کا اظہار کیا تو اقبال نے اپنی ڈائری میں تفصیلی طور پر اپنے مخلصانہ جذبات و احساسات کا اظہار کرتے ہوئے اور تعصب کی مذمت کرتے ہوئے لکھا تھا: The political genius of Aurangzeb was extremely comprehensive۔۔ ۔  مگر متعصب ذہنیت کا جادو ایسا سر چڑھ کر بولنے لگا کہ پچاس برس تک پورے ہندوستان پر بلا شرکت غیرے کھلے دل و ذہن سے حکومت کرنے والے بادشاہ کے نام پر اسی کی راج دھانی دلی کی یک معمولی شاہراہ (سڑک) کھلنے لگی اور اس کا نام بدلنے کی ذہنیت کام کرنے لگی۔

علامہ اقبال کی ملاقات عالمی شخصیات سے رہی۔ ان کا مطالعہ بے حد وسیع تھا۔ شخصی، قومی و ملی احساسات و جذبات پر اقبال نے اپنی فکر پیش کی۔

علامہ اقبال نے ۹ فروری ۱۹۱۱ کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سٹریچی ہال میں ایک (خطبہ) لکچر The Muslim community- A sociological study (ملت اسلامیہ ایک عمرانی مطالعہ) کے عنوان سے دیا تھا۔ یہ خطبہ بھی ایسے نوٹس پر مشتمل تھا جو اقبال کے ذہن میں پک رہے تھے۔ وہ چند جملے جو اقبال کی ڈائری Stray Reflections میں درج تھے وہ لکچر کا روپ دھار گئے۔

چارلس رابرٹ ڈاروِن (Darwin) (1809-1882) کے مشہور زمانہ کتاب Origin of Species میں اس نے انسان کا بندر کی اولاد ہونے کا نظریۂ ارتقا پیش کیا جس سے اتفاق لازمی نہیں مگر اس نے اک نظریہ یہ بھی پیش کیا تھا جو قابل غور ہے۔

’’زیادہ اہل اور قوی جاندار ہی زندہ رہتا ہے اور کم زور ختم ہو جا تے ہیں‘‘۔ Survival of Fittest کا یہ نظریہ بھی قرآن مجید نے رد کر دیا۔ عادو ثمود جیسے طاقت ور افراد قوم اپنی طاقت و صلابت کے بل بوتے پر گھمنڈ نہ کر سکے۔ ملیا میٹ کر دیئے گئے۔ البتہ اقبال نے ڈارون کے اس نظریہ کے حوالے سے اپنی قوم کو کم زوری کے بجائے طاقت کی ترغیب دی۔ اپنی ڈائری میں اقبال نے لکھا:

’’ایک علیل (بیمار) معاشرتی عضویہ اپنے اندر ایسی قوتوں کو مجتمع کر لیتا ہے جو اس کی صحت کی حفاظت کا رجحان رکھتی ہیں۔ مثلاً ایک عظیم شخصیت پیدا ہوتی ہے جو ایک نصب العین کے انکشاف سے قریب المرگ عضو یے کو نئی توانائی بخشتی ہے‘‘۔

(شذرات فکر اقبال۔ مترجمہ ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی صفحہ 35، دسمبر 1973 لاہور) یہ قدرتی نظام ہے کہ بدن میں بھی دفاعی صلاحیت خود بخود پیدا ہو جاتی ہے۔

علامہ اقبال نے مشرق و مغرب کے تمام مفکرین سے استفادہ کرتے ہوئے ان کی فراست کی بات کو مومن کا کھویا ہوا خزانہ سمجھ کر قبول کیا اور ان کے غلط نظریے کو اقبال نے رد بھی کیا ہے۔ واضح رہے کہ ردو قبول کا یہ اختیار اقبال ہی تک محدود نہیں۔ ہر صاحب فہم و ادراک کو یہی روش اختیار کرنی چاہئیے بھلے ہی اس کی زد میں خود اقبال ہی کیوں نہ آتے ہوں۔

نطشے (Nietsche) (1844-1900) مشہور جرمن فلسفی جو مذہب کا سخت مخالف تھا بلکہ اخلاقیات کو بھی وہ نا پسند کرتا تھا کہ اخلاقیات بھی مذہب ہی کی زائدہ ہوتی ہے۔ اس کے نظر یے کے مطابق انسان ارتقاء کی منازل طے کر کے فوق البشر Superman ہو جاتا ہے۔ اسی کے لیے اقبال نے کہا تھا:

اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں

تو اقبال اس کو سمجھاتا مقامِ کبریا کیا ہے

اس کے باوجود علامہ اقبال نے نطشے کے نظریۂ ارتقا سے استفادہ کرتے ہوئے ہی تو یہ کہا:

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

نطشے کا نظریہ ہے:

’’لوگوں کی بقا کا دار و مدار نئی اقدار کی مسلسل تخلیق پر ہے۔ اشیاء یقیناً تخلیق ربانی ہیں مگر ان کے معانی تمام تر انسانی ہیں‘‘

اس نظریہ کو بنیاد بنا کر اقبال نے اپنی ڈائری میں لکھا:

’’خدا نے اشیاء تخلیق کیں، اور انسان نے اشیاء کی اقدار‘‘(Values)

اسی سے ملتا جلتا خیال برگساں کا ہے کہ ’’قدرت کی صناعی پر انسانی کاری گری اک حسن اضافی ہے‘‘

علامہ اقبال نے اس نظریے کو بڑے سلیقے سے شعری روپ دیا۔ دیکھیے کیسے چراغ سے چراغ جلتا ہے۔

تو شب آفریدی، چراغ آفریدم

سفال آفریدی، ایاغ آفریدم

بیابان و کہسار و راغ آفریدی

خیابان و گلزار و باغ آفریدم

من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم

من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم

لالۂ طور (پیام مشرق) کے ایک قطعے میں بھی یہی خیال اک الگ انداز میں آیا ہے:

نوائے عشق را ساز است آدم

کشاید راز و خود راز است آدم

جہاں او آفرید، ایں خوب ترساخت

مگر با ایزد انباز است آدم

رؤف خیر نے اس کا ترجمہ جو یوں کیا ہے تو اقبال کے منشا کی ترجمانی کرنے کی کوشش کی ہے:

ہے خود ہی ساز، سُر سنگھار آدم

ہے خود ہی راز، خود اظہار آدم

کرے تخلیق پر حسن اضافی

ہے خالق کا شریکِ کار آدم

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں علامہ اقبال نے ملت اسلامیہ کے تعلق سے جو لکچر دیا تھا اس کا بنیادی نکتہ اقبال کی ڈائری Stray Reflections میں یوں درج ہے:

’’قومیت کا تصور یقیناً قوموں کی نشو و نما میں ایک صحت مند عامل (Healthy Factor) کی حیثیت رکھتا ہے لیکن جذبۂ قومیت مائل بہ افراط ہوتا ہے اور جب یہ حد سے متجاوز ہو جاتا ہے تو اس میں فن اور ادب کے وسیع تر انسانی مقاصد کو ختم کر دینے کا رجحان پیدا ہو جاتا ہے۔‘‘

اقبال کی ڈائری کا یہ نوٹ ایک سو سال پہلے کا لکھا ہوا ہونے کے باوجود آج کے حالات پر صادق آتا ہے۔ آج یہ جذبۂ قومیت اس حد تک مائل بہ افراط اور حد سے متجاوز ہو چکا ہے۔ فن اور ادب کے وسیع تر انسانی مقاصد کو ختم کر دینے کا رجحان یہاں تک پیدا ہو چکا ہے کہ بڑی سے بڑی عدالت کے فیصلے کے اثر انداز ہونے کا امکان کم کم ہی دکھائی دیتا ہے۔

’’نیا شوالہ‘‘ لکھنے والے شاعر اقبال نے مذکورہ لکچر میں کو کہا تھا:

’’میرے نزدیک حب الوطنی کا جذبہ جسے تصور قومیت ابھارتا ہے، اک طرح سے مادیت پرستی ہی ہے جو اسلام کی روح کے بالکل منافی ہے کیوں کہ اسلام بت پرستی کی تمام لطیف و کثیف اقسام کے خلاف ایک احتجاج کے طور پر نمودار ہوا ہے۔‘‘

اقبال کی ڈائری Strays Reflections (بہ حوالۂ شذرات اقبال صفحہ 83) میں ہے:

’’اسلام کا ظہور بت پرستی کے خلاف ایک احتجاج کی حیثیت رکھتا ہے۔ وطن پرستی بھی بت پرستی کی ایک نازک صورت ہے۔ مختلف قوموں کے وطنی ترانے میرے اس دعوے کا ثبوت ہیں کہ وطن پرستی ایک مادی شئے کی پرستش سے عبارت ہے۔ اسلام کسی صورت مں بت پرستی کو گوارا نہیں کر سکتا۔‘‘

اقبال نے اسی خیال کو بعد میں اس شعر میں پیش کیا تھا

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے

جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے

وطن پرستی عصبیت کو جنم دیتی ہے اور عصبیت پر اظہار خیال کرے ہوئے اقبال اپنے لکچر میں کہتے ہیں:

’’عصبیت کا سادہ مفہوم کسی کا اپنی قومیت کا شدید احساس رکھنا ہے مگر دوسری اقوام کے خلاف نفرت کے جذبات رکھنا اس کے مفہوم میں شامل نہیں ہے‘‘

ایک سیکولر Secular ملک میں یہی تو ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کے جذبات و احساسات و مذہب کا احترام کیا جائے۔ پُر امن معاشرہ (سماج) تبھی و جود میں آتا ہے۔ ہر شخص کو ہوا میں مُکّا لہرانے کا حق حاصل ہے مگر وہیں تک جہاں سے دوسرے کی ناک نہ شروع ہوتی ہو۔

علامہ اقبال نے تہذیب اور مذہب میں فرق پر گفتگو کر تے ہوئے دو ٹوک انداز میں کہا کہ اگر کسی انگریز یا فرانسیسی کے مذہب کے بارے میں کوئی ریمارک کریں تو وہ اتنا بر افروختہ نہیں ہوتا۔ اتنا برا نہیں مانتا مگر جیسے ہی اس کے تہذیب و تمدن پر حملہ ہو گا وہ مرنے مارنے پر تل جائے گا۔ وہ اپنی تہذیب اپنے تمدن کو جان سے عزیز رکھتا ہے۔ اس کے بر خلاف مسلمان وہ چاہے دنیا کے کسی کونے میں ہو، قرآن و سنت کے خلاف ایک لفظ بھی سننا نہیں چاہتا۔ وہ تہذیب و تمدن کو اپنے مذہب پر فوقیت ہی نہیں دیتا۔ ہر علاقے کی تہذیب و تمدن الگ الگ ہو سکتی ہے لیکن ہر علاقے کا اسلام تو ایک ہی ہو گا۔ بقول اقبال

بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے

اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے

اس سلسلے میں اقبال نے اپنے مذکورہ لکچر میں یہ بھی صراحت کے ساتھ کہا:

’’اسلام ہمارے لیے یہی نہیں کہ وہ ایک مذہب ہے بلکہ اس سے بڑھ کر اہم ہے۔ اس کا خاص قومی مفہوم ہے۔ اس لیے اسلامی اصول سے پوری طرح با خبر ہوئے بغیر ہماری قومی زندگی ناقابل تصور ہے۔ مجھے کہنے دیجئے کہ نظریۂ اسلام ہمارا ابدی گھر یا وطن ہے جس میں ہم رہتے ہیں، چلتے پھرتے ہیں اور اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ ہر دوسری چیز سے ایسے ہی برتر ہے جیسے انگریزوں کے لیے انگلستان، جرمنوں کے لیے جرمنی۔ جس لمحے نظریۂ اسلام پر ہماری گرفت ڈھیلی پڑی، ہماری قوم کا شیرازہ بکھر گیا۔‘‘(خطبات اقبال۔ ترجمہ و حواشی محمد جہانگیر عالم۔ دائرہ معارف اقبال، فیصل آباد نومبر 2001)

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقبال کے اس واضح نظریۂ اسلام اور قومی تصور پر کیا وہ ملک کار بند ہے جو اسی نظر یے کی بنیاد پر وجود میں آیا؟ ویسے اقبال نے ہر اس مقام کو ابدی گھر یا وطن قرار دیا ہے جہاں نظریۂ اسلام پر کار بند قوم کا بسیرا ہے۔ اور جیسے ہی نظریۂ اسلام سے تعلق میں کمی آتی ہے قوم کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ گویا نظریۂ اسلام اور قومیت لازم و ملزوم ہیں۔

علامہ اقبال نے اپنے مذکورہ لکچر میں بہت ہی صاف الفاظ میں دو ٹوک انداز میں کہہ دیا:

’’ ملت اسلامیہ کا ایک فعال رکن بننے کے لیے فرد کو مذہبی اصولوں پر غیر مشروط ایمان لانے کے ساتھ ساتھ اسلامی تمدن میں جذب ہو جانا چاہئیے۔‘‘ (خطبات اقبال۔ جہانگیر عالم )

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

علامہ اقبال نے اپنی ڈائری میں اورنگ زیب عالم گیر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’اورنگ زیب عالم گیر (1618-1707) اپنے وقت کا عظیم ترین بادشاہ تھا۔ ذاتی اوصاف کے اعتبار سے اس کا کردار مثالی تھا۔ وہ اسلام کا شیدائی تھا اور اس کی زندگی اتباع و ترویج شریعت کی ایک روشن مثال ہے۔ اس نے شریعت کے احکام کے مطابق اپنا نظام حکومت ترتیب دیا اور اس کی پوری پوری پیروی بھی کی۔ اُسے ہندوستان میں مسلم قومیت کا بانی قرار دینا چاہئیے۔ مجھے یقین ہے کہ آئندہ نسلیں میرے اس قول کی صداقت کو تسلیم کریں گی۔‘‘ (شذرات فکر اقبال صفحہ 99)

افسوس کی بات یہ ہے کہ نئی نسلوں کے ذہن میں اس قدر تعصب بھر دیا گیا ہے کہ وہ اورنگ زیب عالم گیر کے تعلق سے منفی سوچ رکھتی ہیں۔ نہ صرف غیر مسلم (ہندو، سکھ، انگریز ) بلکہ مسلمانوں ہی کے بعض فرقے اس کے حقانیت اور شریعت پسندی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔

زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا

اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں

علامہ اقبال نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں لکچر دیتے ہوئے بھی اورنگ زیب عالم گیر کے دفاع میں کہا:

’’جن لوگوں کا عالم گیر کے بارے میں علم۔ تاریخ ہند کے مغربی شارحین تک محدود ہے، وہ عالم گیر کا نام ہر قسم کے ظلم و جبر، تعصب، غداری اور سیاسی سازشوں کے ساتھ وابستہ کرتے ہیں۔۔ ۔  مثالی کردار کا وہ نمونہ جس کی جھلک عالم گیر میں نظر آتی ہے، میری رائے میں حقیقی مسلم سیرت و کردار کا نمونہ ہے۔‘‘

(خطبات اقبال۔ مرتبہ محمد جہانگیر عالم )

جادو ناتھ سرکار کی متعصبانہ تاریخ نے بھی اورنگ زیب عالم گیر کے کردار کو مسخ کر کے پیش کیا ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نہ صرف سر سید احمد خان کے خوابوں کی تعبیر بن کر ابھری بلکہ پوری قوم کی نیک توقعات اس سے وابستہ رہیں۔ اقبال نے یہاں اپنے لکچر میں صاف صاف فرمایا:

’’جدید مسلم نوجوان میں جس قسم کے کردار کا نمونہ ہم نے پیدا کیا ہے اس کی ذہنی زندگی میں اسلامی تمدن کا کوئی پس منظر نہیں۔ اس کے بغیر میری رائے میں وہ صرف نیم مسلمان بلکہ اس سے بھی کچھ کم ہے اور وہ بھی اس صورت میں کہ اس کو دی گئی دنیاوی تعلیم نے اس کے مذہبی عقیدے کو متزلزل نہ کر دیا ہو۔ میں ڈرتا ہوں برملا کہنے سے کہ اسے مغرب کے اطوار فکر میں خطرناک حد تک رچ بس جانے اور مغربی ادب کے مستقل مطالعہ کی اجازت نے اور اپنی قوم کے اجتماعی تجربوں کے مطالعے سے کلی غفلت نے اس کی ذہنی زندگی کو یکسر نا مسلمان بنا دیا ہے۔ میں بلا خوف تردید کہتا ہوں کہ کسی قوم نے بھی ہماری قوم سے اعلیٰ سیرت و کردار کے نمونے پیش نہیں کیے لیکن ہمارا نوجوان جو کہ اپنی قوم کی تاریخ حیات سے مایوس کُن حد تک ناواقف ہے اسے رہنمائی اور توصیف کے لیے مغربی تاریخ کی عظیم شخصیات کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ ذہنی اعتبار سے وہ مغرب کا غلام ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کی روح صحت مند خودی سے عاری ہے جو اپنی قوم کی تاریخ اور ادبیات عالیہ کے مطالعے سے پیدا ہوتی ہے۔۔ ‘‘(خطبات اقبال۔ مرتبہ محمد جہانگیر عالم، صفحہ 34)

اقبال نے مشرق و مغرب کی شخصیات کے فکر و فلسفہ سے استفادہ ضرور کیا مگر ان کی ذہنی غلامی کبھی قبول نہیں کی بلکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ ان کی فکر کی لکیر کے بالمقابل بڑی لکیر کھینچ کر دکھا دی۔

یہاں اقبال کی ڈائری  Stray Reflectionsکے چند اندراجات کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے جن کی بنیاد پر اقبال نے ملت اسلامیہ کی رہنمائی کے لیے بعض لکچر بھی دیئے ہیں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے