دو نظمیں ۔۔۔ مصحف اقبال توصیفی

 

میں نے اس کو غور سے دیکھا

 

ہم دونوں نے

مٹی کھودی

نیچے دیکھا۔  ہاتھ اُٹھائے

ہاتھوں میں۔  یہ کیا

مٹی کے نیچے بھی مٹی تھی

 

دھول میں سر سے پاؤں تک ایسے

ہم دونوں اَٹے ہوئے تھے

لیکن اس کی آنکھوں میں

میں نے ایک چمک دیکھی

اس کے گرد اک نور کا ہالہ

اس کا سارا سراپا …

 

لیکن۔

یہ کیا

وہ مٹی۔

میرے ہاتھ میں مٹی

اس کے ہاتھ میں سونا تھی …

٭٭٭

 

 

 

 

انسان

 

اک سیّارہ دنیا کا

ایک غبارہ۔  اک تابع سیارہ

میری سانسوں کا

 

گھوم گھوم کر سارے آکاش کو دیکھیں

ہم دو سیّارے

(جب سے میں نے آنکھیں کھولیں)

لیکن ڈر لگتا ہے

جانے کب اپنے محور سے ہٹ جائیں

ٹکرائیں

 

آخر وہ دن آئے گا

جب میرے جسم کا رشتہ میری سانسوں سے کٹ جائے گا

جب یہ غبارہ پھٹ جائے گا

پھر کوئی مجھ جیسا دھرتی آکاش، سمان کہاں ہو گا

 

پھر میرا نام نشان کہاں ہو گا

پھر کوئی تجھ سا مہان کہاں ہو گا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے