درد کہاں جاتے ہیں مائے؟ ۔۔۔ ثاقب ندیم

خبر سنی تو دل میں آنے والا پہلا خیال افتخار بخاری صاحب کا یہ مصرعہ تھا۔

درد کا احساس ہی نہیں ہو رہا بس ایک چپ سی لگ گئی ہے۔ سوال جنم لے رہے ہیں، وہ محبت جو کہیں سوئی رہتی تھی، جاگ اٹھی ہے پوری آنکھیں کھول کے۔ ہم بات کرتے تھے کانوں میں کوئی گمبھیر آواز آتی تھی، کانوں کو اچھا لگتا تھا، ہمیشہ نظم پہ بات ہوتی تھی۔ لیکن تقریباً سات آٹھ ماہ پہلے ایک دن ڈاکٹر ابرار نے اپنے کچھ ٹیسٹ بھیجے اور اپنی بیماری کے بارے میں گفتگو کی۔

پورٹل وین میں تھرمبس آ گیا ہے۔

دل کانپ گیا کہ اس بیماری کی خوفناکی اپنی جگہ تھی۔ ابرار کو بھی معلوم تھا، ہمیں پروگناسس پہ بات کرتے ڈر لگتا رہا۔ وقت گزر گیا، خامشی کے ایک لمبے وقفے نے بے چین کیا تو میں نے ڈاکٹر ابرار کو میسج کیا

کیا حال ہے آپ کا؟

کوئی جواب نہیں آیا۔

میرا ڈر متشکل ہو کر میرے سامنے کھڑا ہو گیا میں نے ایک کمزور دھکے کے ساتھ اسے دور دھکیلنے کی کوشش کی کہ ایک روز ادریس بابر کا میسنجر میں پیغام آ گیا۔

ڈاکٹر ابرار شیخ زید یسپتال میں داخل ہیں۔

میرے حوصلے کی طنابیں کمزور پڑ گئیں اور میں معجزے کا انتظار کرنے لگا بغیر یہ سوچے کہ معجزے اب نہیں ہوا کرتے۔ صرف خبریں آتی ہیں اور کل خبر آ گئی کہ نظم کا مقدمہ لڑنے والا زندگی سے ہار گیا۔

جاؤ پیارے آرام کرو۔۔ ۔  ہم بھی آتے ہیں کسی پل۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے