اسلم کولسری سے ’’تھڑے ‘‘ پر چند ملاقاتیں ۔۔۔ اجمل جامی

 

کچھ نام بھی شاید تھا اس کا یاد آیا اسلم کولسری!

سلگنا، مسکرانا، شعر کہنا اور راکھ ہونا؛ آباد نگر کا اجڑا شاعر اسلم کولسری، بس! کچھ ایسا ہی تھا۔ طبعاً سلگتے اور عادتاًمسکراتے درویش شاعر سے غائبانہ ملاقات ان دو اشعار کی وجہ سے ہمیشہ رہی:

یعنی ترتیبِ کرم کا بھی سلیقہ تھا اسے

اس نے پتھر بھی اٹھایا مجھے پاگل کر کے

اور یہ کہ:

آباد نگر میں رہتا تھا اور اجڑی غزلیں کہتا تھا

کچھ نام بھی شاید تھا اس کا یاد آیا اسلم کولسری

ابھی کل ہی کی تو بات ہے ایک شخص لائٹ براون شلوار قمیض پر ڈارک براون جرسی پہنے، کاندھوں پر کریم کلرکی چادر اوڑھے، بغل میں چند کتب اور رسائل دبائے، سگریٹ سلگائے من موجی دبے قدموں دنیا ٹی وی کی داہنی دیوار کے ساتھ واقع چائے والے کی جانب بڑھ رہا تھا، دور سے دیکھا تو بے ساختہ کہہ اٹھا: یہ تو اسلم کولسری ہیں ! فوراً ان کی جانب لپکا۔ قریب جا کر قدرے گھبراہٹ کے عالم میں پوچھا: آپ اسلم کولسری ہیں ؟ کہا : جی ہاں ! ساتھ ہی ان کے چہرے پر ایک عاجزانہ مسکراہٹ بکھر گئی۔ خیال تھا کہ عمومی شعرا کی مانند طبعاً بیزار، نرگسیت زدہ، اکھڑ اور خود کو غالب ثانی سمجھتے ہوں گے۔ لیکن جب گزارش کی کہ کیا میں آپ کیساتھ چائے پی سکتا ہوں ؟ تو سوٹ اور ٹائی میں ملبوس دیکھ کر بولے : دیکھ لیں آپ یہاں ‘تھڑے ‘ پر چائے پی لیں گے ؟ عرض کیا ملنگ یہیں پائے جاتے ہیں اور اکثر پائے جاتے ہیں، ملاقات رہی تو خود ہی دیکھ لیجئے گا۔ یہ سنتے ہی انہوں نے کیپٹن کی ڈبی آگے بڑھائی اور تمباکو سلگانے میں پہل کی دعوت دی۔ اور یوں ہمیں ان کی کم از کم دو سال تک میسر رہنے والی بے مثل اور انوپ صحبت نصیب ہوئی۔ ٹھیک آدھ گھنٹے بعد کہا: برا نہ مانیں تو اب اجازت چاہتا ہوں، آفس ٹائم شروع ہوا چاہتا ہے، پھر ملاقات ہو گی۔ خیال گزرا کیسے شاعر ہیں کہ آفس ٹائم کی اس قدر پرواہ؟

اگلے روز اْسی وقت اْسی تھڑے پر دوبارہ ملاقات ہوئی تو سوچا آج کیوں نہ کلام بہ زبان شاعر سن لیا جائے۔ اشتیاق دیکھ کر کہنے لگے، کل آپ کی خدمت میں دو کتابیں پیش کر دیں گے۔ حیرت کی انتہا نہ رہی جب دو روز بعد نیوز روم سے معلوم ہوا کہ اسلم کولسری صاحب ہمیں ڈھونڈتے رہے، اسی انداز میں بغل میں دو مجموعے دبائے مسلسل دو روز وہ نیوز روم کے دوستوں سے ہمارا پوچھتے رہے۔ بدقسمتی سے نجی مصروفیت کے باعث اچانک اسلام آباد جانا پڑ گیا تھا، واپسی پر معلوم ہوا کہ کولسری صاحب یاد فرما رہے تھے۔ چائے پر ملاقات ہوئی تو پوچھا: آپ فون ہی کر لیتے ؟ سادگی سے بولے : بھائی آپ کا نمبر نہیں تھا۔ دوبارہ عرض کیا کہ سر آپ نیوز روم سے لے لیتے۔ فرمایا: ہاں ! یہ خیال اچھا ہے، لیکن مسلسل دو روز یہ خیال عطا نہ ہوا۔ ‘نخل جاں ‘اور ‘ویرانہ’ تھماتے ہوئے کہا انہیں ضرور پڑھیئے گا۔

میرے پسندیدہ شاعروں میں سے ایک تھے !انہیں پڑھ رکھا تھا۔ ‘ویرانہ’ پڑھنے کے بعد عرض کی کہ حضور! اس قدر اعلی شاعری، منفرد انداز، غزل میں سرْ اور سنگیت کی چاشنی اور پھر بھی اتنے ‘لو پروفائل’ کیوں ؟ کبھی من نہیں کیا کہ آپ بھی نمایاں ہوں ؟ قدرے توقف کیساتھ بولے :

من کی مانگ ہی کیا تھی مولا

پیتم، پیڑ، پرندے، پانی

اوکاڑہ کے قریب ‘کولسر’ گاوں میں سن چھیالیس میں پیدا ہوئے، یہ گاوں بعد میں اوکاڑہ کینٹ میں ضم ہو گیا، لہذا اہل خانہ بعد میں کینٹ کیساتھ واقع گیمبر نامی قصبے میں آباد ہوئے۔ لاہور آئے تو ایم اے اردو کیساتھ ساتھ فیکٹریوں میں محنت مزدوری بھی کرتے رہے جس کا اظہار انہوں نے ایک نوحے میں کچھ یوں کر رکھا ہے :

بنسری توڑ دی گڈرئیے نے

اور چپکے سے شہر میں جا کر

کارخانے میں نوکری کر لی

یہی نہیں ایک اور جگہ اسی مدعے کو کچھ یوں بیان کیا:

اسلم بڑے وقار سے ڈگری وصول کی

اور اس کے بعد شہر میں خوانچہ لگا لیا

اردو سائنس بورڈ کیساتھ بیس سال وابستہ رہے، ریڈیو پاکستان کی لئے بطور براڈ کاسٹر خدمات سر انجام دیں اور ایک ڈرامہ سیریل ‘ہر فن مولا’ میں ایکٹنگ بھی کی۔ ایک بار پوچھا کہ شاعری کے علاوہ کیا کرتے رہے ہیں ؟ فرمایا: شاعری تو کبھی نہیں !بس:

درس و تدریس، عشق، مزدوری

جو بھی مل جائے کام کرتا ہوں

سگریٹ کا لمبا کش کھینچتے ہوئے بولے : اگلا شعر بھی سنو:!

جستجو ہی مرا اثاثہ ہے

جا! اسے تیرے نام کرتا ہوں

پوچھا تو پھر یہ نو دس کتابیں کس نے لکھیں ؟ کہنے لگے :یہ شاعری تو بس خود ہی ہو جاتی ہے، عنایت ہے، عطا ہے، کبھی زور نہیں لگانا پڑا۔

ہنس مکھ تھے، ملنسار بھی ! کشادہ دل، گہری آنکھیں اور مسلسل کسی سوچ میں مبتلا رہنا ان کی فطرت ثانیہ تھی :

مسکراتا ہوں عادتاً اسلم

کون سمجھے مرا غمیں رہنا

کئی ماہ سے علیل تھے، دل تو بجھا بجھا رہتا ہی تھا، سانس لینے کے لئے پھیپھڑوں نے بھی وفا نہ کی، اعصاب بھی مجذوب سے ہو گئے تھے، شدید تکلیف میں رہے۔ چند ایک قریبی رفقا کے علاوہ کسی کو علم نہ تھا۔ اور پھر خاموشی سے چل دئیے، اتنی خاموشی سے کہ کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہونے دی۔ اہل خانہ کو بھی تاکید کر رکھی تھی کہ خبر عام نہ ہو۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی رخصتی کے چار دن بعد انہی کے نمبر سے ‘میسیج’ وصول ہوا کہ اسلم کولسری صاحب وفات پا گئے ہیں۔ انہی کے نمبر سے انہی کی وفات کی اطلاع ! چند لمحوں کے لئے جیسے سکتہ طاری ہو گیا ہو۔ دلاسے کی نیت سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا بیٹے نے اطلاعاً عزیز و اقارب کو ‘مسیج’ فاروڈ کیا ہے۔ دو بچیاں، ایک بیٹا اور بیوہ پسماندگان میں چھوڑے ہیں۔ تینوں بچے ابھی زیر تعلیم ہیں۔ یہاں صدر کینٹ کے قریب رہائش تھی۔ ساٹھ کے بعد عموماً بزرگ ریٹائرمنٹ کی گزارتے ہیں لیکن کولسری صاحب سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لیے روزنامہ دنیا کے ساتھ وابستہ تھے۔ جناب ہارون الرشید اور برادرم عمار چوہدری کے علاوہ کسی اور لکھاری کو توفیق نہ ہوئی کہ ایک درویش صفت، منفرد اور بے مثال شاعر پر ایک کالم ہی لکھ ڈالتے کہ شاید کچھ مزید دنیا دار ایک درویش سے آشنا ہو جاتے۔

شہر والوں سے تو شکوہ رہے گا ہی لیکن کولسری صاحب! آپ سے بھی شکوہ ہے۔ یعنی ایسی بھی کیا خاموشی کہ آپ کے عشاق مسلسل صدمے میں ہیں۔ چائے کے کپ پر آپ سے ہوئی ملاقاتوں کی یادیں ہیں، کچھ بے ربط خیالات ہیں آپ کی عنایت کردہ کتب ہیں اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر جیسے فل سٹاپ سا لگ گیا ہو۔ آپ سے اتنا شکوہ تو بنتا ہے ناں کہ ایسی بھی کیا خاموشی؟

پھر آج چاند کہیں چھپ گیا، مگر اب کے

وہ چاند میں جو کوئی چاند سا تھا، وہ بھی گیا

آپ نے تو اظہار بھی خوب کیا، لیکن ہمیں تو یہ ہنر بھی دستیاب نہیں :

بکھرے بکھرے بال اور صورت کھوئی کھوئی

من گھائل کرتی ہیں آنکھیں روئی روئی

آئیے مل کر کچھ منتخب اشعار میں انہیں ڈھونڈتے ہیں۔ مجھے یقین ہے پڑھنے والوں کو یقیناًً ان سے آدھی ملاقات کا شرف تو ضرور حاصل ہو گا۔

میں نے اپنے سارے آنسو بخش دئیے

بچے نے تو ایک ہی پیسہ مانگا تھا

شہر میں آ کر پڑھنے والے بھول گئے

کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا

***

زخم سہے، مزدوری کی

سانس کہانی پوری کی

جذبے کی ہر کونپل کو

آگ لگی مجبوری کی

***

جیسے کوئی کم کم ہو، شاید وہی اسلآ ہو

اس راہ سے گزرا ہے اک ہجر کا مارا سا

***

اور تھوڑا سا زہر دے دیجئے

اور تھوڑا سا جی اٹھوں شاید

***

چند چھلکوں اور اک بوڑھی بھکارن کے سوا

ریل گاڑی آخری منزل پر خالی ہو گئی

***

ایک باسی نان کے ٹکڑے پہ آخر بک گئی

سانولی مالن کے تازہ پھول بکتے ہی نہ تھے

***

لاش کے پہلو سے چوری ہو گئے

ایک ٹوٹی سائیکل خالی ٹفن

***

دیوانی سی دیوانی ہے اندھی بڑھیا

زخمی ہاتھ سے کار کا شیشہ صاف کیا ہے

***

اہل دانش نے جہاں خار بچھائے دن بھر

شام کے بعد وہیں رقص ہے دیوانے کا

***

ہر دم بولو، شکر ہے مولا

شکر ہے مولا مل جاتا ہے

***

ہنوز سینے کی چھوٹی سی قبر خالی ہے

اگرچہ اس میں جنازے کئی اتارے ہیں

***

خوابیدہ ہیں اس میں کئی عیار درندے

بہتر ہے کہ جل جائے یہ جذبات کا جنگل

کچھ اور مسائل مری جانب ہوئے مائل

کچھ اور ہرا ہو گیا حالات کا جنگل

***

کانٹے سے بھی نچوڑ لی غیروں نے بوئے گل

یاروں نے بوئے گل سے بھی کانٹا بنا لیا

***

خوامخواہ کا مشیر مر جائے

کاش میرا ضمیر مر جائے

قتلِ احساس یاد آتا ہے

جب بھی کوئی فقیر مر جائے

***

شہر سے ایک درویش رخصت ہوا ہے۔ شہر والوں کو بھلا کیسے خبر ہوتی۔

٭٭

ماخذ:

http://dailypakistan.com.pk/columns/14-Nov-2016/477238

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے