حسن دیرینہ روایات کا پتلا پھونکا
اس نے آتے ہی مساوات کا پتلا پھونکا
گاؤں کی سادہ مزاجی کی خبر لی نہ گئی
شہر کیا آ گئے، دیہات کا پتلا پھونکا
غم آفاق کی ورنہ نہ خبر ہوتی کبھی
یوں مرے دل نے غم ذات کا پتلا پھونکا
جانے کس بات پہ موسم سے خفا تھی دھرتی
عین ساون میں ہی برسات کا پتلا پھونکا
غور سے اس نے سنی سب کی شکایت دن بھر
شام کو ساری شکایات کا پتلا پھونکا
دن کی بدحالی سے لڑتے رہے دن بھر آزرؔ
رات کے آتے ہی پھر رات کا پتلا پھونکا
٭٭٭