غزلیں ۔۔۔ اسلم عمادی

بر سرِ عام ترے عشق کا دعوی کر کے۔۔!

ہم بڑے چین سے ہیں سب سے کنارا کر کے

 

آنکھیں چندھیا گئیں، گم ہو گئے احساس و حواس

اس نے لوٹا ہمیں جلووں سے اجالا کر کے

 

رات دن بن گئی، کیا جان جہاں ہے اپنا؟

زیست کی سمت بدل ڈالی اشارہ کر کے

 

یہی پتھر جو سر راہ پڑا تھا، کب سے

تو نے چمکا دیا اس کو بھی ستارہ کر کے

 

نہ شناسا کوئی اپنا، نہ کو ئی قدر شناس

ہم چلے کوچہ سے بے لطف گذارہ کر کے

 

وہی جو خفتہ سا جذبہ تھا ہمارے دل میں

کر دیا شوق نے یک لخت شرارہ کر کے

 

سچ ہے اسلم کہ یہ دنیا بھی ہے اک کرتب گھر

ہم چلے جائیں گے کچھ روز تماشا کر کے

٭٭٭

 

 

نہ جانے کیا ہوا، قابو میں اب مزاج نہیں

مری اداسی کا یوں بھی کوئی علاج نہیں

 

عجب یہ ہے کہ کیا میں نے اعتبار ترا

یہاں خلوص و وفا کا کوئی رواج نہیں

 

سوائے دید نہیں کوئی آرزو میری

سوائے عشق مرا کوئی کام کاج نہیں

 

دیارِ فکر کے حالات ہیں دگر گوں اب

یہ خطہ وہ ہے کہ جس پر کسی کا راج نہیں

 

بہت سے رنگ ہوئے غرق اس سیاہی میں

کہ روشنی کا اندھیرے سے امتزاج نہیں

 

یہ سوچتا ہوں، جو دل میں ہے اس سے کہہ ڈالوں

پہ وسوسہ یہ سکھا تا ہے، چھوڑو آج نہیں

 

مروتاٌ وہ ملا ہو گا، مجھ سے بھی اسلم

یہ اتفاق کوئی وجہِ ابتہاج نہیں!!

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے