غزلیں ۔۔۔ عرفان ستار

محترم جلیل عالی صاحب کی زمین میں۔

 

یہی تنہائی کر سکتی ہے غم خواری ہماری

جو یوں چپ چاپ سہہ لیتی ہے بے زاری ہماری

 

تمہارے فیصلے، فتوے یہاں لاگو نہیں ہیں

جنوں کی سلطنت میں ہے عمل داری ہماری

 

ہماری کامیابی ہی ہمارا مسئلہ ہے

سمجھ میں کس کی آئے گی یہ دشواری ہماری

 

یہ کیسے دورِ بد ذوقی میں ہم نغمہ سرا ہیں

کوئی کرتا نہیں ہے ناز برداری ہماری

 

ابد تک سوئیں گے اس کو سزا دینے کی خاطر

تمہارے خواب کی دشمن ہے بیداری ہماری

 

طبیبانِ کرام آئے ہیں تو دیں گے دوا بھی

سمجھ میں جوں ہی آ جائے گی بیماری ہماری

 

کسی محفل میں ہم کو غم زدہ دیکھا ہے تم نے؟

تمہیں حیراں تو کرتی ہو گی عیاری ہماری

 

ذرا سی گفتگو میں لوگ کھل جاتے ہیں ہم پر

کسی کا بھی نہ چھوڑے گی سمجھ داری ہماری

 

کسی کا قرض ہم پر ہو تو جلدی سے بتا دے

مکمل ہو چکی ہے ورنہ تیاری ہماری

٭٭٭

 

 

 

یا ملاقات کے امکان سے باہر ہو جا

یا کسی دن مری فرصت کو میسّر ہو جا

 

تجھ کو معلوم نہیں ہے مری خواہش کیا ہے

مجھ پہ احسان نہ کر اور سبک سر ہو جا

 

ارتقا کیا تری قسمت میں نہیں لکھا ہے؟

اب تمنّا سے گزر میرا مقدّر ہو جا

 

بے حسی گر تری فطرت ہے تو ایسا کبھی کر

اپنے حق میں بھی کسی روز تُو پتھر ہو جا

 

اس سے پہلے تو غزل بھی تھی گریزاں مجھ سے

حالتِ دل تُو ذرا اور بھی ابتر ہو جا

 

میں جہاں پاؤں رکھوں واں سے بگولا اُٹھّے

ریگِ صحرا مری وحشت کے برابر ہو جا

 

اے مرے حرفِ سخن تُو مجھے حیراں کر دے

تُو کسی دن مری امید سے بڑھ کر ہو جا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے