(ہندی سے، رسم الخط کی تبدیلی اور برائے نام ترجمہ: اعجاز عبید)
سنو کاریگر
سمندر کے کنارے
اکیلے ناریل کے پیڑ کی طرح ہے
ایک اکیلا آدمی اس شہر میں۔
سمندر کے اوپر اڑتی
ایک اکیلی چڑیا کا حلقوم ہے
ایک اکیلے آدمی کی آواز
کتنی بڑی بڑی عمارتیں ہیں دلی میں
ان گنت جگمگ جہاز
ڈگمگاتے ہیں چاروں سمت رات بھر
کہاں جا رہے ہوں گے ان میں بیٹھے بیوپاری
کتنے جواہرات لدے ہوں گے ان جہازوں میں
کتنے غلام
اپنی پگھلتی چربی کی تمازت میں
پتواروں پر تھک کر سو گئے ہوں گے۔
اوناسس! اوناسس!
یہاں تمہاری نگری میں
پھر سے ہے ایک اکیلا آدمی۔
٭٭٭