وہ صاحبانِ زر و مال کیا کسی کی نہ تھی
وہ اپنی مرضی سے سب کی تھی یا کسی کی نہ تھی
عجب عروج کی حامل زوال پر مائل
وہ خاکسار سہی، خاکِ پا کسی کی نہ تھی
وہ سائبان یقیناً تھی بے سہاروں کا
مگر وہ مستقلاً مٹھ سرا کسی کی نہ تھی
کمال یہ ہے کہ ہر بوالہوس کو دعویٰ تھا
وہ خوش مزاج تو اس کے سوا کسی کی نہ تھی
سب اپنی اپنی جگہ خوش گمان اُس کے لیے
وہ بدگمان مگر داشتہ کسی کی نہ تھی
یہ جاں نثار بھی خوش وقتیوں کے خو گر ہیں
وہ جانتی تھی کہ وہ تو بھلا کسی کی نہ تھی
سب ایک جوشِ بلا ہوش کے تھے مارے ہوئے
دوا کسی کی نہ تھی، مدعا کسی کی نہ تھی
ہر ایک شخص اُسے ہم نوا سمجھتا تھا
یہ اور بات کہ وہ ہم نوا کسی کی نہ تھی
وہ غیر یوسف و یوسف میں فرق کیا کرتی
کہ دل فریب زلیخا نما کسی کی نہ تھی
وہ اپنی ذات سے تھی بھوک پیاس کا لڈو
وہ جوئبارِ تنک ذائقہ کسی کی نہ تھی
کمال یہ تھا کہ تھی ماورائے عشق و ہوس
وہ نارسا بھی نہ تھی پارسا کسی کی نہ تھی
وہ خیر مقدمِ ہر خوش نظر پہ آمادہ
نڈر کچھ ایسی کہ پروا ذرا کسی کی نہ تھی
یتیم کر گئی کیا کیا گناہ گاروں کو
کہیں یہ کیسے کہ حاجت روا کسی کی نہ تھی
سب اُس کی ذات سے سیراب یوں تو ہوتے تھے
وہ ابتدا ہی سے تا انتہا کسی کی نہ تھی
اُسی کے چاہنے والے خدا کو سونپ آئے
کہ وہ سراپا دعا، بددعا کسی کی نہ تھی
اک ایسی ہستی ہوئی ہے ہر ایک بستی میں
جو دوست سب کی تھی دشمن ذرا کسی کی نہ تھی
٭٭٭