سفید فام جمالیات، اثر و نفوذ کی کس بے مثال طاقت کی حامل ہوتی ہے، اکبر نے اسے شوخی و طنز سے پیش کیا ہے۔ پہلے شعر دیکھیے:
میری نصیحتوں کو سن کر وہ شوخ بولا
نیٹو کی کیا سند ہے، صاحب کہے تو مانوں
کلاسیکی اردو شاعری میں محبوب کو کئی صفاتی ناموں سے پکارا جاتا ہے: بت، کافر، ستم گر، قاتل اور شوخ۔ شوخی و شرارت اس کا شیوہ ہی نہیں، محبت کے اظہار کا ایک قرینہ بھی ہے۔ یہاں تک کہ اس کی حیا میں بھی ایک شوخی ہوتی ہے (ساتھ شوخی کے کچھ حجاب بھی ہے /اس ادا کا کہیں جواب بھی ہے: داغ)۔ اس کے پاس اظہار کے بے شمار قرینے اور اسالیب ہیں۔ شاید ہی کوئی کلاسیکی شاعر ہو، جس نے محبوب کی شوخی پر کوئی مضمون نہ باندھا ہو۔ 1۔ اکبر اس شوخ کی طبیعت میں ایک نئی اور عجب طرح کی شوخی دیکھتے ہیں۔ وہ پہلے عاشق کو سو طرح سے چھیڑا کرتا تھا؛ اپنی شوخیوں سے اس کی بے تابی کو بڑھایا کرتا تھا۔ عاشق کے سامنے رقیب سے اظہار عشق بھی کر لیا تھا، عاشق کو مجبور کرتا تھا کہ وہ اسے ملنے رقیب کی گلی میں پہنچے اور وہ بھی سر کے بل۔
2۔ محبوب کی گلی میں عاشق کا سامنا رقیب اور راستے میں ناصح سے ہوا کرتا تھا۔ اکبر کلاسیکی محبت کے اس ڈرامے میں ایک نئے کردار کو شامل ہوتے دیکھتے ہیں: صاحب۔ ناصح ایک ناپسندیدہ کردار ضرور تھا مگر غیر معتبر نہیں تھا۔ اب صاحب کے آنے سے، وہ اعتبار کے منصب سے معزول ہو گیا ہے۔ معشوق کی نگاہ ناز اس نئی حقیقت کو پا گئی ہے کہ عاشق اور ناصح، اب پہلے جیسے آزاد ہندوستانی نہیں رہے۔ ان کی’ قلب ماہیت‘ ہو گئی ہے۔ ان کی شناخت، کردار اور مرتبہ سب بدل گئے ہیں۔ وہ اب ’نیٹو‘ اور ’سبجیکٹ‘ ہیں۔
نیٹو صرف مقامی شخص نہیں ہے، بلکہ وہ ایک ایسا شخص ہے جو اپنی ہی زمین پر، اپنے ہی لوگوں، اور خود اپنی ذات کے آگے سند و اعتبار سے محروم ہو گیا ہے۔ سند، اب صرف صاحب یعنی گورے کی ہے۔ نیٹو کی ذات، شناخت اور اس کے نجی رشتوں کے لیے صاحب ہی کا کہا سند ہے۔ اکبر نے شوخی سے ضرور کام لیا ہے، مگر یہ انیسویں صدی کے ہندوستانیوں کا عام تجربہ تھا کہ بڑے سیاسی، تعلیمی مسائل سے لے کر نجی رشتوں تک، نیٹو غیر معتبر ہو گیا تھا۔ اس کا درجہ ایک ایسے وحشی، نیم مہذب یا بچے کی مانند تھا جسے یقین دلادیا گیا ہو کہ اس کے ماضی میں جو کچھ ہے، اس پر صرف ندامت ہی ظاہر کی جا سکتی ہے، اور وہ اپنے حال کو بہتر بنانے، اپنے سیاسی و تعلیمی نظام، اور اپنے ادب و آرٹ کے اخلاقی و جمالیات معیارات کا فیصلہ کرنے کی اہلیت سے محروم ہے۔ اس کی بقا گورے صاحب پر مسلسل انحصار میں ہے۔ نیٹو کے اس یقین کے بعد ہی، تہذیب آموزی کی اس تحریک (civilising mission) کو جائز قرار دیا جا سکتا تھا، جس کا مقصد نیٹو کو سدھانا تھا، نیز یورپی تعلیم، یورپی زبان، یورپی ادب اور یورپی آداب کو نیٹو کی روح میں پیوند کرنا تھا۔
اس بات کو کم ہی محسوس کیا گیا ہے کہ ’’نیٹو‘‘ نسل پرستانہ اصطلاح ہے، نہ صرف اپنے عمومی استعمال میں بلکہ اپنے لغوی معانی میں بھی نسل پرستانہ تلازمات کی حامل ہے۔ انگریزی میں لفظ نیٹو، فرانسیسی natif سے آیا ہے جس کے معانی فطری (natural)، پیدائشی(inborn)، وراثتی (hereditary) ہیں۔ فرانسیسی کا natif، لاطینی کے nativus سے ماخوذ ہے۔ اس کا مفہوم خلقی (innate)، اوّل روز سے موجود (produced by birth) ہونا ہے۔ پندرھویں صدی سے نیٹو کا لفظ کسی خاص جگہ پیدا ہونے، دیسی ہونے اور بیرونی (exotic) اور غیر ملکی (foreign) نہ ہونے کے مطالب میں استعمال ہونا شروع ہوا۔ اسی صدی میں، نیٹو کے مفہوم میں پابند ہونا (bound) اور محکومی میں پیدا ہونا(born in servitude or serfdom) شامل ہوئے۔ قدیم فرانسیسی میں naif کا لفظ ملتا ہے جس سے مراد وہ عورت ہے جو پیدائشی کنیز ہو۔
3۔ یہ ایک دل چسپ اتفاق ہے کہ نسل (race) کے مفاہیم میں بھی پیدائشی، خلقی اور وراثتی خصوصیات کا ہونا شامل ہے۔ یہ یورپی نسلی تفاخر ہی تھا، جس نے غیر یورپی محکوم لوگوں کے لیے نیٹو کی اصطلاح منتخب کی۔ نسل (race) کے لغوی معنی میں ’مخصوص ذائقوں کی شرابیں‘ بھی شامل ہے، اور یہیں سے، اس لفظ کے معنی میں کسی قبیلے، گروہ کے مخصوص اوصاف شامل ہوئے۔ تاہم عہد وسطیٰ میں، نسل کا لفظ ذات (caste) کے مفہوم میں استعمال ہونا شروع ہوا، اور اس سے مراد پودوں اور جانوروں کی پرورش تھا، اس کے بعد اسے اٹلی اور فرانس کے شرفا کے لیے برتا جانے لگا۔ صلیبی جنگوں کے بعد سے نسل کے مفہوم میں ’ثقافتی لسانی‘ (ethnic) عناصر شامل ہوئے، اور اسے پہلے مسلمانوں اور یہودیوں، پھر افریقی اور مقامی امریکیوں کے لیے استعمال کیا جانے لگا اور اس میں ’خون کے ناخالص ہونے‘(impurity of blood) کا معنی شامل ہوا۔
4۔ یہ رائے قائم کی گئی کہ خون کا یہ ناخالص پن نسل در نسل برقرار رہتا ہے، اور اس بنا پر ہر نسل علاقائی و مقامی تصور کی گئی۔
نیٹو بھی ایک ایسی نسل ہے، جس کی خصوصیات علاقائی ہیں اور ہمیشہ برقرار رہتی ہیں۔ اسی طرح سفید فام بھی ایک ایسی نسل ہے، جس کی علاقائی (یورپی) خصوصیات مستقل ہیں اور وہ پیڑھی در پیڑھی منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ چناں چہ جب ہندوستانیوں کو ہندوستانی، مسلمان، ہندو، سکھ، پارسی کے بجائے نیٹو کہا جاتا تو در اصل انھیں یورپی حکمران نسل سے جدا کیا جاتا۔ ہندوستان کے ان مختلف مذاہب، زبانوں اور ثقافتوں کے حامل انسانی گروہوں کو یکساں مقامی ومحکوم کی شناخت دی جاتی۔ اس نوع کی یکساں شناخت، حکمرانوں کو غیر معمولی سیاسی اختیار دیتی ہے۔ وہ یکساں شناخت کے متنوع انسانی گروہوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے میں آسانی محسوس کرتے ہیں۔
نیٹو ایک الگ شناختی زمرہ تھا جو سفید فام یورپیوں کے شناختی زمرے سے یکسر الگ تھا۔ نیٹو کا لفظ التباس سے بھر پور تھا۔ اپنے لغوی معانی میں، نیٹو مقامیت، زمین، اصل سے وابستہ شخص ہے مگر استعماریت کی پیدا کردہ تاریخی صورتِ حال میں یہی نیٹو اپنی ہی زمین پر اجنبی، اپنی دیسی شناخت سے کٹا ہوا اور اپنی اصل سے برگشتہ ہے۔ سفید فام یورپی، اپنی اصل کو، بیرونی جگہوں پر بھی جس شدت سے برقرار رکھتا ہے، اسی شدت سے نیٹو کو اپنی اصل سے برگشتہ رکھتا ہے۔ وہ اپنے سفید فام اور یورپی الاصل ہونے کی حقیقت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا۔ وہ مقامی آبادی سے فاصلے پر رہتا ہے۔ نئے شہر بساتا ہے یا پرانے شہروں سے خاصے فاصلے پر اپنی اقامت گاہیں اور چھاؤنیاں تعمیر کرتا ہے۔ اپنے دفاتر، تعلیمی ادارے، لائبریریاں، تفریحی کلب، نیٹو کی آبادی سے کافی فاصلے پر قائم کرتا ہے۔ ان تمام جگہوں پر ایک انتباہی نوٹ درج ہوتا ہے: یہاں ہندوستانیوں اور کتوں کا داخلہ منع ہے۔ اس فاصلے کی منطق، جواز اور عملی ضرورت کو نسل پرستانہ پس منظر ہی میں سمجھا جا سکتا ہے۔ کوئی بھی یورپی، سفید فام نسل سے تعلق رکھتا ہے، اور وہ محض یورپی سفید فام ہونے کے باعث تمام کالے، گندمی، بھورے، سرخ نیٹو سے ممتاز وبرتر ہے۔ واضح رہے کہ نیٹو کی اجنبیت اور برگشتگی، خود اس کی کسی خلقی کمزوری کے سبب نہیں، سفید فام استعماری نظم کے باعث ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں مقامیت کی بحالی (nativity) کے ضمن میں جو تحریکیں چلیں، وہ مقامی شخص کی اپنی مقامی زبان، ثقافت اور شناخت سے برگشتگی کے خاتمے کو اپنا منشور بناتی تھیں۔
قدیم اور عہد وسطیٰ کے حکمران دو دنیائیں تشکیل دیتے آئے ہیں: حکمرانوں، ان کے حلیفوں کی دنیا اور اپنے محکوموں کی دنیا۔ پہلی دنیا اپنے قلعوں، محلات، معابد، مقابر کی عظیم الشان عمارات اور باغات اور طرح طرح کے تعیشات سے پہچانی جاتی ہے۔ اس دنیا کی جگہ اور آبادی مختصر ہوتی ہے مگر زیر نگیں کے وسیع رقبے کے چپے چپے پر اسی دنیا کا حکم اور سکہ چلتا ہے۔ یہی زیر نگیں دنیا دوسری دنیا ہوتی ہے۔ ان دونوں دنیاؤں میں فاصلہ بھی موجود ہوا کرتا تھا، اور یہی فاصلہ در اصل محفوظ حکمرانی کو ممکن بناتا تھا۔ یورپی استعمار نے بھی دو دنیائیں تشکیل دیں۔ یورپی استعمار ہر معاملے میں اختراع سے کام لیتا تھا۔ دو دنیاؤں کی تشکیل میں بھی اس نے کئی اختراعات کیں۔ ان میں سب سے اہم اختراع نسل کو اپنے سیاسی تصور سے لے کر علمی، ادبی، ثقافتی، سائنسی و فلسفیانہ تصورات تک میں بروے کار لانا تھا۔ واضح رہے کہ نسل پر تفاخر اور نسل کی بنیاد پر امتیاز، یورپی استعمار کی اختراع نہیں تھے، انھیں باقاعدہ آئیڈیالوجی کا درجہ دینا اور اپنے علم و اقدار کی بنیاد میں شامل کرنا اختراع تھا۔
دوسرے، مختلف اور اجنبی لوگوں کے لیے ناپسندیدگی کے جذبات انسان قدیم زمانے سے محسوس کرتا آیا ہے۔ اپنے خاندان سے باہر کے لوگ، آدمی کے لیے دوسرے، مختلف اور اجنبی رہے ہیں۔ خاندان توسیع پا کر قبیلہ بنا ہے۔ تاہم خاندان اور قبیلے میں ایک بنیادی فرق ہے۔ خاندان کو خون کا رشتہ یکجا رکھتا ہے، جب کہ قبیلے کی یکجائی کا انحصار ان کہانیوں، روایتوں اور قدروں پر ہوتا ہے، جن کی پاسداری کا ایک غیر تحریری حلف قبیلے کے سب افراد اٹھاتے ہیں۔ خاندان یا قبیلے کے دوسرے، مختلف اور اجنبی لوگوں کے لیے ناپسندیدگی کے جذبات کی نوعیت دفاعی ہوتی ہے۔ آدمی کے لیے اپنی ہی نوع سب سے زیادہ معما رہی ہے۔ جانوروں کے ہر عمل کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے، آدمی کے عمل کی نہیں۔ چناں چہ قدیم زمانے میں خود سے مختلف آدمیوں سے، لوگ خوفزدہ ہوا کرتے تھے، اور انھیں ناپسند کرتے تھے اور ان سے دور رہا کرتے تھے۔ جب کبھی خود سے مختلف لوگوں سے سامنا ہوتا تو ان کا ٹھٹھا اڑایا جاتا اور انھیں دور بھگایا جاتا۔ نئے، مختلف، اجنبی آدمی کو اپنے قبیلے میں شامل نہیں کیا جاتا تھا۔ یہ جذبات آج بھی سب انسانوں میں کم یا زیادہ موجود ہیں۔ اجنبی سے خوف اور اس کے لیے ناپسندیدگی، آج بھی عام انسانی جذبہ ہے۔ نسل پرستی کی بنیاد خود اپنے خاندان، قبیلے کے ساتھ رہنے اور محفوظ رہنے کی جبلی خواہش تھی۔ البتہ نسل پر تفاخر اوراسے ایک نظریے کی صورت دینے کا سبب جبلی نہیں، سیاسی ہے۔ جبلی جذبہ اپنی خام صورت میں اتنا خطرناک صورت اختیار نہیں کرتا، جس قدر یہ سیاسی صورت اختیار کر کے مہلک ہو جاتا ہے۔
دوسروں کے لیے ناپسندیدگی کے جذبات کا اظہار قدیم سے ہوتا رہا ہے۔ مثلاً یونانی، یونانیوں اور بربروں میں فرق کرتے تھے۔ بر بر سے مراد وہ لوگ تھے جو یونانی نہیں بول سکتے تھے، بڑبڑاتے تھے، بربر کرتے تھے۔ گویا یونانیوں کے یہاں لسانی تفاخر تھا۔ یہی تفاخر عربوں کے یہاں بھی تھا جو غیر عرب لوگوں کو عجمی یعنی گونگے کہا کرتے تھے۔ واضح رہے کہ لسانی تفاخر میں علمی و ادبی تفاخر بھی شامل ہو جایا کرتا ہے۔ اسی لیے یونانیوں کے نزدیک وہ سب لوگ بربر تھے، جنھوں نے مدنیت کے آدرش (politikos) کو قبول نہیں کیا تھا اور مطلق العنان طرز حکمرانی کو ترجیح دی تھی۔
5۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ یونانی نسل پرستانہ خیالات سے یکسر خالی تھے۔ رنگ کی بنیاد پر دوسروں کی شناخت کی ابتدائی مثالوں میں ایک مثال یونانیوں کے یہاں ملتی ہے۔ ایتھوپیا کا لفظ یونانی ہے، جس کا مفہوم ’جلے ہوئے چہرے والا‘ ہے۔ ایک دل چسپ مماثلت یہ ہے کہ عبرانی کا حام ch’m سے ماخوذ ہے۔ یہ لفظ بھی سیاہ اور جلے ہوئے کا مفہوم رکھتا ہے۔ حام، کنعان کا بیٹا تھا، جسے نوح نے بد دعا دی تھی کہ وہ آخر دم تک غلام رہے گا۔ بعد میں بائبل کے اس نظریے کو افریقی غلاموں کی غلامی کے لیے بہ طور دلیل استعمال کیا گیا ہے۔
اگرچہ رومیوں نے ایک سیاہ فام سپ ٹیموس سیوروس (Emperor Septmus Severus۔ ۱۹۳۔ ۲۱۱ء) کو اپنا بادشاہ بنایا تھا۔
6۔ مگر وہ مشرقیوں اور دوسری قوموں کو کمتر خیال کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کے اکثر بڑے فاتحین، نسلی برتری کے زعم میں مبتلا رہے ہیں۔ مثلاً، ’’ چنگیز اور ہلاکو نے جب ایران اور بغداد کو تاراج کیا تو توسیع پسندی کے ان عزائم کے ساتھ ساتھ نسلی برتری کا مغالطہ بھی کارفرما تھا۔ دجلہ و فرات کے سواروں نے جب آج سے پانچ ہزار برس پہلے دریائے نیل کے کناروں کو روند ڈالا، اس وقت بھی ان کا یہی خیال تھا کہ وہ مصریوں سے برتر قوم ہیں۔ مغل، ترک اور ایرانی اپنے کو ایک دوسرے سے ہمیشہ برتر سمجھتے رہے۔ رومیوں نے سارے یورپ پر اپنا سکہ جمایا۔ سسرو نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’اپنے غلام بھی ہندوستان سے حاصل نہ کروکیوں کہ انگریز اس قابل ہی نہیں کہ وہ غلام بن سکیں‘‘۔
7۔ یونانی اور رومی یقین رکھتے تھے کہ لوگوں کے جسمانی اور ذہنی خد و خال، ان کی آب و ہوا اور جغرافیے کی پیداوار ہیں۔ جسم کی ساخت، جسمانی کمزوری یا طاقت، کردار کی سختی یا نرمی، ذہانت کی تیزی یا غبی پن، ذہن کی آزادی یا محکومانہ رویے، آب و ہوا اور جغرافیے سے وابستہ ہیں۔
8۔ اسی سے یہ فرق بھی پیدا ہوا کہ پہاڑوں پر رہنے والے ان گھڑ اور غیر سماجی رویوں کے حامل ہوتے ہیں، جب کہ میدانی علاقوں میں رہنے والے شہری اور متمدن ہوتے ہیں۔
9۔ اس طرح کے خیالات، سیاست اور علم کے رشتے پر روشنی ڈالتے ہیں۔ سیاسی طاقت، مغلوب عوام اور کمزور ہمسائیوں سے متعلق ایسے بہت سے دعوے کرتی ہے، جنھیں مستند و معتبر باور کرانے کے لیے اپنے زمانے کی علمی زبان میں پیش کیا جاتا ہے۔ حالاں کہ وہ حقیقی علمی بنیادوں سے محروم ہوتے ہیں۔ ان دعووں کے منطقی تجزیوں، میں ان دعووں کے تضادات فی الفور نظر آنے لگتے ہیں۔ مثلاً یہی دیکھیے، یونان وروم کے سب شہری ذہانت کی تیزی کے حامل نہیں تھے، حالاں کہ وہ ایک ہی قسم کی آب و ہوا میں پیدا ہوتے اور بڑے ہوتے تھے۔ وہاں غلام بھی تھے اور عورتیں بھی، جن کے بارے میں وہاں کے فلسفیوں کے خیالات آج مضحکہ خیز محسوس ہوتے ہیں۔ افلاطون جیسا فلسفی (وقت پر اپنے مکالمے میں)کہتا ہے کہ مرددوں کو خود دیوتاؤں نے پیدا کیا ہے اور انھیں روح عطا کی ہے۔ راست باز مرد زمین پر اپنی زندگی مکمل کر کے ستاروں کی دنیا میں پرواز کر جاتے ہیں، جب کہ بزدل اور گمراہ مرد اگلے جنم میں عورتیں بن جاتے ہیں۔ گویا عورت ہونا، عظمت و رفعت سے معز ولی ہے، اور ایک سزا ہے۔
رنگ کی بنیاد پر تفریق کی اوّلین مثال یونانیوں نے پیش کی، یہ ہندوستانی برہمن تھے جنھوں نے رنگ کی بنیاد پر سماجی شناخت کا کڑا نظام قائم کیا۔ ڈھائی ہزار قبل مسیح، ہندوستان میں وسط ایشیا و ایران سے آنے والے آریا چار سو برس تک مقامی ہندوستانیوں سے برسر پیکار رہے۔ انھوں نے مقامی ہندوستانیوں کے خلاف دو جنگیں لڑیں۔ عسکری اور ثقافتی۔ دونوں میں مقامی لوگوں کو شکست دی۔ سفید رنگ کے ان آریاؤں نے سیاہ اور سانولے رنگ کے دراوڑوں کو جسمانی اور ذہنی دونوں اعتبار سے مغلوب کرنے کی سب ممکنہ چالیں چلیں۔ ثقافتی محاذ پر ان کے سب سے مہلک ہتھیار کا نام ’ورن‘ تھا۔ انھوں نے ورن کو نسلی امتیاز اور علیحدگی (segregation) کی بنیاد بنایا۔ نسلی بنیاد پر علیحدگی کی بدترین صورتیں بھی ان آریاؤں نے وضع کیں۔ ’’ورن کے لفظی معنی رنگ کے ہیں اور پہلے پہل آریوں اور داسوں کے درمیان امتیاز کرنے کے لیے، اسے استعمال کیا گیا‘‘
10۔ آریاؤں سے شکست کے بعد دراوڑ، اپنی زمین پر آزادانہ جینے کے اختیار ہی سے محروم نہیں ہوئے، اپنی انسانی شناخت، عزت و وقار سے بھی محروم ہوئے۔ انھیں، شودر، داس، عفریت، راکھشس قرار دیا گیا۔ اس زمانے کے نیٹو اور سبجیکٹ۔ ’’ورن سے رنگ کا اتنا گہرا تعلق تھا جب آگے چل کر چار ذاتوں کو عام طور پر چار ورن کہا جانے لگا تو ان سے چار الگ الگ رنگ بھی منسوب کیے گئے‘‘
11۔ یہ چار ذاتیں: برہمن، چھتری، ویش اور شودر تھیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان چار ورنوں کے علاوہ بھی کچھ مقامی باشندے تھے، جنھیں ورن کے اس نظام سے یکسر باہر رکھا گیا۔ وہ اپنی زمین پر موجود تھے مگر ثقافتی شناخت تو دور کی بات ہے، انسانی شناخت سے بھی محروم تھے۔ نسل پرستی جس علیحدگی کی قائل ہوتی ہے، یہ اس کی ایک انتہائی صورت تھی۔ چناں چہ یہ باشندے چاروں ورن کے لوگوں سے بد تر قرار دیے گئے تھے، حالاں کہ یہ اصلی مقامی باشندے تھے۔ ’’ ورن کے نظام میں چار طبقوں کا ذکر ہے، اچھوتوں کی اس میں جگہ نہیں ہے۔ لیکن ویدک ادب میں ایسے گروہوں جیسے ایوگوا، چنڈال، نشاد اور پال کس کے حوالے آئے ہیں، جو ورن سے باہر ہیں اور جن سے نفرت کی جاتی ہے ۔۔یہ زیادہ قرین قیاس ہے کہ چنڈال اور پال کس، یہ دونوں گروہ ملک کے اصلی باشندوں کے دو گروہ تھے، جن سے آریہ کسی خاص وجہ سے نفرت کرتے تھے۔
12۔ خاص وجہ یہ تھی کہ انھوں نے آریاؤں کی غارت گری کو قبول نہیں کیا تھا اور اس کے خلاف ہاتھ اٹھائے تھے اور آواز بلند کی تھی۔
ہندوستان میں چار ورن کا نظام کیسے قائم ہوا؟ مسعود عالم فلاحی کے مطابق، جن لوگوں نے صلح یا غداری کی، اور آریاؤں کی طرف سے جنگ لڑی، وہ چھتری قرار پائے۔ حکومت کا نظم و نسق انھوں نے سنبھالا۔ جو غیر جانب دار رہے، وہ ویش بنے، ان کے ذمے مویشی پالنا اور زراعت آیا۔ جنھوں نے صدیوں تک آریاؤں کے دانت کھٹے کیے۔ ان میں سے کئیوں کو مار دیا، باقیوں کو شودر غلام بنا لیا۔ ان کے آگے دو طبقے کیے: سچھوت اور اچھوت۔ سچھوت وہ تھے، جو کچھ عرصہ کے بعد غیر جانب دار ہو گئے، انھیں امن سے رہنے دیا گیا۔ کولی، مالی، دھنیا، جولاہہ۔ کمہار، ڈوم اسی درجہ میں آتے ہیں۔ جنھوں نے جنگ جاری رکھی، انھیں اچھوت کہا گیا۔ انھیں زندہ رہنے کے لیے مردہ جانوروں کا گوشت کھانا پڑا۔ آریاؤں نے انھیں پاخانہ اٹھانے، سور اور گدھے چرانے کا کام سونپا۔ جاٹ، بھنگی، چمار، کھٹک، پشاد، چنڈال اسی درجہ میں آتے ہیں۔ انھی میں ایک طبقہ نے فیصلہ کیا کہ وہ ہار نہیں مانیں گے۔ وہ جنگل چلے گئے: ناگا، بھیل، سنتھال، جرایو، جو آج بھی آریوں سے نفرت کرتے ہیں۔
13۔ آریاؤں نے مقامی باشندوں کی ذلت و تحقیر کو دوام دینے کے لیے، اساطیر کی طاقت کا سہارا لیا۔ انھوں نے ذات پات کے نظام کو مقدس دیوتائی نظام ثابت کرنے کے لیے اپنے تخیل کی بہترین صلاحیتیں وقف کیں۔ مثلاً یہ اسطورہ وضع کی کہ ’’واسطے ترقی عالم کے مکھ سے برہمن کو اور بانہہ سے کشتری کو اور جانگھ سے ویش کو اور پاؤں سے شودر کو پیدا کیا‘‘۔
14۔ شودر چوں کہ برہما کے پاؤں سے پیدا ہوا ہے، اس لیے ذلت اس کی تقدیر ہے۔ منو سمرتی ہی میں لکھا ہے کہ برہمن کے نام میں منگل یعنی خوشی شامل ہے، چھتری کے نام میں بل یعنی طاقت، ویش کے نام میں دھن یعنی دولت شامل ہے، جب کہ شودر کے لفظ میں نندا یعنی تحقیر شامل ہونی چاہیے۔ نام، خطاب، عرف وغیرہ میں شامل ہونے والی خصوصیت کو ابدیت مل جایا کرتی ہے۔ شودر کے لفظ میں شامل تحقیر کو بھی ابدیت ملی ہوئی ہے جو ان سب افراد کی تقدیر، ان کی پیدائش کے ساتھ ہی طے کر دیتی ہے، جو شودروں کے گھر میں پیدا ہوتے ہیں۔ شودر کے لیے لازم قرار دیا گیا کہ وہ برہمنوں سے دور رہے گا۔ مقدس وید پڑھ سکے گا، نہ سن سکے گا۔ اگر کبھی ایسی جسارت کرے گا تو بدترین سزا کا حقدار ہو گا؛ اس کے گلے میں گرم سلاخ ڈالی جا سکتی ہے، وہ زبان جلائی جا سکتی ہے جس سے وہ مقدس وید پڑھنے کی جسارت کرے گا۔ دولت جمع نہیں کر سکے گا۔ باقی ورنوں کے لوگ ایک دوسرے کو گالی دیں گے تو اس کا ڈنڈ ہو گا، شودر کو گالی دینے کا کوئی ڈنڈ نہیں۔ ایک بڑی تحقیر اس کی تقدیر کے فیصلے میں شامل کی گئی۔ باقی تینوں ورنوں کے لوگ دوسرا جنم لے سکتے ہیں، اور جینو پہن سکتے ہیں مگر شودر کے لیے کوئی دوسرا جنم نہیں۔ اس کا ایک ہی جنم ہے، جس کا ہر لمحہ سماجی علیحدگی کے جہنم میں گزرتا ہے۔ شودر نجات کے کسی تصور کے بغیر، پربھو کی طرف سے ایک ہی کرم کرنے کا مجاز ٹھہرایا گیا: باقی تینوں ورنوں کی خدمت و حفاظت کرنا، اور وہ بھی صلہ و ستائش کے بغیر۔ اقبال نے نانک کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے شودوروں کی حالت کو بھی موضوع بنایا۔
آہ شودر کے لیے ہندوستاں غم خانہ ہے
درد انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے
ملک راج آنند کے ناول اچھوت میں باکھا، شودروں کی حالت کا نمائندہ کردار ہے۔
آریاؤں نے ورن کے نظام کو ویدوں اور منو سمرتی کے ذریعے دوام ہی نہیں بخشا، مقامی باشندوں کی مزاحمت کو فراموش کیا نہ معاف۔ انھیں نہ صرف داس، عفریت، راکھشس جیسے قابل نفرت نام دیے، بلکہ اپنی مقدس کتابوں میں اس نفرت کے اظہار میں کوئی قباحت محسوس نہ کی۔ رگ وید کے دوسرے منتر میں ہے: ’’اس راکشش (عفریت) کو مارنے والے دشمن (شودر) کے نگروں کو توڑنے والے اندر نے سبھی سیاہ فام داسی (شودر) عورتوں کو مار ڈالا‘‘۔
15۔ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ ورن کا نظام، نسلی امتیاز ہی کی بنیاد پر قائم ہوا تھا، تاہم رفتہ رفتہ اس میں لچک پیدا ہوتی گئی۔ وہ جامد کی بجائے ایک حرکت پذیر نظام میں تبدیل ہو گیا۔ بقول ایم۔ این سرنواس:
ذات پات کا نظام کوئی ایسا جامد نظام نہیں ہے، جس میں کسی ذات کا مقام ہمیشہ کے لیے معین اور مقرر ہو۔ حرکت پذیری ہمیشہ ممکن رہی ہے۔ خصوصاً اس نظام کے وسطی حصے میں۔ ایک نیچی ذات، ایک دو نسلوں کے بعد سبزی خور بن کر اور شراب نوشی ترک کر کے اور اپنے رسوم و رواج اور عقائد کو سنسکرت تہذیب کے تابع کر کے اونچی پوزیشن حاصل کر سکتی ہے۔
16۔ رنگ کی بنیاد پر نسلی امتیاز کی دوسری کوشش زیادہ بڑی اور زیادہ منظم تھی۔ یہ کوشش یورپی حکمرانوں نے اپنی سیاسی طاقت میں اضافے اور توسیع پسندی کی خاطر کی۔ ان دونوں کوششوں میں کچھ باتیں مشترک ہیں۔ مثلاً رنگ کو تفریق کی بنیاد بنایا گیا اور پھر اس تفریق کی بنیاد پر سماجی شناختیں وضع کی گئیں اور سیاسی نظم و نسق ترتیب دیا گیا۔ اس اشتراک کا سبب، محض یہ نہیں ہے کہ برہمنوں کی مانند یورپی بھی آریائی نسل سے تھے، (اور دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ ہندو برہمنوں سے ایک قدیمی رشتہ داری محسوس بھی کرتے تھے، مگر ان میں دوسروں کے خون کے مخلوط ہونے اور وقت کے ساتھ ساتھ اپنی ’اصل‘ سے دور ہونے کے باعث، اس رشتہ داری کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے)، اور سفید رنگ کے تھے، بلکہ اس لیے بھی کہ دونوں مکمل غلبہ چاہتے تھے: سیاسی، سماجی، ثقافتی، اخلاقی، لسانی۔
ہندوستان میں مسلمان بھی حملہ آور بن کر آئے، مگر انھوں نے نسلی امتیاز کو اپنی حاوی پالیسی اور باقاعدہ سیاسی آئیڈیالوجی نہیں بنایا۔ یعنی محض نسل کی بنیاد پر اپنے طرز حکومت کو تشکیل نہیں دیا۔ ان کے حافظے میں خطبہ حجۃ الوداع کا وہ حصہ ضرور رہا ہو گا جس میں کہا گیا تھا کہ کسی عربی کو عجمی پر، گورے کو کالے پر فوقیت نہیں۔ آدمی، اپنے عمل یعنی تقوے کے سبب فضیلت رکھتا ہے، اپنے رنگ و نسل کے باعث نہیں۔ ہمیں ماننا چاہیے کہ اسلام نے ڈیڑھ ہزار برس پہلے نسلی تفاخر اور امتیاز کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔ البتہ مسلمانوں نے ہندوؤں کے ذات پات کے نظام کو ضرور قبول کر لیا اور عربی، ایرانی، افغانی اور مغل نسل کے لوگوں کو وہی مرتبہ ملا جو باہر سے آنے والے آریاؤں کا تھا اور انھیں حکومتوں میں عہدے بھی ملتے رہے۔ تاہم دوسری طرف اسی ہندوستان میں غلاموں کو بادشاہ بھی بنایا گیا۔ قطب الدین ایبک سے سلطان شمس الدین التمش اور غیاث الدین بلبن خاندان غلاماں ہی سے تھے۔ ایک عجب بات یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں میں ذات پات کا آغاز کرنے والے بھی یہی ’غلام بادشاہ‘ تھے۔ ان کے عہد حکومت میں ’’نچلے طبقے کے کسی مسلمان کا خواجگی، مشرفی یا مدبری کے عہدوں پر تقرر نہیں ہو سکتا تھا‘‘۔
17۔ مکمل غلبے کے لیے، سفید فام یورپی حکمرانوں نے لازم سمجھا کہ نسلی تفریق کو باقاعدہ ایک آئیڈیالوجی کی صورت دی جائے۔ اگرچہ نسل پرستی کی اصطلاح ۱۹۳۰ کی دہائی میں وضع ہوئی مگر نسل پرستانہ روشیں عہد وسطیٰ سے دکھائی دیتی ہیں۔ عہد وسطیٰ یورپ میں تاریک عہد کہلاتا ہے، مگر اسی عہد میں وہ دور دراز کے بر اعظموں کو ’تاریک‘ تصور کر رہا تھا اور اس تاریکی میں کئی قسم کی فنتاسیاں وضع کر رہا تھا۔ ان سب فنتاسیوں اور اساطیر کی جہت نسل پرستانہ تھی۔ جو خطے یورپ سے طویل بحری فاصلوں پر موجود تھے، انھیں وحشی، دشمن، نیم بشر لوگوں کی آماج گاہ سمجھا جا رہا تھا۔ اسی دور میں یورپ کئی قسم کی خیالی مخلوقات کا تصور بھی کر رہا تھا، جن کا ایک حصہ انسانی اور دوسرا کسی جانور کا تھا؛ جیسے فنیکس، ساطر وغیرہ۔ سولھویں صدی کے دوسرے نصف کا آغاز، نسل پرستی کی تاریخ میں اہمیت کا حامل ہے۔ آج یہ تصور کرنا مشکل محسوس ہوتا ہے کہ ان دنوں انگلستان جیسا ملک آلوؤں، تمباکو اور چائے کے بغیر تھا۔ وہاں زندگی پھیکی، بے مزہ اور بے رونق تھی اور دوسری دنیائیں دریافت کرنے اور مسخر کرنے کا محرک تھی۔ سفید فام یورپی اپنے ملکوں سے دوسرے بر اعظموں میں خزانوں کی تلاش میں نکل رہے تھے۔ واپسی پروہ واقعی خزانے انگلستان لا رہے تھے۔ انھی دنوں جان لاک گنی سے افریقی غلام لے آیا۔ یہ ’انسانی خزانہ‘ آگے یورپ کی معاشی ترقی کا سبب بننے جا رہا تھا مگر خود افریقیوں کو جہنم کے سپرد کرنے جا رہا تھا۔ سترھویں اور اٹھارویں صدی میں ’’لیورپول، برسٹل اور لندن سے جہاز چلتے، جن میں ٹیکسٹائل، بندوقیں، چھری کانٹے، شیشے، موتی، بیئر ہوتی۔ انھیں افریقی ساحلوں پر اتارا جاتا اور ان کے بدلے افریقی غلام واپس انگلستان لائے جاتے‘‘۔
18۔ چائے اور کافی بھی انگلستان پہنچ چکے تھے۔ انھوں نے میٹھے کی طلب بھی بڑھا دی تھی۔ اس طلب کو افریقی غلاموں نے گنے کی کاشت میں اپنی جانیں کھپا کر پورا کیا۔ برطانیہ نے سترھویں صدی میں افریقن رائل کمپنی قائم کی، اور اس کے ساتھ ہی افریقی غلاموں کی باقاعدہ تجارت شروع کی۔ زرعی اور صنعتی اشیا کے ساتھ ساتھ افریقی غلاموں کی خرید و فروخت ہو رہی تھی۔ اس تجارت نے یہ خیال پختہ کیا کہ افریقی نیم بشر (half-human) ہیں، اور اس بنا پر کم تر ہیں۔ گویا سفید فام یورپیوں کے سینے میں کوئی اخلاقی کانٹا چبھتا تھا۔ افریقیوں کو نیم بشر قرار دے کر، انھیں جانوروں کی قبیل میں شمار کر کے، یہ کانٹا نکال دیا گیا۔ اس سے افریقی غلاموں کی تجارت، جائز تصور کی جانے لگی۔
19۔ سترھویں و اٹھارویں صدیوں میں کوئی بیس ملین کے قریب افریقی غلام بنا کر یورپ لائے گئے۔ جو غلام راستے میں مر جاتے، انھیں سمندر میں پھینک دیا جاتا۔ ان کی موت کا کوئی تاسف ہوتا نہ ان کے لیے کوئی آخری رسم ادا ہوتی۔ وہ اس طور غرق بحر ہوتے کہ ’’نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا‘‘۔ ان کے مالک، ان کے ضمن میں کسی بھی ذمہ داری کا تصور نہیں رکھتے تھے۔ وہ ایک قابل فروخت شے تھے، اور جب فروخت کے قابل نہ رہتے تو انھیں کسی بھی شے کی مانند بس ٹھکانے لگا دیا جاتا۔ وہ داس اور شودر کی مانند تھے۔ اسی دوران، ان کے سلسلے میں کئی اساطیر وضع ہوئیں۔ مثلاً یہ کہ وہ نیم انسان تھے، انسانی ارتقا میں ایک قدم پیچھے تھے۔ وہ شہوت پرست تھے۔ افریقی مرد کا عضو تناسل سائز میں بڑا تصور کیا گیا تو حبشی عورت کے جنسی اعضا کو عام جنسی اعضا سے ممیز کیا گیا۔ ۱۸۱۵ء میں سارا بارٹمن نام کی ایک سیاہ فام عورت کی طبی جانچ کی گئی تاکہ وضاحت سے دیکھا جا سکے کہ سرین سمیت اعضائے تناسل کیسے ہیں۔ اس کی موت سے قبل اس کے جسم کی نمائش کی گئی تاکہ یورپ کے لوگ اس کے پھولے کولھوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔
20۔ یہ سب اساطیر، اخلاقی کانٹا نکالنے کی سعی محسوس ہوتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا سیاہ فاموں کو نیم بشر قرار دینے سے یورپ انسانی تاریخ میں بھی اخلاقی بریت حاصل کر پایا؟ جواب ہے: نہیں۔ انھی سیاہ فام غلاموں کی نسل سے تعلق رکھنے والے اور سیاہ فام ثقافتی شناخت کی تحریک (Negritude) کے بانی، ایمی سیزارے (۱۹۱۳ء۔ ۲۰۰۸ء) نے انیس سو پچاس کی دہائی میں لکھا تھا ’’یورپ، عقل کے پیمانے، یا ضمیر کے پیمانے کے آگے اپنا دفاع کرنے سے قاصر ہے۔ نیز وہ تہذیب جو اپنے اصولوں کو دھوکے اور مکاری کے لیے استعمال کرے، وہ ایک مرتی ہوئی تہذیب ہے‘‘۔
21۔ جو شخص یا قوم اپنا اخلاقی دفاع نہ کر سکے، اس کے پاس دو راستے ہوتے ہیں: معافی یا تاویلات۔ استعماری یورپ نے دوسرا راستہ اختیار کیا ہے۔ اس نے تاویلات کی ہیں اور اس ضمن میں انسانی ذہن کی اعلیٰ ترین صلاحیتوں کو برتا گیا ہے۔ تاہم ان تاویلات کو چیلنج کیا جاتا رہا ہے۔ سیزارے کے بعد کو ٹونی موریسن نے ایک انٹرویو میں، سفید فام یورپیوں کو ضمیر کے کٹہرے میں کھڑے کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اگر میں تم سے تمھاری نسل چھین لوں، تو تمھارے پاس کیا بچے گا؟ یہی چھوٹی سی ذات (little self)۔ تم نسل پرستی کے بغیر ہو کیا؟ تم میں کوئی خیر کا پہلو ہے؟ کیا اس کے بغیر تم طاقت ور ہو، چالاک ہو؟ کیا تم نسل پرستی کے بغیر خود کو پسند کرو گے؟‘‘۔
اٹھارویں صدی، نسل پرستی کی جدید اساطیر وضع کرنے کی صدی کہی جا سکتی ہے۔ اس سے پہلے سترھویں صدی میں شیکسپیئر اپنے ڈرامے اوتھیلو میں سیاہ فام اوتھیلو کو نفرت کا نشانہ بنا چکا تھا۔ اس ڈرامے میں ایاگو، باربینٹو سے کہتا ہے کہ اس کی بیٹی ڈیسڈیمونیا سیاہ فام اوتھیلو کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ اوتھیلو کو وہ سیاہ مینڈھا (سیاہی جو شر کی علامت ہے) کہتا ہے اور ڈیسڈیمونیا کو ایک سفید بھیڑ۔ شیکسپیئر کے اکثر ڈرامے اس زمانے کی اساطیری کہانیوں پر مبنی تھے۔ ان کہانیوں میں کالے جادو سے متعلق کہانیاں بھی تھیں۔ جادو ٹونے (witchcraft)کے ذریعے، شر کی سیاہ قوتوں کو اپنے مقاصد میں بروے کار لایا جاتا تھا۔ شر، شیطان، عفریت، چڑیل، آسیب سب سیاہ تھے۔ کوئی دوسری شخصی، ذہنی، تخیلی خصوصیت نہیں، خود رنگ ان اساطیر کی بنیاد بنا۔ رنگ کو بنیادی اصول کا درجہ دیا گیا، جو اخلاقی اور جمالیاتی اقدار متعین کرتا ہے۔ سیاہ فامی خود اپنے آپ میں، کسی انسانی عمل و کردار کے بغیر، قباحت اور برائی کی حامل تھی۔ اسی طرح سفید فامی اپنے آ پ، کسی انسانی سعی کے بغیر، حسن، نیکی اور فضیلت کی حامل تھی۔ اٹھارویں صدی کے جمالیاتی مفکر ونکل مان(Winckelmann) نے چپٹی ناک کو بالخصوص قبیح قرار دیا۔ افریقی لوگ، ان کے خد و خال، ان کے اعمال سب حسن و اخلاق کے یورپی معیارات سے فروتر تھے۔ نیز یہ تصور کیا گیا کہ یونانیوں اور رومیوں کے یہاں انسانی جمال اپنی مثالی صورت میں موجود تھا
22۔ جدید یورپ نے یونانیوں اور رومیوں کو اپنے ثقافتی آباء و اجداد تصور کیا اور ان کے جمالیاتی معیارات کو رہنما بنایا۔
نسل پرستانہ اساطیر میں، سیاہی کو ’غیر‘ تصور کیا گیا۔ سیاہ رنگ اپنی حقیقی، مجازی، ممکنہ سب صورتوں میں، سفید رنگ کے لیے ’غیر‘ تھا۔ مثلاً اگر کالا جادو تھا تو سفید جادو بھی تھا۔ سفید جادو، خیر اور انصاف کی ان اقدار کے حصول کا ذریعہ تھا، جو عیسائیت سے مخصوص ہیں۔ یعنی سفید جادو مذہبی تعلیمات کے مطابق تھا۔ جب کہ کالا جادو، خدا کے سوا مافوق الفطری قوتوں سے استعانت طلب کرتا تھا، اس لیے کافرانہ تھا۔ سفید جادو کی غرض انسانیت سے تھی، جب کہ کالا جادو کی سب اغراض شخصی و نفسانی تھیں۔ شیکپیئر کے ڈرامے The Tempset میں پراسپیرسو سفید جادو کا ماہر ہے اور وہ اس کی مدد سے اپنی کھوئی ہوئی جاگیر، یعنی اپنا حق واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ سولھویں تا اٹھارویں صدی سیاہ فامی کو سفید فامی کا مکمل غیر بنانے کی صدیاں ہیں۔ اٹھارویں صدی ہی میں سیاہ فامی کی اساطیر کے لیے یورپی فلسفے نے اپنا کاندھا پیش کیا۔ فلسفہ اپنی نہاد میں ہر مفروضے کا منطقی تجزیہ کرتا ہے اور جدید یورپی فلسفے نے، بالخصوص ایمانوئیل کانٹ نے تو تنقید ہی کو فلسفے کا نام دیا۔ یعنی فلسفے کا کام چیزوں کا جواز پیش کرنا نہیں، ان کا تنقیدی جائزہ لینا ہے۔ آئرنی یہ ہے کہ اسی تنقیدی فلسفے کے امام کانٹ نے نسل پرستی کی یورپی اساطیر کو فلسفیانہ بنیادیں فراہم کیں۔ کانٹ سے پہلے ڈیوڈ ہیوم نسل پرستانہ خیالات پیش کر چکا تھا۔ اس نے فرانسیسی مؤرخ اور سیاسی مفکر مونتیسک (Montesquieu) کے اس نظریے کو تو ردّ کیا کہ طبیعی خد و خال انسانی کردار پر فیصلہ کن اثرانداز ہوتے ہیں۔ (واضح رہے یہ نظریہ یونانیوں کے یہاں پہلے سے موجود تھا اور ابن خلدون کے خیالات بھی اسی سے ملتے جلتے تھے۔ ابن خلدوں کے نزدیک انتہائی گرم اور انتہائی سرد اقالیم اخلاقِ انسانی پر اور اس کے نتیجے میں انسانی تمدن پر اثر انداز ہوتی ہیں اور کامل ترین تمدن صرف بلادِ معتدلہ میں پایا جاتا ہے۔
23۔ ہیوم نے یہ رائے دی کہ ہر قوم کے مخصوص اوصاف ہوتے ہیں، جن کا تعین وہاں کا نظام حکومت، دولت و غربت کی صورتِ حال اور عوامی معاملات کے نظم و نسق سے ہوتا ہے۔ صاف لفظوں میں وہ فطرت کی جبریت پر انسانی ارادے کو فوقیت دے رہا تھا۔ انسانی سماج کو تقدیر کے ہاتھوں یرغمال تصور کرنے کے بجائے، انسانی تدابیر سے ترتیب پانے والی ہیئت باور کرا رہا تھا۔ مگر یہی ہیوم قومی کردار کے سلسلے میں جس قدر منطقی اور مدلل فکر کا حامل تھا، سیاہ فام قوموں کے کردار کے سلسلے میں اسی قدر غیر منطقی اور سراسر متعصب تھا۔ اس نے اسی مشہور مقالے ’’کچھ قومی کردار کے بارے‘‘ (۱۷۴۸ء) کے حاشیے میں پانچ سال بعد لکھا کہ
میں اس بات کا یقین کرنے پر مائل ہوں کہ نیگرو اور عمومی طور پر انسانوں کی تمام انواع (کہ انسانوں کی چار یا پانچ قسمیں ہیں) سفید فاموں کے مقابلے میں فطری طور پر پست ہیں۔ سفید فاموں کے مقابلے میں کسی دوسرے رنگ کی کوئی انسانی نسل کبھی مہذب نہیں رہی، نہ کوئی [غیر سفید فام] فرد اپنے عمل یا فکر میں ممتاز ہوا ہے، نہ کوئی ان[غیر سفید فام لوگوں] میں فطین صنعت کار ہوا ہے، نہ فنون میں، نہ سائنسوں میں۔
24۔ نیگرو کے سلسلے میں وہ ’’نظام حکومت، دولت و غربت کی صورتِ حال، عوامی معاملات کے نظم و نسق‘‘ کے ان اصولوں کو یک قلم فراموش کر دیتا ہے جو قومی کردار کا تعین کرتے ہیں۔ وہ اپنے ہی فلسفے کی نفی و تردید کرتے ہوئے، مونتیسک کی اس رائے کو قبول کرتا محسوس ہوتا ہے جو انسانی کردار کی ذمہ داری طبیعی خد و خال پر عائد کرتا ہے۔ ہیوم کے نزدیک، سفید فاموں اور دوسری نسلوں کی ذہانت اور قوت اختراع میں یہ فرق مستقل اور یکساں تھا، اور فطرت ہی اس فرق کو پیدا کرنے اور برقرار رکھنے کی ذمہ دار ہے۔ سفید فاموں کی سیاہ فاموں سے نفرت، ہیوم کی اس رائے میں مجسم ہو گئی ہے اور نفرت اپنے اظہار کے لیے اسی نوع کے خطابت آمیز پیرائے کو منتخب کرتی ہے۔ کانٹ کے یہاں ہیوم کی سی خطابت ہے نہ محاکماتی انداز مگر وہ انسانی نسلوں میں امتیاز رنگ ہی کی بنیاد پر کرتا ہے۔ اس نے اگرچہ چار انسانی نسلوں (سفید نسل، نیگرو، Hunnish یعنی منگول اور ہندوستانی (کا ذکر کیا مگر سفید اور سیاہ کو بنیادی نسلیں قرار دیتا ہے۔ وہ یکساں ابتدائی نسل میں یقین رکھتا تھا لیکن بعد میں ماحول، آب و ہوا اور جرثوموں سے پیدا ہونے والے امتیاز کو حتمی اور مطلق قرار دیتا ہے۔ نیز اس نے پرانے سٹریو ٹائپ کو از سر نو پیش کیا، جیسے یہ کہ نیگرو کی سخت بو، جس کا خاتمہ کسی طور نہیں ہوتا، اور سیاہ جلد کی سائنسی توجیہہ پیش کرنے کی سعی کی۔
25۔ کانٹ سیاہ فاموں سے متعلق سٹیریو ٹائپ کو خود اپنے وضع کردہ تنقیدی فلسفے کی رو سے نہیں پرکھتا۔ تسلیم کہ کوئی مصنف، خواہ وہ فلسفی ہی کیوں نہ ہو، اپنے ہر اظہار میں اپنی اساسی فکری شناخت کو برقرار نہیں رکھ پاتا، مگر وہ عام طور پر دو باتیں نہیں یاد رکھ پاتا۔ ایک یہ کہ اس کے قلم سے نکلا ہوا ہر لفظ خود اس پر سب سے بڑا گواہ ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کی اساسی شناخت ہی، اس کی جملہ تحریروں کے محاکمے کی بنیاد ہوا کرتی ہے۔
فلسفے کے بعد یورپی سائنس میں بھی نسل پرستانہ خیالات پھیلے۔ انیسویں صدی نئی ایجادات، استعماریت کی غیر معمولی توسیع اور فطری و سماجی سائنسوں کے مثالی ارتقا کی صدی بھی ہے۔ جدید یورپی علوم، یورپی استعماریت کے توسیع و استحکام کے پہلو بہ پہلو فروغ پذیر ہوئے۔ ان علوم کو کئی مقامات پر استعماریت کو علمی بنیادیں استوار کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہ سائنسی علم کی manipulation ہے۔ اس کی اہم ترین مثال سائنسی نسل پرستی اور علم اصلاح نسل (Eugenics)ہے۔ جیسا کہ ہم واضح کر آئے ہیں، اٹھارویں صدی میں نسل پرستی، ایک متھ سے، فلسفے میں بدل چکی تھی، انیسویں صدی میں اسے سائنسی استناد فراہم کیا گیا۔ ۱۸۸۰ء سے ۱۹۳۰ء کا زمانہ سائنسی نسل پرستی کا ہے۔ چارلس ڈارون کا نظریہ ارتقا، نسل پرستانہ نہیں تھا۔ اس نے اپنی کتابوں The Origin of the Species اور The Descent of Man میں تمام نسل انسانی کو ایک ہی جد سے منسوب کیا تھا۔ ا س نے فطری انتخاب (natural selection)کے نظریے میں تبدیلیوں کے ذریعوں اپنے ماحول سے ہم آہنگ ہونے کی بات ضرور کی۔ ڈارون کے نظریہ ارتقا بیان کرتا ہے کہ انواع اپنی اصلاح، ایک حد تک کر سکتی ہیں۔ خود فطرت اور ان کا داخلی حیاتیاتی نظام، ان پر کچھ حدود عائد کرتا ہے۔ وہ ان حدود سے آگے نہیں جا سکتیں۔ سماجی ڈارون ازم میں یہ تصور مستعار لیا گیا۔ حیاتیاتی اصول کا اطلاق، سماجی دنیا پر کیا گیا۔ یہ رائے قائم کی گئی کہ جس طرح انواع اپنے ارتقا میں ایک حد سے آگے نہیں جا سکتیں، اس طرح سماج میں کچھ گروہوں کی سماجی حیثیت مستقل ہوتی ہے، یا ان میں اپنی اصلاح و ترقی کی نہایت محدود صلاحیت ہوتی ہے۔
26۔ حیاتیاتی ارتقا کے سائنسی اصول کو سماجی ارتقا کی وضاحت میں استعمال کرنے و الاہربرٹ سپنسر (۱۸۲۰۔ ۱۸۹۳) تھا، سماجی ڈارون ازم کا بانی۔ اس نے بقائے اصلح (survival of the fittest)کی اصطلاح گھڑی اور کہا کہ اسی کی مدد سے سفید فام قوموں نے فطری ضروریات سے ہم آہنگ ہو کر کم تر سیاہ فام نسلوں پر حکومت کی ہے۔
27۔ گویا سفید فام یورپی اشرافیہ، افریقا، ایشیا، آسٹریلیا، لاطینی امریکا کے لوگوں کو غلامی کی بدترین صورتوں کا شکار بنانے میں فطری طور پر حق بجانب ہے۔ اسی سائنسی نسل پرستی کو بعد میں جرمنی میں یہودیوں کی نسل کشی کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔ تاہم اسی یورپ میں کچھ لوگ ایسے موجود رہے ہیں، جنھوں نے سائنس کو سیاسی استعماری مقاصد کے لیے بروے لانے کی مخالفت کی۔ ۱۹۱۱ء میں کولمبیا یونیورسٹی کے ثقافتی بشریات کے ماہر فرانز بواس نے کہا کہ نسل، زبان اور کلچر میں کوئی تعلق نہیں۔ یعنی کوئی خاص نسل کوئی خاص کلچر پیدا نہیں کرتی، نہ کسی مخصوص زبان کی حامل ہوتی ہے۔ اس نے مزید یہ کہا کہ ابتدائی اور جدید انسان کے ذہن میں کوئی فرق نہیں۔
28۔ سائنسی نسل پرستی کی بنیادوں کو ’متعصبانہ‘ ثابت کرنے والوں میں فرانسیسی ماہر بشریات لیوی سٹراس بھی شامل ہے۔ اس نے و حشی اور جدید ذہن کی تقسیم کو بے بنیاد قرار دیا۔ وہ انسانی ذہن کے کچھ ساختیوں (structures) کو واضح کرتا ہے، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ تمام انساں یکساں ذہنی اعمال کو انجام دینے کے قابل ہیں۔
29۔ سائنسی نسل پرستی کو مغالطوں سے لبریز بیانیہ ثابت کرنے میں ایک اہم نام برطانوی جولین ہکسلے کا ہے۔ ہکسلے نے کہا کہ افریقیوں کو واحد نسل نہیں سمجھا جا سکتا؛ وہ مخلوط نسل ہیں۔ ۱۹۱۱ء ہی میں genotype اور phenotype کے فرق سے لوگ واقف ہوئے، اور نسل پرستی کی سائنسی بنیادوں پر ’سائنسی چوٹ‘ پڑی۔ جینو ٹائپ، کسی عضویے کے وراثتی امکانات کی وضاحت کرتا ہے۔ مثلاً کچھ جینز کبھی فعال نہیں ہوتے۔ باقی ایک مخصوص ماحول میں، مخصوص وقت پر فعال ہوتے ہیں۔ جینیاتی ساخت ہی یہ طے کرتی ہے کہ کس قدر ماحولیاتی تغیر، مختلف فینوٹائپ خصوصیات کا باعث بن سکتا ہے۔ فینو ٹائپ میں جلد کا رنگ، ناک کی ساخت وغیرہ شامل ہیں اور ان فینو ٹائپ کا کسی انسان کی شخصیت، اور امکانات سے کوئی تعلق نہیں۔
30۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان سائنسی صداقتوں کے باوجود، نسل پرستانہ روش ختم نہیں ہوئی۔ مثلاً اصلاح نسل کا علم (Eugenics) آج بھی زیر بحث آتا ہے۔ اس کی بنیادیں قدیم ہیں۔ یونان میں رواج تھا کہ جب بچہ پیدا ہوتا تو اس کی صحت و تندرستی کا معائنہ ایک جماعت کرتی۔ اس کے زندہ رہنے یا پہاڑ سے زندہ پھینک دیے جانے کا فیصلہ یہی جماعت کرتی۔ اس علم کو سائنسی بنیاد فراہم کرنے میں ڈارون کے عم زاد فرانسس گیلٹن کا بنیادی کردار ہے۔ وہ اس خیال کا حامی رہا کہ اچھی نسل کا خون، اعلیٰ اوصاف کے انسان پیدا کر سکتا ہے۔ چناں چہ یہ خیال عام ہوا کہ سفید فام نسلوں کو سیاہ فام نسلوں سے مخلوط ہونے سے بچنا چاہیے، نیز صرف اعلیٰ نسل کے لوگوں کو باقی رہنے اور دنیا پر حکمرانی کا فطری حق ہے۔ امریکا کی بنیاد ہی میں نسل پرستی شامل ہے اور مارٹن لوتھر کنگ جونیئر اور دوسروں کی مساعی کے باوجود اس کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا۔
اساطیر، فلسفیانہ توجیہات اور سائنس، نسل پرستی کے گہرے متعصبانہ جذبات کو چھپانے اور جائز قرار دینے کا کام کرتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ عزیز احمد نے اپنی کتاب نسل اور سلطنت (۱۹۴۱ء) میں اس سوال اور کچھ دوسرے سوالوں کا جواب دیا ہے۔ (عزیز احمد کے ناولوں: آگ، ایسی بلندی ایسی پستی، گریز کے علاوہ تنقیدی و تحقیقی کتب، جیسے ترقی پسند ادب، بر صغیر میں اسلامی کلچر، ہند و پاک میں اسلامی جدے دیت، اقبال کی نئی تشکیل کا ذکر تو خاصا ہوا ہے مگر اس کتاب کا نہیں ہوا۔) نسل پرستی اور سلطنت کا تعلق وقت کے ساتھ ساتھ کیسے بدلتا رہا ہے، اس کا تفصیلی تذکرہ بھی اس کتاب میں ملتا ہے۔ عزیز احمد اس بات پر مسلسل زور دیتے ہیں کہ موجودہ انسانی نسلوں میں سے کوئی بھی خالص نسل نہیں ہے۔ سب انسانی نسلیں مخلوط ہیں۔ خالص نسل، صریحاً آئیڈیالوجی ہے؛ ایک پر فریب دعویٰ ہے، جس کے فریب کو تاریخ اور سائنس کی مدد سے چھپانے کی سعی کی جاتی ہے اور یہ سعی مطلقاً سیاسی ہے۔ اس بنا پر کسی بھی علم کو ’’خالص‘‘ قرار دینا آسان نہیں ہے اور کسی بھی ادب پارے کو بے غرض جمالیات کا مظہر کہنا دل گردے کا کام ہے۔ طاقت بھیس بدل بدل کر ان سب ذہنی و تخیلی مظاہر میں سرایت کر جاتی ہے۔ مکمل معروضیت کا دعویٰ رکھنے والے سائنسی علوم، اپنے کئی مفروضات کا مسالا سماجی دنیا میں جاری طاقت کی کش مکش سے حاصل کرتے ہیں۔ آپ دیکھیے کہ لسانیات اور بشریات میں آریائی نسلی تصورات کس نفاست مگر کس گہرائی سے سرایت کر گئے ہیں۔ زبانوں کا سب سے ممتاز گروہ آریائی ہے۔ گویا جدید لسانیات، اپنی اصل میں نسل پرستانہ ہے۔ نسل پرستی کس طور دوسرے علوم میں سرایت کر گئی، اس کا اجمالی جائزہ عزیز احمد نے پیش کیا ہے:
لسانیات کو زبردستی انسانیات سے بھڑایا گیا۔ مذہبی دلائل پیش کیے گئے جو ذرا سی بھی سچی جرح کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ مابعد الطبیعیاتی تشریحیں کی گئیں۔ اخلاقیات اور نفسیات کا غلط استعمال کیا گیا۔ تاریخ کو اس قدر غلط طریقے پر لکھا گیا کہ اس کا اثر اس فن کی وقعت اور صحت پر پڑا اور اب کہیں جا کر تاریخ نگاری آہستہ آہستہ ان تعصبات کا پردہ چاک کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے جو انیسویں صدی میں ڈالا گیا تھا، معاشیات کی تقسیم شہنشاہیت کی بنیادوں پر دی گئی۔ علم حیاتیات کو توڑ مروڑ کر لال بجھکڑوں کی طرح نسل کے غلط نظریے قائم کیے گئے۔ قدم ترین نسلی، مذہبی، تمدنی تعصبات کو از سر نو ابھارا گیا۔ اور انتہا ہو گئی کہ علم نجوم کو بھی شہنشاہیت کے پروپگنڈے کے لیے استعمال کیا گیا۔
31۔ انیسویں صدی میں آریائی نسلی تفاخر کو علمی کروفر کے ساتھ پیش کرنے والا میکس مولر تھا۔ اس کی نظر میں تاریخ ایک عظیم ڈراما ہے، جس کا کبیری ہیرو آریا ہے۔ اگرچہ تاریخ کے سٹیج پر آریا، سامی اور تورانی نسلوں کے بعد نمودار ہوئے ہیں مگر انھوں نے زندگی کے تمام عناصر کی ممکنہ حد تک نشو و نما کی ہے اور ان کا مشن ہے کہ وہ تہذیب، تجارت اور مذہب کی زنجیر کے ذریعے دنیا کے تمام حصوں کو جوڑ دے۔
32۔ عزیز احمد انیسویں صدی کی استعماریت کے لیے یورپی شہنشاہیت کی اصطلاح پسند کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں یہ معاشی شہنشاہیت ہے، مگر یورپی حکمران اور ان کے ہم نوا مستشرق اس حقیقت کو چھپانے کی سعی کرتے ہیں۔ اکیسویں صدی کی استعماریت کئی نقاب پہن کر کارفرما ہوتی ہے، لیکن اس نے یہ سب ’انداز دلربائی‘، انیسویں صدی کی استعماریت سے ورثے میں حاصل کیے ہیں۔ البتہ ان میں مسلسل جدت کی ہے، تاکہ اس کے وار پہلے سے کاری پڑیں مگر الزام کسی اور پر آئے۔ عزیز احمد کے مطابق ایشیا و افریقا میں یورپی شہنشاہی حکومتیں نسل پرستانہ تھیں، مگر اپنی معاشی جہت کی مانند اسے بھی چھپانے کا التزام کیا تھا۔ محکوم ملکوں میں تہذیب آموزی (civilising mission) کے جتنے بیانیے رائج ہوئے، جتنی انجمنیں، تعلیمی ادارے قائم کیے گئے، ان سب کا مقصود، معاشی شہنشاہیت اور نسل پرستی پر پردہ ڈالنا تھا۔ عزیز احمد نے ایک اور بنیادی نکتے کو پیش کیا ہے جو مارکسی فکر سے اخذ محسوس ہوتا ہے۔ یہ کہ نو آبادیات سے چند یورپی طبقات براہر است فیض یاب ہوئے۔ انھی کے ملکوں کے کئی طبقات (یعنی وہاں کے عوام کالانعام) ان معاشی فوائد سے محروم رہے۔ اس اشرافی طبقے نے اپنی طبقاتی اغراض کو اپنے ہی ہم وطنوں کی محروم اکثریت سے اسی طرح چھپایا، جس طرح معاشی و نسل پرستانہ مقاصد کو محکوم ملکوں سے چھپایا۔
عزیز احمد کے اس تجزیے میں تین نکتے ہیں اور تینوں اہم۔ پہلا یہ کہ انیسویں صدی کی یورپی قوم پرستی میں وہی خدائی تفاخر ہے جسے وہ اپنی ’’خالص و برتر‘‘ نسل سے وابستہ کرتا ہے ؛ ہمچو ما دیگرے نیست۔ یعنی قوم پرستی و نسل پرستی میں ایک گہرا علمیاتی تعلق ہے۔ دوسرا یہ کہ قوم پرستی صرف نسل پرستانہ ہی نہیں، اشرافی تصور بھی ہے۔ سادہ لفظوں میں یہ مقتدرہ کا تشکیل دیا ہوا، اس کے مقاصد کی نگہبانی کرنے والا تصور ہے۔ یہ عوام میں مشترک جذبات ابھارتا ہے، انھیں یک جا کرتا ہے ؛ ایک ’قوم‘ بناتا ہے۔ قوم کا مطلب ہی کچھ مشترک خصوصیات، مشترک تقدیسی و غیر تقدیسی علامتوں، مشترک کہانیوں، مشترک تاریخی سورماؤں (جن کے ساتھ مثالی، تخیلی خصوصیات وابستہ کی جاتی ہیں) کے سلسلے میں گہرے جذبات کا حامل ہونا ہے۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ قوم کے جذبات کو لازماً ایک ہدف چاہیے۔ یہ ہدف وہی ہو گا جو اشرافیہ کے اغراض کی راہ میں رکاوٹ ہو گا۔ ’قوم‘ خود نہیں، ا س کے اشرافی نمائندے ہدف کا تعین کریں گے اور ’قوم‘ کی رائے تشکیل دینے کے لیے طرح طرح کی تدبیریں کریں گے۔ جدید عہد کی قوم پرستی کی کوئی ایسی صورت تلاش کرنا مشکل ہے، جس کا کوئی دشمن نہ ہو۔ اکثر دشمن ایجاد کیے جاتے ہیں۔ یوں بھی انسانوں کا سمندر، جب قوم پرستانہ جذبات کے سبب ٹھاٹھیں مار رہا ہو تو اسے لازماً ایک ہدف چاہیے ؛ اندر، باہر کہیں بھی۔ کیا ہم جدید عہد میں کسی ایسی قوم کی نشان دہی کر سکتے ہیں، جو کسی ’غیر‘ کے بغیر اپنا اظہار کرتی ہو؟ یہ غیر کئی ناموں سے وجود رکھتا ہے: وحشی، اجڈ، راکھشس، دشمن، دہشت گرد، کافر، مسلمان وغیرہ۔
ہم جانتے ہیں کہ قومیت، ایک تشکیل ہے، جسے نسل، زبان، مذہب، جغرافیہ کی بنیاد پر وضع کیا گیا ہے۔ قوم پرستی کا استعماریت سے صرف زمانی تعلق ہی نہیں، فکری، آئیڈیالوجیائی تعلق بھی ہے۔ عزیز احمد کے بہ قول نسل پر مبنی قوم پرستی ہی نے قومی عزت نام کی چیز کو جنم دیا۔ قومی عزت کئی تصورات کا مجموعہ ہے مگر یہ ایک انسانی گروہ کے سب افراد کو کچھ مشترک جذبات میں شریک کرتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ قوم کی بنیاد نسل ہو، جغرافیہ ہو، زبان ہو، مذہب ہو، کلچر یا پھر ایک سے زیادہ عناصر ہوں، وہاں قومی عزت کا تصور تشکیل دیا جاتا ہے۔ کچھ مخصوص جگہیں، شخصیات، متون، تاریخ کے کچھ زمانے، کچھ اقدار اس قومی عزت کی علامت بنا لی جاتی ہیں۔ جدید عہد کی بیشتر جنگیں قومی عزت کے نام پر لڑی گئی ہیں۔ ’’اگر کوئی مسلمان کسی اطالوی لڑکے کو بھگا لے جائے تو اطالیہ کو اس کا حق حاصل ہو جاتا ہے کہ طرابلس پر قبضہ کر لے۔ 33۔ ایک شخص سے بد سلوکی، پوری قوم سے بد سلوکی تصور کی جاتی ہے اور اس کا انتقام بھی پھر حریف قوم کے سب افراد سے بلا امتیاز لیا جاتا ہے۔ کیسا دل چسپ اتفاق ہے کہ نذیر احمد کے ناول ابن الوقت میں، جہاں ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد کی صورتِ حال کا ذکر ہے، لکھا ہے کہ ’’ عام انگریز تو ابھی تک اس قدر غیظ و غضب میں بھرے ہوئے ہیں کہ اگر انگریز کے ایک قطرۂ خوں کے عوض ہندوستانیوں کے خون کی ندیاں بہا دی جائیں تو بھی ان کی پیاس نہ بجھے‘‘۔
34۔ انگریز اپنے خون کے ذریعے پوری انگریز نسل سے جڑے ہیں، اس لیے اس خون کا بدلہ، کالے خون کی ندیاں بہا کر لینے میں قباحت نہیں دیکھی جاتی۔
قوم کے تفاخر آمیز تصور کے سبب، کسی شخص کی انفرادیت باقی نہیں رہتی۔ وہ اس نیک نامی اور بدنامی دونوں میں برابر شریک تصور کیا جانے لگتا ہے اور سزا یا جزا پاتا ہے، جو اس کی قوم سے وابستہ ہوتی ہے۔ اس کا کوئی عمل، ذاتی نہیں رہتا۔ وہ اپنی شخصی دنیا سے بالائی طور پر تشکیل دی گئی، تجریدی دنیا میں مقام رکھتا ہے۔ ایک شخص کی انتہا پسندانہ کار روائی کا الزام تمام مسلمان قوم پر آتا ہے۔ یا ایک مسلک کے فرد کا ذاتی فعل، پورے مسلک کو فعل سمجھا جانے لگتا ہے۔ کم و بیش یہی کچھ قدیم قبائلی معاشروں میں ہوا کرتا تھا۔ اسی سے ملتی جلتی بات نذیر احمد کے ابن الوقت میں بھی ہے، جسے قوم پرستی کے تحت لکھے گئے ابتدائی اردو ناولوں میں اہم مقام حاصل ہے۔
غدر سے پہلے بھی یہ عالم تھا کہ جو لوگ سواریوں پر تھے، ان کے نوکر چلاتے ہیں کہ ہٹو، بڑھو، بچو لیکن کون سنتا۔ ۔ اتنے میں سامنے سے ایک گورا نظر پڑا کہ اکیلا پیَپ پیتا ہوا سیدھا چلا آ رہا ہے اور لوگ ہیں کہ آپ سے آپ کائی کی طرح اس کے آگے سے پھٹتے چلے جاتے ہیں۔ میں نے اس وقت خیال کیا تھا کہ یہ قومی تعزز کا اثر ہے شخصی تعزز پر۔ اگر قومی تعزز مستزاد ہو تو نورٌ علی نور۔ ورنہ بدون قومی تعزز کے شخصی تعزز اصلی عزت نہیں بلکہ عزت کا ملمع ہے۔
35۔ سفید نسل پرستی ایک آئیڈیالوجی تھی، اور سیاسی مقاصد کی حامل تھی۔ یہ آئیڈیالوجی اساطیر، فلسفے، سماجی علوم کے ساتھ فنون اور ادب میں بھی ظاہر ہوئی۔ اس آئیڈیالوجی کی پہلی خصوصیت یہ تھی کہ یہ طاقت کو محض ایک غلبہ آور قوت کے طور پر ہی نہیں، بلکہ ایک قدر بنا کر پیش کرتی ہے۔ طاقت ور ہونا، دوسروں پر اختیار رکھنا، خود اپنے آپ میں ایک قدر ہے۔ چوں کہ سفید فاموں کو غیر سفید قوموں پر مطلق اختیار حاصل ہے، ا س لیے وہ محض اپنی اسی حیثیت کے سبب تمام اعلیٰ انسانی اوصاف رکھتے ہیں۔ وہ سفید نسل سے تعلق رکھنے کے سبب ہی بلند اقبال ہیں، صاحب علم و نظر ہیں، شائستہ ہیں، مہذب ہیں۔ انھیں نیٹو اور ’پست قوموں‘ پر حکمرانی کا خدا ئی حق ہے۔ نیٹو کو جن پہلے حکمرانوں سے پالا پڑا تھا، ان میں سو خرابیاں تھیں مگر گوروں میں خوبیوں کے سوا کچھ نہیں۔ گورا یورپی، محض اپنے گورے یورپی ہونے کے سبب، فضیلت مآب ہے۔ جو فضیلت اس کی اعلیٰ نسل، فاتح قوم کو حاصل ہے، وہی اس کی شخصیت، اس کے علم و ادب، ثقافت کو بھی حاصل ہے۔ دیکھیے یہ آئیڈیالوجی کس طرح مختلف زمانوں کے ادب میں ظاہر ہوتی رہی ہے۔ رتن ناتھ سرشار کے فسانۂ آزاد کے آغاز میں آزاد اور چھمی جان کا مکالمہ ہے۔ سرشار نے بہ طور مصنف شاید ہی محسوس کیا ہو کہ وہ اپنے ناول کے آغاز میں نسل پرستی پر مبنی آئیڈیالوجی پیش کرنے جا رہے ہیں۔ یہ مکالمہ میاں آزاد اور نازک بدن چھمی جان کے درمیان ہے۔ چھمی جان کے استفسار پر آزاد اسے بتاتے ہیں کہ وہ پروفیسر لاک کا سنسکرت پر لیکچر سننے جا رہے ہیں۔ آزاد کے بہ قول یورپی لاک صاحب، زبان پاک سنسکرت کی اشرفیت سے آگاہ کرنے والے ہیں۔ گویا ایک گورا جب ہندوستانیوں کو ان کی زبانوں کا علم دیتا ہے تو وہی علم مستند ہوتا ہے۔ آزاد کے بہ قول وہ پروفیسر ’’بڑے مقدس، عالم یگانہ، یکتائے زمانہ مشہور دیار امصار ہیں، نیز طیب النفس، فخر بنی نوع انسان، بلیغ نکتہ دان، بزرگوار‘‘ ہیں۔ یہ سب خوبیاں ان میں اس لیے جمع ہیں کہ وہ یورپی ہیں، سفید نسل سے ہیں۔ چناں چہ میاں آزاد ھمی جان کو ڈانٹتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے لیے کلمات خرافات ادا نہیں کیے جا سکتے۔
36۔ دوسری طرف سیاہ فام ہونے کا مطلب ہی، ہر طرح کی خرافات کا مستقل نشانہ بننا ہے۔ اس امر کی کلاسیکی مثال، شیکسپیئر کا ڈراما اوتھیلو ہے، جس کا کچھ ذکر گزشتہ صفحات میں آ چکا ہے۔ اوتھیلو اگرچہ وینس کی ریاست میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہے، مگرایک سیاہ فام ہے۔ اس کا اعلیٰ عہدہ بھی اس کی سیاہ فامی کا داغ نہیں دھو سکتا۔ وہ ایک سفید فام برابان تیو (ڈیوک آف وینس)کی بیٹی ڈیسڈیمونیا کو بھگا لے جاتا ہے تو اوتھیلو ہی کا ماتحت ایاگو، برابان تیو کے گھر پہنچ کر اسے ملامت کرتا ہے۔
ایاگو: ذرا ہوش میں آئیے جناب۔ آپ کے گھر پر ڈاکا پڑا ہے۔ جلدی کیجیے اور اپنا چغہ پہن لیجیے۔ آپ کا دل توڑ دیا گیا ہے۔ آپ کی نصف جان غائب ہے۔ اسی وقت، اسی لمحے ایک کالا بڈھا مینڈھا، آپ کی سفید بھیڑ پر چڑھا ہوا ہے۔ خراٹے مارتے ہوئے شہریوں کو گھنٹے بجا بجا کر جگائیے۔ ورنی شیطان آپ کو چتھو بنا کر چھوڑے گا۔ میں کہتا ہوں، جاگیے، اٹھیے۔
37۔ اوتھیلو کے لیے ’کالا بڈھا مینڈھا‘ اور ڈیسڈیمونیا کے لیے سفید بھیڑ کے الفاظ سے نسل پرستانہ تعصب ٹپکتا صاف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ سولھویں صدی کے یورپی تخیل میں بھی، سیاہ وسفید دنیائیں یکساں نہیں تھیں۔ سیاہ دنیا خود اپنے آپ میں ایک برائی تھی اور سفید دنیا محض سفید ہونے کے سبب، خیر کی حامل تھی۔ کالا بڈھا مینڈھا، اپنے کالے اور بھدے ہونے کے سبب قابل نفرت ہے، جب کہ سفید بھیڑ، اپنے سفید ہونے کے باعث معصوم ہے۔ اگرچہ ڈیسڈیمونیا اپنی مرضی سے، اوتھیلو کے ساتھ بھاگی ہے، مگر اس جرم کی ساری ذمہ داری اوتھیلو پر ہے۔ یورپی تخیل کو اس بات سے گھن آتی تھی کہ ایک ’کالا بڈھا مینڈھا‘ ایک سفید بھیڑ کی جنسی قربت حاصل کر سکتا ہے۔ یہ سفید نسل کی معصومیت اور خیر کی خصوصیت کو بھرشٹ کرنے کے مترادف ہے۔ چناں چہ اسی ڈرامے میں ایاگو آگے چل کر، ڈیسڈیموینا کے باپ سے کہتا ہے کہ ’’ معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنی لڑکی کا ایک عرب گھوڑے سے جوڑا لگانا چاہتے ہیں، آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے یہاں ایسی اولاد ہو جو آپ کو دیکھ کر ہنہنائے اور گھوڑے اور بچھڑے آپ کے بھائی بھتیجے ہوں‘‘۔
38۔ گویا سفید و سیاہ نسلوں کے اختلاط سے، آدمی نہیں جانور پیدا ہوں گے، اس لیے کہ سیاہ فام، آدمی نہیں، جانور ہے۔ سفید فام انسانوں کی دنیا میں ایک ایسا جانور جس سے کئی اور کام لیے جا سکتے ہیں مگر جس سے نسلی اختلاط ناقابل تصور ہے۔ نسلی اختلاط صرف، سفید نسل کے خالص پن ہی کو آلودہ نہیں کرتا، سفید فام نسل کے کچھ تصورات کو بھی گزند پہنچاتا ہے۔ ایک یہ کہ سفید فام نسل بھی ’نسائیت‘ (effeminacy) کی حامل ہوتی ہے، جسے خود اس نسل کا غیر یعنی سیاہ فام مسخر کر سکتا ہے۔ سفید فام نسل، اپنی شناخت میں ’نسائیت‘ کو کہیں جگہ نہیں دیتی۔ وہ جب اپنی شناخت کے اظہار کے لیے صنفی اصطلاحات کا سہارا لیتی ہے تو اپنے لیے مردانہ صفات، یعنی بہادری، شرافت، جرأت، متحمل مزاجی، ذہانت، اولوالعزمی، تفاخر کا انتخاب کرتی ہے۔ جب کہ ان کے مقابل تمام زنانہ صفات، جیسے: بزدلی، دھوکا، بے صبری، جذباتیت، اطاعت پسندی کو سیاہ فاموں اور استعمار زدوں سے مخصوص کرتی ہے۔ چناں چہ کسی گوری عورت کا کسی سیاہ فام سے جنسی اختلاط، سفید فام نسل کی شناخت میں نسائیت کی موجودگی اور قابل مسخر ہونے کی علامت ہے۔ سیاہ فام اس اختلاط سے گویا، سفید فام کی مردانہ برتری کے تصور کو پاش پاش کرتا ہے۔ نیز نسل پرستانہ آئیڈیالوجی کی اس خصوصیت کہ ’’ طاقت ہی قدر ہے‘‘ کا پلڑا سیاہ فام کی جانب جھک جاتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ نسل پرستی اور استعماری استحصال کے شکار تمام بے بس افراد، سفید فاموں کی نسائیت کو پہچانتے ہیں اور اسے زک پہچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ جنسی اختلاط کو سیاسی معنویت دینے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ ن۔ م۔ راشد کی نظم ’انتقام‘ اس کی اہم مثال ہے۔ اس نظم میں ایک گوری عورت سے جنسی اختلاط کا ذکر ہے۔ نظم کا متکلم (وہ شاعر بھی ہو سکتا ہے اور کوئی فرضی کردار بھی) اس عورت کے ساتھ رات بھر اختلاط کرتا ہے، اور اسے ’ارباب وطن کی بے بسی‘ کا انتقام کہتا ہے۔
اس کا چہرہ، اس کے خد و خال یاد آتے نہیں
ایک برہنہ جسم اب تک یاد ہے
اجنبی عورت کا جسم
میرے ’’ہونٹوں‘‘ نے لیا تھا رات بھر
جس سے ارباب وطن کی بے بسی کا انتقام
وہ برہنہ جسم اب تک یاد ہے
راشد نے اس نظم میں سفید فام، استعمار کار قوموں کی منطق کو انھی پر گویا الٹا دیا ہے۔ نسل پرستی اور قوم پرستی میں اور نسل پر مبنی قوم پرستی میں فرد کہیں وجود نہیں رکھتا۔ اس کی کوئی علیحدہ، خود اپنے عمل اور فکر سے تشکیل پانے والی شناخت نہیں ہوتی۔ وہ اپنی نسل و قوم کی سب اچھی بری خصوصیات ہی نہیں، ان کے اعمال میں بھی شریک تصور ہوتا ہے۔ وہ اپنی نسل کے تفاخر و ذلت میں یکساں طور پر حصہ دار ہوتا ہے۔ چناں چہ ڈیسڈیمونیا ہو یا راشد کی اس نظم کی عورت، وہ ایک فرد نہیں ہے؛ ایسا فرد جو اپنی نسل و قوم سے جدا کوئی انسانی شناخت رکھتا ہو، بلکہ وہ نسلی شناخت کی وساطت سے، اس نسل کے تمام اعمال میں شریک سمجھا جاتا ہے۔ اسی منطق کے تحت ایک اجنبی قوم کی عورت سے رات بھر کے وصال کو ارباب وطن کی بے بسی کے انتقام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ خود اس نظم کا متکلم بھی خود کو ایک فرد نہیں، ارباب وطن کا ایک نمائندہ سمجھتا ہے اور اپنے عمل کو انفرادی نہیں قومی قرار دیتا ہے۔ علاوہ ازیں سیاہ فام، غلام، نیٹو، غیر کا کسی سفید فام عورت سے جنسی تعلق، ’بہادر، ناقابلِ تسخیر، فاتح، نوبل یورپی‘ کی خواب گاہ میں سیندھ تصور کیا جاتا ہے۔ اس کی نجی دنیا کے تقدس کو گویا سیاہی، برائی، شر کا حامل وجود آلودہ اور پامال کرتا ہے۔ ایاگو کا یہ کہنا ہمیں سمجھ آتا ہے کہ ’’ہوش میں آئیے جناب۔ آپ کے گھر پر ڈاکا پڑا ہے‘‘۔ سولھویں صدی میں ایاگو کی یہ چیخ، اکیسویں صدی کے مغرب میں گونجتی محسوس ہوتی ہے۔ نسل پرستی ختم نہیں ہوئی۔ بایں ہمہ راشد کی اس نظم پر یہ تنقید بجا ہے کہ انھیں بہ طور تخلیق کار نسل پرستی پر مبنی جس سٹیریو ٹائپ کو توڑنا چاہیے تھا، وہ اس کا شکار ہوئے ہیں۔ ایک تخلیق کار انسانی وجود پر مسلط کی گئی شناختوں کے مصائب بیان کرتا ہے، نہ کہ ان مصائب میں خود حصہ لیتا ہے یا اپنے کرداروں کو شریک ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ ٹھیک اسی اصول کے تحت چنواچیبے، جوزف کونارڈ اور اس کے ناول قلب ظلمات پر تنقید کرتا ہے۔ اس ناول میں جس یورپی آرزو کا اظہار ہوا ہے، وہ یورپی نسل پرستانہ ہے۔ بہ قول اچیبے، اس ناول میں کونارڈ نے افریقا کو یورپ اور اس کی تہذیب کی کامل ضد کے طور پر پیش کیا ہے۔ ناول میں دریائے ٹیمز سے دریائے کانگو کی طرف مہم کا بیان ہے۔ ٹیمز اور کانگو کی دنیائیں یکسر الگ ہیں۔ ایک روشنی، جستجو، تسخیر کی علامت ہے، دوسرا تاریکی، انفعالیت اور غلامی میں ملفوف۔ اس ناول میں بھی یورپی اور حبشی عورت کا تقابل ملتا ہے۔ اچیبے کے مطابق: ان دو عورتوں کی طرف جوزف کونارڈ کے رویے کا فرق اس قدر راست انداز میں ظاہر ہوا ہے کہ اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ ان میں سب سے اہم فرق یہ ہے کہ یورپی عورت کو انسانی اظہار کا اہل سمجھا گیا ہے، جب کہ افریقی عورت کو اس سے محروم رکھا گیا ہے۔ کونارڈ کا مقصد یہ نہیں کہ وہ افریقا کی ’’بچگانہ روح‘‘ کو زبان سے نوازے۔ وہ زبان کی جگہ ’’غیر اخلاقی آوازوں کی متشدد بڑبڑ‘‘ افریقی عورت کے لیے منتخب کرتا ہے۔
39۔ گویا افریقی عورت، کامل زبان سے محروم ہے، وہ انسانی ارتقا کے اس ابتدائی مرحلے میں ہے، جہاں اس نے ابھی پوری طرح اظہار کرنا سیکھا ہے نہ اپنی وحشی جبلتوں کو مہذب صورت دینے کے قابل ہوئی ہے۔ فرانز فیین کے نزدیک، افریقی لوگوں کو ’’بچگانہ روح‘‘ کا حامل سمجھنا یا ان کا ترقی یافتہ زبان سے محروم ’’غیر اخلاقی آوازوں کی متشدد بڑ بڑ‘‘ کا حامل ہونا، افریقی حقیقت کا اظہار نہیں ہے، بلکہ یہ ایک یورپی تشکیل ہے۔ اس کے نزدیک سیاہ فام کی جس روح کا ذکر یورپی تحریروں میں کثرت سے ملتا ہے، وہ در اصل سفید آدمی کی کاری گری ہے۔ جس کی روح کوئی دوسرا تشکیل دے، وہ بہ قول فینن اپنی اصل میں بے ہست وجود ہے، یعنیnon-being ہے۔
40۔ کونارڈ کے یہاں تمام افریقی مردو عورت بھی بے ہست وجود ہیں۔
بے ہست وجود، انسانی تاریخ کا عظیم پیراڈاکس ہے۔ یہ وہی صورت ہے جو غالب نے بیان کی ہے: ’’ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے‘‘۔ غیر سفید فام کا ہونا، در اصل اس کا نہیں ہونا ہے۔ وہ نہ تو اپنی زمین پر، اپنی زبان میں، اپنے ادب میں، اپنی کہانیوں اور ثقافت میں وجود رکھتا ہے اور نہ یورپ کے سفید فام تخیل میں۔ وہ ایک واہمہ ہے، ا یک بھوت ہے۔ اسے وجود حاصل کرنے کے لیے سفید فاموں کی زبان، ادب، آداب، تہذیبی اقدار سیکھنا پڑتی ہیں۔ ان کی تہذیب آموزی کا بوجھ سفید آدمی کے نازک کندھوں پر ہوتا ہے۔ اس لیے غیر سفید فام خود کو ان کے اسی طرح سپرد کر دیتے ہیں، جس طرح کوئی عاشق خود کو محبوب کے سپرد کرتا ہے۔ اور یہ سپردگی کامل ہے۔ جسم، روح، تخیل (جن کی حیثیت واہموں سے زیادہ نہیں ہوتی) سب سفید فاموں کے سپرد کی جاتی ہے۔ اکبر کے طنزیہ اشعار میں اس جانب واضح اشارے ہیں۔
عقل سپرد ماسٹر، مال سپرد آنجناب
جان سپرد ڈاکٹر، روح سپردِ ڈارون
میرا قالب ہو قالب غربی
بھول جاؤں زبان بھی اپنی
چیز وہ ہے بنے جو یورپ میں
بات وہ ہے جو پانیر میں چھپے
یہ کہ طاقت ہی قدر ہے، اس کا نتیجہ ہے کہ نسل پرستانہ آئیڈیالوجی بغیر کسی واسطے کے ظاہر ہوتی ہے اور ہر طرح کے تناظر سے آزاد ہوتی ہے۔
41۔ یہ اس عام اصول سے یکسر انحراف کرتی ہے، جس کے مطابق معنی، تناظر کے پابند ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ہم گزشتہ صفحات میں بیان کر آئے ہیں، سفید فام جمالیات اپنے معانی محض سفید فام ہونے ہی سے اخذ کرتی ہے۔ نیز سفید فام جمالیات محض اپنے آشکار ہونے سے، غیر سفید فاموں کے ادب کو از کار رفتہ بنا دیتی ہے ؛سفید فام کینن، خالص ادبی وجوہ کے بغیر، دیسی ادب کے لیے قابل تقلید بن جاتے ہیں۔ انیسویں صدی کے اواخر میں انجمن پنجاب کی تحریک نے بہ طور خاص خالص ادبی وجوہ کے بغیر وکٹوریائی ادبی اخلاقیات و جمالیات کو اردو میں رائج کرنے کی کوشش کی۔ جس نیچرل اور اخلاقی شاعری کی حمایت کی گئی، اس کی بہترین مثالیں پہلے ہی قلی قطب شاہ، میر تقی میر، میر حسن، نظیر اکبر آبادی اور دوسروں کے یہاں موجود تھیں۔ البتہ قومی شاعری اور قومی ادب، اردو کے لیے ایک نئی چیز تھی۔ اسی قومی ادب میں ہمیں نسل پرستی اور قوم پرستی کی آمیزش بیش از بیش ملتی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس ناول میں بھی طاقت اور نسل و قوم سے عبارت آئیڈیالوجی ملتی ہے۔ انگریز ہونے کا مطلب، برتر ہونا ہے اور برتری بغیر سلطنت کے ممکن نہیں۔ نیز صرف حکمران انگریز نہیں، ایرا غیرا انگریز بھی قابل عزت ہے۔ ’’(ابن الوقت) نہایت وثوق کے ساتھ کھلم کھلا کہا کرتا کہ سلطنت ایک ضروری اور لازمی نتیجہ ہے، قوم کی برتری کا۔ ۔ پس وہ اپنی اس رائے کی بنیاد پر بے غرضانہ ہر انگریز کو اگرچہ گھٹیا، بے حیثیت یوریشین ہی کیوں نہ ہو، بڑی وقعت کی نظر سے دیکھتا‘‘ نیز ’’اپنی قوم اور قوم کی ہر چیز کی حقارت اور انگریز اور ان کی ہر بات کی وقعت پہلے سے اس کے ذہن میں مرتکز تھی۴۱‘‘۔ یہی صورت انگریزی زبان کی ہے۔ انگریزی محض نئے علوم کی زبان کے طور پر نہیں سفید حاکموں کی زبان کے طور پر رائج اور مقبول ہوئی۔ انگریزی کی برتری سے متعلق بھی جتنے بیانیے رائج ہوئے، وہ نسل پرستانہ ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ہم نے قبول کیے۔ اکبر کی شاعری کا محبوب ہی نیٹو کی سند نہیں مانتا تھا، سر سید بھی نیٹو کی جگہ ایک گورے لارڈ میکالے کی سند لاتے ہیں۔ چوں کہ نیٹو / ہندوستانی نسلاً کم تر ہیں اس لیے ان کی زبانیں بھی کم تر ہیں۔ ان کی ورنیکلر زبانیں نہ انھیں عزت دلا سکتی ہیں، نہ ترقی۔ اپنی مقامی زبانوں میں تعلیم حاصل کرنے سے خود اپنی قوم میں عزت نہیں مل سکتی۔ ابتدا میں سید احمد خاں ورنیکلر زبانوں میں یورپی علوم کے تراجم کے قائل تھے، مگر بعد میں وہ میکالے کے ہمنوا ہو گئے جو مشرق کی کلاسیکی اور ہندوستان کی ورنیکلر زبانوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے، اور انگریزی ہی میں تعلیم کے حامی تھے۔ سید احمد خاں بھی اس رائے کے حامی ہو گئے کہ دیسی زبانوں میں تراجم سے، اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کی جا سکتی۔ گویا وہ یورپی متن کے خالص پن کو دیسی زبان میں مجروح ہوتا محسوس کرتے تھے۔ نیز وہ اس بات کے قائل محسوس ہوتے تھے کہ یورپی جدید علوم جس برتر علم و فضل، تہذیب واقدار سے عبارت ہیں، وہ غلاموں کی پس ماندہ زبانوں میں ظاہر ہو ہی نہیں سکتے۔ سید احمد خاں کی تاویلات پر نسل پرستانہ آئیڈیالوجی کے سائے دیکھے جا سکتے ہیں:
…لارڈ میکالے نے اور اس زمانہ کی تعلیم کے بورڈ کے تمام ممبروں نے بالاتفاق اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ وہ لوگ جو اعلیٰ درجہ کی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں، ان کی دماغی ترقی صرف بذریعہ ان زبانوں کے ہو سکتی ہے جن میں ورنیکلر داخل نہیں ہے …ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ادنیٰ درجہ کی تعلیم جیسے کہ اس زمانہ میں دیہاتی اور تحصیلی مکتبوں میں ہوتی ہے، ورنیکلر میں ہونی مفید ہے، مگر اس تعلیم سے قومی عزت حاصل نہیں ہو سکتی۔ قومی عزت اس وقت ہوتی ہے جب کہ قوم میں کثرت سے اعلیٰ درجے کے تعلیم یافتہ اشخاص موجود ہوں اور وہ اس زمانہ میں نہ ورنیکلر ترجموں سے حاصل ہو سکتی ہے نہ عربی فارسی کے ذریعے سے۔ وہ صرف یورپین زبانوں کے ذریعے سے حاصل ہو سکتی ہے، خواہ وہ زبان انگریزی ہو فرانسیسی۔
42۔ انیسویں صدی کے اواخر میں انگریزی زبان، برصغیر میں نسل پرستانہ آئیڈیالوجی کے فروغ اور پھیلاؤ کا سب سے بڑا ذریعہ بنی۔ بلاشبہ اس میں نئے علوم موجود تھے، اور نئے استعماری بندوبست نے ان کی ضرورت بھی پیدا کر دی تھی۔ اس بندوبست میں معاشی بقا کے لیے ان علوم کا سیکھنا ضروری ہو گیا تھا۔ جو لوگ اس ضرورت کا احساس نہیں کر سکے تھے، وہ معاشی پس ماندگی اور سماجی طور پر راندہ ہونے کا شکار بہ یک وقت ہوئے۔ تاہم نئے علوم کا سوال اتنا سادہ نہیں تھا، جتنا عام طور پر اسے سمجھا گیا۔ یہ نئے علوم، نسل پرستی پر مبنی نوآبادیاتی نظام کے زمانے اور اس کے تحت ہندوستان پہنچ رہے تھے۔ یورپ کے نئے علم اور یورپی استعماریت میں معاون علم میں فرق کرنے کی ضرورت تھی۔ اس ضرورت کو کم ہی محسوس کیا گیا۔ ہم انیسویں صدی میں ایسے کئی ادبی متون دیکھتے ہیں، جن میں ایک طرف نئے علم کی وکالت اس پر زور انداز میں کی گئی کہ اس کے استعماری رخ یا منشا کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں گیا، دوسری طرف انگریزی زبان کو نئے علوم کے ساتھ یورپی تمدن کا مظہر سمجھ کر اس کی حمایت کی گئی۔ اور ترقی کے لیے صرف علوم نہیں، یورپی تمدن کو پورے کا پورا قبول کرنا لازم ٹھہرایا گیا۔ یعنی اگر آپ انگریزی پڑھتے ہیں تو صرف جدید علوم ہی کا دروازہ نہیں کھلتا، ان سب اقدار کو بھی آپ حاصل کر لیتے ہیں، جو سفید فام نسل پرستی نے اپنے لیے مخصوص کیا: خیالات میں آزادی، استقلال، حوصلہ مندی، علو ہمتی، فیاضی، ہمدردی، سچائی، راست بازی۔ بغیر انگریزی پڑھے، ان سے آپ گویا محروم رہتے ہیں۔ دیسی زبانیں، دیسی نسلوں کی مانند ان سب شائستہ اوصاف سے محروم ہیں۔ نذیر احمد کے ابن الوقت کا یہ حصہ دیکھیے:
انگریزی زبان کے رواج دینے سے ایک غرض تو علوم جدیدہ کا پھیلانا ہے اور دوسری غرض اور بھی ہے۔ یعنی عموماً انگریزی خیالات کا پھیلانا۔ اکیلے علوم جدیدہ سے کام چلنے والا نہیں۔ جب تک خیالات میں آزادی، ارادے میں استقلال، حوصلے میں وسعت، ہمت میں علو، دل میں فیاضی اور ہمدردی، بات میں سچائی، معاملات میں راست بازی یعنی انسان پورا پورا جنٹلمین نہ ہو اور وہ بدون انگریزی جاننے کے نہیں ہو سکتا۔ …رفارم جس کی ضرورت ہندوستان کی ترقی کے لیے ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہندوستانیوں کو انگریز بنایا جائے۔ خوراک میں پوشاک میں، زبان میں، عادات میں، طرز تمدن میں، خیالات میں ہر اک چیز میں۔
43۔ فرانز فینن نے لکھا ہے کہ سفید فام اپنی نو آبادیوں میں خود کو کبھی کم تر محسوس نہیں کرتا۔
44۔ جب کہ نیٹو خود کو اپنی ہی زمینوں پر، اپنے ہی ملک میں بیگانہ محسوس کرتے ہیں، بلکہ ذلت آمیز بیگانگی کا تجربہ کرتے ہیں۔ منٹو کے افسانے ’نیا قانون‘ میں اس موضوع کی طرف اشارے ہیں۔ اگرچہ اس افسانے کا موضوع ۱۹۳۵ء کے انڈیا ایکٹ سے عام ہندوستانیوں میں پیدا ہونے والی امید کا یک دم مایوسی میں بدلنا ہے، تاہم نئے قانون کی خوش خبری سن کر منگو کوچوان، اپنی زمین پر بیگانگی کے خاتمے کی امید کرتا ہے۔ گوروں نے اسے اب تک جس ذلت اور احساس بیگانگی میں مبتلا کیا ہے، وہ اس سے نجات کی امید کرتا ہے۔ وہ جیسے ہی نئے قانون کی خبر سنتا ہے، اس کے دل میں گوروں کے ہاتھوں اپنی ذلت کی سچائی پوری طرح روشن ہو جاتی ہے۔
استاد منگو کو انگریزوں سے بڑی نفرت تھی۔ اور اس نفرت کا سبب تو وہ یہ بتلایا کرتا تھا کہ وہ ہندستان پر اپنا سکہ چلاتے ہیں۔ اور طرح طرح کے ظلم ڈھاتے ہیں۔ مگر اس کے تنّفر کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ چھاؤنی کے گورے اسے بہت ستایا کرتے تھے۔ وہ اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتے تھے گویا وہ ایک ذلیل کتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے ان کا رنگ بھی بالکل پسند نہ تھا۔ جب کبھی وہ گورے کے سرخ و سپید چہرے کو دیکھتا تو اُسے متلی آ جاتی۔ نہ معلوم کیوں وہ کہا کرتا تھا کہ ان کے لال جھریوں بھرے چہرے دیکھ کر مجھے وہ لاش یاد آ جاتی ہے جس کے جسم پر سے اوپر کی جھلّی گل گل کر جھڑ رہی ہو۔
45۔ منگو کو سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ اسے اس کی اپنی زمین پر باہر سے آنے والا گورا ذلیل کتا سمجھتا ہے۔ گورے نے اسے اس کی اپنی ہی زمین پر انسانی حیثیت سے محروم کر دیا ہے۔ منگو صرف گوروں کی معاشی وسیاسی پالیسیوں اور ان کے غاصب ہونے کے سبب ہی ناپسند نہیں کرتا، بلکہ وہ اس بات پر بھی دکھی ہے کہ اسے گورے ہر ہر قدم پر ذلت کا إحساس دلاتے ہیں۔ یعنی گوروں کا نسلی غرور، عام ہندوستانیوں کو ہر ہر پل کچوکے لگاتا ہے۔ منگو کے دل میں اسی لیے گورے رنگ ہی کے خلاف نفرت بھر گئی ہے۔ وہ گورے رنگ اور سرخ و سفید چہرے کو حسن کی علامت نہیں سمجھتا، بلکہ اسے کراہت آمیز محسوس کرتا ہے، جس سے اسے متلی محسوس ہوتی ہے۔ ایک اور جگہ منگو گوروں کو سفید چوہے بھی کہتا ہے۔ منگو کے کردار میں ایک طرف اپنے ہی وطن میں بیگانگی اور اس سے پیدا ہونے والی ذلت مجسم ہو گئی ہے، دوسری طرف اس بیگانگی اور ذلت کے خلاف تشدد آمیز ردّ عمل۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا، نسلی تفاخر پر مبنی آئیڈیالوجی تناظر کے بغیر ہے، اس لیے ہر جگہ ایک ہی طرح سے کام کرتی ہے۔ ڈاکٹر مبارک علی اور رضی عابدی نے اچھوت لوگوں کے ادب میں ایک دلت دیا پوار کی نظم شامل کی ہے، جو ایک خط کی صورت، لاس اینجلز سے بھیجی گئی ہے۔ اس میں بھی ہندوستانیوں کی کتوں کی مانند سمجھنے کا ذکر ہے اور نیگرو ہونا ایک گالی ہے۔
یہاں کے سٹورز میں ۔۔ہوٹلوں میں ۔۔۔ کلبوں میں
ہندوستانیوں اور کتوں کو ایک ہی نظر سے دیکھا جاتا ہے
’نیگرز، سیاہ فام‘ وہ مجھے یہ گالیاں دیتے ہیں
اور میرے دل کی گہرائیوں میں ہزاروں بچھو ڈنک مارنے لگتے ہیں
اسے پڑھ کر مجھے بہت اچھا لگا
اب تم نے بھی وہ مزہ چکھ لیا جو ہم سہتے رہتے ہیں
یہاں اس ملک میں نسل در نسل
46۔ ذلت آمیز بیگانگی کے علاوہ، بیگانگی کی کچھ اور صورتیں بھی نو آبادیاتی باشندے تجربہ کرتے ہیں۔ انھیں وجودی بیگانگی کے مغربی تصور کی مدد سے نہیں سمجھا جا سکتا۔ مغربی وجودی بیگانگی، وجود کے مابعد الطبیعیاتی مرکز سے الگ ہو کر بے معنویت کا تجربہ کرنے سے عبارت ہے، جب کہ استعماری بیگانگی، اپنی ہی زمین پر، اپنی زمین سے، لینڈ سکیپ سے، کلچر سے، زبان سے، ادب سے بیگانہ ہونے اور اس سے پیدا ہونے والی بے معنویت ہے۔ حقیقی ذلت کے علاوہ بے معنویت۔ تاہم یہ دہری بے معنویت ہے۔ پہلی بے معنویت کو سفید فام علم، طرز حکمرانی، جمالیات سے دور کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ اس سے مزید بے معنویت جنم لیتی ہے۔ وہ اپنی زمین، اپنی زبان، اپنے کلچر سے ایک نیا فاصلہ پیدا کر لیتا ہے۔ یہ فاصلہ صرف ذہنی اور جذباتی نہیں ہوتا، بلکہ علمی اور ادراکی نوعیت کا ہوتا ہے۔ اپنی زمین پر اپنی ثقافتی وجود سے بیگانگی کا آغاز کلچر کی یورپی تعریف کو تسلیم کرنے سے ہوتا ہے۔ یہ تعریف اس کے اپنے کلچر کو پہلے ہی روز در اصل ’ڈی کلچر‘ کر دیتی ہے۔ وہ جتنا یورپی کلچر کو قبول کرتا جاتا ہے، اپنے کلچر کے سلسلے میں شبہات اور حقارت کے جذبات پیدا کرتا جاتا ہے۔ دوسری طرف یورپی کلچر کو قبول کرنے میں خود اس کلچر کی نسل پرستانہ جہت حائل ہوتی ہے۔ وہ اپنے ذہن و حافظے کو یورپی خیالات سے معمور کر سکتا ہے، وہ یورپیوں کی مانند ان کی زبانیں بھی فرفر بول سکتا ہے، مگر اس کے رنگ کے فرق کے سبب، اسے یورپ اپنا حصہ نہیں بناتا۔ رنگ کا فرق اس قدر اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ مذہب کی تبدیلی کے باوجود بھی، سیاہ فامی ایک ابدی ملامت بنی رہتی ہے۔ مذہب مساوات، انسانی ہمدردی، مروت، رواداری کا درس دیتا ہے (اور ان اوصاف حسنہ ہی کا ترغیب آمیز بیان سن کر سیاہ فام عیسائیت قبول کرتے ہیں)، مگر سیاہ فاموں کو تبدیلی مذہب کے باوجود یہ مذہبی اخلاقی نعمتیں نصیب نہیں ہوتی۔ محض رنگ کے سبب، ان کی سفید فام مقتدر مذہبی گروہوں سے بیگانگی برقرار رہتی ہے۔ سیاہ فام لوگوں کی زندگی میں عیسائیت کا خدا بھی ایک مقتدر ہستی کے طور پر ظاہر ہوتا ہے جو ان کی پست دنیا میں نہیں آتا، ان کی پکار کا جواب نہیں دیتا۔ خدا کے گھر میں سفید فام پادری کو توباعزت جگہ ملتی ہے، سیاہ فام عیسائی کی تو فریاد بھی نہیں سنی جاتی۔ ہم اس تحریر کا اختتام تنزانیہ کے سیاہ فام شاعرہیس ٹنگز ڈبلیو و آلو تھوجینڈو کی نظم ’خدا کو بتاؤ‘ پر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ نظم اس احساس کے تحت لکھی گئی ہے کہ خدا براہ راست سیاہ فام کی التجا نہیں سنتا۔ پادری ہی خدا تک اس کی بات پہنچا سکتا ہے۔ اس نظم میں آئرنی، شکوے، طنز کے عناصر یکجا ہوئے ہیں۔ نظم کی ایک ایک سطر میں سیاہ فام شخص کی روح کا وہ کرب سمٹ آیا ہے جس کا باعث نسلی امتیاز اور بیگانگی ہے۔ نیز یہ نظم سوال بھی اٹھاتی ہے کہ نسلی امتیاز میں خدا کس جانب ہوتا ہے؟
خدا کو بتاؤ
کہ میں نے اس کے ان بندوں کو گرجا گھر میں جاتے دیکھا ہے
اسے بتاؤ کہ میں نے اس کے پادری کو
انھیں نجات اور بخشش کی دعائیں دیتے دیکھا ہے
لیکن یہ پادری ان میں سے نہیں ہے
کیوں کہ وہ اس جہنم میں کبھی نہیں آئے گا
جہاں یہ مفلس اور کنگلے لوگ رہتے ہیں
اس کا پادری
امرا کی آبادی کی طرف روانہ ہو چکا ہے
جہاں امن، آرام اور جنت
انسانی محبت کے دکھ اور گناہ سے ماورا ہیں
اسے بتاؤ کہ
میں انسان کی روحانی تکلیف کے شدید احساس سے گزرا ہوں
اور میں نے اسے بارہا پکارا ہے
اسے بتاؤ
کہ میں نے اسے بہت تلاش کیا ہے لیکن وہ کہیں نہیں ملا
میں نے چلا چلا کر اسے آوازیں دی ہیں مگر اس نے جواب نہیں دیا
اسے بتاؤ
کہ میں نے عبادت گاہ میں خون رو رو کر اس سے التجائیں کی ہیں
لیکن اس نے ہماری طرف نگاہ نہیں کی
خدا کو بتاؤ، اسے بتاؤ
کہ وہ اپنے آسمانوں کے ابدی سکون سے نکلے اور اس جہنم میں آئے
ان کے لیے جو بیمار اور بے یارو مددگار ہیں
یہ اجڑے ہوئے اور بھلائے ہوئے لوگ اسے پکار رہے ہیں
اسے بتاؤ کہ یتیم، معذور عاشق اور خبطی سب اس کی چاہ میں سلگ رہے ہیں
خدا کو بتاؤ، خدارا بتاؤ
کہ اسے گرجا گھروں اور نئے طرز تعمیر کی شاندار عبادت گہوں میں
رہتے ہوئے بہت وقت ہو گیا ہے
اسے بتاؤ کہ پاک اور مقدس قربان گاہوں میں وہ بہت رہ چکا ہے
اے خدا، وہاں کوئی نہیں ہے
وہاں اس تیرے مقدس پادری کے سوا کوئی نہیں ہے!
خدا کو بتاؤ کہ وہ غریبوں کے محلوں کی طرف آئے
اسے بتاؤ کہ اب دیر کی گنجائش نہیں ہے۔
حواشی/حوالے:
1۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
مسجد میں اس نے ہم کو آنکھیں دکھا کے مارا
انھیں منظور اپنے زخمیوں کو دیکھ آنا تھا
(ابراہیم ذوق)
لپٹا کے شب وصل وہ اس شوخ کا کہنا
کافر کی شوخی دیکھو گھر میں خدا کے مارا
(مرزا غالب)
اٹھے تھے سیر گل کو دیکھنا شوخی بہانے کی
کچھ اور ہوس اس سے زیادہ تو نہیں ہے
(نظام رامپوری)
2۔ جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار
اے کاش جانتا نہ تیری رہ گذر کو میں
(مرزا غالب)
اس نقش پا کے سجدے نے کیا کیا کیا ذلیل
میں کوچہ رقیب میں بھی سر کے بل گیا
(مومن)
3۔etymoline.com/word/native
4۔۔ فرانسسکو برتھن کورٹ(Francisco Bethencourt)، Racism: From the Crusades to the Twentieth Century، نیوجرسی، پرنسٹن یونیورسٹی پریس، ۲۰۱۳ء ۔ص ۳۱۔
5۔۔ علی رتناسی، Racism: A Very Short Introduction، نیویارک:اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس، ۲۰۰۷۔ص ۱۴ ۔
6۔۔ علی رتناسی، ص ۱۵ ۔
7۔۔ محمد عبد القادر عمادی، نسل اور نسلی امتیازات، نئی دہلی: ترقی اردو بیورو، ۱۹۸۴ء۔ ص ۱۰۔۱۱۔
8۔۔ فرانسسکو برتھن کورٹ، Racism: From the Crusades to the Twentieth Century، متذکرہ بالا، ۴۰۔
9۔۔ برتھن کورٹ۔ ص 40۔
10۔۔ ایم این سرنواس، جدید ہندوستان میں ذات پات، (ترجمہ : شہباز حسین)، دہلی، نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا، ۱۹۷۴ء۔۹۱۔۹۲۔
11۔۔ ایم این سرنواس، ص ۹۲۔
12۔۔ ایم این سر نواس، ص ۹۳ ۔
13۔۔ مسعود عالم فلاحی، ہندوستان میں ذات پات اور مسلمان، (نئی دہلی، القاضی پرنٹر اینڈ پبلشر، ۲۰۰۷ء) ۴۲۔
14۔۔ منو سمرتی، (اردو ترجمہ سوامی لالہ سوامی دیال)، کان پور، مطبع فیض منبع منشی نول کشور، س ن ۔ ۸۔
15۔۔ مسعود عالم فلاحی، ص ۴۰۔
16۔۔ ایم این سرنواس، ص۶۴۔
17۔۔ مسعود عالم فلاحی، ص ۱۲۱۔
18۔۔ علی رتناسی، ص ۳۰۔
19۔۔ علی رتناسی، ص ۲۷۔
20۔۔ علی رتناسی، ص ۲۸۔
21۔۔ ایمی سیزارے، A Poetics of Anticolonialism، ترجمہ جوان پنکھم، (نیویارک، منتھلی نیویارک پریس، س ن)، ۳۱۔
22۔۔علی رتناسی، ص ۲۸۔
23۔۔ مولانا عبد السلام ندوی، ابنِ خلدون ۔ لاہور: گلوب پبلشرز، س ن۔ ص ۹۴۔
24۔۔ بہ حوالہ ایما نوئیل چکوودی ازی، (مدیر)، Race and the Enlightenment: A Reader، ۔میلڈن:بلیک ول پبلیشز، ۱۹۹۷ء۔ ص ۳۳۔
25۔۔ برتھن کورٹ، ص 35۔
26۔۔ لنڈے سے پریس مین، How Evolution was used to support Scientific Racism، ۔دی ٹرینیٹی پیپرز، ۲۰۱۱ء۔
27۔۔ علی رتناسی، Racism: A Very short Introduction، متذکرہ بالا، ۵۴۔
28۔۔ علی رتناسی، ص ۷۰۔
29۔۔ لیوی سٹراس، The Savage Mind، (ترجمہ جارج ویڈن فیلڈ)۔شکاگو: یونیورسٹی آف شکاگو پریس، ۱۹۶۲ء۔ ص ۱۲
30۔۔ علی رتناسی، ص ۷۱۔
31۔۔ عزیز احمد، نسل اور سلطنت ۔نئی دہلی : انجمن ترقی اردو، ۱۹۴۱ء۔ ص۱۰۳۔
32۔۔ جون ڈی کویکنبوس، (John D Quackenbos) Illustrated History of Ancient Literature، Oriental and Classical ۔ نیو یارک: ہارپر اینڈ برادرز۔1882۔ ص ۱۵۔
33۔۔ عزیز احمد، ص 103۔
34۔۔ نذیر احمد، ابن الوقت۔ دہلی: مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، ۱۹۸۰ء۔ص ۷۶۔
35۔۔ نذیر احمد، ص ۹۵۔
36۔۔ رتن ناتھ سرشار، فسانہ آزاد، جلد اوّل۔ نئی دہلی : ترقی اردو بیورو، ۱۹۸۶ء۔ص۱۵۔
37۔۔ شیسکپیئر، آتھیلو، (ترجمہ سجاد ظہیر)۔ نئی دہلی: ساہتیہ اکادمی، ۱۹۶۶ء۔ ص ۱۵۔
38۔۔ شیسکپیئر، ۱۶۔۱۷۔
39۔۔ چنو اچیبے، An Image of Afric:Racism in Conard’s‘Heart of Darkness’۔میسا چیوسٹس ریویو، ۱۸، ۱۹۷۷۔ص ۲۵۵۔
40۔۔ جان ایم کانگ، Deconstructing the Ideology of White Aesthetics ۔مشی گن جرنل آف ریس اینڈ لا، ۱۹۹۷ء۔ص ۲۸۸۔
41۔۔ جان ایم کانگ، ص ۲۸۸۔
42۔۔ نذیر احمد، ص ۳۰۔
43۔۔ نذیر احمد، ص ۱۰۱۔
44۔۔ فرانز فینن، ص 67۔
45۔۔ سعادت حسن منٹو، منٹو راما، ۔لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۹۸ء۔ ص ۷۰۸۔
46۔۔ مبارک علی، رضی عابدی، اچھوت لوگوں کا ادب۔لاہور: فکشن ہاؤس لاہور، ۱۹۹۴ء۔ ص ۱۰۲۔
47۔۔ امجد اسلام امجد(مترجم) کالے لوگوں کی روشن نظمیں۔لاہور: مجلس ترقی ادب، ۱۹۷۶ء۔ ص ۱۳ تا ۱۵۔
کتابیات:
امجد، امجد اسلام ۔(مترجم)۔ کالے لوگوں کی روشن نظمیں۔لاہور: مجلس ترقی ادب، ۱۹۷۶ء۔
احمد، عزیز ۔ نسل اور سلطنت ۔نئی دہلی : انجمن ترقی اردو، ۱۹۴۱ء۔
احمد، نذیر ۔ابن الوقت۔دہلی:مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، ۱۹۸۰ء۔
سرشار، رتن ناتھ۔ فسانہ آزاد، جلد اوّل۔نئی دہلی : ترقی اردو بیورو، ۱۹۸۶ء۔
سری نواس، ایم این۔ جدید ہندوستان میں ذات پات (ترجمہ : شہباز حسین)۔ دہلی:نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا، ۱۹۷۴ء۔
شیسکپیئر، ولیم۔آتھیلو، (ترجمہ سجاد ظہیر)۔نئی دہلی: ساہتیہ اکادمی، ۱۹۶۶ء۔
علی، مبارک ؛عابدی، رضی ۔ اچھوت لوگوں کا ادب۔لاہور: فکشن ہاؤس لاہور، ۱۹۹۴ء۔
عمادی، محمد عبد القادر عمادی ۔نسل اور نسلی امتیازات۔ نئی دہلی:ترقی اردو بیورو، ۱۹۸۴ء۔
فلاحی، مسعود عالم ۔ہندوستان میں ذات پات اور مسلمان ۔نئی دہلی :القاضی پرنٹر اینڈ پبلشر، ۲۰۰۷ء۔
منٹو، سعادت حسن۔ منٹو راما، ۔لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۹۸ء۔
منو سمرتی، (اردو ترجمہ سوامی لالہ سوامی دیال)، کان پور، مطبع فیض منبع منشی نول کشور، س ن ۔
ندوی، عبد السلام ۔ ابنِ خلدون ۔ لاہور: گلوب پبلشرز، س ن۔
www.etymoline.com/word/native
- Achebe، Chinua۔ An Image of Africa: Racism in Conrad’s Heart of Darkness، The Massachusetts Review، Volume 57، Number 1، Spring 2016، pp۔ 14-27
- Ali، Ratnasi. Racism: A Very Short Introduction۔ New York: OUP، 2007۔
- Bethencourt، Fransisco. Racism: From the Crusades to the Twentieth Century۔ New Jersey:Princeton University Press، 2013
- Césaire، Aimé. Discourse on Colonialism۔ (Translated by Joan Pinkham)۔ NYU Press، Monthly Review Press، nd۔
- Eze، Emmanuel Chukwudi (ed۔)۔ Race and the Enlightenment: A Reader۔ Blackwell، 1997۔
- Kang، John M۔ Deconstructing the Ideology of White Aesthetics۔ Available at: https://repository۔law۔umich۔edu/mjrl/vol2/iss2/3
- Levi-Strauss، Claude. The Savage Mind۔ (Translated by George Weidenfeld)۔ Chicago، Illinois: University of Chicago Press، 1962Pressman، Lindsay، "How Evolution was used to Support Scientific Racism”۔ The Trinity Papers (2011۔ present)، 2017۔
- Quackenbos، John D۔ Illustrated history of ancient literature، oriental and classical۔ New York: Harper & Brothers، Publishers، 1882۔
٭٭٭