نیا نگر، قسط ۔۔۔۳ تصنیف حیدر

فلیٹ کی فضا کچھ سنجیدہ تھی۔ نظر مراد آبادی اپنے بزرگ دوست اور مشاق شاعر نظیر روحانی کے پینتانے بیٹھا، ان کے پانو گود میں رکھے ہلکے ہلکے پنڈلیوں کو داب رہا تھا۔ فرش پر ایک ایش ٹرے رکھا تھا جو کہ سگریٹ کے فلٹروں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، دھواں اور بو اب بھی کمرے میں رقص کناں تھے۔ نظیر روحانی ایک باریش بزرگ تھے، تلمیح نگاری میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ادھر گزشتہ بیس بائیس روز سے نظر مراد آبادی ان کا بالکل چیلا بنا ہوا تھا۔ بات یہ تھی کہ بھیونڈی میں ہونے والے ایک مشاعرے کو ٹھکرا کر وہ اندھیری کے نئے مشاعرے میں اپنا نام لکھوانا چاہتا تھا، جس کے بارے میں اسے علم تھا کہ اچھی خاصی رقم بھی مل سکتی ہے اور نام بھی جم سکتا ہے اور ایسے میں اگر کوئی اس کے کام آ سکتا ہے تو نظیر روحانی، جن کی اندھیری کے مشاعرے کے کنوینر سے بڑی اچھی دوستی تھی۔ حالانکہ یہ بات نہ نظیر نے چھیڑی تھی اور نہ براہ راست استاد نے یہ ظاہر کیا تھا کہ ان پر شاگرد کی نیت روز روشن کی طرح صاف ہے۔ پھر بھی آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک معاہدہ ہو چکا تھا، جس کے رو سے مشاعرے کے ہو جانے تک، نظیر روحانی کے ناشتے، پانی سے لے کر سگریٹ، پان اور دوسری خدمات کا خاص خیال نظر مراد آبادی کے حصے میں آیا تھا۔ اس کی خدمت گزاری سے یہ لگ سکتا تھا کہ وہ عالم اور شاعر لوگوں کی بڑی قدر کرتا تھا مگر ایسا تھا نہیں۔ در اصل بھیونڈی کا مشاعرہ اس نے جان بوجھ کر چھوڑ دیا تھا۔ اس کی نئی بیوی، جو کہ پہلے ایک حولدار کی منکوحہ اور غیر مسلم تھی، اسے بھیونڈی کے مضافات سے بھگا کر ہی وہ اپنے ساتھ لایا تھا، وہاں وہ فرار تھا، لڑکی اس کے نکاح میں آنے کے لیے مسلمان ہو گئی تھی اور سانتا کروز کی ایک لڈو فیکٹری میں لڈو بنانے کا کام بھی کرنے لگی تھی، مگر نظر بے کار اور آوارہ تھا۔ بیوی پر بھی شادی کے بعد ہی یہ کھلا کہ جس کے لیے اس نے ہفت آسمان کی مشکلوں کو پار کیا اور جس دریا کو وہ سونے کا سؤرگ سمجھ کر اس میں کود پڑی، وہ سراب کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ آنکھ کھل چکی تھی، خواب ٹوٹ چکا تھا، مگر شادی چل رہی تھی۔ نظر کے بارے میں مشہور تھا کہ اس سے پہلے وہ ایسی ہی دو ناکام شادیاں اور کر چکا ہے۔ وہ کسی نئے علاقے میں جاتا، وہاں کوئی لڑکی ڈھونڈتا، اسے بہلا پھسلا کر اس سے شادی کرتا، پھر اسی کو کام پر لگا کر اپنی انہی آوارہ گردیوں میں لگ جاتا، جن سے تنگ آ کر بیوی کسی دوسرے مرد کے ساتھ یا کبھی اکیلے ہی فرار ہو جاتی۔ نظر زیادہ تر کمائی کے آسان دھندے ڈھونڈتا تھا۔ اسے نوکری کرنا، وقت پر کہیں آنا جانا، پیٹھ ٹکا کر یا دوڑ بھاگ کر کے کوئی کام کرنا اپنی دانست میں بے کار ہی جان پڑتا۔ وہ دلالی کے چھوٹے موٹے کام کر کے کمیشن کی رقم تو بنا لیا کرتا تھا مگر اس میں بھی آسان طلبی اس حد تک غالب آ چکی تھی کہ سودا پٹ جانے تک کا انتظار بھی اس کے لیے نا ممکن ہوتا اور کلائنٹ سے پہلے ہی کمیشن نکلوانے کی تگڑموں میں وہ اکثر ان دلالی کے چھٹ پٹ کاموں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا۔ وہ کئی طرح کے نشے بھی کرتا تھا، جن میں سمیک، چرس، گانجا، افیم سبھی کچھ شامل تھا۔ شکل و شباہت بتاتی تھی کہ کسی زمانے میں وہ خوش قامت و خوش رنگ رہا ہو گا مگر نشے کی عادت اور آسان روزگار کی فکر کے ساتھ ساتھ عورت بازی کی لت نے اسے بالکل خوار کر دیا تھا۔ جسم کبھی توانا رہا ہو گا مگر اب پچک کر بالکل کسی مرجھائے ہوئے غبارے کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ آنکھیں اندر کو دھنس گئی تھیں اور ان کے نیچے دسیوں جھریاں ابھر آئی تھیں، چمک بھی متاثر ہوئی تھی۔ چہرہ پیلا پڑ گیا تھا۔ کسی بات پر جب وہ بے اختیارانہ ہنستا تو معلوم ہوتا کہ اس کے جبڑے نے پچھلے دانتوں کا ساتھ دینا رفتہ رفتہ کم کر دیا ہے، بلکہ نیچے کی ایک داڑھ تو بالکل جھڑ چکی تھی۔ سینے پر بال تھے، مگر اب ان کی بھی شکل کسی کچلی ہوئی جھاڑی کی طرح ہو گئی تھی۔ آسان معاشی راستوں پر چلتے چلتے کب وہ اتنی مشکلوں میں گھر گیا تھا، اسے خود بھی اندازہ نہیں تھا بلکہ اب بھی اس کا یقین اس بات پر تھا کہ اس دنیا میں اگر تھوڑی سی عقلمندی، چاپلوسی اور بے شرمی سے کام لیا جائے تو ہاتھ پیر ہلانے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔ نظیر روحانی ایک خوشامد پسند بندہ تھا۔ اس کی طبیعت تعریف سے گدگدا اٹھتی تھی اور اس بات کا اندازہ دو ایک ملاقاتوں میں نظر مراد آبادی نے لگا لیا تھا۔ اس نے اس بات کو آزمانے کے لیے ایک بار کسی ہوٹل میں نظیر روحانی کو چائے پلاتے وقت پہلے تو اس سے شعر سنے اور پھر بہت سی تلمیحات نہ سمجھ میں آنے کے باوجود بھی تعریف پر تعریف کرتا رہا۔ اس نے محسوس کیا کہ ہر بار جب وہ تعریف کرتا، نظیر روحانی کی مسکان مزید چوڑی ہو جاتی، اس کے چہرے پر عنابی رنگ بکھر جاتا اور ایسا محسوس ہوتا جیسے کسی نے اس کی آنکھوں میں لشکارے چھوڑ دیے ہوں۔ اتنی دیر میں نظیر نے اس سے ایک دفعہ بھی نہیں پوچھا کہ اسے شعر سمجھ میں آیا بھی یا نہیں۔ اتفاق یہ ہوا کہ تھوڑی دیر میں وہیں سے قاری مستقیم کا گزر ہوا، وہ اپنی بائیک روک کر برابر کی کسی سٹیشنری پر کوئی کاروباری گفتگو کر رہے تھے کہ انہیں نظر مراد آبادی کی آواز سنائی دی۔ پلٹ کر دیکھا تو برابر میں لگے ایک بامبو سے سٹے سٹول پر نظیر روحانی اور نظر مراد آبادی اسے دکھائی دیے۔ میز پر کانچ کے دو چھوٹے گلاسوں میں بچی کھچی چائے موجود تھی اور سائیڈ میں ایک ٹین کی چھوٹی سی کٹوری میں خستہ پاپے سجے ہوئے تھے۔ قاری مستقیم نے پہلے تو وہاں سے ٹلنا چاہا کہ وہ نظر مراد آبادی کی ٹھرک بازیوں کے قصے بہت سن چکا تھا۔ وہ جب بھی نظر کو دیکھتا اسے اپنی جوان بیوی اس کی بانہوں میں دکھائی دیتی، اس وقت بھی اسے یہی محسوس ہوا جیسے وہ سڑک پر تنہا کھڑا ہے، چوک کی پرلی طرف کسی گاڑی نے ڈیزل کا کالا دھواں اس کے منہ پر دے مارا ہے، اور کڑوی حلق لیے اپنی بیوی کو نظر مراد آبادی کے ساتھ پاپے کھاتے اور چائے پیتے دیکھ رہا ہے، نظر مراد آبادی کی آنکھوں میں چمک ہے اور لبوں پر ایک ایسی مسکراہٹ، جس میں اس کی مردانگی کے سارے قصے تاروں کی طرح سمٹ کر ایک مرکز پر جمع ہو گئے ہیں اور ان کی جگمگاہٹ نے پورے منظر کو ڈھانپ لیا ہے۔ ڈیزل کا کالا دھواں حلق میں اتار کر بری طرح کھانستے ہوئے قاری مستقیم اپنی بیوی کی طرف دیکھنا چاہتا ہے، مگر وہ کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ ادھر ادھر بے چینی سے دیکھنے کے بعد جب دوبارہ اس کی آنکھیں نظر مراد آبادی سے دوچار ہونا چاہتی ہیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ نظر اس کی بیوی کو گود میں بٹھا کر اس کی گردن پر ایک طویل بوسہ کھینچتے ہوئے قاری مستقیم کو اس کے نامرد ہونے کا احساس دلا رہا ہے، اس کا ایک ہاتھ مستقیم کی بیوی کی ران پر مضبوطی سے جما ہوا ہے اور اسے ایک ایسی گالی سے نواز رہا ہے، جس کو سن پانے کی ہمت اس میں نہیں۔ وہ جلدی میں کچھ کہنا چاہتا تو ڈیزل کا گاڑھا دھواں اس کے منہ، ناک، حلق، کان سب جگہ بھر جاتا ہے، اسے شدید حبس کا احساس ہوتا ہے، الفاظ کالا دھواں بن کر ہوا میں معلق ہو جاتے ہیں اور منہ سے صرف۔۔۔ ایق، ایق کی آواز نکلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، وہ تیرنے کے انداز میں ہوا میں ہاتھ پاؤں مارنے لگتا ہے، تبھی اسے احساس ہوتا ہے کہ کوئی پیٹھ سہلا رہا ہے، ایک گونجتی ہوئی آواز اس کے کانوں سے ٹکراتی ہے، دھواں دھیرے دھیرے چھٹنے لگتا ہے اور وہ دیکھتا ہے کہ نظر مراد آبادی اور نظیر روحانی دونوں ہی اسے ٹیبل تک لے آئے ہیں، وہ بیٹھا ہے، اس کے ہاتھ میں چائے کی پیالی ہے، جس سے سفید دھوئیں کی ننھی ننھی لہریں اٹھ رہی ہیں۔ وہ کھسک کر پیچھے بیٹھتا ہے، حواس پر قابو پاتا ہے اور دھیرے دھیرے اس کے ذہن پر یہ بات روشن ہوتی ہے کہ وہ اپنی ہی بد خیالی کے کالے دھویں سے گھر گیا تھا۔ یہ سوچ کر اسے اطمینان ہوتا ہے اور ہنسی آ جاتی ہے۔ چائے چھلکتی ہے، آنکھوں میں پانی بھر آتا ہے اور وہ ہونقوں کی طرح جب اپنے آس پاس کا جائزہ لیتا ہے تو نظر مراد آبادی کی آواز دوبارہ اسے سنائی دیتی ہے۔

’مستقیم بھائی! نظیر صاحب نے کیا بہترین غزل لکھی ہے، ذرا اس کا مطلع تو سنائیے انہیں بھی؟‘

قاری مستقیم اب پوری طرح ہوش میں آ چکا تھا ور اسے اپنے لمحاتی باؤلے پن سے چھٹکارا مل گیا تھا۔ کسی چوہے کی طرح بل سے باہر نکلنے کی چھوٹی سی راہ پاتے ہی وہ اپنے اندر کے خوف سے نکل کر دور بھاگا اور اس نے غزل کی بوری میں پناہ لینی چاہی۔

’ارے صرف مطلع ہی کیوں، پوری غزل سنائیے نظیر بھائی!‘ اس نے اپنے گلابی مسوڑھوں کی نمائش کرتے ہوئے کہا۔

نظیر روحانی ایک اور سامع کے اضافے پر مزید خوش ہو گیا اور اس نے ذرا دیر پہلے سنائی ہوئی غزل کا مطلع ارشاد کیا۔

سامری تو کرے ہزاروں طلسم

اس نے مصرعے پر زور دیتے ہوئے اسے دوبارہ دوہرایا۔

سامری تو کرے ہزاروں طلسم

پھر تبارا کہا

سامری! تو کرے ہزاروں طلسم

کام آنا ہے بس خدا کا ہی اسم

جواب میں دونوں ہی سامعین واہ واہ کی صدا بلند کرنے لگے۔ لیکن خیالوں میں اپنی دلہن کو نظر مراد آبادی کی گود سے واپس چھیننے کا ایک یہی طریقہ تھا کہ اسے نظیر روحانی کے سامنے بے عزت کیا جائے۔ پورا نیا نگر جانتا تھا کہ وہ کتنا بڑا خوشامدی ہے۔ لیکن آج اس کا ڈھول زور سے پیٹنے کی ضرورت تھی۔ قاری مستقیم نے نظر کی پیٹھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔

’غضب کر دیا استاد نے! اور یہ سامری کا لفظ کتنے سلیقے سے استعمال کیا گیا ہے۔‘

نظر مراد آبادی پتہ نہیں کیسے مگر قاری مستقیم کی نیت بھانپ گیا۔ اس نے فوراً ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا۔

’یہی تو کمال ہے استاد کا، لیکن اگلا شعر اس سے بھی اعلیٰ ہے، استاد سنائیے نا! پلیز پلیز۔۔۔ ۔‘

نظیر روحانی تعریفوں سے پھول کر کپا ہو رہا تھا، اور ادھر قاری مستقیم کو یہ فکر لاحق تھی کہ کیسے اس بد معاش کو ذلیل کیا جائے۔ نیا نگر کی سڑک پر کوئی حادثہ ہو جائے تو بھی شاید لوگ اتنی تیزی سے متوجہ نہیں ہوتے جتنا کسی کا شعر سنتے ہی ہو جاتے تھے، چنانچہ اگلے دو تین شعروں کو پڑھنے کی دیر تھی، تعریفوں کی صداؤں نے سامعین کی تعداد کو دو سے سات کر دیا۔۔۔ ۔ نظر مراد آبادی اب بھی سب سے زیادہ جوش سے، بلکہ اچھل اچھل کر داد دے رہا تھا اور قاری مستقیم مٹھیاں بھینچ بھینچ کر۔ اسے سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ کون سی ترکیب سے اس چلتے پرزے کو زیر کرے۔ جب لوگوں کی تعداد بڑھنے لگی اور نظیر روحانی پہلی سے دوسری اور دوسری سے تیسری غزل کی طرف بڑھنے لگا تو اس نے چار و ناچار اہل محفل سے اجازت چاہی اور سب کے انکار پر ایک پر تکلف بہانے کا پھاہا رکھ کر محفل سے چمپت ہو لیا۔

۰۰۰

 

’ایک چیز ہوتی ہے تجنیس، پھر اس کی اقسام ہوتی ہیں، جیسے تجنیس تام، تجنیس خطی، تجنیس صوتی وغیرہ وغیرہ۔ ۔‘نجیب اس وقت نسیم بریلوی کے گھر پر تھا، وہ بصد شوق اسے سن رہی تھی، پاس ہی شہناز بیٹھی آلو چھیل رہی تھی، اس کی ہاتھوں کی رفتار سست تھی، آنکھیں نیچے جھکی ہوئی تھیں، مگر کان اسی طرف لگے تھے۔ حالانکہ اسے سمجھ کچھ نہیں آ رہا تھا، پھر بھی وہ اس دبلے پتلے نوجوان کو سن رہی تھی۔ خالد اور سردار دونوں گھر پر نہیں تھے۔ وقت یہی کوئی دوپہر کا تھا، کچن سے پانی کی دھار اور برتنوں کی کھٹ پٹ کی آواز آ رہی تھی، جس سے معلوم ہو رہا تھا کہ نسیم کی والدہ موصوفہ برتن دھو رہی ہیں۔

’تجنیس تام کی مثال میں اپنا ایک قطعہ سناتا ہوں۔

اس شمع دل کے طوف کو راضی اگر پروانہ ہو

یہ جل مرے یا مر مٹے اس کو مگر پروا نہ ہو

اک دھیما دھیما سوز ہو، اس ہلکے ہلکے ساز میں

یہ راز دل ہرگز مگر اس کی نظر پر وا نہ ہو‘

نسیم نے بے دھڑک ایک صدائے تحسین بلند کی۔ وہ شہناز کو جھنجھوڑتی جاتی اور کہتی جاتی۔ ’یار! کیا زبردست لفظوں کا کھیل رچا ہے، واہ میرے بھیا، کیا کہتے ہیں اسے، سنا شہناز! یہ لڑکا کتنا ہونہار ہے۔‘ جواب میں شہناز نے پلکیں اٹھائیں اور نجیب کو ایک نظر دیکھا پھر اپنی بہن کی دیوانگی پر مسکراتی ہوئی تشلا اٹھا کر کچن کی طرف چلی گئی۔ نجیب کی نگاہوں نے گیلری کی چوکھٹ تک اس کا پیچھا کیا۔ مگر پھر اسے چار و ناچار نسیم کی طرف ہی متوجہ ہونا پڑا۔

’بھیا! اسے کیا کہتے ہیں؟ کیا بتایا تھا؟‘ وہ ڈائری کھول کر بیٹھ گئی اور نجیب کے بتانے پر دیوناگری میں اسے نوٹ کرنے لگی۔

’یہ تو ہوئی تجنیس تام، مگر تم نے کچھ اور بھی نام بتائے تھے، وہ کیا تھے؟‘ اس نے کسی پر اشتیاق طالب علم کی طرح پوچھا۔

’تجنیس خطی اور تجنیس صوتی‘

’اچھا! اس کی بھی کچھ مثالیں دے دو، تاکہ میں بھی ایسے کچھ شعر کہہ کر لوگوں پر کچھ رعب جما سکوں۔‘ اس نے آنکھ مار کر قہقہہ لگایا اور نجیب کے کندھے پر پیار سے ایک زور دار ہاتھ جما دیا۔ نجیب کا سارا دھیان شہناز کی طرف تھا۔ اور اسی کی وجہ سے وہ اس پچھ لگو شاگردہ کو جھیلنے پر مجبور تھا۔ اس نے بجھے بجھے لہجے سے کہا۔

’تجنیس خطی اسے کہتے ہیں، جس میں الفاظ دکھنے میں تو ایک جیسے مگر ان میں نقطوں یا اعراب کا فرق ہو؟‘

’ہیں۔۔۔ ۔ کس کا؟‘

’زیر زبر کا۔ مطلب ایک لفظ میں اگر کسی ایک حرف پر زبر لگا ہو تو دوسرے میں اسی پر زیر یا پیش۔‘

’اے بھیا! ذرا کھل کر بتاؤ نا! میں نوٹ کر رہی ہوں۔ اس کی کچھ مثال بھی دے سکتے ہو؟‘

’آپ ابھی زیادہ نہ الجھیے۔‘ اس نے ایک تجربہ کار استاد کی طرح کہا۔ ’فی الحال اتنا ہی کافی ہے کہ آپ تجنیس تام کو سمجھ گئی ہیں۔ نام یاد رکھیے اور ایسے ہی ایک دو شعر مجھے کہہ کر دکھائیے۔‘

’اچھا۔۔۔ ہاں یہ بھی صحیح ہے۔۔۔‘ نسیم نے بجھے دل سے کہا اور ڈائری میں کچھ لکھنے کی کوشش کرنے لگی۔ نجیب جانے کے لیے اٹھ ہی رہا تھا کہ نسیم نے اس کا ہاتھ پکڑ کر بٹھا دیا۔ ’بڑا تکلف کرتے ہو بھیا تم! ابھی آئے اور ابھی جا رہے ہو۔۔۔ ۔‘ پھر اس نے کچن میں ماں کو آوازیں دیں مگر وہ پانی کے شور میں کہیں گم ہو گئیں۔۔۔ کیونکہ پانی ابھی بھی واش بیسن میں شرر شرر بہے جا رہا تھا۔ نسیم نے جھنجھلا کر شہناز کو دو تین آوازیں دیں، مگر کسی نے نہیں سنا تو کچھ کہے بغیر اندر کی طرف انہیں بلانے کے لیے چلی گئی، وہ اتنی تیزی سے گئی کہ نجیب کو کچھ کہنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ اندر کے کمرے سے نسیم کی آوازیں آ رہی تھیں۔ نجیب نے ہال پر ایک بھرپور نگاہ دوڑائی۔ بڑی سی ایک سلائیڈنگ جس پر گریل لگی ہوئی تھی، آدھی سے زیادہ کھلی ہوئی تھی، نجیب اگر وہاں کھڑا ہوتا تو دیوار شاید اس کی کمر تک ضرور آتی اور گریل کو چھونے کے لیے تو اسے تھوڑا جھکنا بھی پڑتا کہ وہ تھوڑی گہری تھی۔ دیوار پر ہلکا نیلا رنگ تھا، پینٹ شاید پرانا نہیں تھا مگر اتنا عرصہ اس پر ضرور بیت گیا تھا کہ وہ جو اس کی مہک ہوتی ہے، مر گئی تھی۔ ہال میں دو مونڈھے رکھے تھے اور ایک گدا بچھا تھا، کونے میں رکھی لکڑی کی الماری کے اوپری پٹ شیشے کے تھے، جبکہ الماری کے پیٹ میں ایک پرانے طرز کا ٹیلی ویژن رکھا ہوا تھا۔ پتہ نہیں اس کا ریموٹ کہاں تھا، کیونکہ الماری پر تو نظر نہیں آ رہا تھا۔ ہال اتنا بڑا تو تھا ہی کہ دروازے سے سلائیڈنگ تک آنے میں شاید پچیس سے زائد اور دائیں دیوار سے بائیں دیوار تک پہنچے میں تیرہ یا چودہ قدم کا فاصلہ طے کرنا ہوتا۔ کمرے میں کوئی بو نہیں تھی، بس ہوا کا ایک الکسایا ہوا احساس تھا جو نظروں سے تو پرے تھا مگر بدن کے روئیں جسے محسوس کر سکتے تھے، پھر اس گھر میں، اندر کے کمرے میں شہناز جیسی ایک خوبصورت لڑکی تھی اور اس کے تصور سے اس گھر کی رونق، اس کی دیواروں کی رنگت اور یہاں تک کے باہر کے اجالے میں موجود ایک خاص فرق وہ محسوس کر سکتا تھا۔ نجیب اس وقت ایک گہری نا کامیابی کے ساتھ امید اور خوف کی ملی جلی کشمکش میں گرفتار تھا۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ دروازہ کھول کر باہر نکل جائے۔ شاعری، کیا شاعری میں واقعی اتنا اثر ہے کہ وہ کسی کے دل کو چھو سکے، کیا اس کی ہنر مندی شہناز کے پکے ہوئے ہونٹوں کا مقابلہ کر سکتی تھی؟ یہ قافیے، ردیفیں، مسدس، مثمن، مطلعے، مقطعے، مراعات النظیر یا ریختہ۔۔۔ ۔ ان سب سے کسی حسین لڑکی کو کیسے رجھایا جا سکتا ہے؟ یہ سب ممکن نہیں ہے۔ وہ دل ہی دل میں ضرور اس پر ہنستی ہو گی۔ اگر وہ اس کی قابلیت سے متاثر ہو سکتی تو کیا اسے اس طرح نظر انداز کر کے شاعری کی جمالیات کے مقابلے میں زیر زمین پنپنے والے آلو پر اتنی توجہ صرف کرتی۔ اس نے کب اس کی طرف دیکھا تھا؟ وہ سن بھی رہی ہو گی تو سوچتی ہو گی کہ کیسا سر پھرا نوجوان ہے؟ نوجوانی کے عالم میں، بہار کے دنوں میں، شباب کی رونق کو نظر انداز کر کے بوڑھوں والی کتابی باتیں کر رہا ہے۔۔۔ ۔۔۔ یا نہیں، یہ صرف میرا احساس شکست ہے، جسے میں خود پر حاوی نہیں ہونے دے سکتا۔ وہ ضرور مجھے سن رہی تھی، وہ میری قابلیت سے متاثر بھی ہے، ورنہ آلو چھیلنے کے لیے کیا اس لق و دق فلیٹ کے دوسرے کونے یا کمرے کم پڑ گئے تھے؟ جو وہ یہیں بیٹھی تھی؟ کوئی بھی شرمیلی لڑکی کسی لڑکے کو اتنی بے خوف نگاہوں سے اپنی بہن کی موجودگی میں کیسے دیکھ سکتی ہے؟ ضرور اس پر شرم غالب آ گئی ہو گی۔ نجیب سوچ رہا تھا کہ وہ شاعر ہے، اور شاعروں کی جوانیاں، ان کی زندگی کے رنگین واقعات، عورتوں پر شاعری کے گہرے اثرات اور خاص طور پر اردو شاعری کی نفاست، لفاظی اور اس کے رنگ کا جادو، کیا یہ سب اس نے کتابوں میں نہیں پڑھا تھا؟ کیا اسے نہیں معلوم تھا کہ غالب پر جوانی میں ایک ڈومنی مرتی تھی، کیا وہ نہیں جانتا تھا کہ فیض اور ساحر کے عشق میں کتنی عورتیں گرفتار تھیں؟ اسے معلوم تھا عشق نام نہاد مردوں کے لیے نہیں بنا ہے، بہادروں کے لیے نہیں بنا ہے، حسن کی صحیح قدر و قیمت صرف شاعروں کے ہی حصے میں آئی ہے اور وہی ہمیشہ عورتوں کے صحیح قدر دان رہے ہیں، جذبات کے رمز آشنا رہے ہیں۔ کیا وہ نہیں دیکھتا کہ فلموں میں بھی ہیروئن کو رجھانے کے لیے ہیرو کو ایک نغمے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر پھر اگلے ہی لمحے اسے خیال آیا کہ جھوٹ، سب جھوٹ۔۔۔ ۔ وہ ابھی کل ہی تو پڑھ رہا تھا کہ اختر شیرانی، جس سلمیٰ، عذرا کا ذکر اپنی شاعری میں کرتے تھے، جن کی طرف سے انہیں خطوط ملتے تھے، تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ وہ خط انہوں نے خود اپنے آپ کو لکھے تھے۔ مجاز جیسا شاعر ایک شادی شدہ عورت کو سماجی اخلاقیات سے الگ کر کے اپنی دنیا میں نہیں لا سکا۔ میراجی کیسے میرا کے دیوانے ہوتے ہوئے بھی ایک شاعرہ پر ریجھ گئے، جس نے انہیں گھاس تک نہ ڈالی۔ تو کیا اس کا قلم ان اہم ترین شاعروں کے قلم سے بھی زیادہ طلسمی حرف گڑھ سکتا ہے؟ نہیں، بالکل ممکن نہیں۔۔۔ ۔ ۔ تو وہ کیا کرے۔ ۔ اس کے حق میں یہی اچھا ہے کہ وہ اٹھے اور ابھی دروازہ کھول کر اس امید کی سر پھری دنیا سے دور بھاگ جائے۔ وہ یہ سوچ کر اٹھ کھڑا ہوا، ابھی دروازے کی طرف جانے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ گیلری سے شہناز کا ہنستا ہوا چہرہ نمودار ہوا، اس کے ہاتھ میں چائے اور نمکین کی ایک ٹرے تھی۔ نجیب کو کھڑا دیکھ کر اس نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں مزید پھیلاتے ہوئے کہا۔

’آپ جا رہے ہیں؟‘

چاپ سے معلوم ہو رہا تھا کہ پیچھے پیچھے نسیم بھی یہیں آ رہی ہے۔

۰۰۰

 

صبح کا ساڑھے آٹھ بجا تھا۔ گھر کے سب افراد سو رہے تھے، سوائے مجید صاحب کی بیوی کے۔ وہ اپنی تسبیحوں اور فجر کی قضا سے تھوڑی دیر پہلے ہی فارغ ہوئی تھیں۔ دروازے پر دو بار دستک ہوئی۔ پہلی بار آہستہ اور دوسری بار ذرا زور سے۔ انہوں نے جا کر دروازہ کھولا تو سامنے ایک گھنی مونچھوں والا شخص ایک برقعہ پوش عورت کے ساتھ کھڑا تھا۔ برقعہ پوش عورت نے اپنے ہاتھ بغلوں میں دبائے ہوئے تھے، جبکہ مرد کرتا پجامہ پہنے، بڑی گھورتی ہوئی نگاہوں سے مجید صاحب کی بیوی کو دیکھ رہا تھا۔

’آئیے آئیے! تشریف لائیے!‘ انہوں نے فلیٹ کے مالک کو اندر آنے کا اشارہ کیا اور وہ دونوں فلیٹ میں جس طرح داخل ہوئے، اس طرح کسی بھی گھر میں صرف اس کا مالک ہی داخل ہو سکتا ہے۔ بڑی سی کھڑکی پر پردے پڑے تھے اس لیے ڈرائنگ روم میں بھی اندھیرا ہو رہا تھا۔ دروازے کے دائیں جانب لمبی سی لابی تھی جس کا راستہ بائیں طرف کچن اور سیدھے ایک چھوٹے سے کمرے کی طرف جاتا تھا۔ ڈرائنگ روم میں دو گدے بچھے ہوئے تھے، جس میں ایک پر مجید صاحب لیٹے تھے، ان کے برابر کی جگہ خالی تھی، اور اس کی شکنیں ابھی دور نہیں ہوئی تھیں، جس سے محسوس ہوتا تھا کہ ان کی بیوی کو جاگے ہوئے بھی آدھ پون گھنٹے سے زیادہ کا عرصہ نہیں ہوا ہے۔ برابر میں ایک لڑکا اور اس کی بغل میں لڑکی دونوں ہاتھ اوپر کیے اپنی ابھرتی ہوئی جوانی کے عالم سے بے خبر نیند کے مزے لوٹ رہی تھی۔ دائیں طرف دیوار سے ایک گدا سٹا ہوا تھا، جس پر کوئی لیٹا نہیں تھا اور جو مہمانوں کے بیٹھنے کے لیے ہی مختص کیا گیا تھا۔ اسی پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے مجید صاحب کی بیوی لڑکے لڑکی کو جھنجھوڑ کر اٹھانے لگیں، ساتھ ہی ساتھ وہ مجید صاحب کو بھی آوازیں دیتی جاتیں۔

’ارے۔ ۔ ارے سنیے۔۔۔ دیکھیے ملک صاحب آئے ہیں۔۔۔ بیٹا! اٹھو اندر چلی جاؤ۔۔۔ ۔ تنویر۔ ۔ اٹھو بیٹا! دیکھو انکل آئے ہیں۔‘

دونوں بچے اس ناگہانی آفت پر ہڑبڑا کر اٹھے اور آنکھیں ملے بغیر اندر کے کمرے کی طرف بھاگے، ان کی سرعت بتا رہی تھی کہ وہ ابھی نیند کے حلقے سے باہر نہیں آ پائے ہیں، انہوں نے دروازے پر کھڑے گھر کے مالکوں کو سلام بھی نہیں کیا۔ اتنی دیر میں مجید صاحب بھی جاگ گئے تھے۔ پہلے تو انہوں نے پلٹ کر چڑچڑائے انداز میں بیوی کی طرف دیکھا، پھر دروازے پر مکان مالک اور اس کی بیوی کو کھڑا ہوا دیکھ کر نیم دراز ہوتے ہوئے نیند کی برف کو توڑتے ہوئے، بھاری گلے سے بولے۔

’اوہو۔ ۔ ملک صاحب! آئیے، بیٹھیے!!‘ اس دوسری استدعا پر بھی جب ملک صاحب اور ان کی بیوی کہیں نہیں بیٹھے تو چادریں تہاتی ہوئی مجید صاحب کی بیوی اندر رکھی پلاسٹک کی کرسیاں لینے بھاگیں۔ غالباً ایک عورت کے ہاتھ میں پلاسٹک کی ہی سہی مگر بھاری چیز دیکھ کر ملک صاحب کی مردانگی کو شرم سی محسوس ہوئی اور انہوں نے آگے بڑھ کر ان کے ہاتھ سے کرسی لی اور اپنی بیوی کو اس پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ دوسری کرسی اٹھا کر انہوں نے گدے سرکاتے ہوئے مجید صاحب کے بستر کے بالکل سامنے رکھی، اور پھر اس پر اپنے کولہے ٹکا دیے۔ ہتے پر دونوں ہاتھ رکھ کر وہ تکلفاً یوں گویا ہوئے۔

’مجید صاحب! سب خیریت تو ہے؟ میں نے سعید سے پیغام بھجوایا تھا، شاید وہ پیغام دینا بھول گیا۔۔۔ ۔ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘

اس آخری جملے پر ان کی بیوی نے پہلو بدلا اور انہیں دیکھ کر مجید صاحب کی بیوی کی آنکھوں میں خوف اور ذلت کی ایک لہر بیدار ہوئی۔ جس سے بچنے کے لیے وہ فوراً کچن میں گھس گئیں۔۔۔ پھر کسی خیال سے باہر آ کر انہوں نے ملک صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

’آپ لوگ بات کیجیے میں ناشتہ لگاتی ہوں۔۔۔‘

ابھی ملک صاحب کچھ کہتے اس سے پہلے ہی ان کی بیوی نے آنکھوں کے غلے نچاتے ہوئے کہا۔

’نہیں باجی! ناشتہ کرنے نہیں آئے ہیں۔‘

ایسا لگا جیسا ماحول میں گونجنے والی شریف گویائی کو کسی ذلیل جملے نے دھکا دے کر گرا دیا ہو۔۔۔ ۔ ایک خاموشی سی چھا گئی۔ اس تذلیل کو برداشت کرتے ہوئے مجید صاحب کی بیوی نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’اچھا کوئی بات نہیں، چائے تو لیجیے، میں ابھی بنا کر لاتی ہوں۔‘

وہ دوبارہ کچن میں داخل ہو گئیں اور چائے بنانے کے کام میں جٹ گئیں مگر ان کے کان برابر ڈرائنگ روم کی اس دبی دبی گفتگو کی طرف لگے رہے، جو ملک صاحب اور مجید صاحب کے درمیان ہو رہی تھی۔ وہ جانتی تھیں کہ مہینے پر مہینہ بیت رہا ہے۔ مجید صاحب کی عزت اتنی طاقتور نہیں تھی کہ مکان مالک کے مطالبے کو زیر کر سکتی۔ وہ حق بجانب بھی تھا۔ تین مہینوں سے وہ صرف مجید صاحب کے وعدوں کا لحاظ کرتے ہوئے ہی خاموش تھا۔ ایک دو دفعہ اس نے مجید صاحب تک کرایے کی وصولی کا پیغام بھی انہی کے ایک شاگرد سعید کے ذریعے بھجوایا، اس ایجنٹ سے بھی بات کی، جس نے مجید صاحب کو ایک عزت دار اور شریف النفس شخص بتا کر یہ فلیٹ دلوایا تھا۔ وہ خود بھی ان کے انداز گفتگو اور محبت بھرے لہجے کو پسند کرتا تھا۔ مگر یہ سب باتیں ضمنی تھیں، ضروری بات یہ تھی کہ کرایہ نہیں گیا تھا اور ضروری سوال یہ تھا کہ کرایہ جائے گا کہاں سے۔ مشاعرہ دور تھا، شاگرد خود قفلق تھے۔ مجید صاحب کسی سے کچھ لیتے لواتے بھی نہیں تھے۔ گھر کا خرچ اور ذمہ داریاں سب کچھ ایک لڑکے کی سپر مارکیٹ میں ملازمت کی وجہ سے چل رہا تھا، پھر بھی ہر مہینے بلڈنگ کے نیچے کریانے کی دکان کا قرض اتنا ہو جاتا تھا کہ ادھار چکاتے وقت بھی تھوڑا ادھار باقی بچ رہتا تھا اور ساتھ میں اگلا سامان لینے کی وجہ سے قرض کی رقم مہاجن کے سود کی طرح ہر ماہ موٹی ہوتی جا رہی تھی۔ تنویر تو کسی جگہ کام کے لائق ہی نہیں تھا۔ نجیب باپ کی ڈگر پر چل پڑا تھا۔ وہ دوسروں کو سب کچھ مفت میں لکھ لکھا کر دے دیتا مگر خود کبھی چار پیسے کما کر گھر نہیں لاتا تھا۔ کورئیر کا کام بھی چھوڑ دیا تھا اس نے۔۔۔ لڑکی کی عمر دن بدن بڑھ رہی تھی اور ابلتی ہوئی چائے کی طرح اس کا سینہ بھی لاکھ پھونکیں مارنے پر نیچا بیٹھنے پر راضی نہیں تھا۔ چائے لا کر ایک ٹرے میں پروس دی گئی۔ ساتھ میں دینے کے لیے بسکٹ اور نمکین کچھ بھی نہیں تھا، ملک صاحب نے چائے کی دو ایک چسکیاں لیں اور نچلی، دودھ کی کمی کی وجہ سے گہری خاکی چائے کو کپ میں تیرتا ہوا چھوڑ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے، انہوں نے مجید صاحب سے مصافحہ کیا اور دروازے کی طرف بڑھ گئے، ان کی بیوی بھی ان کے پیچھے پیچھے باہر نکل گئیں، بس جاتے وقت ان کے منہ سے ’السلام علیکم‘ کی آواز ابھری۔ دروازہ جانے والوں نے ڈھلکا دیا تھا، مجید صاحب کی بیوی نے ملک صاحب کی بیوی کا کپ آگے بڑھ کر اٹھایا تو دیکھا کہ چائے انہوں نے بھی دو گھونٹ سے زیادہ نہیں پی تھی۔ وہ سمجھ گئی تھیں کہ مالک مکان ایک دفعہ پھر مجید صاحب کے اس مہینے کے انت میں کرایہ چکانے کے وعدے پر رخصت ہو گیا تھا مگر مہینا ختم ہونے میں زیادہ دن نہیں تھے، آج بائیس تاریخ تھی۔ جب وہ ٹرے میں دونوں کپ رکھ کر واپس کچن کی طرف جا رہی تھیں، مجید صاحب دیوار کی طرف منہ کر کے دوبارہ چادر سے منہ ڈھانپ کر لیٹ چکے تھے۔

۰۰۰

 

تنویر اب نسیم کے گھر والوں سے بہت گھل مل گیا تھا، یہ کہا جائے کہ وہ اپنے گھر بالکل آتا ہی نہ تھا تو غلط نہ ہو گا۔ اس کا جسم تنو مند تھا۔ آنکھیں قدر آشنائی کے فن سے واقف ہو رہی تھیں اور شہناز سے بھی اس کی قربت بڑھتی جا رہی تھی، کم از کم اس کی اپنی دانست میں۔ وہ نسیم کے گھر کے چھوٹے بڑے کاموں کا خیال رکھتا۔ خالد اور سردار سے بھی اس کی کافی گاڑھی چھن رہی تھی۔ کوئی ایسا کام نہ ہوتا جس میں وہ نسیم کی والدہ کو مایوس کرتا ہو۔ وہ بوڑھی عورت تھیں، بات بات پر اکثر کھسیا بھی جاتیں، نمازیں کم پڑھتیں مگر ان کے کچھ وظیفے بندھے ہوئے تھے۔ موکلوں، جنوں، خناس اور آسیبوں پر ان کا پختہ یقین تھا۔ فال نکالنے کا طریقہ ان کا نہایت الگ تھا، کسی کام کو کرنے کے لیے وہ پہلے ہاتھ منہ دھوتیں، دوپٹہ کو کس کر چہرے پر باندھتیں اور اس کے بعد قرآن کو ہاتھوں میں اٹھا کر آنکھیں بند کر کے اسے پکڑتیں، دھیرے دھیرے قرآن (ان کے بقول) خود بخود دائیں یا بائیں گھوم کر اس کام کے نیک یا بد شگون ہونے کے بارے میں انہیں اطلاع دے دیتا تھا۔ گھر میں اگر کسی شخص پر انہیں شک ہے کہ اس نے ان سے جھوٹ بولا ہے تو اسے سامنے بٹھاتیں اور اسی طرح قرآن ہاتھوں میں رکھ کر منہ ہی منہ میں کچھ بدبدانے لگتیں۔ ان کا ماننا تھا کہ اگر سامنے والا جھوٹ بول رہا ہے تو ضرور قرآن اس کی طرف گھوم جائے گا اور اُنہیں پتہ چل جائے گا کہ یہ مقدس آسمانی کتاب اس کاذب شخص کی طرف صاف صاف اشارہ کر رہی ہے۔ حد یہ تھی کہ ایک دفعہ گھر میں ان کی ذیابطیس بڑھ جانے کے ڈر سے نسیم نے مٹھائی کا ڈبہ، ان کی نظر بچا کر کام والی کو دے دیا تھا۔ والدہ کو جب مٹھائی نہیں ملی تو انہوں نے گھر کے سارے افراد کو بٹھا کر قرآن گھمایا اور اتفاق سے قرآن نے بھی نسیم کی طرف ہی اشارہ کیا کہ اسی نے وہ مٹھائی ان کی نظر بچا کر کہیں غائب کر دی ہے۔ دنیا کی اتنی عظیم کتاب سے ایسے گھریلو معاملات میں مدد لینا ان کا وتیرہ بن گیا تھا۔ تنویر کو اس پر حیرت تھی اور وہ اکثر نجیب کو یہ سب بتاتا تھا اور دونوں بھائی اس بات پر خوب ہنستے بھی تھے۔ مگر نسیم کے گھر پر موجود ہوتے تو اس کی والدہ کی ہر بات پر دونوں بھائی کوئی جھوٹا حرف بھی نہ لاتے۔ نسیم کی والدہ اکثر شہناز کو ڈانٹ پھٹکار لگایا کرتی تھیں کہ وہ کیوں اتنی سست ہے، کوئی کام جی لگا کر نہیں کرتی۔ کسی گھر جائے گی تو ان کی بڑی بدنامی ہو گی کہ بیٹی کو کیا سکھایا ہے، ایک بیٹی تو ویسے ہی شاعری واعری کے چکر میں پڑ کر غارت ہو گئی ہے، دوسری بیٹی کا بھی شاید کچھ نہ بن سکے۔ بیٹا الگ اپنی موج مستیوں میں پڑا رہتا ہے۔ ایسے میں صرف ایک سردار تھا، جس میں انہیں کوئی برائی نظر نہیں آتی تھی۔ وہ ان کی ہر بات کا، دواؤں کا، کھانے کا اور ان کے بور ہونے تک کا خیال رکھتا تھا۔ تنویر بھی اسی سے سیکھ رہا تھا کہ دامادی کے فن کیا کیا ہوتے ہیں، کس طرح ایک عورت کو ساس بنانے کے لیے رجھایا جا سکتا ہے۔ اس لیے اس نے بھی حرف شکایت کو بھول کر پوری تندہی سے اپنی جوانی کی قوت صرف نسیم کے گھر کی خدمت کے لیے وقف کر دینے کا عزم کر لیا۔ بازار سے آنٹی کے ساتھ سامان وہ لائے، گیہوں چھنوائے بھی، اور انہیں پسوانے بھی فلور مل پر جائے، پھر شام کو اسے واپس بھی لائے۔ کیٹرنگ کے کسی پراجیکٹ میں اشیا یا افراد کی فہرست بنانی ہو تو خالد کی مدد تنویر کرے۔ نسیم کھڑکی میں بیٹھ کر بھینی بھینی ہوا میں کوئی نظم گڑھے تو تنویر اسے کاپی میں رقم کرے۔ شہناز دال بنا رہی ہو اور اچانک اسے خیال آئے کہ بگھار کے لیے زیرا نہیں ہے تو بلا چون و چرا پرچون کی دکان تک دوڑ لگا دے۔ نیا نگر میں پانی کی بہت قلت تھی، اکثر پانی گھنٹوں گھنٹوں کے لیے چلا جاتا۔ ایسے میں نسیم کی والدہ ہول ہول کر آسمان سر پر اٹھا لیتیں۔ ایسے میں تنویر ہی تھا جو صبح صادق کے وقت، جب سب لوگ چادروں میں منہ چھپائے خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہوتے، وہ سرکاری واٹر ٹینک سے (جو کہ روز صبح پانچ سے چھ کے بیچ شاندار کامپلیکس کے گیٹ پر کھڑا ہوتا تھا) پانی کے بیس بیس لیٹر کے گیلن بھر بھر کر لایا کرتا۔ الغرض گھر کے جتنے کام تھے، خواہ ان کی نوعیت کیسی بھی ہو، اچھی یا بری، چھوٹی یا بڑی۔ وہ ہر طرح کا کام کرتا۔ رفتہ رفتہ نسیم کے گھر والوں کو اس کی عادت سی ہو گئی تھی۔ من میں کسی قسم کی خواہش رکھ کر جب آپ کسی انسان کی خدمت کرتے ہیں تو شاید آپ پہلے ہی لمحے میں اس کے احساس جرم کو خود ہی اٹھا کر کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دیتے ہیں۔ کسی لالچ میں کی گئی محنت کا سب سے بڑا خمیازہ یہ ہے کہ وہی شخص اس سے سب سے زیادہ بے نیاز رہتا ہے، جس کے لیے آپ ہلکان ہوئے جاتے ہیں۔ تنویر اور شہناز کے بیچ جو قربت تھی، وہ صرف شہناز کی حد تک ایک بھائی نما بندے کی، جو گھر والوں کی خدمت پر مامور تھا، تھوڑی بہت بات یا ہنسی ٹھٹھول کر لینے کی حد تک تھی۔ مگر تنویر کے لیے اتنی سی شہناز ہی، اس کی مستقبل کی بیوی تھی، اس کی محبت تھی۔ جو (اس کے بقول) جتنی بے تکلف اس کے ساتھ تھی، شاید اپنے گھر والوں کے ساتھ بھی نہ تھی۔ ایک ہی واقعے کو دو الگ الگ لوگ، جو خود ہی کہانی کے کردار تھے، بالکل الگ طرح دیکھ رہے تھے۔ شہناز کے لیے حقیقت، حقیقت تھی، جبکہ تنویر ایک وہم کو سچ مان بیٹھا تھا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے