(یہ علامتی کہانی ضیا الحق کے دور میں لکھی گئی تھی اور ’تو جبرئیل نے کہا‘ مجموعے میں شامل تھی جسے ضبط کر لیا گیا تھا۔)
سورج اپنا روشن چہرہ چھپائے رات کے غار میں بند ہے۔ کیا باہر اندیشوں اور وسوسوں کے سانپ سرسراتے پھرتے ہیں اور وہ ان کی ہلاکت آفرینی سے آگاہ ہے۔
میں کمرے کی کھڑکی سے باہر جھانکتا ہوں مگر تنہا تاریکی ماحول کی پہرے دار ہے۔ میں گھبرا کر اپنے بستر کی جانب دیکھتا ہوں جو ابھی تک بے شکن ہے اس لئے کہ میں اپنے ہوش سے آج تک اس پر سونے کی خواہش پوری نہیں کر سکا۔ ہر شام میرے آنے سے پہلے میری ماں بستر کی چادر بدل دیتی ہے اور اگلے دن اس پر میرا لمس نہ ہونے کے باوجود ایک اور بے شکن چا در بچھا دیتی ہے۔ کھڑکی تیز ہوا کے شور کے ساتھ بند ہوتی ہے اور پھر کھلتی ہے۔ میں گردن لمبی کر کے باہر آنکھیں پھینکتا ہوں۔ سڑک پر کچھ چمکیلے سکے پڑے ہیں۔
میں مہینے کی اکیسویں تاریخ کے غم میں ہوں۔ جلدی جلدی ننگے پاؤں ہی دروازے کی طرف بڑھتا ہوں۔ پر دروازے پر تالا ہے اور چابی میری ماں کے پاس ہے۔ وہ ڈرتی ہے کہ میں رات کو اٹھ کر چلنے کا عادی ہوں، اگر اسی حالت میں گھر سے نکل گیا تو کہیں واپسی کا راستہ نہ بھول جاؤں۔ میں واپس کھڑکی کی طرف بڑھتا ہوں۔ خوف کا ایک لمحہ میرے سر پر آتا ہے۔ پھر میں کھڑکی سے سڑک کی طرف کود جاتا ہوں۔ تیز ہوا کے شور میں میرے زمین پر گرنے کی آواز خود مجھے بھی نہیں چونکا تی۔ میں آٹھ کر کپڑے جھاڑنے کی کوشش کرتا ہوں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ کمرے سے نکلتے ہوۓ میں کپڑے پہننا بھول گیا تھا۔ دوبارہ کھڑکی کی طرف دیکھتا ہوں۔ وہ بہت اونچی ہے اور اس پر سے دوبارہ گھر میں داخل ہونے کی کوشش بہت وقت لے لے گی۔ ممکن ہے اتنے وقت میں مجھ جیسا کوئی اور وہاں سے گزرے اور وہ سکے لے کر چلتا بنے۔ میں تھوڑی سی جھجک کے ساتھ (کیونکہ بے لباس ہوں) اس طرف بڑھتا ہوں، جدھر میں نے سکے دیکھے تھے۔ سڑک پر ابھی تک صرف میری سانسوں کی آوازیں ہیں۔ میں بہت محتاط ہوں۔ اسی لیے میں اپنا سایہ بھی کتابوں کی الماری میں بند کر آیا ہوں۔ پہلا سکہ میری تھیلی پر آیا ہے۔ اتنا زنگ آلود سکہ میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ مگر یہ چمک کیوں رہا ہے۔ میں اس نقطے کی تلاش کرتا ہوں (صرف کچھ دیر) جہاں سے روشنی اس پر منتقل ہو رہی ہے۔ پھر میں اپنی توجہ سکے کی طرف کرتا ہوں۔ اس پر ایک عجیب الخلقت جانور کی تصویر ہے۔ مجھے یاد ہے میں نے اس کی تصویر۔ ۔ نہیں بلکہ زیادہ صحیح۔ ۔ مجسمہ, میونخ کے عجائب گھر میں دیکھا تھا۔ ’’یہ تو خوف اور دہشت کا دیوتا ہے۔
اوہ۔ یہ سکہ اس بستی کا نہیں۔‘‘ میں نے اور سکے اٹھائے۔ سب پر اسی جانور کی تصویر تھی۔ اور سب زنگ آلود ہونے کے باوجود چمک رہے تھے۔ مہینے کی اکیسویں تاریخ کا قیدی، میں، حسرت سے آن سکوں کو دیکھتا ہوں اور پھر اپنی جیب میں ڈالنا چاہتا ہوں، پھر مجھے یاد آتا ہے۔ میں بے لباسی میں ہوں۔ سو ان سکوں کو مضبوطی سے اپنی مٹھی میں بند کر کے کھڑکی کی جانب دیکھتا ہوں۔ کھڑکی کھلی ہے، کمرے میں سناٹا ہے اور کتابوں کی الماری میں میرا سایہ بند ہے۔ وہ مجھے کوس رہا ہو گا کیونکہ چاندنی راتوں میں وہی میرا ساتھی رہا ہے۔ (مگر میں آسمان کی طرف نظر اٹھاتا ہوں) آج تو آسمان کے سبھی راستے ویران ہیں۔ میں سائے سے ذہنی رابطہ کرتا ہوں۔
’’میں سڑک پر ہوں، تم کتابیں پڑھنا شروع کرو، میں کھڑکی کے راستے۔۔۔‘‘ اور میرا فقرہ مکمل ہونے سے پہلے ایک آواز آتی ہے۔
’’ابو! مجھے افسوس ہے کہ آپ میری سالگرہ میں شریک نہیں۔‘‘
میں استعجاب میں پوچھتا ہوں۔
’’تم کون ہو؟‘‘
’’آپ کا بیٹا‘‘۔ اس کے ہونٹوں پر ناچتی ہنسی اس کے لفظوں کے ذریعے مجھ تک پہنچتی ہے۔ خوف، دہشت اور حیرانی مجھ پر حملہ آور ہیں۔
’’تمہاری نشانی؟‘‘ میں سوال کرتا ہوں۔
’’آپ۔ شین۔ ایتھنز۔‘‘ اس کی معصوم آواز مجھ میں نئی طاقت پھونکتی ہے اور یہ اس کی سچائی کی دلالت ہے۔
’’مگر تم ابھی پیدا نہیں ہوئے اور تمھاری سالگرہ۔۔۔ ۔۔۔ ۔‘‘ میں اس سے بات کرنا چاہتا ہوں۔
’’ابو! جب آپ موت سے پہلے اپنی برسی باقاعدگی سے مناتے ہیں تو میری پیدائش سے پہلے میری سالگرہ کیوں نہیں ہو سکتی۔‘‘
میرے پاس اس استدلال کا کوئی جواب نہیں۔ اپنی سب توانائیاں
اکٹھی کرتا ہوں۔
’’میرے بیٹے! میں شرمندہ ہوں کہ اس بے لباسی کے عالم میں تم سے مخاطب ہوں اور اس سالگرہ کے موقع پر، جو تم اپنی پیدائش سے پہلے منا رہے ہو۔ ۔ تحفے میں کچھ نہیں۔۔۔ ۔ !‘‘ کچھ سوچ کر میں خاموش بو جاتا ہوں پھر بند مٹھیاں کھولتا ہوں۔
’’سنو! مجھے کچھ زنگ آلود سکے سڑک پر پڑے ملے ہیں۔ یہ میرے کسی کام کے نہیں۔ مہینے کی آخری تاریخوں کے غم میں میرے لئے یہ فضول ہیں۔ تم چاہو تو تمہیں یہ تحفے میں دے دوں۔۔۔ ۔ ؟‘‘
میرا بیٹا یہیں کہیں چھپا ہوا ہے۔ مگر میں اسے پا نہیں سکتا۔ ہوا کا تیز جھونکا شور مچاتا میرے سر سے گذر جاتا ہے۔ میرے کمرے کی کھڑ کی زور سے بند ہو جاتی ہے۔ میں ادھر متوجہ ہوتا ہوں، دروازہ بھی بند ہے۔ میرا سایہ اب تازہ ہوا سے بھی محروم ہو گیا ہو گا۔
’’تم بہر حال میری کتابوں کی الماری میں رہو۔ اور کتابوں سے اپنا ناطہ رکھو۔‘‘
میں اسے کہتا ہوں۔ مجھے اپنے بہت قریب سسکیوں کی آواز آتی ہے، اپنے بیٹے کی آواز پہچاننے میں مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔
’’تم کیوں رونے لگے؟‘‘
’’میں نے تمہاری مٹھی میں بند سکے دیکھے ہیں۔ میں ان سکوں سے خریدا ہوا دودھ نہیں پینا چاہتا۔‘‘
وہ آہستہ آہستہ پھر رونے لگتا ہے۔ سڑک پر آوارہ بے لباس و جود سسکیوں کے کوڑے برداشت نہیں کر سکتا۔
’’کیا شین تمہیں دودھ پلانے سے انکاری ہے بیٹے؟‘‘
میں حبس کے اس عالم میں بھی بدن میں ٹھنڈک کی لہر محسوس کرتا ہوں۔ مجھے وہ آشنا آواز اپنے بھر پور لمس کے ساتھ جھٹکا دیتی ہے۔
’’شہر کی سب گلیوں کے مین ہول کھلے ہیں، آسمان اندھے راستوں میں گردش کر رہا ہے اور موت کے انگارے کسی بھی وقت کھلیانوں او دالانوں کو جلا کر راکھ کر سکتے ہیں، ایسے عالم میں تمہارے بچے کی پیدائش کی توجیہہ کیا ہو؟‘‘
شین دودھ دینے سے انکاری نہیں لیکن اس کے رائیگاں جانے کا خوف۔۔۔ ۔ ۔
معصوم فرشتہ اپنی ہی آواز میں کہتا ہے۔
’’ایسی صورت میں، میں خود ہی قبرستانوں میں پیدا ہونے سے بہتر سمجھتا ہوں کہ اپنی پیدائش میں تاخیر کروں۔ مگر مجھے اجازت دو کہ اپنی پیدائش سے پہلے، ہر سال میں اپنی سالگرہ اسی دھوم دھام سے مناؤں جس طرح تم آنے والی موت کے خوف سے اپنی اپنی برسی منانے میں لگے ہو‘‘
’’نہیں بیٹے۔‘‘ شین چیختی ہے۔ ’’ہم مرنا نہیں چاہتے اور ہم تمہاری پیدائش کے بھی خواہاں ہیں۔ ہمارا وعدہ ہے کہ تمہاری پیدائش سے پہلے تمہاری سالگرہ تمہاری خواہش کے مطابق منائیں گے اور تمہارے آنے سے پہلے مرنے کا نہیں سوچیں گے۔‘‘
میں ہانپ رہا ہوں کیونکہ ہماری آوازوں کو بہت دور کا سفر کر کے ایک دوسرے تک پہنچنا پڑتا ہے۔ سگریٹ کی طلب مجھے ان سے معذرت پر مجبور کرتی ہے۔ میں سکے مٹھی میں دبائے کھڑکی کی طرف لوٹتا ہوں۔ کھڑکی خاصی اوپر ہے اور میرے ہاتھ وہاں تک نہیں پہنچ پاتے۔ میرا سایہ جو نہ جانے کس طرح میری ہدایات نظر انداز کر کے کتابوں کی الماری سے نکل آیا ہے، کھڑکی سے تھوڑا سا جھانکتا ہے اور ہنستا ہے۔
’’میں کمرے میں نہیں آ سکتا۔‘‘ میں چیختا ہوں۔
وہ ایک لمحے کو کمرے میں جاتا ہے اور پھر میرے بستر کی بے شکن چا در کا کونا نیچے لٹکاتا ہے۔ میں اسے پکڑ کر اوپر چڑھتا ہوں۔ کھڑکی کے راستے کمرے میں آ جاتا ہوں۔ اور چادر دوبارہ بستر پر بچھا کر کمرے کے ایک کونے میں کھڑا ہو کر اپنے ہمزاد سے کہتا ہوں۔
’’آج بہت تھک گئے۔‘‘
’’ہاں!‘‘ وہ میرا فقرہ دہراتا ہے۔
’’آج بہت تھک گئے۔‘‘
’’تم کتابوں کی الماری سے کیوں نکلے؟‘‘
میں نے پوچھا۔ مجھے یاد آ گیا کہ میں اسے کتابوں کی الماری میں بند کر گیا تھا اور اسے وہاں کتابیں پڑھنا تھیں۔
’’اگر میں باہر نہ نکلتا تو تم کمرے میں کس طرح آتے؟‘‘
اس نے اطمینان سے کہا۔ اس نے صحیح کہا تھا۔
’’اچھا جاؤ بستر پر آرام کرو آج تم بہت تھک گئے ہو۔‘‘
اس نے میرا کہا مانا۔ اور بستر پر لیٹ گیا۔
میں کونے میں رکھی چھتری کی طرف بڑھا اور اسے سر پر تان کر کھڑا ہو گیا کیونکہ اتنی تیز آندھی کے بعد بارش بونا لازمی تھی اور میرے کمرے کی چھتیں بہت سال خوردہ تھیں۔
میری آنکھ اس وقت کھلی جب سورج کی کرنیں کھڑکی کے راستے کمرے میں آئیں اور ماں دروازے سے۔ میں نے ہڑبڑا کے چھتری اس کی جگہ پر رکھ دی اور ماں کی طرف دیکھا۔
’’خدا کا شکر ہے۔ میرا بیٹا آج سویا تو ہے۔‘‘ ماں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور ناشتہ تیار کرنے باہر نکل گئی۔
٭٭