انتہائے کمال سے گوشۂ جمال تک قسط ۷ ۔۔۔ قرۃ العین طاہرہ

۴ دسمبر، اتوار کے روز نماز فجر کے بعد واپسی تھی تہجد کے وقت مسجد پہنچے۔ اس مرتبہ شدت سے احساس تھا کہ اللہ کے بلاوے پر، اس کی کرم نوازی کے سبب ہم آ تو گئے لیکن حقِ عبودیت بالکل بھی ادا نہ کر سکے، ریاض الجنۃ نوافل کی ادائگی کی طلب سر اٹھاتی تھی، لیکن وقت پھسلتا جاتا تھا۔ روضہ رسول کی قربت میں درود پاک پڑھنے کی خواہش شدید ہوتی جاتی تھی لیکن واپسی کے تقاضے کچھ اور تھے۔ یہی دعا رہی کہ اے اللہ کے پیارے حبیب ہمیں اپنی محبت والی زندگی عطا کر اور ایک مرتبہ اور بلاوا بھیج اور یہ ایک مرتبہ ان گنت مرتبہ ہو جائے اور جو مجھے ہمیشہ یہ خیال رہتا ہے کہ کسر رہ گئی تو ہمیں اگلی مرتبہ پھر اپنے در پہ بلا، ہماری تشنگی کو اور بڑھا۔۔۔ مجھے بہت زیادہ احساس رہا کہ جتنا درودِ پاک پڑھنا چاہیے تھا اس میں کمی رہ گئی ہے۔ بہرحال جو بھی جیسی بھی جتنی بھی عبادت کر سکے اللہ قبول کرے۔

مدینہ کی آب و ہوا ہو یا باشندے، کہ مقامی تو ہمیں بہت ہی کم دیکھنے کو ملے، پھل والے، جائے نماز فروخت کرنے والے، چائے والے، ؑٹیکسی و بس ڈرائیور ہوٹل چلانے والے غرض چھوٹے بڑے تاجر سبھی باہر والے تھے، میرے خیال میں مقامی باشندوں میں تو مجھے وہ ولیہ ہی یاد رہیں جن کا ذکر گذشتہ اوراق میں کر چکی ہوں، سبھی مہربان محسوس ہوئے۔ وہاں کی گلیاں ہوں یا تاریخی آثار فضا میں رچی بسی خوشبو ہو یا بارش کی رم جھم سبھی دل کو بھاتے ہیں۔ البتہ اس بات سے دل کو تکلیف ہوئی کہ یہاں ماہ ربیع الاول کا آغاز بے رونقی اور عمومیت لیے ہوا، ہمارے ملک میں تو اس ماہ میں رنگ و نور کی برسات ہوا کرتی ہے۔ گھر گھر محفلِ میلاد منعقد ہوتی ہے، ٹی وی کے تمام چینل ۱۲ ربیع الاول تک خصوصی پروگرام تشکیل دیتے ہیں۔ مساجد و اہم عمارتیں بلکہ گھر گھر چراغاں کیا جا تا ہے۔ درودِ پاک کا ورد کیا جاتا ہے۔ اس دن جلسے جلوسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے، اسے عید کی طرح منا یا جاتا ہے لیکن مدینہ میں اتنے دبے پاؤں آیا کہ کسی کو بھی معلوم ہی نہ ہو پایا۔ دوسری دل دکھانے والی بات یہ ہوئی کہ ہمیں جنت البقیع جانے کی اجازت نہیں ملی، حج کے موقع پر ہم فاتحہ کے لیے جا سکے تھے لیکن بعد کے دونوں اسفار میں یلیٰ معافی ہی نسا کا مقدر ٹھہری۔ ہم اس حکم سے سرتابی نہیں کر سکتے کہ عورتوں کے لیے قبرستان جانے کی ممانعت ہے، لیکن یہ محض قبرستان نہیں، اسلامی تاریخ کے خزینوں دفینوں کی جا ہے۔ بس برا اس وقت لگتا کہ جب ہم فاتحہ کے لیے ہاتھ بلند کرتے اسی لمحے میں تاک میں بیٹھا شرطہ انتہائی تیزی اور اس سے کہیں زیادہ درشتی سے ہمیں رخ موڑنے پر مجبور کرتا۔

ہمیں جب موقع ملتا مکہ مدینہ کے یاد گار لمحات کی تصاویر کھینچ کر اس وقت کو امر بناتے رہے۔ ایک مرتبہ جاوید بھائی نے چند ایک تصاویر لوڈ کر دیں۔ پروین صادق کا فوراً پیغام آیا کہ میں بھی مدینہ میں ہوں۔ لیکن اب ہماری واپسی کا وقت ہوا جا رہا تھا۔ ملاقات نہ ہو سکی۔ اگر میں دو تین روز پہلے جب مجھے گمان ہوا تھا کہ یہ پروین ہے، آواز دے لیتی تو ملاقات ہو سکتی تھی۔ آج نماز فجر کے بعد مکہ مکرمہ روانگی ہے۔ بلال اپنے ساتھیوں کے ہمراہ نمازِ ظہر کے بعد مدینہ سے روانہ ہو گا۔

ہم مسجد ذو الحلیفہ، ابیار علی پہنچے، یہ مقام وادی عقیق کے قریب ہے۔ اس وسیع و عریض مسجد کے اطراف میں باغات بھی ہیں اور پارکنگ کا وسیع رقبہ بھی۔ سب زائرین احرام کے لیے بس سے اترے، میں ثروت باجی سے کہتی ہوں کہ مسجد ذوالحلیفہ میں کچھ ایسی بھول بھلیاں ہیں کہ ہر چند میں یہاں آج چوتھی مرتبہ آ رہی ہوں لیکن ہمیشہ کھو جاتی ہوں۔ کبھی نماز کی جگہ تلاش کر رہی ہوتی ہوں۔ کبھی باہر نکلنے کا راستہ، جو ہمراہی خواتین ہوتی ہیں وہ بھی آگے پیچھے ہو جاتی ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ اس مسجد کے لیے وہ احساسِ اپنائیت اور محبت نہیں جاگتا جو مسجد قبا یا مسجد عائشہ جا کر جسم و جاں کے روئیں روئیں میں بس جاتا ہے۔ کہنے لگیں وجہ صاف ظاہر ہے، مدینے سے رخصتی انسان کو آزردہ کرتی ہے اور مکہ معظمہ، حرم پاک ابھی بہت دور ہے اور جتنا جلد پہنچنا چاہتے ہیں، وقت رکا رکا محسوس ہوتا ہے، اس لیے ایسا لگتا ہے۔ بہرحال مسجدص ذوالحلیفہ پہنچے، تحیۃ المسجد اور احرام کے نوافل ادا کیے۔ بس نے پانچ چھ گھنٹوں میں مکہ پہنچا دیا۔ راستے میں کھانے اور نماز کے لیے رکے۔ سفر طویل ہوا کرتا ہے لیکن جب مکہ معظمہ قریب آنے لگتا ہے یا یوں کہیں کہ جب ہم حرم پاک کے قریب پہنچنے لگتے ہیں۔ بڑی گھڑی کی دید نوید دینے لگتی ہے کہ منزل قریب ہے، کعبۃ اللہ اتنا ہی دور ہوتا چلا جا تا ہے، ایک اک لمحہ گھنٹہ بھر کو محیط ہو جا تا ہے، ایک اک قدم میلوں پھیلا ہوا لگتا ہے۔ اللہ اللہ کر کے ہمیں ہوٹل سنابل پہنچایا گیا۔ خیال تھا کہ کچھ آرام کے بعد عمرے کے لیے نکلیں گے لیکن فوراً ہی اٹھ کھڑے ہوئے۔ لبیک کے ترانے تھکے ہوئے اعصاب کے لیے مہمیز کا کام دیتے تھے۔ میں اور شاہد، جاوید بھائی اور ثروت باجی، ہم دو گروپوں میں منقسم ہو گئے کہ بچھڑنے کی صورت میں ایک دوسرے کی تلاش میں وقت ضائع نہ ہو۔ بہرحال فون پر ایک دوسرے کا احوال پو چھتے رہے۔ سعی تہ خانے میں ہی کی کہ یہاں قدرے آسان معلوم ہوتی ہے۔ پینتیس منٹ میں سعی مکمل ہو جاتی ہے اور یہ لمحات کبھی زبانی کبھی دعاؤں کی کتاب کھول کر اپنی اور اپنے پیاروں کی مغفرت کے لیے، عزت کی زندگی اور عزت کی موت کے لیے، جسم کی صحت و تندرستی، روحانی و باطنی پاکیزگی اور لطافت کے لیے اور ایمان کی سلامتی کے لیے، دعا کرتے رہے۔ عمرے سے فارغ ہو کر باب مروہ سے باہر ایک دوسرے کا انتظار کرتے رہے۔ پاکستان آ کر خیال آتا رہا کہ اتنا وقت ہم وہاں کھڑے ہو کر جو گنواتے رہے، اتنی دیر میں مولدِ نبویﷺ کا چکر لگا آتے کہ کبھی ایسا نہ ہوا تھا کہ ہم اس کے دیدار سے محروم رہے ہوں۔ اور تو اور اس مرتبہ جنت المعلیٰ کے مدفون خزینوں کے لیے دعا بھی حرم میں ہی بیٹھ کر کر لی۔ مجھے بہت حیرت ہوتی رہی کہ میں اسلام آباد سے تو یہ سوچ کر گئی تھی کہ مسجدِ نبوی تو باہر کی جانب سے چاروں اطراف سے دیکھ لی ہے، کعبۃ اللہ کے تمام دروازے، اس کا بیرونی احاطہ ایک ہی بار میں بالکل نہیں دیکھا، کسی فجر کی نماز کے بعد یہ کام کریں گے۔ لیکن وہاں جا کر اس مرتبہ کچھ کم ہمتی کا احساس ہوتا رہا۔ خواہش کے مطابق طواف و عمرے و عبادات کر سکے نہ اطراف و اکناف کا جائزہ لے سکے۔ سعی مکمل کر کے ثروت باجی اور جاوید بھا ئی آ چکے تھے۔ احرام کی پابندیوں سے آزاد ہونے میں مردوں کو کچھ وقت لگتا ہے۔ میں اور ثروت باجی باب عمرہ کی اوٹ میں صلوۃ التسبیح کی ادائیگی میں مصروف ہو گئے۔

بلال سے برابر رابطے میں تھے۔ وہ سب رات گئے مکہ مکرمہ پہنچے۔ اولین عمرہ کی ادائگی، جلال و جمال سے دمکتا باکمال و بے مثال خانۂ خدا، میں ہمیشہ کہتی ہوں کہ کعبہ کا حسن دیکھنا ہے تو رات کو دیکھو۔ بلال کو بھی یہ مبارک موقع رات کو ہی ملا۔ اس نے اپنے گروپ کے ساتھ عمرہ ادا کیا۔ کہنے لگا ’’آپ کی دی ہوئی کتاب بہت کام آئی۔‘‘ عمرے پر جاتے ہوئے میں دعوہ اکیڈمی کی منتظم محترمہ شگفتہ عمر کی مختصر کتاب ’’راہنما بروشرز برائے عازمینِ حج و عمرہ‘‘ کے دو تین نسخے لے گئی تھی، جو بہت مدد گار ثابت ہوئے۔ بہرحال صبح کے وقت بلال کو دیکھا اس نے اپنے خوبصورت بالوں پر استرا پھروا دیا تھا کہ یہی حکم ربی ہے۔ بے شک بال چھوٹے کروانے کی اجازت بھی ہے لیکن سر منڈوانا زیادہ افضل ہے۔

’’مردوں کے لیے حلق ( سر منڈوانا)کروانے کی فضیلت، قصر ( بال کم کروانا) کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے، اگر پہلے عمرہ کے بعد حلق کروایا تھا پھر بھی استرا پھروانا ہو گا اور اس کا وہی ثواب دوبارہ ہو گا۔‘‘

دوپہر کا کھانا مکہ ٹاور میں حسبِ معمول مطعم ابو ترکی میں کھایا، اب بلال میزبان بن چکا تھا، جیسا کہ مدینہ میں بھی وہ یہ فرض بہت خوشی سے بلکہ زبردستی ادا کر رہا تھا بلکہ مدینہ میں کھایا گیا وہ کھانا کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا جس کے لیے ہم سب بہت پر شوق تھے اور بلال تو ابو ظہبی سے ہی یہ مسرت ساتھ لایا تھا کہ مدینہ میں البیک بھی ملے گا۔ لیکن وہ مل کر نہ دے رہا تھا۔ ایک رات نماز عشا کے بعد اس مہم پر نکلے دو ایک گروپوں کو البیک کے ڈبے کھولے صحن مسجد میں ضیافت اڑاتے دیکھا، ان سے سمت معلوم کی اور بتائے ہوئے راستے پر چلتے چلے گئے لیکن منزل کہیں دکھائی نہ دیتی تھی۔ راستے میں بھی پتا پوچھا ہر ایک نے یہی کہا بس چند قدم کی مسافت اور۔۔۔ ہم خوش تھے کہ اسی بہانے ہم مدینہ کی کھلی فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں۔۔۔ اور بلا آخر ہم پہنچ گئے لیکن عمارت کے باہر کھڑے ہو کر ہی اندازہ ہو چکا تھا کہ اندرونِ خانہ کیا حالات چل رہے ہیں۔ بلال نے ہمت کر کے اندر جا کر معلوم کرنے کی کوشش کی۔۔۔ معلوم ہوا، بارہ سو نمبر دیے جا چکے ہیں، آپ بھی نمبر لیجیے اور انتظار کھینچیے۔ بہر حال ایک کرم فرما نے رہنمائی کی کہ آپ فیملی کے ساتھ ہیں۔ اوپر چلے جائیے، وہاں آپ کو بیٹھنے کی جگہ بھی مل جائے گی اور نمبر بھی کچھ قریب کا مل جائے گا۔ اب ہم اوپر جاتے تھے۔ معلوم ہوا کہ ہمیں جو نمبر دیا جائے گا وہ سات سو چوالیس ہو گا۔ بلال کچھ غصے میں آ گیا کہ ہم کہیں اور سے کھانا کھا لیتے ہیں، اٹھیں یہاں سے۔ ثروت باجی نے کہا کہ اتنی دور آ گئے ہیں، اب نئے سرے سے مشقت اٹھا نے کی ہمت نہیں، کوپن لے لو ہم یہیں بیٹھ جاتے ہیں۔ بیٹھنا کہاں تھا کوئی جگہ ہوتی تو بیٹھتے، کہ کھانے کے لیے بنائے گئے احاطے تک رسائی کے درمیان کئی مراحل تھے، میں اور ثروت باجی پہلے تو ٹہل ٹہل کر اپنی مقرر کردہ تسبیحات پڑھتے رہے، اسی اثنا میں انتظار گاہ کا ایک بنچ خالی ہو گیا اور اب ہم سب اس پر مٹر کی پھلی میں جڑے دانوں کی طرح چپک کر بیٹھ گئے۔ درمیان میں اٹھ کر وضو بھی کر آئے، تھوڑی بہت کھڑکی خریداری بھی کر لی۔ یہ خو شی البتہ ہوئی کہ رات کے لیے معین کردہ تسبیحات کا کچھ بلکہ بہت کچھ حصہ باقی رہ جا تا تھا جو ہم فجر کے بعد پڑھا کرتے تھے کہ اللہ کے نبیﷺ نے ہمارے لیے کتنی سہولت پیدا کر دی ہے کہ رات میں جو کچھ پڑھنا چاہتے ہو، نیند، بیماری یا بھول کے سبب نہ پڑھ پاؤ تو دوسرے روز نمازِ ظہر سے پہلے پہلے پڑھ لو اس کا اتنا ہی اجر ملے گا جو شب بیداری کا ہے، شب برات یا شب قدر یا دیگر فضیلت کی راتوں میں ان کے اس فرمان کے مطابق ظہر تک جو اللہ توفیق دے عبادت کرتے رہے اس نیت کے ساتھ کہ اللہ قبول و منظور فرمائے۔ تو یہاں بھی ہم اللہ سے اسی قبولیت اور منظوری کی آس میں تھے کہ نمازِ عشا کے بعد جو کچھ مزید پڑھنا ہوتا، نہ پڑھ پاتے تو ظہر سے پہلے پہلے پڑھ لیتے۔ آج البیک کے سر یہ سہرا بندھتا تھا کہ اس نے ہماری تسبیحات کی تکمیل میں مدد کی۔ ہمارے اطراف میں دمکتے چہرے اس بات کا اعلان کرتے تھے کہ یہ مدینہ کے رہائشی اپنے اہل خانہ کے ساتھ ویک اینڈ منانے آئے ہوئے ہیں۔ عمرہ زائرین خال خال ہی تھے۔

گھنٹے بھر کے انتظار کے بعد ہمیں اندر جانے کا اشارہ ملا۔ ہم خالی کیبن کی تلاش میں آگے بڑھتے جاتے تھے اور اہل مدینہ کی کھانے کی بربادی کے مناظر بہت تکلیف دیتے تھے۔ بند چپس اور بروسٹ کے پہاڑ لمحہ بھر میں کوڑے کے ڈرم میں منتقل کیے جا رہے تھے۔ کیا جرمنی کی طرح یہاں کوئی قانون نہیں بن سکتا کہ صرف اتنا کھانا ہی آرڈر کیا جائے جو آپ کھا سکیں اور کھانا ضائع کرنے کے جرم میں بھاری جرمانہ بھرنا پڑے۔ ہم ایک کیبن میں بیٹھے اور صفائی کرنے والے ہمارے سامنے سے ڈھیروں باقیات کوڑے دان میں منتقل کر رہے تھے۔ مرد حضرات ہاتھوں میں البیک کے بڑے ڈبے اٹھائے کیبن میں داخل ہوئے۔ ڈبوں کا کھلنا تھا کہ سب کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے اور جو ہم بلال پر خفا ہونے کی تیاری کر رہے تھے کہ اتنا بہت سا کھانا کون کھا سکے گا، خوشی سے کھانے میں مصروف ہو گئے، بلال کہنے لگا کہ اتنی محنت کے بعد یہاں پہنچا تھا تو میں نے سوچا کھل کر کھائیں گے اور بچ گیا تو پیک کر وا کر ساتھ لے جائیں گے اور یہی کیا۔ وقتِ رخصت ہمارے ہاتھ میں اگلے روز کے لیے کھانے کا سامان موجود تھا۔ بلال بہت خوش تھا کہ کسی عام سے ہوٹل میں عام سا کھانا کھاتے تب بھی اتنا ہی بل بنتا۔

ہاں تو بات ہو رہی تھی خانہ کعبہ کی، پیر ۵ دسمبر، سڑک مرمت کے لیے بند کی ہوئی تھی، متبادل راستے سے حرم پہنچے۔ نمازِ فجر تہ خانے میں ادا کی۔ جاوید بھائی کا حجر اسود کو بوسہ دینے کا ذوق بڑھتا ہی جا رہا تھا لیکن موقع نہ مل رہا تھا۔ آج شاہد کو یہ مبارک ساعت میسر آ گئی، ثروت باجی جاوید بھائی سے بہت اصرار کر رہی تھیں کہ میں بھی بوسہ دینے کی کوشش کروں گی اور وہ سختی سے منع کر رہے تھے اب انھوں نے میری جانب دیکھا، ’’اچھا میں طاہرہ کے ساتھ چلی جاؤں گی۔‘‘ میں نے فوراً انکار میں سر ہلا دیا۔ ’’آپ عمرے کے لیے کہیں گی تو میں جانے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہ کروں گی لیکن حجر اسود کو بوسہ، یہ ممکن نہیں۔‘‘

حج اور پچھلے عمروں پر یہ سعادت مل چکی تھی اللہ نے عزت کے ساتھ بوسہ دینے کا موقع فراہم کر دیا تھا لیکن جو حالات تھے اس میں خوف ہی آتا تھا۔

صبح میں دو طواف کر کے ہم برآمدوں میں لگی کرسیوں پر آ بیٹھیے۔ پہلے تو اگر کسی کو زمین پر بیٹھ کر نماز ادا کرنا مشکل لگتا تھا تو وہ اپنی ذاتی کرسی ساتھ ساتھ لیے پھرتا تھا اور اس کی حفاظت اپنی جان سے بھی زیادہ کرتا تھا لیکن اب تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کر سی سٹینڈ رکھے ہیں، وہاں سے کرسی اتاریے اور آرام سے بیٹھ کر عبادت کیجیے، تسبیح و تہلیل میں مصروف رہیے یا دیدار کعبہ کی سعادت حاصل کیجیے۔ نمازِ چاشت کے بعد ثروت باجی نے بہت متاثر کن انداز میں دعا کی اور میں نے اس دعا کی قبولیت کی دعا کی۔ اے اللہ تعالیٰ پورے عمرے کے دوران میں صرف اسی دعا کے حصار میں رہی اور میرے ساتھ میرے ہمراہی بھی دل کی گہرائیوں سے شامل رہے، تو نے بن مانگے اتنا عطا کیا ہے۔ اب بھی ہمیں محروم نہ رکھ۔ کسی بھی دعا سے پہلے اپنی مغفرت کی دعا، عذابِ قبر سے پناہ کی دعا لازمی ہے کہ جو عذاب قبر سے بچ گیا، کہا جاتا ہے کہ اس کی اگلی منزلیں آسان ہو جاتی ہیں۔ اے اللہ ہماری، ہماری گذشتہ اور آئندہ نسلوں کی مغفرت فرما۔

ظہر کے بعد شاہد تمتماتے چہرے کے ساتھ آئے۔ ’’میں ملتزم کے ساتھ کھڑا تھا، دل اور دعا چوکھٹ کو پکڑے یکجان ہو رہے تھے لیکن نگاہیں حجرِ اسود کی جانب بھٹکتی جاتی تھیں۔۔۔ اور پھر مجھے نہیں معلوم کہ میں کیسے اس گروہ میں شامل ہوا کہ جو حجر اسود کو چومنے کی آس میں ہچکولے کھاتا تھا اور پھر لمحہ بھر میں میں وہاں تھا۔ اللہ نے یہ خواہش پوری کر دی۔ مجھے لگ رہا تھا میں آج کامیاب ہو جاؤں گا۔‘‘ میں شاہد کی کامیابی پر خوش تھی لیکن جاوید بھائی ابھی تک اس سعادت سے محروم تھے، اس پر افسردہ تھی۔ ’’یا اللہ ان کے لیے بھی کوئی سبیل پیدا کر۔‘‘

۶ دسمبر۲۰۱۶ء۔۔۔ منگل کے روز عمرے کا ارادہ کیا۔ سنابل ہوٹل کی انتظامیہ کی جانب سے لگا اشتہار مسجدِ جعرانہ سے ’’بڑے عمرے‘‘ کی دعوت دیتا تھا، مجھے شوق ہوا کہ اسی بہانے مسجد جعرانہ کو دیکھنے کا موقع مل جائے گا، لیکن شاہد نے فوراً ہی نفی کر دی۔

’’عمرہ ہی کرنا ہے، تو خود کو تردد میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے، کیوں وقت ضائع کیا جائے، کیوں خود کو تکلیف دی جائے۔ بڑے اور چھوٹے عمرے کی اصطلاحیں خود ساختہ ہیں۔‘‘

میں اور جاوید بھائی مسجدِ جعرانہ جانے کے لیے تیار تھے لیکن شاہد کی بات میں بھی وزن تھا۔ ابھی نمازِ ظہر میں بہت وقت تھا نمازِ فجر کے بعد تین طواف کیے اور گھر واپس آ گئے۔ دس بجے بلال کی فون پر جوش و جذبے سے بھری آواز سنائی دی۔

’’مجھے بہت سہولت کے ساتھ حجرِ اسود کو بوسہ دینے کا موقع مل گیا ہے۔ لیکن ایک خرابی یہ ہوئی کہ میرے بعد جو ہجوم آیا انھوں نے غلافِ کعبہ کو اتنی مضبوطی سے پکڑا اور دھکم پیل کے باوجود نہ چھوڑا، اس کی وجہ سے حجر اسود کی جانب سے غلاف کعبہ ادھڑ گیا ہے۔ اس وقت فوری طور پر اس کی سلائی کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔ لوگوں کو ہٹا دیا گیا ہے۔ حجرِ اسود اتنا واضح نظر آ رہا ہے کہ آپ اس کے ایسے دیدار کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ فوراً حرم پہنچیں۔‘‘

ہم سب نے انتہائی تیزی سے حرم پاک کا راستہ طے کیا۔ مطاف میں پہنچے تو شرطوں نے تمام زائرین کو حجر اسود سے دور کر دیا تھا۔ کعبہ کی جنوب مشرقی دیوار میں نصب حجر اسود کو اتنا قریب سے دیکھنے کا موقع کبھی نہ ملا تھا اور نہ ملے گا حتیٰ کہ جب آپ کو بوسہ دینے کی سعادت مل رہی ہوتی ہے اس وقت بھی اسے دیکھنے کا کسے ہوش ہوتا ہے، حجر اسود کا لشکتا چمکتا سیاہ رنگ، لیکن کبھی وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہم دیر تک، اتنے واضح انداز میں اس کی زیارت کر سکیں گے۔ یہ تین بڑے اور مختلف زاویوں کے کئی چھوٹے ٹکڑوں پر مشتمل ڈھائی فٹ قطر کے چاندی کے گول حلقے میں جڑا گیا ہے۔ ٹکڑوں کے جوڑ مضبوط تھے لیکن دل ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا تھا ہم اہل دنیا جنت سے لائی گئی نعمت کی قدر بھی نہیں کر سکتے تو دنیا جو شکست و ریخت کا گھر ہے اس میں اور اس میں بسنے والوں کی کیا حفاظت کر سکیں گے۔ بے شک حفاظت کرنے والی ذات اللہ ہی کی ہے۔

جنت کے اس تحفے حجر اسود کی تاریخ کا مطالعہ کریں، تو کم از کم چھ واقعات ایسے دکھائی دیتے ہیں کہ جب اسے چوری کیا گیا یا چوری کرنے کی کوشش کی گئی، اسے توڑا گیا، دلی کدورت و کینے کا نشانہ بنایا گیا، حضرت علی نے فرمایا تھا جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔ قبیلہ بنو جرہم، نے حضرت ہاجرہ سے مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں پانی کا ابلتا ذخیرہ دیکھ کر قیام کی اجازت مانگی اور پھر یہیں کے ہو رہے، حضرت ہاجرہ نے قبیلہ بنو جرہم ہی کی لڑکی سے اپنے بیٹے اسمٰعیل کی شادی کی لیکن انسان ناشکرا ہے۔ اللہ کا شکر گزار ہے نہ اس کے بندوں کا، طویل مدت کے قیام کے بعد جب بنو بکر بن عبد مناہ نے بنو جرہم کو مکہ سے نکلنے پر مجبور کیا تو وہ جاتے جاتے خانۂ کعبہ میں رکھے سونے کے ہرن اور حجر اسود کو اکھیڑ کر زم زم کے کنویں میں دفن کر گئے۔ ایک مقامی خاتون ساری کاروائی دیکھ رہی تھی اس کی نشاندہی پر حجر اسود کو برآمد کیا گیا۔ دوسرا ہولناک سانحہ اس وقت پیش آیا کہ جب قرامتین نے ابو طاہر کی سر کردگی میں مکہ پر ۳۱۷ہجری میں حملہ کیا۔ مسجد الحرام میں سات سو انسانوں کی لاشیں، زم زم کا کنواں خون آلود غلاف کعبہ ٹکڑے ٹکڑے، جواہرات و نوادرات کی لوٹ کھسوٹ اور حملہ آور حجر اسود کو بھی اکھاڑ کر ساتھ لے گئے۔ ۲۲ سال یہ موجودہ بحرین کے مقام پر رکھا گیا۔ طواف کرنے والے خالی جگہ کو چومتے رہے، استلام کرتے رہے۔ دس ذی الحجہ ۳۳۹ ہجری میں قرامتین ہی کے ایک فرد سنبر بن حسن نے اسے آزاد کروا کر اس کی اصل جگہ نصب کیا۔ اس موقع پر سوال اٹھا کہ کیا یہی اصل حجرِ اسود ہے، ایک دانشور نے اسے جانچنے کی ذمہ داری قبول کی، اسے دہکتی آگ میں رکھا گیا، گرم ہوا نہ جلا۔ پھر اسے پانی میں ڈبویا گیا تو ڈوبا نہیں۔ ظاہر ہے یہ کوئی عام پتھر نہ تھا۔۔ جنت سے بھیجا گیا تحفہ تھا، اسی طرح دیگر واقعات میں بد بخت انسانوں نے اسے نقصان پہچانے کی کوشش کی لیکن محافظوں نے انھیں وہیں کیفر کردار تک پہنچایا۔

نمازِ ظہر کے بعد ہم بس سٹاپ کی جانب جاتے تھے، وہاں پہنچے لیکن ایک ٹیکسی والے نے متوجہ کیا اور یوں لمحہ بھر بھی ضائع کیے بغیر ہم تنعیم، مسجد عائشہ جاتے تھے، تنعیم ایک محلے کا نام ہے جو دو پہاڑوں کے درمیان ایک وادی کی شکل میں موجود ہے، ایک پہاڑ نعیم اور دوسرا ناعم کہلاتا ہے، اسی نسبت سے یہ علاقہ تنعیم کے نام سے مشہور ہے، یہ علاقہ حرم سے باہر اور ’’حل‘‘ کی ابتدا ہے۔ ٹیکسی والا ہمیں کسی اور ہی راستے سے لے گیا۔ مسجدتِعنیم، مسجد عائشہ کی روح پرور فضا میں قدم دھرتے ہی انسان خود کوسبک و تازہ دم محسوس کرنے لگتا ہے، سر سبز و شاداب باغ، اٹکھیلیاں کرتے کبوتر، لہلہاتے پودے، جھومتے درخت، ہری بھری گھاس کے قطعے سبھی اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں، غسل و احرام کے بعد مسجد عائشہ میں داخل ہوئے۔ کشادہ صحن، جن سے آسمان جھانکتا ہے۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے زائر کی تھکن دور کرتے ہیں۔ وسیع ہال میں عالی شان فانوس اور برقی قمقمے منظر کو روشن کرتے ہیں۔ خواتین کا حصہ کم رقبے پر مشتمل ہے، پندرہ ہزار مرد و خواتین نمازیوں کی گنجائش ہے۔ ہال میں پندرہ بیس خواتین نوافل کی ادائگی میں مشغول تھیں۔ تحیۃ المسجد اور احرام کی نیت کے نوافل ادا کیے۔ ہماری خواہش تھی کہ عصر سے پہلے عمرہ مکمل کر لیا جائے، سو اب ہم بس کے ذریعے حرم پاک جاتے تھے۔ وہاں پہنچ کر ہم دو گروپوں میں منقسم ہو گئے، جاوید بھائی، ثروت باجی اور بلال۔۔ میں اور شاہد، یوں ایک دوسرے کو ساتھ رکھنے یا بچھڑ جانے کی صورت میں تلاش کرنے میں وقت کا زیاں نہیں ہوتا۔ طواف تک تو ہم ایک دوسرے کی نظروں میں ہی رہے، لیکن سعی کے لیے پہنچے تو وہ کہیں دکھائی نہ دیے۔ سعی کا آغاز کیا، قربانی، حضرت ابراہیم کی سنت، حضور اکرمﷺ کی احادیث و سنن پر عمل کرنا ہمارے ایمان کا حصہ، لیکن سعی وہ واحد سنت جو ایک خاتون کی پیروی میں تمام مرد و زن پر فرض ہے، دوران سعی حضرت ہاجرہ کا ایثار، ان کا بے آب و گیاہ وادی میں تپتی دھوپ میں بغیر سامانِ زیست کے شیر خوار بچے کے ہمراہ، حشرات الارض و درندوں کے خوف کو دل میں چھپائے صرف اس بھروسے پر تنہا رہنا قبول کر لینا کہ شوہر جس ہستی کے سپرد کر کے، رخصت ہوئے ہیں، وہی حفاظت کرنے والا ہے وہی تمام مسائل سے نکالے گا، یہ ایمان و ایقان ہی تھا کہ جس نے حضرت ہاجرہ کو سرخرو کیا اور تا قیامت ان کی سنت کی پیروی کی جاتی رہے گی۔ دورانِ سعی مانگی جانے والی تمام دعائیں اور سورتوں کا ثواب بہ چشم نم ان کی نذر کرتی رہی۔ چوتھا پھیرا تھا کہ شاہد نے مروہ سے صفا کی جانب آتے ہوئے اس اہتمام کی طرف متوجہ کیا جو چند احباب کی جانب سے زائرین کے لیے کیا گیا تھا۔ قہوہ اور کیک پیس، بسکٹ۔۔ ہر زائر اس سوغات سے مستفید ہو رہا تھا میں نے فوری طور پر ثروت باجی کے لیے ایک قہوہ کا گلاس لے لیا کہ کیا پتا ان کے پہنچنے سے پہلے یہ سلسلہ تھم جائے۔ لیکن جب وہ کہیں دکھائی نہ دیں تو میں نے دو ایک گھونٹ بھرے، یہ قہوہ تھکن دور کرنے اور جسم کو قوت دینے میں بے مثال ہو گا لیکن چونکہ میں چائے نہیں پیتی، مجھے اس کا ذائقہ نامانوس لگا۔ بہرحال ان لوگوں کے لیے دل سے دعا نکلی جو زائرین کی خدمت میں مصروف تھے۔ بڑی بڑی تھرمسیں منٹوں میں خالی ہو جاتی تھیں لیکن جب تک ہم سعی کرتے رہے یہ سلسلہ چلتا رہا۔ سعی کے بعد معلوم ہوا کہ ثروت باجی اور سب نے بہت اہتمام سے بیٹھ کر قہوہ پیا تھا، لیکن دورانِ سعی ہمیں کہیں دکھائی نہ دیے۔

عمرے کے بعد حلق کروانے میں بھی خاصا وقت لگا کرتا ہے۔ حلق کے بعد شاہد کا اصرار تھا کہ میں ہوٹل جا کر لباس تبدیل کر لوں کہ احرام میں مشکل ہو رہی تھی اور دوا بھی کھا لوں کہ بخار و گلے کہ خرابی کے لیے انھوں نے اینٹی بائیوٹک دوا لینا شروع کی ہوئی تھی لیکن میں اور ثروت باجی انھیں اس عمل سے باز رکھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اب مغرب ہونے والی ہے، کچھ دیر بعد عشا ہو جائے گی، آدھ پون گھنٹہ تو آنے جانے اور دوا کھانے میں ضائع ہو جائے گا۔ ہم نے انھیں روک ہی لیا۔ عشا کے بعد ہوٹل پہنچے تو شاہد کی طبعیت زیادہ خراب ہو چکی تھی اور ہماری ضد کی وجہ سے انھیں دوسرے روز نمازیں گھر میں ہی ادا کرنا پڑیں بلکہ زیارتوں کے لیے بھی وہ نہ جا سکے، جس کا مجھے بے حد افسوس ہے اور یہ کہ جو فیصلہ فرد اپنے بارے میں کرنا چاہے اس پر اثر انداز نہیں ہونا چاہیے۔ اگر وہ اس روز وقت پر لباس تبدیل کر لیتے، دوا لے لیتے تو ان کی حرم میں با جماعت نمازیں نہ رہ جاتیں۔ ہوٹل کی نچلی منزل اور قرب میں بھی مساجد تھیں لیکن وہ بات کہاں۔۔۔ آج وہ دوا کھا کر کچھ دیر سونا چاہتے تھے، چنانچہ میں بھی جاوید بھائی، بلال اور ثروت باجی کے ساتھ چلی گئی کہ شاہد آرام کر لیں۔ گائیڈ ہمیں دیکھے ہوئے مقامات پر ہی لے جانے پر مجبور تھا اور ہم ان مقامات و مکانات و مقابر پر جا نا چاہتے تھے جن کی اب تک زیارت نہ کر سکے تھے۔ بہرحال فرلانگ بھر ہی چلے ہوں گے کہ اس مقام کی طرف اشارہ کیا گیا کہ جہاں ایام جاہلیت میں بچیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ پل سے کچھ آگے ایک احاطہ، چار دیواری بلکہ تین طرف دیواریں اور چوتھی جانب اٹھی چٹانوں میں محصور اس تلخ حقیقت کی یاد دلاتا رہتا ہے۔ بیٹی کو زندہ درگور کرنے کی کیا وجوہات ہو سکتی تھیں، شاید غربت و افلاس، شاید شرمندگی کا احساس، بیٹے کی پیدائش پر فخر و مباحات اور بیٹی کی آمد پر چہرہ چھپانے کی روایت یا کوئی مخصوص واقعہ جس نے باپ کو بیٹیوں سے بد ظن کیا ہو اور اس کا یہ قبیح عمل ایک بری روایت کا سرِ آغاز ہو، یہ رواج ہر فرد یا ہر قبیلے میں نہ تھا۔ اہل قریش میں تین قبیلے، بنو تمیم، ربعیہ اور کندہ کا نام اس سلسلے میں لیا جاتا ہے۔

بنو تمیم، نعمان بن منذر کو خراج ادا کرنے کے پابند تھے ایک مرتبہ وہ خراج ادا نہ کر سکے تو انھوں نے طیش میں آ کر حملہ کر دیا۔ مال مویشیوں کے ساتھ ساتھ ان کے بچوں اور خواتین کو بھی لے گئے۔ جب واپسی کی درخواست کی گئی تو نعمان نے جواباً کہلایا کہ جو جا نا چاہے وہ جا سکتا ہے۔ بنو تمیم کے سردار قیس بن عاصم کی بیٹی نے وہاں رہنے کو ترجیح دے کر باپ کو شرمسار کیا، اس پر اس نے عہد کیا کہ اس کے ہاں جو بھی بچی پیدا ہو گی اسے زندہ دفن کر دیا جائے گا، چنانچہ آنے والے سالوں میں دس سے زائد بیٹیاں زندہ دفنائی گئیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ربعیہ قبیلے کے سردار نے اس روایت کا آغاز کیا کہ جب حملہ آور دیگر مال و متاع کے ہمراہ ان کے سردار کی بیٹی کو بھی لے گئے، صلح کے بعد لڑکی کی حوالگی کا معاملہ آیا تو اختیار لڑکی کو دیا گیا، جس نے اپنے قید کرنے والے کے ساتھ ہی رہنا پسند کیا۔ باپ نے اس بے عزتی کا بدلہ اپنی قوم کی ان تمام بچیوں سے لیا جنھیں اس دنیا میں آنکھ کھو لتے ہی دفن کر دیا جاتا تھا۔ ایسی مثالیں بھی سامنے آئی ہیں کہ بچی نے چلنا بولنا سیکھ لیا ہے باپ کی محبت حاصل کر لی ہے لیکن اس شرمندگی کا مداوا نہ کر پائی ہے کہ جو باپ کو اس کی پیدائش کے سبب اٹھانا پڑی ہے اور باپ اسے پہاڑی پر لے جا کر یا کنویں کے کنارے پر کھڑے ہو کر دھکا دے دیتا ہے اور یہ دھکا، بیٹی کی آخری چیخ، ابا کی دلدوز پکار اسے ساری زندگی چین لینے نہیں دیتی۔۔۔ اس معاشرے میں ایسے افراد بھی مل جاتے ہیں کہ جو ان بچیوں کو فدیہ دے کر قتل ہونے سے بچا لیتے تھے۔

اور پھراسلام کی آمد نے سب کچھ بدل ڈالا۔ اسلام نے عورت کو جو مقام عطا کیا، جو عزت اسے بخشی گئی، اس کے بارے میں دو رائے نہیں ہو سکتیں۔ آپﷺ نے فرمایا جس نے تین، دو یا ایک بیٹی کی خوش دلی سے پرورش کی، جنت اس پر واجب ہو گئی۔

دعا اور تسبیح و تہلیل کے دوران غارِ ثور کی زیارت کی یہاں بس روکی گئی۔ زائرین بس سے اترے لیکن جس مقام سے جبل ثور تک پہنچنے کا راستہ تھا وہ اس جگہ سے دور تھا، بہرحال اشاروں سے بتایا گیا کہ جبل ثور، کہ جہاں حضورِ پاکﷺ نے اپنے یار غار کے ساتھ تین روز قیام کیا تھا اور جو مدینہ سے مخالف سمت میں تھا، کہ قریش اس جگہ کا تصور بھی نہ کر سکتے ہوں۔ جس کے لیے قریش کے ایک مخبر نے اطلاع کر دی تھی اور سو اونٹوں کے لالچ میں سراقہ بن جعشم نے تیز رفتار گھوڑے پر پیچھا کیا اور حکم ربی نے اسے بار بار ریت میں دھنسایا، یہاں تک کہ اسے تائب ہو کر ایمان لاتے ہی بنی۔ تین دن کے قیام کے بعد حضرت ابو بکر صدیق، ان کا غلام عامر بن فہیرہ، جو دورانِ قیام بکریاں چراتا ان تک پہنچتا، دودھ پلاتا، اور واپس ہو جاتا، اب ان کے ہمراہ تھا، راہبر کے فرائض عبد اللہ بن اریقط انجام دے رہے تھے۔ مدینہ کی جانب عمومی راستے سے گریز کرتے ہوئے تاریک راتوں میں دشوار گزار راستے کا انتخاب وقت کی ضرورت تھی۔ وہ سفر جو ہم پانچ چھ گھنٹوں میں بلا خوف و خطر کر لیتے ہیں۔ آپﷺ نے بائیس دنوں میں طے کیا تھا۔ میں ماضی بعید اور قریب دونوں کے درمیان سفر کر رہی تھی۔ چشم تصور مجھے ساڑھے چودہ سو سال پیچھے لیے جاتی تھی اور ماضیِ قریب، دو ہزار آٹھ میں، شاہد اور میں نے یکم مئی کو یہاں کچھ وقت گزارا تھا، ایک اک لمحے کی تصویر میری آنکھوں میں آ کر ٹھہر گئی تھی اور میں اس خوش قسمت وقت کو یاد کرتی رہی جب غارِ ثور میں نوافل کی ادائگی کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔ جہاں مختلف ممالک سے آئے ہوئے لڑکے ہمارے ہمراہ پکنک کے بھاری بھرکم سامان، اشیائے خور و نوش کے ساتھ طویل پہاڑی راستے کو طے کر کے غارِ ثور تک پہنچے تھے اور بہت اصرار کے ساتھ ہمیں کھانے کی دعوت دیتے تھے اور ایک بھاگتے ہوئے بچے نے ہمیں روک کر کچھ کہنے کی کوشش کی تھی، وہ ہمیں اس جانب متوجہ کرتا تھا کہ جہاں ایک فرد ہمیں تسبیحات کا تحفہ دینا چاہتا تھا، غارِ ثور کا یہ تحفہ آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔

گائیڈ ہمیں ان مبارک مقامات کی تاریخ سے آگاہ کر رہا تھا۔ یہاں ان مقدس مقامات کی تصاویر اور نقشے بھی فروخت کیے جا رہے تھے، کئی زائرین ان سے مستفید ہوئے۔ حرم پاک سے آٹھ کلومیٹر دور مسجد عائشہ، تعنیم کا بھی بس سے ہی نظارہ کیا۔ اب ہم عرفات کے میدان کی جانب جاتے تھے جو مکہ مکرمہ سے تقریباً نو میل مشرق کی جانب واقع ہے اور منیٰ سے چھ میل کی مسافت پر ہے، ایامِ حج میں نو ذی الحجہ کو یہاں قیام کرنا حج کا بنیادی رکن ہے۔ میدان حشر یہیں سجے گا۔ ازل تا ابد اس دنیا میں آنے والی مخلوقات کے لیے یہی میدان امتحان گاہ ہو گا۔ یہی وہ مقام ہے کہ جہاں جنت سے نکالے جانے کے بعد حضرت آدم و حوا کی ملاقات ہوئی تھی اور یہیں بندہ اپنے خالق سے ملے گا۔ نیم کے چھدرے درخت نیم سایہ فراہم کرتے تھے۔ جو دھوپ کی تیزی کو روکنے میں کچھ زیادہ کامیاب نہ ہوتے تھے۔ بس رکی تو بلال اور اس کا دبئی کا ہمسفر دوست عرفات دیکھنے فوراً ہی اتر گئے۔ بلال کا خیال تھا کہ شاید ہم نہ اتریں کہ کئی بار اس کی زیارت کر چکے تھے۔ ثروت باجی نے بس میں بیٹھنے کو ترجیح دی میں اور جاوید بھائی اترے اور جبلِ رحمت تک ہو آئے۔ سجی دکانوں کی تعداد بہت بڑھ چکی تھی، زائر بھی بہت بڑی تعداد میں تھے۔ جبل رحمت سے میدانِ عرفات کا چہار جانب سے جائزہ لیتے، اس کی اولین اور آخری اہمیت اور درمیانی عرصہ کہ جسے زیست کہیں، میں انسان کی زندگی جو سراسر خسارے میں ہے، کے متعلق سوچتے اور لرزتے رہے۔

بس کی جانب پلٹے تو معلوم ہوا ثروت باجی موجود نہیں، اب ان کی ڈھنڈیا مچی، قریبی واش روم، چائے خانے اور خوانچہ فروش سبھی دیکھ ڈالے کہیں پتا نہ چلا، کچھ دیر بعد جبل رحمت کے قدموں میں سجی سفری دکانوں کی جانب سے آتے دیکھا، شکر کیا اور جب ان کی خریداری دیکھی تو دل خوش ہو گیا، بے حد خوبصورت دوپٹے۔

’’اچھا تو اس لیے دیر لگی‘‘

’’نہیں دوپٹے تو منٹوں میں لے لیے تھے، قیمت بھی ادا کر دی، مسئلہ اس وقت سامنے آیا جب اگلی دکان پر مزید خریداری کی خواہش ہوئی اور پیسے دینے لگی تو بیگ میں سے پرس غائب تھا۔ اسے تلاش کرنے میں دیر ہوئی۔ شاید کوئی ضرورت مند ہو گا بلکہ ہو گی، کہ ایک خاتون میرے ساتھ ساتھ تھیں۔

خلیفہ ہارون الرشید کی بیوی ملکہ زبیدہ کے تعمیر کروائی گئی نہرِ زبیدہ کے آثار گئے زمانوں میں حاجیوں کے لیے پانی کی فراہمی کے داستان سناتے تھے اور جدید ترین ریلوے ٹریک موجودہ و آئندہ حج میں سہولیات کی دستیابی کی نوید دیتا تھا۔ منیٰ کے خیمے ۲۰۰۱ء میں کیے گئے حج کی یاد تازہ کرتے اور اس خواہش کو مہمیز لگاتے تھے کہ یا اللہ اب کے حج پر بلاوا بھیج۔ جمرات کے مقام پر ہمیشہ زیادہ تبدیلی محسوس ہوئی۔ اب عریض پل پر شیطان بھی بہت طویل ہو چکا ہے۔ حج کے موقع پر شیطان کے لیے ستون کی علامت تھی۔ ۲۰۰۸ء اور ۲۰۱۲ء میں اسے ایک طویل دیوار کی صورت دیکھ چکے تھے، جسے دیکھ کر مجھے کشتی نوحؑ کا خیال آتا رہا۔ پل کے ارد گرد بے شمار کئی منزلہ عمارات جیسے راتوں رات کھنبیاں اگ آئی ہوں۔ ریلوے ٹریک جس پر بہت تیزی سے کام شروع ہوا تھا، اب کچھ رکا رکا سا محسوس ہوا، اور ہماری خواہش کہ اس مرتبہ مکہ تا مدینہ اور مدینہ تا مکہ ٹرین میں سفر کریں گے، حسبِ سابق ادھوری رہ گئی۔ ہاں حج کے موقع پر جاوید بھائی اور ثروت باجی نے منیٰ اور عرفات کے درمیان اس سواری کے مزے لوٹے۔ مسجدِ خیف بھی مسجد نمرہ کی طرح بس میں بیٹھے بیٹھے ہی دکھا دی گئی۔ وادیِ محسر منیٰ اور مزدلفہ کے درمیان حدِ فاصل ہے، جو مشعر، منیٰ، مزدلفہ، کسی کا حصہ نہیں ہے، یہاں سے تیز رفتاری سے گزرے کہ یہ ابرہہ پر ابابیلوں کی جانب سے عذاب الٰہی نازل ہونے کا مقام ہے، جہاں ٹھہرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ زیریں وادی ہے، بارش سیلاب کی صورت میں یہاں پانی منٹوں سیکنڈوں میں یلغار کرتا ہر شے کو تہس نہس کر دیتا ہے اس لیے اس وادی بلکہ تمام وادیوں سے جلد گزرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

اب گائیڈ نے دیر ہو رہی ہے کا راگ الاپنا شروع کر دیا تھا۔ ’’ہم سیدھے حرم پاک جائیں گے تا کہ آپ کو با جماعت نمازِ ظہر مل جائے۔‘‘

سب حیران تھے کہ ابھی تو گیارہ بجے ہیں اور یہ زیارات سے جبل نور حذف کرنا چاہ رہا ہے۔ معتمرین نے دیگر مقامات خصوصاً غارِ حرا کے لیے اصرار کیا تو جبلِ نور لے جایا گیا۔

میرا بہت ارادہ تھا کہ اس مرتبہ بھی غارِ حرا تک جائیں گے۔ کوئی اور تیار نہ ہوا تو میں اور بلال تو ضرور جبلِ نور کی چوٹی پر فروکش غار حرا تک پہنچیں گے۔ اس تنگ چٹانی گزر گاہ سے گزر کر نبیﷺ کی عبادت گاہ تک سانس روکے گزر جائیں گے جہاں سے ایک بہت دبلے انسان کا گزرنا بھی محال دکھائی دیتا ہے لیکن لحیم شحیم ترکی، ایرانی بھی بہ سہولت نکل جاتے ہیں۔ اسی مصلے پر دو نفل ادا کرنے کی سعادت حاصل کریں گے جہاں حضورﷺ کے نشان سجدہ ثبت ہیں۔

سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات آپﷺ کے قلب پاک پر نازل کی گئیں اور وحی کے سلسلے کا آغاز ہوا اور علم کی اہمیت واضح کی گئی۔

مجھے یاد ہے پچھلی مرتبہ شاہد نے غارِ حرا میں نوافل ادا نہیں کیے تھے، کہ میں خود میں اتنی جرات نہیں پاتا۔ اور میں تو بہت کچھ، کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر کر گزرتی ہوں۔ اللہ معاف کرے اور میری نیت اور شکستہ عبادات کو قبول کرے۔ میری دعاؤں کو مستجاب کرے۔

’’الٰہی میری مغفرت کر مجھ پر رحمت کر، مجھے ہدایت دے، مجھے عافیت دے اور مجھے رزق عطا کر۔‘‘

’’اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں بلا کی سختی سے اور بد بختی لاحق ہونے سے اور قبر کے عذاب سے۔‘‘

’’یا اللہ عزت کی زندگی اور عزت کی موت عطا فرما۔‘‘

دو حصوں میں منقسم جنت المعلیٰ میں مدفون مبارک و مقدس ہستیوں کی قبور کی بس میں بیٹھے بیٹھے ہی زیارت کی اور فاتحہ پڑھی۔ بس سے ہی دو حصوں میں منقسم جنت المعلیٰ میں مدفون مبارک و مقدس ہستیوں کی قبور کی بس میں بیٹھے بیٹھے ہی زیارت کی اور فاتحہ پڑھی۔ بس سے ہی مسجد الرایہ دکھا دی گئی، رایہ جھنڈے کو کہتے ہیں، اس مقام پر فتح مکہ کے موقع پر آپﷺ نے اپنا جھنڈا نصب فرمایا تھا۔ مسجدِ جن سوق معلیٰ میں جنت المعلیٰ کے قریب ہی واقع ہے۔ اس مسجد میں آپﷺ کے ہاتھوں پر جنوں نے بیعت کی تھی۔ اسے مسجد بیعت اور مسجد حرس کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

۷ دسمبر۲۰۱۶ء، فارد کی سالگرہ کا دن، اسے فون پر مبارک دی۔ دعائیں تو ہر سانس کے ساتھ رہتی ہیں۔ فارد کے معنی منفرد کے ہیں واقعی یہ بچہ منفرد ہے۔ اتنی محبت اتنا خیال، اس کے حلقۂ احباب میں ننھے بچوں سے لے کر بزرگ سبھی شامل ہیں اور سب اس کا دم بھرتے ہیں۔ اللہ اسے بری نگاہ سے محفوظ رکھے آمین۔۔ بلال کا ہوٹل، سنابل سے مخالف سمت میں تھا وہ مروا کی جانب سے اور ہم باب فہد سے حرم جاتے تھے یا کبھی باب عبد العزیز سے، لیکن بابِ عبد العزیز بہت بدل چکا تھا پچھلے اسفار میں وہ ہمارے بالکل سامنے حرم کا مرکزی دروازہ محسوس ہوتا تھا، اب ایسا لگتا تھا کہ ایک تنگ سے راستے سے گزر رہے ہیں۔ تعمیراتی کام کی وجہ سے بہت رکاوٹیں، عارضی دیواریں منظر کو محدود کرتی تھیں۔ میں اور ثروت باجی اوپر برآمدے میں دیدارِ کعبہ کے شوق میں گیلری کے ساتھ جڑے، کرسیوں پر بیٹھے تسبیحات میں مصروف تھے۔ مجھے گرمی کا احساس ہوا تو میں نے انھیں کہا کہ میں پیچھے اے سی والے حصے میں جا رہی ہوں اور میں پیچھے مڑی

دو تین قطاروں کے بعد مجھے بالکل پنکھے کے نیچے جگہ مل گئی، میں نے اے سی حصے میں جانے کا ارادہ موقوف کیا اور وہیں بیٹھ کر تسبیح پڑھتی رہی۔ میں نے دیکھا کہ ایک لڑکی ثروت باجی کے برابر آ کر بیٹھ گئی ہے اور ان دونوں کے درمیان باتوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، مجھے حیرت ہوئی کہ اس مقام پر تو ہم آپس میں ضروری بات بھی بہت مختصر انداز میں کرتے ہیں، آج یہ کون سا موضوع چھڑا ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ مغرب کی نماز کے بعد جی چاہا کہ ثروت باجی کو بتا دوں کہ میں کہیں نہیں گئی آپ کے پیچھے ہی بیٹھی ہوں۔ نہ جانے میری نگاہ چوکی یا دھیان بٹا، لمحہ بھر بعد دیکھا، ثروت باجی وہاں مو جود نہ تھیں۔ میں اٹھی کہ میری تلاش میں اے سی والے حصے میں گئی ہوں گی۔

لیکن تلاشِ بسیار کے باوجود نظر نہ آئیں۔ جاوید بھائی کو فون کر کے ثروت باجی کے بارے میں استفسار کیا۔ جواب انکار میں ملا۔ انھیں بتایا

کہ میں اپنی مخصوص جگہ گیلری میں ہی بیٹھی ہوں۔ کچھ دیر بعد واپس اے سی والے حصے میں گئی کہ شاید وہ دکھائی دے جائیں۔ مایوسی کی صورت میں وہیں نماز عشا کے انتظار میں رک گئی۔ تسبیحات کے بار بار منقطع سلسلے کو جوڑنے کی کوشش کرتی رہی۔ عشا کی اذان ہوئی۔

رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا:

’’جس نے عشا کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی اس نے گویا آدھی رات قیام کیا اور جس نے صبح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی، اس نے گویا پوری رات قیام میں گزاری۔‘‘( مسلم)

نماز کے بعد باب فہد کے ایسکلیٹر سے اتری لیکن اتنی آسانی سے نہیں۔ بھیڑ بے تحاشا تھی اس کے چھٹنے کے انتظار میں پندرہ بیس منٹ کھڑی رہی۔ جیسے ہی باہر آئی سامنے جاوید بھائی موجود تھے وہ ڈانٹ پڑی کہ بس۔۔ کہنے لگے تم نے مجھے گیلری کا بتایا چار چکر وہاں کے لگائے۔ ثروت کو اوپر نیچے تلاش کرنے میں گھنٹا برباد کیا۔ اتنی دیر میں میں چار پانچ طواف نہ کر لیتا۔ تم لوگوں نے فون نہ اٹھانے کی قسم کھا رکھی ہے۔ مجھے احساس ہوا کہ میں جو فون کو زیادہ تر خرابیوں کی جڑ مانتی ہوں، آج خود وہی حرکت کر بیٹھی، کیا ضرورت تھی انھیں فون کر کے ثروت باجی کے بارے میں پوچھنے کی۔ ان کا اتنا وقت برباد ہوا۔ تھکے الگ ہوں گے۔ عظیم عبادت طواف نہ کر سکنے کا دکھ علیحدہ۔ ثروت باجی کا کافی انتظار کیا، بلال بھی شام سے دکھائی نہ دیا تھا نہ فون پر رابطہ ہو رہا تھا۔ یہی سوچا کہ ماں بیٹا ساتھ ہوں گے۔ سنابل چل کر آرام کرتے ہیں۔ راستے سے کھانا لیا، کمرے میں پہنچ کر ابھی کھانا شروع کیا تھا کہ بلال کا فون آ گیا۔

’’آپ لوگ کہاں ہیں آپ لوگوں کو تلاش کرتے کرتے ہم اتنا تھک گئے تھے اور بھوک بھی بہت لگ رہی تھی، ہم یہاں ہلٹن ہو ٹل میں بیٹھے ہیں جلدی سے آ جائیں۔‘‘

اب ہم میں سے کسی میں ہمت نہ تھی پھر میل بھر چلتے اور کھانا کھا کر پھر میل بھر واپس آتے۔ جاوید بھائی نے اسے کہا کہ آدھ گھنٹے بعد میں ثروت کو لینے بڑی سڑک پر آ جاؤں گا، تم لوگ آرام سے کھانا کھا لو۔ رات گئے ثروت باجی سے ملاقات ہوئی۔ ٹی وی چل رہا تھا اور ایک بہت افسرہ کر دینے والی خبر جس پر یقین کرنے کو جی نہ چاہتا تھا دنیا نیوز پر مسلسل نشر ہو رہی تھی۔ طیارہ کے تباہ ہونے کی خبر دل دہلا رہی تھی اور شہدا میں جنید جمشید بھی شامل تھے۔ اتنی خوبصورت شخصیت، رمضان نشریات کے حوالے سے ہر گھر کے فرد بن چکے تھے۔ ان کی باتیں ان کی نعتیں، اور پھر ان کی رب کے حضور وہ التجا، جو ہر دل کی صدا تھی۔ پیر احمد صاحب نقش بندی کی کہی ہوئی التجا ایک شکستہ و در ماندہ کی آہ و زاری، وارفتہ محبت کے جذب و شوق کا اظہار، جب جنید جمشید کی زباں سے۔۔۔ نہیں دل کی گہرائیوں سے ادا ہوا تو یہ دعا، یہ فریاد عرش تک جا پہنچی اور رب کریم نے اسے شرف قبولیت بخشا۔۔ مولا دل بدل دے

میرا غفلت میں ڈوبا دل بدل دے

ہوا و حرص والا دل بدل دے

خدایا فضل فرما دل بدل دے

بدل دے دل کی دنیا دل بدل دے

 

گنہگاری میں کب تک عمر کاٹوں

بدل دے میرا رستہ دل بدل دے

سنوں میں نام تیرا دھڑکنوں میں

مزا آ جائے مولا دل بدل دے

 

ہٹا لوں آنکھ اپنی ماسوا سے

جیوں میں تیری خاطر دل بدل دے

کروں قربان اپنی ساری خوشیاں

تو اپنا غم عطا کر دل بدل دے

 

سہل فرما مسلسل یاد اپنی

خدایا رحم فرما دل بدل دے

پڑا ہوں تیرے در پہ دل شکستہ

رہوں کیوں دل شکستہ دل بدل دے

 

ترا ہو جاؤں اتنی آرزو ہے

بس اتنی ہے تمنا دل بدل دے

میری فریاد سن لے میرے مولا

بنا لے اپنا بندہ دل بدل دے

کانوں میں گونجتی رہی۔ معلوم ہوا شام میں جس لڑکی سے اتنے انہماک سے گفتگو ہو رہی تھی اس کا موضوع طیارے کا حادثہ اور لقمۂ اجل بننے والوں خصوصاً جنید جمشید کی ناگہانی موت پر دکھ کا اظہار تھا۔ کاش میرا دل بدل دے۔۔۔ اس دعا میں ہم جیسے دل مردہ رکھنے والے میکانکی عمل سے رکوع و سجود کرنے والے بھی شامل ہو جائیں ۔۔۔۔ اللہ ہماری شکستہ عبادتوں اور دعاؤں کو قبول کر لے۔

میری رائے تھی کہ صبح جمعرات ہے، ایک عمرہ اور نہ ادا کر لیا جائے۔ جاوید اور شاہد نے طواف پر زور دیا اور میں بے دلی سے خاموش ہو گئی۔

۸ دسمبر، جمعرات، نمازِ فجر کے بعد میں اور ثروت باجی طواف میں مصروف ہو گئے۔ دس بجے شاہد سے فون پر بات ہوئی معلوم ہوا کہ جاوید بھائی اور بلال عمرے کے لیے نکل رہے ہیں۔ بہت خوشی ہوئی لیکن اس بات کا افسوس ہوا کہ نماز فجر پڑھ کر ہم ہوٹل چلے جاتے تو ان کے ساتھ عمرے کے لیے نکل سکتے تھے۔ اب انھیں روکنا مناسب نہیں کہ ہماری وجہ سے انھیں دیر ہو جائے گی۔ یہ خیال بھی آیا کہ ہم دونوں یہیں سے بس سٹاپ چلے جاتے ہیں۔ مسجد عائشہ میں جاوید بھائی اور بلال سے ملاقات ہو جائے گی لیکن ہمت نہ کی، شاید ہم صبح سے طواف کر کے تھک چکے تھے۔ بس قسمت میں نہ تھا ورنہ خواہش تو شدید تھی۔

ظہر تک صلوۃ التسبیح کی ادائیگی، تلاوت و تسبیح میں مصروف رہے، دعاؤں کی طلب بڑھتی جا ری ہے۔ وقت تیزی سے پھسلتا جا رہا ہے۔ ایک طرف سوچتی ہوں تو معلوم ہوتا ہے، اپنی زندگی کے تمام کام مکمل کر لیے ہیں۔ اب جو زندگی ہے، بونس میں جی رہے ہیں۔ کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر۔۔۔ یا۔۔۔ رہنے دے مجھے یاں کہ ابھی کام بہت ہے ۔۔۔۔۔ والا معاملہ یہاں نہیں ہے، لیکن۔۔ صرف ایک عمر کی مہلت نہیں کافی۔۔۔ کہ دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں۔ کون سی آرزو اور کیسا انتظار، دنیا کے سبھی کام جو ذمے تھے کر لیے یہ اور بات کہ سانس کی ڈوری ٹوٹنے تک انسان کسی نہ کسی بکھڑے میں، کسی نہ کسی تگ و دو میں لگا رہتا ہے لیکن جو کاما صل میں کرنے کا ہوتا ہے، وہی رہ جا تا ہے ۔۔۔۔ ہم ہر سانس کے ساتھ دعا مانگتے ہیں یا اللہ قبر کے عذاب سے بچانا، حساب کتاب کے مراحل آسانی سے طے ہو جائیں کوئی ایسی سبیل بنانا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساری ذمہ داریاں اسی پر ڈال دیتے ہیں۔ خود کیا تیاری کی، اس کی خبر نہیں۔

ظہر کی نماز کے بعد بھوک نے ستایا تو ثروت باجی کہنے لگیں۔ رات کھانے کے لیے بہت اچھی جگہ گئے، تھے ہلٹن بہت زبردست ہو ٹل ہے، بہت شاندار کھانا تھا تم لوگوں کی بہت کمی محسوس ہوئی تھی آج ہم اسی جگہ کھانے کے لیے جائیں گے۔ اور اب ہم ہلٹن ہوٹل جاتے تھے۔ چوتھی منزل تھی کہ چھٹی، فوڈ کورٹ ایریا میں بے شمار برانڈز موجود تھے۔ الطازق دجاج سے فل چکن روسٹ، سلاد اور منی سائز کے نان لے کر ہم میزکرسیوں کی طرف بڑھے، کھانا واقعی مزے دار تھا۔

مجھے حرم میں جو لمحہ طواف کے بغیر گزرا رائگاں معلوم ہوتا تھا، نماز اور پھر طواف در طواف۔ حالانکہ دید بھی ثواب کا درجہ رکھتی ہے۔ عصر کے بعد پھر طواف کیے۔ طواف کے بعد شرطوں نے نسا باہر کے نعرے لگانا شروع کر دیے، ابھی مغرب میں دیر تھی لیکن انھیں مطاف عورتوں سے تہی چاہیے تھا۔ شاہد تو وہیں رک گئے میں نے اوپر کی منزل کی راہ لی نہ جانے کون سا راستہ اپنایا تھا، جمعرات کا روز تھا، بھیڑ اس قدر تھی کہ شرطے کہیں بیٹھنے بلکہ کھڑے ہونے کی اجازت نہیں دے رہے تھے میں جس جگہ کھڑی ہوتی وہاں سے آگے دھکیل دی جاتی، خواتین سے مختص جگہوں پر تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ ایک مرتبہ تو مجھے محسوس ہوا کہ میں باہر صحن میں پہنچ چکی ہوں۔ بڑی مشکل سے دوبارہ اندر آئی۔ مغرب کی جماعت کھڑی ہونے والی تھی بمشکل تمام ایک کونے میں نماز کی جگہ ملی۔ شرطوں کا رویہ انتہائی ہتک آمیز تھا، ایک مرتبہ تومیں بول ہی پڑی کہ اگر یہاں حرم اور مسجدِ نبوی نہ ہوتی تو تم لوگوں کو اپنی اوقات پتا چل جاتی۔ دو روز پہلے یہی منظر ثروت باجی کے ساتھ ہو چکا تھا۔

۹ دسمبر جمعے کے روز نمازِ فجر کے لیے جاتے تھے ابھی حرم نہیں پہنچے تھے کہ شور اٹھا، ایک فلپائنی مرد بیماری یا کمزوری کے سبب گرا ہوا تھا، لوگ اس کے گرد اکٹھے ہو رہے تھے اس کی صحت و زندگی کی دعا کرتے ہم آگے بڑھ گئے۔ اللہ ناگہانی موت سے اپنی پناہ میں رکھے۔ بھیڑ کے سبب طواف زیادہ نہ کر سکے۔ نمازِ ظہر کے بعد بلال کی ابو ظہبی روانگی تھی۔ اس عمرے پر بلال، جاوید بھائی اور ثروت باجی کا ساتھ بہت اچھا لگا اور اب بلال کی واپسی تھی، اس نے بہت کہا کہ میرے ہوٹل چلیں بہترین پلاؤ کھلاؤں گا۔ لیکن ہم نے اسے اللہ کے سپرد کیا۔ خود برج البیت کے مطعم ابو ترکی سے دوپہر کا کھانا کھایا۔ ناشتہ بھی اکثر یہیں کیا کرتے تھے۔

عصر کے بعد میں اور شاہد بابِ فہد سے ایسکلیٹر کے ذریعے اوپر جاتے تھے، حیرت انگیز طور پر آج تیسری منزل کے ایسکلیٹر چل رہے تھے ورنہ تیسری منزل جانے کے لیے ایسکلیٹر تو دور کی بات رکاوٹیں کھڑی کر کے اوپر جانے کی ممانعت ہوتی تھی اور آج ہم نہ جانے کتنے ایسکلیٹرز چڑھ کر چھت پر پہنچ چکے تھے۔ میں بہت خوش تھی ۲۰۰۱ء، حج کے موقع کے بعد پہلی مرتبہ میں آج چھت پر تھی، کلاک ٹاور بالکل قریب دکھائی دیتا تھا۔ چھت پر بہت کم لوگ تھے۔ زیادہ حصہ بند کیا گیا تھا جس کے سبب اوپر سے خانۂ کعبہ کا دیدار ممکن نہ تھا۔ کھلی فضا، خوبصورت موسم، میں نے فرمائش کر دی کہ جاوید بھائی کو فون کر دیں وہ دونوں بھی اوپر آ جائیں۔ شاہد نے فون کرنے کی بجائے انھیں خود جا کر لانے کا ارادہ کیا۔

آج جمعہ تھا، عصر کے بعد سو مرتبہ درود شریف اور ستر مرتبہ آیت الکرسی پڑھنا تھی۔ میں نے چھت پر چہل قدمی کرتے ہوئے آغاز کیا، جلد ہی یہ تینوں آتے ہوئے دکھائی دیے۔ سبھی اوپر آ کر بہت خوش ہوئے۔ مغرب کی نماز کے بعد ایک انڈونیشی خاتون سے سلام دعا ہوئی۔ حلیمہ ایک تعمیراتی کمپنی میں کانٹریکٹر کی حیثیت سے کام کر رہی تھیں۔ عمر کی بات ہوئی میں نے اندازہ لگایا۔ ’’ستائیس سال‘‘ ہنس پڑی ’’نہیں، بیالیس سال‘‘

’’شادی کو کتنا عرصہ ہوا‘‘

’’ڈیڑھ سال‘‘

’’بچے؟‘‘

’’ہاں، دو‘‘

’’جڑواں‘‘

’’نہیں، ایک سترہ سال کی بیٹی، بیس برس کا بیٹا‘‘

معلوم ہوا کہ میاں کی پہلی بیوی کے بچے ہیں، ڈیڑھ سال میں بہت اچھی دوستی ہو چکی ہے۔ اس نے اپنی شادی کی، بیٹی اور بیٹے کی تصاویر بھی دکھائیں۔۔۔ خوش و خوشحال گھرانا لگ رہا تھا۔ اللہ اسے ہمیشہ خوش رکھے۔

عشا کی نماز کی ادائیگی کے بعد نیچے آئے۔ بس یہ ملال رہا کہ بلال کے ہوتے ہوئے چھت پر جانے کی سبیل بن جاتی تو وہ بھی بہت خوش ہوتا۔

۹ دسمبر ہفتہ، اس مرتبہ عمرے کا آغاز ہی کچھ ذہنی پراگندگی کے ساتھ ہوا تھا۔ میں لکھ چکی ہوں کہ جناب نعیم ستی نے ایر پورٹ کے لیے عین گھر سے نکلتے ہوئے مٹھائی کا ایک بڑا ڈبہ بھجوا دیا، کہ حرم پاک میں عرفان صاحب کو دے دیجیے گا، کسی بھی سوچ کی وجہ سے، ہم ان کا یہ کام نہ کر سکے، یوں سفر کا آغاز ہی ایک پشیمانی سے ہوا، اور یہ شرمندگی پورے سفر میں ساتھ ساتھ رہی۔ مدینہ جانے سے پہلے فون پر رابطے کی بہت کوشش کی، نہ ہو سکا۔ مدینہ سے آ کر بھی کئی مرتبہ فون کیا، کامیابی نہ ہوئی اور ہفتے کے روز ان سے بات ہو گئی کہنے لگے کہ یہاں ایک پاکستانی ساتھی اچانک عارضۂ قلب میں مبتلا ہوئے، دو روز سے ان کے ساتھ ہسپتال میں تھا، یہاں پردیس میں ہم ہی ایک دوسرے کے بہن بھائی، ماں باپ ہوتے ہیں۔ آپ اپنا مقام بتائیں میں وہیں پہنچتا ہوں۔ انھیں جگہ بتائی۔ پانچ منٹ میں وہ ہمارے سامنے تھے۔ ان سے بہت معذرت کی کہ ہم ان کے لیے بھیجی گئی مٹھائی نہ لا سکے اور اس عمل پر بہت شرمندہ ہیں۔ اگر نعیم ستی صاحب کچھ پہلے بتا دیتے ہم ذہنی طور پر تیار ہوتے۔ ہمیں یہی معلوم تھا کہ سعودیہ مٹھائی وغیرہ لے جانے کی ممانعت ہے، ہر حج عمرے کی کتاب میں یہی لکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کسی اسفار میں کھانے کی کوئی چیز نہیں لے کر گئے تھے۔ خیر انھوں نے ہماری معذرت تسلیم کی اور کہا، ایسی کوئی بات نہیں ہے، ہمارے دوست سولہ سولہ کلو مٹھائی بھیجتے ہیں، آرام سے پہنچ جاتی ہے۔ عرفان صاحب ایک ذمہ دار، محنتی، ہمدرد، سب کے کام آنے والے فرد کی حیثیت میں ہمارے سامنے بیٹھے تھے۔ اس پندرہ منٹ کی ملاقات میں، بخوبی اندازہ ہو گیا، اس دوران جتنے بھی پاکستانی خادمین حرمین گزرے ہر ایک نے بہت محبت کے ساتھ ان سے سلام دعا کی۔ ہر ایک نے ان کے پاکستانی مہمانوں کی خاطر مدارات کی پیش کش کی۔ انھیں مسلسل فون آ رہے تھے کہ بس نکلنے والی ہے جلد پہنچیں اور میں بھی انھیں بار بار کہہ رہی تھی کہ اب آپ جائیں۔ کہنے لگے ’’کل رات آپ کا کھانا میری طرف ہے، رات دس بجے یہیں ملیے گا، میں آپ کو کھانے کے لیے باہر لے جاؤں گا۔‘‘ ہمیں کھانے سے کوئی دلچسی نہ تھی شاہد خانۂ کعبہ کی جدید تعمیر کے بارے میں جاننا چاہتے تھے۔ میرے ذہن میں بار بار یہ خیال آیا کہ شاہد ان سے حجر اسود کو بوسہ دینے میں مدد کی بات کیوں نہیں کر رہے لیکن بات زبان پر نہ آئی شاید یہ سوچ کر کہ یہ ابھی جار ہے ہیں۔ اگر کل رات ان سے ملاقات ہو گی اور کل رات تو جاوید بھائی رخت سفر باندھ رہے ہوں گے، تو یہ ممکن نہیں ہے۔ بہر حال عرفان صاحب رخصت ہوئے، ان کے جانے کے بعد میں نے شاہد سے کہا۔ ’’آپ نے حجر اسود کی بات کیوں نہ کی۔‘‘

’’اگر میرے ذہن سے نکل گیا تھا تو تم یاد کروا دیتیں۔‘‘

بہر حال اس وقت شاہد کا خانہ کعبہ کی تعمیرِ نو دیکھنے کی طرف رجحان تھا۔ ہم، اوپری منزل سے ہی باب عبد اللہ جانے کی کوشش میں تھے لیکن رکاوٹیں آگے بڑھنے نہ دیتی تھیں۔ نچلی منزل پر آ کر کوشش کی لیکن شرطوں نے اس کی اجازت بھی نہ دی کہ آپ باہر نکلیں اور سارا صحن عبور کر کے باب عبد اللہ سے اندر داخل ہوں اور وہاں جتنی دیر چاہیں، رکیں، عبادت کریں۔ شاہد نے کہا کہ چلو اب ہم باہر نکلتے ہیں اور نئی تعمیر دیکھ کر آتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ یہ جا کر ایک ایک وائرنگ، چھت کی کڑیاں، ستون، دیواریں، روشنی اور پانی کا انتظام نہ جانے کیا کیا دیکھیں اور دکھائیں گے۔

’’میں صلوۃ التسبیح پڑھوں گی۔ آپ جا کر دیکھ آئیں۔‘‘

ڈیڑھ گھنٹے بعد آئے، خوشی سے بھرپور آواز میں بولے۔

’’تم تصور نہیں کر سکتیں، میں کیا کیا دیکھ کر آیا ہوں، تمھارے لیے تصاویر کھینچ لی ہیں، یہ دیکھو۔‘‘

انھوں نے نہایت شوق سے موبائیل میرے سامنے کر دیا۔ ’’بھئی اس وقت میں قران شریف پڑھ رہی ہوں، بعد میں دیکھ لوں گی۔‘‘ میں نے بے توجہی سے موبائیل ایک طرف کر دیا۔ تین طواف ناشتے سے پہلے کر چکے تھے۔ ایک طواف ظہر سے پہلے اور ایک ظہر کے بعد کیا۔ جاوید اور ثروت باجی کو بتا دیا تھا کہ ہم چھت پر جا رہے ہیں آپ بھی فارغ ہو کر وہیں آ جائیں۔ بھوک ستانے لگی تو خیال آیا انھیں اوپر بلانے کی بجائے ہمیں نیچے جانا چاہیے تھے، حسبِ معمول اکٹھے مطعم ابو ترکی جا کر کھانا کھا آتے۔ تھوڑی دیر ہوئی ہو گی کہ جاوید بھائی اور ثروت باجی آتے دکھائی دیے۔ بھائی کہنے لگے۔

’’بھوک لگی ہے۔‘‘

میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

’’بھئی آج کا کھانا ثروت کی طرف سے، اس کا کلام پاک ختم ہوا ہے۔ تو اس نے دعوت کی ہے۔‘‘

یہ کہتے ہوئے انھوں نے دسترخوان سجا دیا۔۔۔ اور تم اللہ کی کن کن نعمتوں کی تکذیب کرو گے۔۔۔ شرطے ہمیں کھانا کھاتے دیکھتے تھے پر ٹوکتے نہ تھے۔ چھت پر ہی مغرب و عشا کی نمازیں ادا کیں۔ شاہد اور جاوید بھائی چند قدم آگے بچھے قالینوں پر مردوں کی صف میں جا شامل ہوتے۔ ہم عورتیں بھی صفیں درست کر لیتیں۔ جو خواتین دور دور بیٹھی ہوتیں اور وہیں نماز پڑھنے کی نیت کر رہی ہوتیں۔ انھیں بھی صف میں شامل ہونے کی درخواست کی جاتی۔

رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا:

’’پہلی صف پوری کی جائے، پھر دوسری اور تیسری۔ صفیں برابر رکھنے کو آپ نے اقامت کا تقاضا قرار دیا اور فرمایا: لوگو اپنے بھائیوں کے لیے نرم رہو اور صفوں میں شیطان کے لیے جگہیں نہ چھوڑو۔ ( ابو داؤد۔ بخاری)

۱۱ دسمبر اتوار۔۔۔ آج جاوید بھائی اور ثروت باجی کا حرم پاک میں آخری روز تھا۔ ان کی رات بارہ بجے روانگی تھی۔ ہمیں پیر کے روز بعد دوپہر ایر پورٹ پہنچنا تھا۔ نمازِ فجر کے بعد طواف کے لیے مطاف میں اترنا چاہتے تھے لیکن شاہد صاحب پہلے روز ہی کہہ چکے تھے کہ عرفان صاحب کے لیے کوئی تحفہ لیا جائے گا، اب صبح سویرے ہم نے اس کام میں کافی وقت لگا دیا، بہت احساس تھا کہ ہمیں اس تیزی سے بھاگتے وقت کا ہر لمحہ حرم پاک کے سائے میں گزارنا ہے، دعاؤں کی گٹھڑی کھول کر ایک مرتبہ پھر اس سخی کے دربار میں پیش کرنی ہے۔ جو نہیں مانگ سکے، اس کا سوال کرنا ہے، جو اپنی نادانی اور بھول کے سبب طلب نہیں کر سکے اور جو ہمارے لیے بہتر ہے، اس سے بن مانگے ہی عطا کر دینے کی سفارش کرنی ہے۔ وقت کو پہیے لگے ہوئے تھے۔ آخر خدا خدا کر کے مطلوبہ مقصد حاصل ہوا، ہمارا خیال تھا کہ وہ باب فہد پر ڈیوٹی پر ہوں گے۔ کافی فون کرنے کے بعد ان سے رابطہ ہوا معلوم ہوا ’’میری تو ڈیوٹی رات کو ہے۔‘‘ انھیں کہا کہ ہم اپنی دو ایک کتابیں آپ کو دینا چاہتے تھے، انھوں نے طاہر صاحب کا نمبر دیا کہ انھیں دے دیں، کچھ وقت انھیں تلاش کرنے میں لگا۔ میں نے اپنی تین کتابیں شاہد کے حوالے کیں۔ ملاقات ہونے پر طاہر صاحب نے ناشتے کی پر زور پیش کش کی، ہم پہلے ہی بہت وقت گنو اچکے تھے عرفان صاحب کے لیے صرف کتابیں ہی پیش کیں۔ جو انھوں نے ایک ڈبے میں رکھ دیں۔ ان سے رخصت ہوئے تو میں نے پھر سوچا کہ ہم خواتین کو تو جانے دیجیے، جاوید بھائی نے ابھی تک بوسہ نہیں دیا، طاہر صاحب سے ہم کہہ سکتے تھے کہ کوئی سبیل بنائیے لیکن پتا نہیں بات ہونٹوں پر کیوں نہ آئی۔ اب ہم تیزی سے مطاف کی طرف جاتے تھے۔ ابھی استلام کے مقام تک پہنچے ہی تھے کہ ثروت باجی اور جاوید بھائی نظر آئے۔ رنگ پیلا کیسے پڑتا ہے، سانس کس طرح بے ترتیب ہوتی ہے۔ نقاہت کس طرح پورے وجود کو ڈھانپتی ہے۔ ہم جاوید بھائی کی حالت دیکھ کر ایک دم پریشان ہو گئے۔۔۔ اور ہمیں دیکھتے ہی انھوں نے پر جوش نعرہ لگایا کہ میں بوسہ دے آیا ہوں۔ بہرحال روداد سنائی۔

’’میں اور ثروت طواف کی نیت سے مطاف میں اترے، میرے دل میں کسک تھی کہ آج بھی یہ موقع نکل گیا تو پھر یا قسمت یا نصیب، نہ جانے اگلا بلاوا کب آتا ہے یا نہیں آتا، میں یہ محرومی ساتھ ہی لے جاؤں گا، میرا خیال تھا مجھے بوسہ دینے کا موقع مل جائے گا پر اپنے نصیب میں نہیں تھا، میں حجر اسود کی سیدھ میں پہنچ چکا تھا لیکن میری نگاہیں حجر اسود کو بوسہ دینے کی خواہش رکھنے والے افراد کی قطار پر تھیں۔ میں نے اچانک ثروت سے کہا۔ ’’تم مقام ابراہیم کی طرف میرا انتظار کرو، میرا خیال ہے کہ اس وقت میرا کام بن جائے گا۔‘‘ یہ کہہ کر میں سیدھا ا س قطار میں جا شامل ہوا، دھکے، بھیڑ بھاڑ، ان سب کی توقع تھی لیکن قطار چیونٹی کی رفتار کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی اور پھر میں بھی وہاں تک پہنچ گیا، لیکن یہ کیا ہوا؟ اچانک میرے پاؤں زمین سے اوپر اٹھ گئے۔ میں ہوا میں معلق تھا، دھکے چہار جانب سے پڑ رہے تھے۔ مجھے کچھ ہوش نہ تھا۔ میں حجر اسود کے قریب تھا لیکن قدرت کو شاید منظور نہ تھا میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے، میں اس گرداب سے زندہ سلامت نکلنے کی سبیل کر رہا تھا کہ کسی نے مجھے ایک دم اونچا کیا میرا سرحجر اسود کے حلقے کے اندر کیا اور میں نے انتہائی آرام سے تین بوسے ثبت کیے، اسی شخص نے مجھے باہر کیا، لیکن ابھی میں ہجوم کے سیلاب میں تھپیڑے کھا رہا تھا، شاید میں گرنے کو تھا کہ دو آدمیوں نے مجھے سہارا دیا، بہت مشکل سے وہ مجھے باہر تک لائے، ثروت میرا انتظار کر رہی تھی میری حالت ایسی نہ تھی کہ وہ مجھے اکیلے سنبھال سکتی۔ دو پاکستانی یہاں بیٹھے تھے انھوں نے مجھے بٹھایا، ہاتھ پاؤں سہلائے۔ زم زم پلایا، اب میں بہت بہتر ہوں۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے میری خواہش پوری کی۔‘‘

میں سوچتی ہوں جو عبادت یا مقصد انسان کسی دوسرے سے مدد لیے بغیر حاصل کر لے اس کی لذت ہی کچھ اور ہوتی ہے، عرفان صاحب و طاہر صاحب بھی سوچتے ہوں کہ یہ کیسے زائر ہیں جو حجرِ اسود کو بوسہ دینے کی طلب نہیں رکھتے اور آج جاوید بھائی نے اپنے زور بازو آزمائے، اپنی چاہ کو رہبر بنایا اور کامیاب لوٹے۔ میرے اور ثروت باجی کے نصیب میں نہ تھا، منہ سے بات نہ نکلی اور ہم محروم رہے کہ خواتین کے لیے اس ازدحام میں خود کو لا پھینکنا بہت مشکل ہے، پچھلے دو اسفار میں صفائی والی ٹیم کی مدد سے بہت سہولت اور عزت کے ساتھ اس خواہش کی تکمیل ہو گئی تھی۔

ثروت باجی ہمیں جاوید کے ساتھ باتیں کرتا دیکھ کر مطاف میں اتر چکیں تھیں کہ اب وقت بہت کم رہ گیا تھا۔ شاہد اور جاوید کے ساتھ پانچ یا چھ طواف کیے۔ ثروت باجی دوران طواف بلکہ بعد میں بھی دکھائی نہ دیں۔ ہم نماز ظہر کے لیے تیاری کر رہے تھے کہ وہ آن ملیں۔ تھکن کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔ نہ جانے کتنے طواف کر کے آئیں تھیں۔ وہ جو عمرے پر آنے سے ایک روز پہلے تک اتنے شدید کمر درد میں مبتلا تھیں کہ سیدھی کھڑی نہ ہو سکتی تھیں اور عمرے کا ارادہ ملتوی ہوتا دکھائی دیتا تھا۔ اب نہایت چاق چوبند سارے مناسک ادا کر رہی تھیں۔ ایک روز بھی کمر درد نہیں ہوا یا محسوس نہیں کیا گیا۔

مجھے احساس ہوا کہ شاہد موجود نہیں ہیں۔ اکثر ہم سب غیر محسوس طریقے سے الگ ہو جاتے تھا اور پھر مل بھی جاتے تھے۔ بہت زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ شاہد خوشی سے بھر پور چہرہ لیے آتے دکھائی دیے۔ کرسی کھینچی، بیٹھے۔

’’بوسہ دے کر آ رہا ہوں۔‘‘ ایک گہرے احساسِ طمانیت سے شرابور آواز سنائی دی۔ میں اس آواز کو تو فیتہ بند نہ کر سکی لیکن اس چہرے کوعکس میں تبدیل کر کے محفوظ کر لیا۔ نماز عصر کے بعد ہم ہوٹل چلے گئے۔ چائے کافی پینے کے بعد ہم واپس حرم کی طرف آتے تھے جاوید اور ثروت باجی سامان باندھنے کے خیال سے ہوٹل ہی رک گئے تھے۔ صحنِ حرم پہنچ کر شاہد نے کہا کہ ہم مغرب و عشا کے لیے اوپر چھت پر چلتے ہیں۔ میں نے کہا۔

’’دو روز ہم اوپر نماز ادا کر چکے ہیں، اب باب عبد اللہ کی طرف اگر آ ہی گئے ہیں تو آج یہ دیکھ لیتے ہیں۔‘‘

میں حیران ہوں کہ شاہد نے اتنی ضد کی کہ نہیں ہم اوپر جا رہے ہیں۔ باب عبد اللہ نہیں جا رہے اور میں اپنی ہی دھن میں آگے ہی بڑھتی گئی، شرطے موجود تھے، میرا خیال تھا کہ اگر انھوں نے روکا تو میں مڑ جاؤں گی اور شاہد کی بات مان لوں گی، لیکن انھوں نے کچھ نہ کہا، قرآنی آیات سے مزین دنیا کے بلند ترین دروازے سے قدم دھرتے ہی میں ایک نئے جہان میں تھی، اب جبکہ ہماری رخصتی میں چند گھنٹے رہ گئے تھے ہم اب یہاں آتے تھے۔ میں نے ایک وسیع و عریض ۔۔۔۔ ایک نہیں بے شمار وسیع و عریض ہالوں میں خود کو تنہا پایا۔ تمام ہالز جگمگا رہے تھے۔ اے سی اتنی شد و مد سے چل رہے کہ دانت بجنے لگے۔ تزئین و آرائش و صفائی انتہا درجے کی تھی۔ رنگ و خوشبو کے تمام استعارے موجود تھے، سبز قالین، بلند و بالا کھڑکیاں اور دروازے، منقش در و بام، رنگین شیشوں اور پچی کاری و کاشی کاری کا فن عروج پر، فانوس اور برقی قمقمے، کھلے برآمدے۔۔ اور میں ان ہالز میں تیزی سے ایک کونے سے دوسرے کونے کی طرف لپکتی جا رہی تھی کہ ایک لمحے کی غفلت نہ جانے کن مناظر سے محروم کر دے۔ میں تیزی سے گھوم رہی ہوں اور ساتھ ہی ساتھ شاہد سے گلے شکوے اور باتیں بھی کرتی جا رہی ہوں ۔۔۔۔

’’میں جس دن سے آئی تھی آپ کو کہہ رہی تھی کہ اس مرتبہ پورا حرم پاک ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک دیکھیں گے، اور اب، جب بھی عمرہ کرنے جاتے تھے میں کہتی تھی کہ باب ملک عبد اللہ ضرور دیکھیں گے اور آج بھی میں زبردستی آپ کو لائی ہوں۔ آپ تو آنا ہی نہیں چاہتے تھے ۔۔۔۔ شکر ہے کہ میں آ گئی ورنہ آپ کا تو بالکل ارادہ نہ تھا۔ آج میری ضد کی وجہ سے ہم نے ایک تحیر زا، حیرت انگیز تعمیر دیکھ لی ۔۔۔۔‘‘

شاہد کا فی دیر میری باتیں سنتے رہے پھر بولے۔

’’تم ادھر آنا ہی نہیں چاہتیں تھیں اس لیے لے کر نہیں آیا۔ پرسوں جب بہت اصرار کیا تھا کہ باب ملک عبد اللہ، نئی تعمیرات دیکھنے چلو، تم نے انتہائی بیزاری سے کہہ دیا تھا، مجھے صلوۃ التسبیح پڑھنی ہے، آپ جائیں اور جب میں نے آ کر تمھیں وہاں کی تصاویر دکھانے کی کوشش کی کہ میں بھی تمھاری طرح حیرت زدہ رہ گیا تھا اور اپنی اس حیرت اور خوشی میں کسی کو شریک کرنا چاہتا تھا تو تم نے تصاویر دیکھنے سے انکار کر دیا تھا کہ میں اس وقت قرآنِ پاک پڑھ رہی ہوں، اسلام آباد جا کر دیکھ لوں گی۔۔۔ تو اس سے یہی نتیجہ نکلتا تھا کہ تم یہ جگہ دیکھنا ہی نہیں چاہتیں تو میں تمہیں کیوں مجبور کرتا۔۔۔ ‘‘

مجھے سب باتیں یاد آ گئیں لیکن میں یہ ماننے کو تیار نہ تھی کہ میں باب عبد اللہ دیکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتی تھی۔ مغرب کی اذان نے اس بحث کو ختم کیا۔ وہ مسجد کا وہ حصہ کہ جہاں لاکھوں نمازیوں کی گنجائش تھی چار پانچ مرد اور اتنی ہی عورتوں نے نماز ادا کی۔ مجھے حرم پاک میں گذشتہ روز نماز مغرب کی ادائگی کے لیے کس قدر خوار ہونا پڑا تھا اور بمشکل تمام وہ جگہ کہ جہاں لوگ وضو کر رہے تھے، میرا خیال تھا کہ جب جماعت کا آغاز ہو گا تو دیگر منتظر خواتین کے ساتھ اس گیلی جگہ مجھے نماز پڑھنا پڑے گی، وہ تو شکر ہے کہ کراچی کی ایک ماں بیٹی نے کھسک کر میرے لیے جگہ بنائی اور میں نے نماز ادا کی۔۔۔ اور یہاں کتنے سکون سے نماز ادا کی، شکرانے کے نوافل ادا کیے اور پھر ثروت باجی اور جاوید بھائی کو فون کیا کہ گرم کپڑے پہن کر اور شاہد کے لیے شال لے کر باب عبد اللہ پہنچیں۔۔ مجھے بہت شدت سے احساس تھا کہ وہ اس قدر خوبصورت مسجد میں نماز کی ادائگی سے محروم نہ رہ جائیں۔ مجھے اور ثروت باجی کو ویسے بھی مساجد دیکھنے اور وہاں نماز ادا کرنے کا شوق ہے، پاکستان میں تو یہ سہولت نہ ہونے کے برابر ہے لیکن بیرونی ممالک میں ہر مسجد میں خواتین کے لیے انتہائی خوبصورت و پر سکون احاطے موجود ہیں۔۔۔ اور پھر وہ بھی آ گئے اب حیرت و وارفتگی کی منازل وہ طے کرتے تھے۔ مطاف میں کھلنے والے دروازے اس وقت بند تھے ورنہ ہم یہیں سے مطاف میں اتر کر ایک دو طواف کرنے کی سعادت حاصل کر لیتے۔ مجھے بہت شدت سے احساس ہو رہا تھا کہ بلال کے جانے کے بعد ہم ادھر آئے ہیں اگر وہ ساتھ ہوتا تو اس کی خوشی دیدنی ہوتی۔ میں نے اس کے لیے کئی تصاویر کھینچیں۔

یہیں آب زم زم پیا بھی اور جو تین چار بوتلیں ہمارے پاس تھیں ان میں بھرا بھی۔ عشا کی اذان ہوئی، وضو تازہ کیا اور جب ہم پہلے ہال کی جانب آئے تو بہت اچھا لگا کہ تیس چالیس مردوں اور عورتوں پر مشتمل ترکی گروہ بھی نماز کے لیے موجود تھا۔ ممکن ہے ان کا ہوٹل یہیں کہیں قریب ہی ہو اور وہ بہت آرام سے یہاں آ گئے ہوں۔ ثروت باجی اور جاوید ترکی زبان سے آگاہ ہیں۔ انھیں دہرائی کا موقع ملتا رہتا ہے، ویسے بھی ترک بہت محبت کرنے والی قوم ہے۔ نمازِ عشا کے بعد آج میرا ارادہ تھا کہ الوداعی ڈنر میری جانب سے ہو، چنانچہ ہم ہلٹن ہو ٹل کی جانب جاتے تھے۔ میرا ارادہ تھا کہ جب سے ہم یہاں آئے ہیں، بریانی کا اصل ذائقہ نہیں ملا، اور اگر وہ نہ ملی تو پرسوں جب ہم سالم مرغ کھاتے تھے اور ہماری برابر والی میز پر بیٹھا شخص بھاپ اڑاتا پاکستانی پلاؤ کھاتا تھا، تو ہم وہی منگوا لیں گے۔ شاہد نے مجھے کہا بھی کہ مہمانوں سے ان کی پسند پوچھ لو لیکن میرے ذہن میں ایک ہی بات تھی کہ آج بریانی یا پلاؤ کھائیں گے۔۔ فوڈ کورٹ میں بے شمار ہوٹل موجود تھے ہر جگہ ایک ہی مطعم سے آئی بریانی نما پھیکے سے چاول تھے، تھک کر ایک جگہ آرڈر کر دیا ساتھ چکن شیشلیک لیا کھانا کھایا لیکن یہی خیال رہا کہ اس سے بہتر تو کے ایف سی سے چکن بروسٹ لے لیتے تو زیادہ مزا آتا۔ کھانے کے بعد چائے اور کافی نے بہت لطف دیا۔

آج تین چار گھنٹوں کے بعد ثروت باجی اور جاوید کو رخصت ہو نا تھا، دوپہر سے پہلے ہماری روانگی تھی۔ یہ بیس اکیس روز لمحوں میں گزر گئے تھے۔ ان تمام دنوں کی فلم آنکھوں میں پھر رہی تھی۔۔۔ شاہد کا بلیو ایریا، الھدیٰ کے دفتر سے مجھے فون۔۔۔ جاوید بھائی کو بھی پوچھ لیں۔۔ منٹوں میں پروگرام طے پا گیا۔ ایک فون پر بلال کا بھی ارادہ بن گیا۔۔۔ اور ہم پانچوں زندگی بھر ان لمحات کو نہ بھول پائیں گے۔ مجھے یاد ہے میں اور شاہد نماز فجر کے لیے بہت تیزی سے نکل آتے تھے اور دیر سے واپس آتے تھے ثروت باجی ہم سے پہلے پہنچ کر کمرے کی حالت درست کر کے رکھتی تھیں۔۔ میں سوچتی تھی کہ میں مکہ مدینہ میں ان کی خدمت کروں گی کوئی کام نہ کرنے دوں گی ان کی دوا کا دھیان رکھوں گی، اگر موقع ملا تو ان کی کمر دباؤں گی، لیکن یہاں تو الٹا ہی حساب رہا، انھوں نے کسی خدمت کا موقع ہی نہ دیا۔ ماشا اللہ بہت چاق چوبند رہیں۔ میں جو ہر سفر پر کہتی ہوں کہ عبادت اپنی اپنی، حج و عمرہ پر دو افراد یعنی میرا اور شاہد کا گروپ بہترین ہوتا ہے، گروپ میں جتنے افراد زیادہ ہوں گے اتنے ہی مسائل بڑھیں گے تو اس مرتبہ میرے ہی خیال کے تکذیب ہو گئی۔ ہم پانچوں کا ساتھ ایک دوسرے لیے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ تھا۔ اللہ ایسے مواقع مزید فراہم کرے۔ محبتوں کے سلسلے کو دراز کرے۔

سونے کی کوشش کی لیکن ہم میں سے کوئی بھی نہ سو پایا، بارہ بجے ان کی روانگی تھی جو حسب معمول ڈیڑھ دو گھنٹے لیٹ ہوئی۔ تہجد، تسبیح اور الوداعیہ کلمات کا سلسلہ جاری تھا۔ بس کے آنے کی خبر آئی۔ انھیں اداسی اور خوشی کے رلے ملے تاثرات کے ساتھ رخصت کیا۔

ثروت باجی اس کسک کے ساتھ واپس ہوئیں کہ عشا کے بعد ایک اور طواف کر سکتے تھے لیکن کھانے کے چکر میں اسے مو خر کیا اور کھانے کے لیے ہلٹن ہوٹل پہنچے تو دوبارہ اتنا چل کر حرم پاک میں جانے کی ہمت نہ ہوئی۔ میں نے انھیں تسلی دی کہ یہ جو ہر مرتبہ کسر رہ گئی والا سلسلہ ہے یہ ہمارے اگلے سفر کی نوید دیتا ہے۔ ان شاء اللہ جلد ہی اللہ اس خواہش کی تکمیل کا سبب پیدا کر دے گا۔

خیال تھا کہ اب ہم دو گھنٹے کے لیے سو جائیں گے لیکن مجھے لمحے بھر کے لیے بھی نیند نہ آئی۔ فجر کے لیے نکلے تو طبعیت میں کسلمندی تھی۔ تھکن کا گہرا احساس تھا۔ درد کبھی سینے میں محسوس ہوتا، کبھی کندھوں میں۔ نماز کے بعد شاہد سے کہا کہ میں یہاں سیڑھیوں پر بیٹھی ہوں آپ مجھے سیون اپ لا دیں اس کے دو گھونٹ پینے سے شاید طبعیت بحال ہو۔ شاہد گئے اور نہ جانے کہاں گئے کہ میں نے صبح کی تمام تسبیحات پڑھ لیں تب واپس ہوئے، اتنی دیر میں دو تین طواف کیے جا سکتے تھے۔ مجھے حیرت ہوئی جب انھوں نے کہا کہ سیون اپ نہیں مل رہی تھی۔ بہت دور جانا پڑا۔ جتنا زیادہ اور پرسکون وقت حرم میں گزارنا چاہتے تھے، بہت دل جمعی کے ساتھ دعائیں مانگنا چاہتے تھے، استغفار کرنا چاہتے تھے۔ راہِ ہدایت کے طالب تھے۔ ہماری وجہ سے کسی کا دل نہ دکھے کی خواہش رکھتے تھے۔ اپنی، گذشتہ و آئندہ نسلوں کی مغفرت چاہتے تھے اور ان سب دعاؤں کے لیے رب کریم سے روحانی رابطے کے متلاشی تھے کہ جس کے درمیاں، دنیا داری کا کوئی احساس نہ ہو، ذہنی پراگندگی کا کوئی شائبہ نہ ہو، جسمانی تھکن کا کہیں نام نہ ہو۔ یا اللہ یا رحمن یا رحیم کا ورد اللہ سے تعلق کو مضبوط کرتا اور دنیا داری سے غافل کرتا ہے لیکن میرے پاس تو بہر حال کم وقت رہ گیا ہے۔ مجھے حطیم میں نوافل بھی ادا کرنے ہیں، طواف پھر طواف کرنے ہیں۔ کسی پرسکون گوشے میں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ سے بہت سی باتیں بھی کرنا ہیں۔ لیکن وقت تو بڑے بڑوں کی گرفت میں نہیں آیا تو میں کیا شے ہوں۔ امام رازی فرماتے ہیں:

’’میں نے سورو العصر کا مطلب ایک برف فروش سے سمجھا جو بازار میں آوازیں لگا رہا تھا، رحم کرو اس شخص پر، جس کا سرمایہ گھلا جا رہا ہے، رحم کرو اس شخص پر، جس کا سرمایہ گھلا جا رہا ہے، اس کی یہ بات سن کر میں نے کہا، یہ ہے۔۔ والعصر ان لانسان لفی خسر۔۔ کا مطلب۔۔ عمر کی جو مدت انسانوں کو دی گئی ہے، وہ برف کے گھلنے کی طرح تیزی سے گزر رہی ہے۔ اس کو اگر ضائع کیا جائے تو خسارہ ہی خسارہ ہے۔‘‘

وقت برف کی طرح پگھلتا جا رہا ہے، میں اس نادر و نایاب وقت کود نیا وی خواہشوں کے سبب کھوٹا کر رہی ہوں۔۔ حضرت عمر دعا فرمایا کرتے تھے کہ یا اللہ میرے وقت میں برکت فرما اور انھیں صحیح مصرف میں لانے کی توفیق عطا فرما۔۔۔ مجھے ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ ساتھ آئے کہ کوئی رہ جائے۔ زندگی مڑ کے دیکھتی ہے کہاں۔۔۔ ہم مطاف میں اتر رہے ہیں۔ عربی، اردو زبان میں اپنے لیے اپنے بچوں، بہن بھائیوں، عزیزوں، دوستوں، پاکستان اور امت مسلمہ کے لیے دعاؤں کا تسلسل، دوبارہ حاضری و حضوری کی دعا، سب کے لیے بلاوے کی التجا، میری خواہش رہی کہ جو کام بھی کروں بے داغ تکمیلیت سے متصف ہو لیکن مجھے معلوم ہے کہ بس کام وقت پر مکمل کر لیتی ہوں لیکن وہ سو فیصد نمبر والا نہیں ہوتا۔۔ ابا جی کہا کرتے تھے، نماز کا حکم ہے، وہ وقت کی پابندی کے ساتھ باقاعدگی سے پڑھو، یہ نہ سوچو کتنے نمبر ملیں گے۔ بس یہ سوچو حاضری تو لگ گئی ہے نا۔ اگر وہ تمھاری حاضری قبول کر لے تو بھی بیڑا پار ہے۔۔۔ تو میں حاضر تو ہوں، گھر سے نکلتے ہوئے ایک ہی دعا تھی اس حاضری میں حضوری کی کیفیت شامل ہو جائے تو دل مطمئن ہو جائے گا۔ قلب اور الا افئِدہ کا فرق معلوم ہو جائے تو منزل آسان ہو جائے گی۔

قلیلاً ما تشکرون۔۔۔ تم بہت کم شکر کرتے ہو۔۔۔ ضروریات اور خواہشات کے امنڈتے بادل احساسِ شکر گزاری کے نفی کرتے ہمہ وقت کچھ اور عطا کر کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ اس وقت تو یہی مطالبہ، خواہش اور دلی آرزو ہے کہ ایک مرتبہ پھر در کعبہ پر دستک دینے کا موقع مل جائے، دیار نبی کی خنک ہواؤں میں درودِ پاک کا نذرانہ پیش کرنے کی سعادت حاصل ہو جائے۔ طوافِ وداع بہت خشوع و خضوع اور دلجمعی کے ساتھ کرنا چاہتی تھی لیکن طبعیت کچھ بحال معلوم نہیں ہو رہی تھی۔ تھکن نہیں تھی دکھن تھی کبھی کندھے میں کبھی سینے میں درد کا احساس جاگتا۔ میں جو ان بے معنی اور بے نام تکلیفوں کو خاطر میں لانا نہیں چاہتی تھی، نہ جانے کیا ہوا مطاف سے باہر آ گئی۔ خیال کیا کہ دوبارہ وضو کر کے تازہ دم ہو کر آتے ہیں لیکن واش روم تک پہنچتے پہنچتے ارادہ بدل گیا۔ میں نے شاہد سے کہا کہ ہوٹل کے نوٹس بورڈ پر لکھا ہوا تھا کہ آج جدہ جانے والے مسافر دس بجے تک ہوٹل پہنچ جائیں تو دس تو بج چکے ہیں اب ہم بجائے واپس مطاف جانے کے ہوٹل ہی چلتے ہیں۔ شاہد کہنے لگے کہ آتے ہوئے عتیق سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس نے کہا تھا آپ بے شک دیر سے آئیں، مجھے جب بلانا ہو گا میں فون کر لوں گا۔ مجھے یاد تھا کہ حطیم میں نوافل ادا کرنے ہیں۔ ابھی ایک دو یا تین طواف اور کرنے ہیں، لیکن مجھے نہیں معلوم کیا ہوا، میری طبعیت کیوں اتنی نڈھال ہو رہی تھی کہ سانس لینا بھی مشکل لگ رہا تھا۔ میں نے ہوٹل جا نے کو ترجیح دی۔ وہاں پہنچ کر یہ احساس البتہ بہت ہوا کہ طبعیت میری سست ہو رہی تھی شاہد کی تو نہیں، انھیں حرم میں چھوڑ کر خود آ جاتی۔ یہ آرام سے طواف کرتے۔ نمازِ فجر کے بعد اتنا وقت تھا کہ ہم ایک عمرہ بھی کر سکتے تھے۔۔۔ لیکن آج کے تجربے نے بتا دیا کہ ہر کام کے لیے اللہ کی توفیق لازمی ہے۔ اگر اس کا اذن شامل نہ ہو تو کچھ نہیں ہو سکتا، عبادت کی توفیق بھی اس کی عطا ہے۔ بندے کا ارادہ، خواہش اور طلب سب بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ ہر سفرِ مقدس کے بعد، بس اک آنچ کی کسر رہ گئی، یہ کسک ہمراہ ہوتی ہے اور اگلے سفر کے لیے تیاری اس کمی اس کجی کو دور کرنے کے لیے اگلے روز سے ہی شروع کر دی جاتی ہے ۔۔۔۔ اسی گھڑی سے بلاوے کے منتظر ہیں، آج صبح یا کل شام ۔۔۔۔ رختِ سفر بندھا ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے