چھوئی موئی ۔۔۔ آنڈال پریہ درشنی/ اعجاز عبید

’’انو، دادی کو ہاتھ مت لگانا‘‘

بچی کی پیٹھ پر پڑی دھول پدماوتی کے تن میں گہرائی سے اتر گئی۔ ’’کمبخت کتنی بار کہا ہے، دادی کے قریب مت جاؤ، انہیں مت چھوؤ، ان کے اوپر مت لیٹو، کھوپڑی میں کچھ جائے تب نا! ضد ۔۔۔۔ ضد، تین سال کی ہے مگر ضد تو دیکھو۔‘‘

غصے کا حملہ بچی کے سر پر ایک گھونسے کے روپ میں پڑ کر ہی تھما۔ درد سے چھٹپٹاتی انو چیختی ہوئی رونے لگی۔ پدماوتی گھبرا گئی۔ اس کا ماننا تھا کہ بچوں کو بے طرح پیٹنا، گھونسہ مارنا وغیرہ حیوانی کام ہیں۔ وہ کہتی ’’بچے پھول کے سمان ہوتے ہیں۔ خوشبو بکھیرتے ہیں۔ دل کو خوش کرنے والے ہوتے ہیں۔ بزرگوں سے زیادہ پاکباز اور پاک روح والے۔ بچوں کو دیکھ کر ہی کم سے کم بزرگ سدھر جائیں، اسی لئے ان چھوٹے دیوتاؤں کو ایشور نے دھرتی پر بھیجا ہے۔ کون سمجھتا ہے اسے ۔۔۔ ہین ۔۔۔۔‘‘

یہ دیکھو ریوتی کا بھڑکتا غصہ انو کی کیسی درگت بنا رہا ہے۔ پدماوتی کے دل میں دکھ کا طوفان امڈنے لگا۔

’’میری خاطر بچاری کمزور جان مار کھا رہی ہے۔ غلطی تو میری ہے نا! ہے بھگوان!‘‘ ہونٹوں کو بھینچ کر منہ بند کر کے رونا روکتے ہوئے اس نے ایشور سے دعا کی۔ انو زور زور سے رونے میں ہچکیاں لیتی رہی۔

’’ہش ۔۔۔ آواز نہیں آنی چاہیئے، آنکھ میں ایک بوند آنسو نہ آئے، لے اسے کھا لے، نیچے مت گرانا، نو کرائنگ۔‘‘ ریوتی بڑبڑائی اور کٹوری میں دہی چاول اور چمچ انو کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ بھرائے گلے اور آنکھوں میں رلائی کو اپنے اندر ہی روکتے ہوئے، انو کٹوری ہاتھ میں لے کر خود ہی ڈائننگ ٹیبل کے پاس جا کر کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی اور چمچ سے چاول لے بڑی مشکل سے کھانے لگی۔

بے بس لاچار آنسو بہاتی پدماوتی کے من میں بچی کو گود میں بٹھا کر چڑیا کی کہانی سناتے ہوئے اس کے کومل منہ میں چاول ڈالنے کی خواہش پیدا ہو اٹھی۔

مگر اس کا تن من تڑپ اٹھا۔

چھو نہیں سکتی۔

چھوئے گی تو قیامت آ جائے گی۔

جوالا مکھی پھٹ پڑے گا۔

گھر میدانِ جنگ میں بدل جائے گا۔

کیا کروں؟ کیا کروں؟ پدماوتی کر ہی کیا سکتی تھی؟ انو نے کھانا ختم کر لیا۔ سنک میں کٹوری ڈال، ہاتھ منہ دھو لیا۔ ’’گو ٹو بیڈ انو، سلیپ۔‘‘ ریوتی کا حکم سنائی پڑا۔

انو بیٹھک میں ایک کونے میں لڑھک گئی اور بیٹھک کے آخری سرے پر بنے چھوٹے کمرے میں بیٹھی دادی کو ترستی نگاہوں سے دیکھتی رہی۔

انو کے لیے تو دادی ہی سب کچھ تھی۔

صبح آنکھیں کھلتے ہی ۔۔۔

’’دادی، انو جاگ گئی ہے۔۔‘‘ صبح کی اجلی مسکان کے ساتھ کہتی۔

’’دانت صاف کر دو دادی۔۔ منہ دھلا دو دادی۔۔‘‘

’’کھانا کھلا دو دادی ۔۔۔‘‘

’’گود میں بٹھا لو دادی۔‘‘

اس طرح دادی کی پرچھائیں بن کر انو ان سے چپکی رہتی تھی۔ سوتے وقت تو دادی کا ساتھ اسے ضرور ہی چاہیئے تھا۔

دادی کی نرم گود میں لیٹی ہوئی۔۔ ۔ ان کی انگلی تھامے۔۔ ۔ ایک اور کروٹ لے کر ’’گانا سناؤ دادی ۔۔۔۔‘‘ کہہ کر گانا سنتے ہوئے پل بھر میں سو جاتی۔ ایسا سب کچھ پہلے ہوتا تھا۔ اب نہیں ہوتا۔ اب تو، پدماوتی کو اس چھوٹے کمرے سے باہر آنے کی اجازت نہیں تھی اور انو کو اندر جانے کی ممانعت تھی۔

اس کمرے کے باہر بھی دروازہ تھا۔ باہر نکلنا ہو تو وہیں سے جانا پڑتا۔ کمرے میں ہی باتھ روم، کھانے کی پلیٹ، کافی کے لیے گلاس، پانی کا نل، دری، تکیہ، چادر، چھوٹا ریڈیو اور پورٹیبل ٹی۔ وی۔ لگا دیا تھا۔

اس کمرے کا کواڑ باہر سِٹ آؤٹ میں کھلتا تھا۔ اپنے کپڑے خود دھو کر سکھانے پڑتے تھے۔ سٹول پر بیٹھے سڑک کی چہل پہل دیکھ سکتی تھی۔ جو چاہے کرنے کی آزادی تھی۔ لیکن کمرے سے باہر نکل کر اِس طرف آنے پر روک تھی۔ صبح سے لے کر رات سونے تک یہ آٹھ فٹ لمبا کمرا ہی سب کچھ تھا۔

صرف گھر ہی نہیں، پوری زندگی ہی جیل بن گئی تھی۔ مِہری بھی کمرا جھاڑنے پونچھنے نہیں آتی تھی۔ باہر کے کسی آدمی کو دیکھے بنا مہینوں گزر جاتے۔ انسانی لمس کے لیے ترستے ہوئے کئی دن بیت جاتے، اب تو لمس کا احساس ہی مٹ سا گیا تھا۔

چھپ۔۔ ۔ چھپ۔۔ ۔ چھپ۔۔ ۔ انو کے انگوٹھا چوسنے کی آواز کانوں میں پڑی۔ پدماوتی کا من بھر آیا۔ من ہوا کہ جا کر اس ناریل کے پودے کو گود میں سلا کر اس کے کٹے چھوٹے بال سہلا دوں۔ روئیں سمان ملائم ایڑیوں کو گود میں رکھ دھیرے دھیرے سہلا دوں، اس کومل بیل کو بھینچ کر سونے کا من چاہا لیکن ۔۔۔ مگر یہ کیسے ممکن ہوتا؟ اسے لگا کہ دکھ سے چھاتی پھٹ جائے گی اور پدماوتی تکلیف سے چھٹپٹانے لگی۔

’’میری پوتی ہے انو۔۔ ۔ میں اسے چھونا چاہتی ہوں‘‘۔ پر اس کی چھٹپٹاہٹ ریوتی کے کانوں میں نہیں پڑی۔ اسپیکر فون پر امریکہ کی لائین ۔۔۔

’’ہوں ۔۔۔ میں بول رہی ہوں، ۔۔۔۔‘‘

’’انو ٹھیک تو ہے نا؟ ماں ۔۔۔‘‘

’ماں کی قابل رحم حالت کے بارے میں تو میں نے لکھا تھا۔‘‘

’’ہوں ۔۔۔ پڑھا تھا ۔۔۔ یقین ہی نہیں آتا۔۔ بد قسمتی۔۔‘‘

’’بد قسمتی یا مکر ۔۔۔ میں اسے اب برداشت نہیں کر سکتی۔‘‘

’’پلیز ڈارلنگ، چار مہینے میں میں آ جاؤں گا، اور مسئلے کا حل ڈھونڈ دوں گا‘‘

’’ہوں‘‘

’’ماں ہے کیا؟ فون انہیں دو نا؟‘‘

’’چپ رہیے، کہنے کو کچھ نہیں ہے، بند کیجئے فون ۔۔۔‘‘ ریوتی غصے سے پھنکارتی ہوئی بچی کو گود میں لیے بیڈ روم میں گئی اور زور سے کواڑ بند کر دیا۔

دوبارہ باہر آئی۔

’’ویسے ہی میری کوئی سہیلی گھر نہیں آنا چاہتی۔  ’’ہوم‘‘ میں جا کر رہنے کو کہتی ہوں، تو مانتی نہیں ہیں، کیا آپ بھی چاہتی ہیں کہ ہم لوگ بھی یہ تکلیف بھگتیں؟‘‘

’’کیوں؟ یہ بدلا لینے کی عادت کیوں؟ میں دوسرا گھر ڈھونڈ لیتی ہوں، آپ اس گھر میں خوشی سے رہیے، کل میں ہی چلی جاتی ہوں، یہی ایک راستا ہے۔‘‘ دیواروں اور ہواؤں کو سناتے ہوئے ریوتی بڑبڑانے لگی۔

اس کی چڑھ بھی حال میں ہی بڑھی تھی۔ پہلے تو دونوں بڑے پیار سے رہتی تھیں۔ ’’ساس بہو جیسے تھوڑی رہتی ہیں؟ اپنی بیٹی سے بھی شاید کوئی اتنا پیار کرتا ہو گا۔‘‘ لوگ ان دونوں کے بارے میں ایسا کہتے تھے۔ پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی۔ پہلے دونوں ساتھ ساتھ گھر سجاتی تھیں۔ نئے نئے پکوان بناتی تھیں۔ ریوتی کی کاینیٹک ہونڈا پر بیٹھ پارک، مندر، نمائشیں، سمندر کے کنارے وغیرہ سبھی جگہوں کی سیر کرنے جاتیں۔

’’کلب کی میٹنگ چھ بجے ختم ہو گی۔ وہیں رہئے گا میں پک اپ کر لوں گی۔‘‘ ریوتی اپنی ساس سے کہتی اور ٹھیک چھ بجے پہنچ بھی جاتی تھی۔

’’ہوٹل چل کر کشمیری نان کھائیں ساسو ماں؟‘‘

’’ہاں، کیوں نہیں؟‘‘

’’ماں میں آئس کریم لوں گی۔‘‘ تینوں انا نگر کے چترا روف گارڈن جاتے۔ بجائے جلدی جلدی کھانا کھانے کے پون گھنٹہ بیٹھ آرام سے کھاتے پیتے۔ گھر لوٹنے پر پیر پھیلا کر سستاتے، ٹی وی دیکھتے، سنگیت سنتے، کیرم کھیلتے، خوب مزہ لینے کے بعد بارہ بجے کے قریب سونے جاتے۔

یہ باتیں پچھلے جنم کی لگتی ہیں پدماوتی کو اب۔

چھ مہینے پہلے شروع ہوئی تھی بربادی کی یہ کہانی۔ ناری نکیتن کی منیجر نے بڑے پر جوش لہجے میں کہا تھا ’’ہمارا یہ ادارہ بہت مشہور ہو گیا ہے، آپ لوگ جانتی ہیں نا؟‘‘

’’ہاں، ہاں ۔۔۔ اخبار میں فوٹو دیکھی تھی اور اس کے بارے میں پڑھا بھی تھا۔ جن جن لوگوں نے جوش میں کام شروع کیا سب کسی نہ کسی بہانے پیچھے ہٹ گئیں۔ لیکن پدماوتی بولی ’’کوئی بات نہیں، میرا بیٹا باہر جا رہا ہے، میرے پاس وقت بہت ہے، میں کروں گی، ان لوگوں کی مدد خدا کی سیوا کرنا ہو گا۔‘‘

اس نے سچے جذبے سے ان لوگوں کی خدمت کی تھی۔ ان کے بدن پونچھنا، کپڑے بدلوانا، کہانی سنانا، ان  کا ڈر دور بھگانا، پھول کاڑھنا ؤغیرہ سکھاتے ہوئے جب ان کی مدد کرنے لگی، تبھی مسئلہ شروع ہوا۔

آشرم سے گھر لوٹنے پر بہو کہتی، ’’جائیے، جا کر صابن سے اچھی طرح نہا کر آئیے، قریب آنے پر ابکائی آتی ہے‘‘

’’کیوں بیٹی ریوتی۔۔ ۔ مدر ٹیریسا نے کیا کیا نہیں کیا۔۔ ۔ ان کی مدد کرنے والوں کو خدا پھول سمجھ کر حفاظت کرتا ہے۔ فکر مت کرو۔‘‘

وہ یہ کہہ کر ہنس دیتی۔ پر سب بیکار۔۔ ۔ سب تصوراتی ہو گیا۔ سچ تو کچھ اور ہی ہو گیا۔ بھروسہ ٹوٹ پھوٹ گیا۔

یہ آٹھ فیٹ لمبا کمرا اس کا سب کچھ بن کر رہ گیا۔ اب جب تک اس کی آخری کریا نہیں ہوتی تب تک یہیں رہنا ہے۔ اس طرح کےخیالوں کے سبب اس کا دکھ اور تکلیف دہ ہو گیا اور اس دکھ کے ساگر میں ڈوبتے تیرتے وہ سو گئی۔ تھالی میں رکھا چاول پڑا پڑا سوکھ کر سخت ہو گیا۔

سٹ آوٹ میں بیٹھے بیٹھے باہر کا نظارا کر رہی تھی پدماوتی۔ صبح کی دھوپ، سڑک پر تیزی سے بھاگتی گاڑیاں ۔۔۔ بنا رکے تیز رفتار سے بھاگتے لوگ۔۔ ۔ تیزی سے بھاگتی بھیڑ۔ ان میں کسی کو یہ بیماری لگی ہو گی؟ میری طرح ان کا دل بھی شکستہ ہوا ہو گا؟ کیا اکیلے پن کے سونے ساگر میں یہ بھی میری طرح ڈوبے تیرے ہوں گے؟ پدماوتی نے سوچا۔

بغل کے فلیٹ میں رہنے والا بھی تو کوئی نہیں آتا۔ اس کی طرف دیکھتے مسکراتے بھی تو نہیں وہ لوگ۔ کیا مسکرانے سے بھی کوئی بیماری پھیلتی ہے؟ پدماوتی کو لگا جیسے سارا سنسار سونا – اجاڑ ہو گیا ہے۔ اکیلا پن۔۔ ۔ اکیلے پن کی آگ، جی کو بھی جلا کر بھسم کر رہی ہے، اپنا کوئی نہیں ہے۔ چاروں طرف لوگوں کی بھیڑ ہے مگر اپنا  کوئی بھی نہیں ہے۔۔ ۔ اکیلا پن ہی ساتھی ہے۔ سویرا ہوتے ہی ریوتی بھی انو کو لے کر چلی جاتی ہے۔

ریوتی نے انو کو کریچ میں بھرتی کر دیا ہے۔

’’آپ کو اس کی دیکھ بھال کرنے کی ضرورت نہیں ہے، میں خود ہی چھوڑ بھی آؤں گی اور لے بھی آؤں گی۔‘‘

ایک دن بے لگام زباں سے اس نے یہ الفاظ منہ سے نکال دئے تھے۔

’’میری بیٹی کے لیے آپ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہیں۔۔ ۔ اسے ہاتھ نہیں لگائیں بس وہی کافی ہے۔ آپ کی شکرگزارر ہوں گی۔‘‘

جیسے اس کے زخموں پر کانٹے سے چبھنے لگے ریوتی کے یہ الفاظ۔

"بچی ہے۔۔ ۔ وہ تو نا سمجھ ہیں پر بزرگوں کی عقل بھی کیا ماری گئی ہے؟‘‘

’’بچی کی آپ کو ذرا بھی پرواہ ہوتی تو کیا آپ اسے چھو کر باتیں کرتیں؟‘‘

جہنم کی آگ میں انہیں بھون رہی تھی بہو۔ کیا کروں؟ سوچنے لگی پدماوتی۔۔ ۔ ’’اگر میں گھر سے باہر نکل کر نہ جاؤں تو خود گھر چھوڑ دینے کی دھمکی دے رہی ہے بہو۔ شاید مجھے ہی چلے جانا چاہیئے؟ ریوتی تو کم سے کم خوش ہو جائے گی۔ چار مہینے میں میرا بیٹا آ جائے گا۔ کیا تب تک کیا یہ صورت حال ٹالی نہیں جا سکتی۔‘‘

اتنے کم وقت میں کہنی، گھٹنے، یہاں وہاں۔۔ ۔ ہر جگہ نسیں پھولنے لگی تھی اور گانٹھ پڑنے لگی تھی۔ انگلیوں کے پور سن ہونے لگے تھے۔ کان کا باہری حصہ پھول کر ہاتھی کے کان جیسا ہو گیا تھا۔ پدماوتی کا رنگ تو ویسے ہی گورا تھا پر اس وقت اس پر ایک مخصوص چمک آ گئی تھی۔ ’سکن بایوپسی‘ ٹیسٹ کی رپورٹ آج آنے والی تھی۔ شام تین بجے سکن سپیشلسٹ ڈاکٹر نٹراجن جی سے ملنا ہو گا۔ بیکار بیٹھے بیٹھے جب گھبراہٹ ہونے لگی تو پدماوتی ڈاکٹر کے پاس چل پڑی۔

اوپر سے ایک سفید ماروتی کار جس کا سٹیریو اونچی آواز میں بج رہا تھا، کبوتر کی مانند پھسلتی ہوئی آ کر رک گئی۔ اس تنگ  گلی میں گاڑیوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ ’’ارے! یہ تو مالتی کی گاڑی ہے‘‘

’’ہوں ۔۔ ۔ بالکل اسی کی ہے۔ گاڑی سے مالتی کے ساتھ ہی مہلا سنگھ کی ساری خواتین بھی اتریں۔ شاید عورتوں کے کسی جلسے کی دعوت دینے آئی ہوں؟ ان سے ملے عرصہ گزر گیا؟‘‘

’’مالتی ۔۔۔‘‘ جوش بھری آواز سے پدماوتی نے پکارا۔

’’مالتی ۔۔۔‘‘

مالتی نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا۔

’’گھر آؤ نا، بات کریں گے۔‘‘

’’ہوں ۔۔۔۔‘‘ آواز میں نفرت کی جھلک تھی۔

’’مامی، ٹھیک تو ہو؟” کورس کے روپ میں آواز ابھری۔ کئی معنوں کی نمائندہ آواز۔۔ ۔ دروازہ کھول کر انتظار کرنا بیکار گیا۔ مکھی مچھر بھی نہیں پھٹکا۔ یہ لوگ پہلے جھنڈ میں آتے تھے۔

پدماوتی کی انگلیاں پہلے بہت پتلی تھی۔ پھول کے سمان کومل اور نرم، ہاتھ روئی کی طرح تھے، اب تو انگلیاں مڑنے لگی تھی، صرف انگلیاں ہی نہیں بلکہ اس کی زندگی بھی۔ پدماوتی سب سے پیار سے ملتی، اپنے پن سے باتیں کرتی اور خوش مزاجی سے پیش آتی۔ میں ماں ہوں، دھرتی کے سبھی لوگ میرے بچے ہیں۔ اس کا سلوک سب کے ساتھ اسی طرح کا ہوتا تھا۔

اری کنّمّا۔۔ ۔ یہ میری بیٹی ہے؟ یہاں آ بیٹی۔۔ ۔ اس کے گال سہلاتی اور نظر اتارتی۔ بچوں کی مدد کرتے وقت انہیں قطار میں بٹھا کر پیار سے سہلا کر ہاتھ تھامے پڑھاتی۔

’’یہ بچی بہت دبلی ہے، ساگ کھلاؤ۔‘‘

’’یہ لڑکی جلدی ہی بڑی ہو جائے گی۔‘‘

کتنے لوگوں کا مرض انہوں نے اپنے لمس سے دور کیا ہو گا۔

’’ارے ساسو ماں، آپ سب کو چھوتی ہیں، اچھوت ہو جائیں گی۔‘‘ ریوتی انہیں چھیڑتی۔

آدمی آدمی کے بیچ کیسا چھوت! ہم جیسے ہی تو ہیں وہ لوگ بھی ۔۔۔ وہی خون، گوشت، ہڈیاں، سانس یا کھانا، ہنستے ہوئے وہ جواب دیتی۔

اب وہ سبھی باتیں مضحکہ خیز ہو گئی ہیں۔ سڑک پر چلو تو دوسرے لوگ کچھ ہٹ کر ہی چلتے ہیں۔ بس میں بیٹھو تو کوئی قریب نہیں بیٹھتا، اب زندگی واقعی میں بنا لوگوں کے ہی ہو گئی ہے۔

’’جدا رہنا ہی زندگی بن جائے گی کیا؟‘‘

’’اپنے سے جدائی‘‘

’’دوستوں سے جدائی۔‘‘

’’شہر سے جدائی۔‘‘

چست زندگی اب پرائی سی لگتی ہے؟ کیا اسے ہی زندگی سے اکھڑنا کہتے ہیں؟ کیا یہی دوزخ ہے؟ اچانک ہی آج تک من کو چھو سکنے والا اکیلے پن کا درد دل کو کھرونچنے لگا – –

زندگی سے کوئی لگاؤ، کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی تھی۔ لگتا تھا جیسے بے جان ہو گئی ہو۔

کوئی نہیں تھا! بیٹھ کر باتیں کرنے والا، مل کر ہنسنے والا، حال چال پوچھنے والا، کوئی نہیں۔۔ ۔ بھی نہیں۔

انو کو چھونے کا دل چاہ رہا تھا۔ گود میں لٹا کر پیار کرنے کا دل چاہ رہا تھا۔ پورے گھر میں گھومنے کا دال چاہ رہا تھا۔ سارے کمروں کو چھان مارنے کی خواہش ہو رہی تھی۔ خوب مزے مزے کے کھانے بنانے کا دل چاہ رہا تھا۔ گھومنے پھرنے کا دل کر رہا تھا۔ آزادی چاہیئے، حسب خواہش جینے کی آزادی۔۔ ۔ ہوں ۔۔ ۔ مگر یہ تو نا ممکن ہے۔

سیڑھیاں اتر کر نیچے آئی۔ باہر کونے میں کھڑی رہی۔ ساڑھے چار بج رہے تھے، انو کے آنے کا وقت ہو گیا تھا۔ آنکھوں میں بھر کر لے جانا چاہتی تھی۔ انو بڑی ہو کر شہرت حاصل کر لے گی، تو کیا یہ لوگ اسے مطلع کریں گے؟ دادی کو پوتی کے لیے کچھ دینے کی اجازت دیں گے؟ پھول کی طرح ہنستی کھلکھلاتی پوتی کو دیکھنے دیں گے؟ اس کا ماتھا چومنے دیں گے؟ نظر اتارنے دیں گے؟

’’دادی ۔۔۔‘‘

کائنیٹک ہونڈا گھر کے سامنے رکا۔

’’کیوں دادی، دھوپ میں کیوں کھڑی ہو؟‘‘

چھوٹی بچی کے نا سمجھ ذہن میں اس کے لیے کتنی فکر ۔۔۔ ’’پیاری منی، تجھے دیکھنے کے لیے ہی تو کھڑی ہوں‘‘ کہتی ہوئی پاس جا کر نظر اتارنے کی خواہش ہوئی۔

’’مت چھوئیے اسے‘‘ طوفانی رفتار سے ریوتی نے انو کو اپنی طرف کھینچ لیا۔

’’چلو انو ۔۔۔‘‘ شیرنی کی طرح ریوتی گرجی۔

’’میں ہوم میں جا رہی ہوں‘‘

’’سچ، سچ میں!‘‘ ریوتی نے مطمئن نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

’’اف۔۔ ۔ بلا ٹلی۔۔ ۔ اب جا کر چین ملے گا۔‘‘

’’انو! دادی کو ٹاٹا کرو۔‘‘

’’دادی کہیں باہر جا رہی ہو کیا؟‘‘

’’ہاں بیٹی۔‘‘

’’کب لوٹو گی؟‘‘

’’اب دادی نہیں آئے گی۔‘‘ ریوتی کی آواز میں خوشی ہلوریں لے رہی تھی۔ سنتے ہی انو رونے لگی۔

’’ہوں ،۔۔ ۔ دادی چلئے مجھے۔۔ ۔ نہیں۔۔ ۔ دادی کے پاس جاؤں گی۔‘‘

ہاتھ چھڑا کر جب انو بھاگنے کو ہوئی تو اس نے اسے کس کر پکڑ لیا۔ ’’جلدی سے جاتی کیوں نہیں؟ تماشہ کرنا ہے کیا؟ بچی کو رلانا ہے کیا؟ مرنے تک آپ کی یہ حرکتیں چین نہیں لینے دیں گی!‘‘

اب اور تھوڑی بھی دیر رہنا ان کے لیے مشکل ہو گیا۔

’’ہے بھگوان! میری آواز سن رہے ہو۔۔ ۔‘‘

کمرے سے باہر نکل کر بلی کی طرح پنجوں پر چلنے پر بھی ریوتی کو شک ہو جاتا تھا۔

’’کیا آپ صوفے پر بیٹھی تھی۔ بدبو آ رہی ہیں۔‘‘

’’رسوئی گھر میں گئی تھیں۔۔ بو آ رہی ہے۔‘‘

عجیب و غریب زنجیریں۔۔ ۔ کبھی نہ ٹوٹ سکنے والی زنجیریں! ’’ہے بھگوان! اب سہا نہیں جاتا ۔۔۔ مجھے جلد ہی بلا لو۔‘‘ بھگوان کی مورتی کے سامنے یہ التجا کرتی، اکیلے پن کی دوزخ کی اذیت تالی بجا کر مذاق اڑاتی۔ بھوت پریت کی زندگی بھی اس سے بہتر ہو گی۔

سڑک اس کی ہنسی اڑانے لگی۔ گھر لوٹنے میں چار بج گئے۔ ‘سکن بایوپسی’ ٹیسٹ پوزٹیو تھا۔ پدماوتی بے جان جسم لیے گھسٹتی ہوئی گھر آئی۔ ایسی سزا کیوں؟ بیٹا، بہو، پوتی، سماج سیوا، جیسے چھوٹے سے دائرے میں بے فکر جی رہی مجھے، رشتوں کی سمادھی کیوں ملی؟ اب میں اس گھر میں نہیں رہ سکتی۔ گھر چھوڑنے کا وقت آ گیا ہے۔ خاندان سے الگ ہونا ہی پڑے گا۔

’’کسی کو مت چھوئیے گا۔۔ ۔ ہوم میں جانا ہی بہتر ہو گا۔ اس چٹھی کو رکھ لیجیے۔ آج ہی بھرتی ہو جائیے۔‘‘ ڈاکٹر نے بھی کہہ دیا۔

اب چلنا؟ چلنا ہی ہو گا۔ انسانی خوشبو۔۔ ۔ رشتوں کی خوش بو۔۔ ۔ پوتی کی خوشبو سے دور۔۔ ۔ یہ بھی تو ایک محفوظ قبر ہی ہے؟ جن نکلنے کے بعد زمین کے نیچے کب۔۔ ۔

د؛ل خیالوں کے ساگر میں غوطے لگانے لگا۔ برے برے خیال آنے لگے۔

دو ساڑیاں اور دو بلاؤز تھیلے میں ٹھونس لئے۔۔ انو کی فوٹو مل جاتی تو دل مطمئن ہو جاتا۔ فوٹو تو چھونے سے نا پاک نہیں ہو گا نا۔۔ ۔ بچی کی فراک مل جاتی تو اچھا رہتا۔

موت کے وقت پوتی کی خوشبو مل جاتی تو اس کے ساتھ مطمئن ہو کر موت کو گلے لگا لیتی۔

جانے سے پہلے کاش ایک بار انو کو دیکھ پاتی! چھو پاتی؟ چوم سکتی، جنم با معنی ہو جاتا۔

’’میں چلتی ہوں، بچی کا خیال رکھنا۔‘‘ پدماوتی بنا پیچھے مڑے تیزی سے آگے بڑھ گئی۔

’’دادی۔۔ ۔ دا۔۔ ۔، دا۔۔ ۔ میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی۔ مجھے بھی لے چلو دادی۔‘‘ انو کی چیخ بڑھتی گئی۔

’’چھی، نادان، چپ رہ۔۔ ۔ دادی کے پاس جائے گی؟‘‘’

’’ہوں ،۔۔ ۔!‘‘

’’تم چپ رہو، مجھے چھوڑو، تم گندی ہو۔۔ ۔ مجھے دادی ہی چاہیئے۔‘‘

ماں کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ زبردستی کھینچ کر چھڑا لیا انو نے۔ اور دوڑتی ہوئی سڑک پر پہنچ گئی۔ ’’دادی میں بھی آ رہی ہوں‘‘

ریوتی چلائی ’’انو! رک جا، گاڑی آ رہی ہے‘‘

ہاتھ میں پکڑے تھیلے کو جھٹک کر سکوٹر کو سٹینڈ پر کھڑا کر جب تک ریوتی سڑک پر پہنچتی تب تک انو سڑک پر دوڑنے لگی تھی۔ اس طرف سے تیز رفتار سے کار آ رہی تھی۔۔ ۔

’’دادی ۔۔۔۔‘‘

قریب آتے انو کے بلکنے کو سن کر پدماوتی مڑی۔ انو طوفانی رفتار سے آتی کار کو بنا دیکھے دوڑتی چلی آ رہی تھی۔ صورت حال کی نزاکت کو  سمجھ کر، جھپٹ کر بچی کو گیند کی طرح اٹھا کر اس نے اچھال دیا، کار پدماوتی کو روندتی ہوئی تیز رفتار سے گزر گئی۔

’’انو ۔۔۔۔‘‘ آس پاس کی ہوا میں پدماوتی کی دھیمی آواز گھل گئی۔

’’دادی۔‘‘ لنگڑاتے ہوئے انو وہاں پہنچی۔ خون سے لت پت دادی سے لپٹ کر بولی ’’میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی دادی، مجھے بھی لے چلو، دادی!‘‘ دادی کا چہرہ اپنی طرف موڑ کر سبکنے لگی۔

کتنی تڑپ تھی دادی کے دل میں اس پوتی کو چھونے کی۔ اس لمس کی گرماہٹ محسوس کر کے  ایک مطمئن مسکان ہونٹوں پر بکھر گئی تھی۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے