(سندھی)
ریک سے کتاب نکالتے، دیکھتے اور واپس رکھتے ہوئے کنول نے محسوس کیا کہ کسی کی آنکھیں، اس کو لگاتار گھور رہی ہیں۔ اس نے ایک دو بار آڑھی ترچھی نظروں سے اس شخص کی طرف دیکھا اور کترا گئی۔ لیکن شخص تھا جو پتھر بنا کھڑا تھا۔ کنول کتاب دیکھ رہی تھی اور وہ کنول کو دیکھ رہا تھا۔ کنول کو سخت کوفت محسوس ہوئی۔ اس نے طیش میں آ کر براہ راست اس شخص کے چہرے کو گھور کر دیکھا۔ اس کی نظروں کو جیسے دھچکا لگا۔
’’جانی!‘‘ نام اس کے ہونٹوں پر آ گیا۔ اس کی آنکھوں میں کوفت کی جگہ استعجاب بھر گیا۔ کچھ لمحوں کے لئے نظریں جم گئیں۔
’’ہیلو۔‘‘ پتھر بن گئے جسم میں ہلچل پیدا ہوئی۔ کنول نے سوچا، وہ فوراً وہاں سے چلی جائے۔ جس ہاتھ میں کتاب پکڑے ہوئے تھی، اس ہاتھ میں تھوڑا ڈر محسوس کیا۔ اس نے چہرہ گھما کر کتاب ریک میں رکھی۔ اسے اپنی بے رخی ٹھیک نہیں لگی۔
’’یہاں پر کب سے کھڑے ہو؟‘‘ اس نے رسمی انداز سے پوچھا۔
’’جب سے تم دوکان میں آئی ہو۔‘‘ جانی کی آواز گھٹی ہوئی تھی۔
’’لیکن مجھے تو دس پندرہ منٹ ہو گئے ہیں۔ اتنی دیر میں تم نے بات بھی نہیں کی! اگر میں تمہیں نہ دیکھتی اور چلی جاتی تو بھی تم بات نہیں کرتے؟‘‘
’’میں اتنی دیر تک سوچتا رہا کہ تمہاری توجہ اپنی جانب کیسے مرکوز کراؤں۔‘‘ اس نے ہنسنے کی کوشش کی۔ دوکان پر کھڑے لوگوں کی ترچھی نظریں اور دھیان ان کی جانب تھا۔ دونوں دوکان سے باہر آ گئے۔
’’اگر تمہیں جلدی نہ ہو تو کہیں پر ایک گھنٹے کے لئے بیٹھیں؟‘‘ جانی نے فٹ پاتھ پر آ کر پوچھا۔ کنول نے انکار کرنا چاہا۔ جانی جوش بھری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ انکار نہیں کر پائی۔
’’صاف ہے، ایک گھنٹے کے لئے تو بیٹھنا ہی ہے۔‘‘ کنول نے مسکراتے کہا اور سوچا، ’’یہ ایک گھنٹہ ہی تو ہمارے نصیب میں ہے۔‘‘
جانی نے کار کا دروازہ کھولا اور کنول کو بیٹھنے کے لئے کہا۔ اس نے کار اسٹارٹ کی اور روڈ پراسے لایا۔
’’کیسے ہو؟‘‘
’’تمہیں کیسا لگ رہا ہوں؟‘‘
’’پہلے سے زیادہ سلم اور اسمارٹ۔‘‘
’’ہوں۔‘‘ مسکراہٹ زخم کی طرح اس کے ہونٹوں پر پھیل گئی۔
’’دو سالوں میں تم بالکل نہیں بدلی ہو۔ میں تو بوڑھا ہو گیا ہوں۔ دیکھو، بالوں میں سفیدی آ گئی ہے۔‘‘
وہ ہنسنے لگا، پھیکی ہنسی۔
کنول نے اس کے سر کو دیکھا۔ اسے کالے بالوں میں کچھ سفید بال نظر آئے۔ اس نے پھر سے جانی کے چہرے میں دیکھا۔ وہی چہرہ تھا۔ معصوم، اپنا پن محسوس کرانے والا اور دوسرے کو خود کی طرف متوجہ کرانے والا۔ آنکھیں کھنڈر تھیں، بے بسی اور بزدلی کے نشان۔ کنول کے دل میں نفرت پیدا ہوئی۔ ایک پل کے لئے اسے جانی سے نفرت کا احساس ہوا۔
’’بزدل۔‘‘ لفظ لگ بھگ اس کے ہونٹوں پر آ گئے تھے۔ اس نے نچلے ہونٹ میں دانت دبا دیئے۔
’’کیا سوچ رہی ہو؟‘‘
کنول ہڑبڑائی اور لوٹ آئی۔
’’تمہاری بوڑھی بننے کی سوچ رہی تھی۔‘‘
جانی نے قہقہہ لگایا۔
’’کچھ لوگ بوڑھے ہو جانے کے بعد بھی دماغی طور پر جوان ہوتے ہیں اور ہم جیسے ٹوٹے لوگ جوان ہوتے ہوئے بھی دماغی طور پر خود کو بوڑھا محسوس کرتے ہیں۔‘‘
کنول نے کوئی جواب نہیں دیا۔ دونوں خاموش تھے۔ کار شہر کے ہنگاموں سے نکل کر باہر بڑے چوڑے راستے پر آ گئی تھی۔ جانی نے ایک کول کارنر کے پاس گاڑی سائیڈ کر کے کھڑی کی۔ اس نے ہارن بجا کر لڑکے کو بلایا اور اسے اسنیکس اور کوک لانے کے لئے کہا۔
’’دو سال کوئی اتنا بڑا وقت نہیں، لیکن اس وقت میں بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔ اس لئے حال چال دینا لازمی ہے، کیوں؟‘‘ جانی نے کہا۔
’’حال چال کچھ خاص تو نہیں۔ میں ایم اے کرنے کے بعد گھر جا کر بیٹھ گئی۔ لیکن بعد میں بور ہو گئی۔ بوریت کے سبب گھر والوں سے روز کھٹ پٹ ہوتی تھی۔ اس حد تک کہ گھر کے لوگ مجھ سے تنگ آ گئے اور میں گھر کے لوگوں سے۔‘‘ وہ ہنسنے لگی۔ ’’آخر نوکری آ کر کی۔ اب یونیورسٹی میں لیکچرار ہوں۔‘‘
’’رہتی کدھر ہو؟‘‘
’’وہیں کیمپس میں گھر ملا ہے۔‘‘
’’اکیلی؟‘‘
’’ہاں، کیوں؟ آدمی اکیلا نہیں رہ سکتا کیا؟ میرے ساتھ ایک عورت رہتی ہے، اس کا کوئی گھر نہیں ہے۔ گھر کا کام کاج کرتی ہے اور میرے ساتھ ہی رہتی ہے۔‘‘
’’تم نے شادی نہیں کی ہے؟‘‘ جانی نے ہچکچا کر پوچھا۔ کنول اس کا منہ تکنے لگی۔ پھر اس کے ہونٹوں پر پھیکی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے منہ پھیر لیا۔
جانی کو اپنی بیوقوفی کا احساس ہوا۔
لڑکا ا سنیکس اور کوک لے کر آیا تھا۔ کچھ دیر تک چپ رہنے کے بعد کنول نے کہا، ’’تم بتاؤ؟ تمہارے کیا حال ہیں؟‘‘
’’میں تو اب زیادہ تر گاؤں میں رہتا ہوں۔ بابا کے گزر جانے کے بعد زمینیں سنبھالنے کا پورا کام مجھے ہی کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے باہر نکلنے کے لئے زیادہ وقت نہیں ملتا۔ کام کرنے میں ہی پورا وقت نکل جاتا ہے۔‘‘
’’بچے کتنے ہیں؟‘‘
’’ابھی تو ایک بچہ ہوا ہے، لڑکا ہے۔‘‘ اس نے باہر راستے پر دیکھتے ہوئے کہا۔
’’خوش ہو؟‘‘ کنول کا سوال غیر متوقع تھا۔ جانی نے اس کی جانب دیکھا۔
’’اگر میں ’’نہیں‘‘ کہوں گا تو یہ بات تمہیں جھوٹ لگے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اوروں کی مرضی کے آگے گردن جھکا کر شادی کرنے کے بعد میں نے یہ سوچنا چھوڑ دیا ہے کہ میں خوش ہوں یا نہیں! تمہیں پتہ ہے میری کوئی مرضی نہیں۔ میرا اپنا کوئی حق نہیں۔‘‘ اس نے جیسے خود کو طعنہ مارا۔ ’’مجھے اوروں کی مرضی کے مطابق جینا ہے۔ میں خوش ہوں یا نہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘ اس کی آواز بھاری ہو گئی تھی۔
دو سال پہلے یونیورسٹی میں جب جانی کے والد کا خط آیا تھا، تب اس نے کنول کو ایسے ہی دکھی اور بھاری لہجے میں کہا تھا، ’’بابا نے خط میں لکھا ہے کہ شادی پکی ہو گئی ہے۔ میرے چاچا کی بس ایک ہی لڑکی ہے اور کوئی اولاد نہیں۔ زمین بہت ہے۔ بابا میری شادی اس لئے کروانا چاہتا ہے تاکہ چاچا کی جائیداد ہمارے پاس رہے، باہر نہ جائے۔ اور مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ انکار کر پاؤں۔ بابا اور چاچا کی مرضی کے آگے جھکنے کے علاوہ میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں۔‘‘
’’تم بزدل ہو۔‘‘ کنول نے اس کی بے بسی پر دکھ اور غصے سے بھرتے ہوئے کہا تھا۔
’’ہاں، تم سچ کہہ رہی ہو۔ میں بزدل ہوں۔ میں مانتا ہوں کہ میں بزدل ہوں۔‘‘ اور پھر وہ گردن جھکا کر لڑکھڑاتے قدموں سے چلا گیا تھا۔
کنول کو اب بھی وہی دکھ اور وہی غصہ محسوس ہوا۔ اس نے کہنا چاہا، ’’تم بزدلی کے عادی ہو گئے ہو۔ تم کبھی خوش نہ رہ پاؤ گے۔‘‘ لیکن جانی کی آنکھیں دیکھ کر اسے اس کے اوپرترس آ گیا۔ کچھ لوگوں کے نصیب میں صرف دکھ جھیلنا ہی کیوں ہوتا ہے؟ اور کیا یہ ضروری تھا کہ جانی میری زندگی میں آتا، یا میں جانی کی زندگی میں آتی۔ ہماری زندگی میں کیا کوئی نارمل بیلنسڈ آدمی نہیں آ سکتا تھا اور اگر آتا تو شاید ہم ایسے نہ ہوتے، جیسے آج ہیں۔ یہ آدمی کے ذاتی حالات ہیں، جو اسے باہری زندگی میں بنا یا بگاڑ دیتے ہیں۔‘‘
’’میں تمہارے گھر آ سکتا ہوں؟‘‘ جانی کو خاموشی اچھی نہ لگی۔
’’کیا مجھے رسمی دعوت دینی پڑے گی؟‘‘
جانی ہنسنے لگا۔
’’جب چاہے تم آ سکتے ہو۔‘‘
پھر سے سناٹا چھا گیا۔ دونوں کے پاس بولنے کے لئے کچھ تھا ہی نہیں۔
’’اب چلنا چاہئے۔‘‘ کنول نے گھٹن محسوس کرتے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ جانی نے کار اسٹارٹ کی۔ ’’مجھے گھر کا پتہ دو تو تمہیں ڈراپ کرتا جاؤں۔‘‘
کنول نے اسے ایڈریس بتایا اور سوچا، ’’کتنی عجیب بات ہے۔ ہم نے ساتھ رہنا، ساتھ جینا چاہا تھا لیکن اب ہمیں یہ بھی پتہ نہیں کہ ہم رہتے کہاں ہیں اور کیسے جیتے ہیں؟‘‘
کار جب کنول کے گھر کے آگے آ کر کھڑی ہوئی تو اس نے جانی کو اندر چلنے کی دعوت دی۔
’’نہیں، آج نہیں، تمہارے پاس کل آؤں گا شام کو۔‘‘
اور اس نے ہاتھ ہلا کر کنول سے رخصت لی۔
صبح نیند سے جاگتے ہی کنول کے دماغ میں شام کا انتظار شروع ہو گیا۔ یونیورسٹی میں کلاس لیتے، اسٹاف روم میں اوروں سے باتیں کرتے ہوئے، اس پر شام کا انتظار حاوی تھا۔ اسے اپنی اس بے چینی اور انتظار والی کیفیت سے شرمندگی ہونے لگی۔ اسے اپنے اوپر طیش آیا۔ لیکن پھر بھی وہ اپنے اس کیفیت سے جان نہ چھڑا سکی۔ اسے خیال آیا، اکیلی اداس شاموں کا خاتمہ تو ہونا ہی نہیں ہے، اس ایک شام کو جانی آ بھی گیا تو کیا ہو گیا۔ اس کے بعد بھی تو یہی شامیں ہوں گی اور اکیلا پن ہو گا۔
شام کو جانی نے آتے ہی اس سے پوچھا، ’’تم ایسے اکیلی کیسے رہ لیتی ہو! تمہیں گھٹن نہیں ہوتی؟‘‘
’’نہیں تو، میں اکیلی کہاں ہوں، یونیورسٹی سے لوٹ کر آ کر سو جاتی ہوں۔ رات کو ٹی۔ دیکھتی ہوں یا کتاب پڑھتی ہوں۔ کبھی کبھی شام کو کوئی سہیلی آ جاتی ہے۔ اور گھر میں ماسی تو ہے ہی، مسئلہ ہے وقت کاٹنے کا، وہ تو گزر ہی جاتا ہے۔‘‘
’’ہاں، مسئلہ ہے وقت کاٹنے کا، جو ایسے نہیں کٹتا، جیسا ہم چاہتے ہیں۔ لیکن خیر، ہمارے نہ چاہتے ہوئے اور ہماری مرضی کے خلاف بھی کٹ ہی جاتا ہے۔‘‘ جانی نے کمرے کے چاروں اطراف دیکھتے کہا۔ ’’لیکن اکیلے پن میں جو وحشت ہے، وہ آخر شخص کو تھکا دیتی ہے۔ سچ بتاؤ، تم اپنی زندگی سے خوش ہو؟‘‘
کنول نے قہقہہ لگایا۔ جانی کو لگا کہ اس نے اس کے سوال کو قہقہے میں اڑا دیا ہے۔
’’لوگوں کو میرا اس طرح سے رہنا عجیب لگتا ہے۔ اس معاشرے میں اگر کوئی بھی عورت آزاد رہے تو لوگوں کی بحث کا موضوع بن جاتی ہے۔ لیکن مجھے پرواہ نہیں۔ میں اپنی مرضی کے مطابق جینا چاہتی ہوں۔ اور اگر کوئی شخص اپنی مرضی کے مطابق جی رہا ہے تو اسے خوش ہونا چاہئے۔ میں خوش نظر نہیں آتی کیا؟‘‘
جانی چپ چاپ اسے تک رہا تھا۔
’’مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہو؟‘‘ کنول نے مسکراتے ہوئے کہا۔ جانی نے کوئی جواب نہیں دیا، فقط دیکھتا رہا۔
’’پلیز، مجھے ایسے مت دیکھو۔‘‘ جانی کی نظریں کنول کے دل میں ہلچل پیدا کر رہی تھیں۔ اس نے آنکھیں نیچے کر کے جانی کی نظروں سے خود کو چھڑانا چاہا۔
جانی اپنی جگہ سے اٹھ کر کنول کے پاس آ کر بیٹھا۔ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے اس نے کہا، ’’کنول، ہم دونوں خوش نہیں ہیں اور دونوں یہ بات چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
کنول نے اپنی گردن جانی کے کندھے پر رکھ دی۔ ’’کاش! وقت تھم جائے۔ ہم دونوں گھی شکر بن جائیں۔ کتنا سکون اور آرام ہے جانی کے کندھے کے سہارے میں۔ سہارے کے بنا زندگی کاٹنا کتنا مشکل ہے، لیکن یہ سہارا عارضی ہے۔ آج ہے، اس پل ہے۔ کل نہ ہو گا۔‘‘
’’کنول۔‘‘ جانی بڑبڑایا۔
’’جانی۔‘‘
جانی نے کنول کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر اس کی آنکھوں میں دیکھا۔
’’تم مجھے ایسے کیوں دیکھتے ہو؟‘‘ کنول کے لب تھرتھرانے لگے تھے۔ جانی نے اس کے تھرتھراتے لبوں میں اپنے ہونٹ پیوست کر دئیے۔ کنول کو لگا کہ اس کا وجود معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ بدن میں کوئی لہر اٹھنے لگی تھی اور اس کی سانس کھنچ کر ہونٹوں میں آ پھنسی تھی۔
کنول اسٹاف روم میں اکیلی بیٹھی تھی۔ باقی سبھی باہر کاریڈور میں دھوپ میں بیٹھے تھے۔ کل شام والی بوریت ابھی تک اس پر چھائی ہوئی تھی، جانی کافی وقت کے بعد آیا تھا اور آتے ہی کہا تھا، ’’ضروری کام سے آیا تھا، آج ہی واپس گاؤں جانا ہے۔ سوچا کچھ دیر تک تمہیں دیکھتا چلوں۔‘‘
’’اس کچھ دیر کے لئے آنے کی ضرورت کیا تھی؟‘‘
’’ویسے تمہیں دیکھنے کے لئے بہت دن ہو گئے تھے۔‘‘ جانی مسکرایا، کنول چڑ گئی۔ اس نے جانی کی طرف دیکھا اور ہونٹ کو زور سے کاٹ کر چہرہ پھیر لیا۔
’’ایک تو تمہیں غصہ بہت آتا ہے اور جب آتا ہے تو اسے دبا دیتی ہو۔ لڑتیں، گالیاں دیتیں، اپنے لمبے ناخنوں سے میرا منہ نوچتیں، لیکن اپنے ہونٹ کو ایسے بیہودگی سے کاٹ کر لہولہان مت کرتیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ میری مرضی۔ میں اپنے غصے کو خود پر اتارنا چاہتی ہوں، ہونٹ میرا ہے۔ باقی سب خیر ہے۔‘‘ کنول نے غصے کو روک کر صبر سے جواب دیا۔
’’ہونٹ تو تمہارے ہیں، لیکن تکلیف مجھے ہو رہی ہے۔‘‘
کنول نے دیکھا کہ جانی کی آنکھوں میں شرارت تھی۔
’’کیوں؟ تمہیں تکلیف کیوں ہونی چاہئے؟‘‘
’’کٹے ہوئے ہونٹ کو چومنے میں کیا تکلیف نہ ہو گی؟‘‘
جانی نے قہقہہ لگایا۔ وہ مسکرا بھی نہ پائی۔ لیکن نہیں، اس کے دانت دکھے تھے، تا کہ جانی یہ نہ سمجھے کہ اس نے اس کے مذاق کو انجوائے نہیں کیا ہے۔ اس کے بعد وہ جلدی چلا گیا۔
سب کچھ نئے سرے سے شروع ہو چکا تھا۔ جانی اب مہینے میں ایک دو بار اس کے پاس آتا تھا۔ کنول نے سوچا کہ یہ سب شروع کیوں ہوا۔ اور اس کا خاتمہ کیسے ہو گا۔ ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں سے الگ ہوئے تھے۔ ہمیں بہت کچھ بدل جانا چاہئے تھا، اس وقت ہمیں ویسا نہیں ہونا چاہئے جو ہم دو سال پہلے تھے۔ ویسے بہت کچھ بدل گیا ہے۔ حالات۔ وقت۔ پھر بھی ہم دونوں ایک دوسرے کے لئے وہی ہیں۔ اسی طرح سوچتے ہیں، یہ کون سی سزا ہے؟ وہ اذیت جو دو سال پہلے ہماری زندگی میں گھس آئی تھی وہ ہمیشہ رہے گی؟ یہ کیا ہے؟ کیا ہے؟ اس نے چاہا کہ چیخے، ’’یہ سراسر جذباتی پن ہے، پاگل پن ہے۔‘‘ تبھی اس نے پاگلوں کی مانند قہقہے لگانے چاہے۔ لیکن کوئی ٹیس تھی جو گلے میں آ کر اٹکی تھی۔ اسے خود سے نفرت کا احساس ہوا۔
’’کنول۔‘‘ کسی نے اندر آ کر اسے بلایا۔
کنول نے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی۔ سلمیٰ اسے تعجب سے دیکھ رہی تھی۔
’’کیا بات ہے؟ طبیعت ٹھیک نہیں ہے کیا؟‘‘
’’ایسے ہی بیٹھے بیٹھے سانس گھٹنے لگی تھی۔‘‘
’’یہ تو خطرناک ہے۔ ڈاکٹر کو دکھاؤ۔ اس سے ہارٹ اٹیک بھی ہو سکتا ہے۔‘‘
’’ہاں، آج شام کو ڈاکٹر کے پاس جاؤں گی۔‘‘ کنول نے بات پوری کرنی چاہی۔
’’ایک بات پوچھوں۔‘‘ سلمیٰ نے اس کے پاس بیٹھ کر اپنائیت سے کہا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘
’’جانی کیا اب تمہارے پاس روز آتا ہے؟‘‘
’’کہیں تو کافی پبلسٹی ہو گئی ہے۔‘‘ کنول مسکرانے لگی۔
’’لوگوں کا تو تجھے پتہ ہے اور وہ بھی یہاں کے! ہمیشہ اس موقعے میں رہتے ہیں کہ انہیں کسی کی کوئی بات ہاتھ آ جائے۔‘‘
’’مجھے پتہ ہے کہ لوگ میرے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ ان کی نظروں میں، میں بدنام ہوں۔ جانتی ہوں۔ لیکن یہ سبھی باتیں تو بیچاروں کے لئے بڑی تفریح کی ہیں، نہیں تو اس دشت میں اور رکھا ہی کیا ہے؟‘‘
’’لیکن کنول، آخر یہ چکر کیا ہے؟‘‘
’’کونسا چکر؟‘‘
’’یہی، جانی کا تمہارے پاس آنا۔ ایک دوست کی حیثیت سے میری تم سے گذارش کہ تم شادی کر لو۔ بیکار بدنامی سے کیا فائدہ؟ میں تو کسی سے تمہاری چغلی سنتی ہوں تو اس سے لڑ پڑتی ہوں۔‘‘
’’تم آخر کتنا لڑو گی میرے لئے۔‘‘ کنول ہنسنے لگی۔ ’’لوگوں کو بولنے دو۔‘‘
’’اب تمہیں کون سمجھائے۔ اچھا اٹھو تو باہر چل کر دھوپ میں بیٹھیں۔ کمرہ تو دیکھو کتنا ٹھنڈا ہے۔‘‘ سلمی اسے باہر لے آئی۔
سردیوں کا موسم پورے عروج پر تھا۔ تیز ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ آسمان میں بادل چھائے ہوئے تھے اور کبھی کبھی بوندیں برس رہی تھیں۔ ٹھنڈ مزید بڑھ گئی تھی۔ باہر تیز ٹھنڈی ہوائیں تیر کی طرح چبھنے لگی تھیں اور اندر کمرے میں ہیٹر کی گرمی کے مارے گھٹن تھی۔ کنول سخت ڈپریسڈ تھی۔ اسے کوئی بات نہیں سوجھ رہی تھی کہ اس ڈپریشن سے کیسے جان چھڑائے۔ نہ ہی کتابوں کی کہانیوں میں مزہ تھا اور نہ ہی ٹی وی پر کوئی اچھا پروگرام ہی تھا۔ دروازے پر دستک ہوئی تو وہ ہڑبڑا گئی۔ اب رات کو آٹھ بجے کون آیا ہو گا؟
ماسی نے جا کر دروازہ کھولا اورتیں قدم اس کے کمرے کی جانب آئے۔
’’جانی!‘‘ وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور اس کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ ’’میں سخت ڈپریشن محسوس کر رہی تھی۔ یہ تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ایسے اچانک آ جاؤ گے۔‘‘
’’ابھی بھی ڈپریشن ہے؟‘‘ جانی نے مسکرا کر پوچھا۔
’’نہیں! اب تو ڈپریشن کا نام بھی نہیں ہے۔‘‘ کنول نے قہقہہ لگایا۔ ’’باہر تو کافی سردی ہے۔ اوہ۔ تمہارے ہاتھ کتنے ٹھنڈے ہیں، برف کی مانند!‘‘ کنول نے جانی کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے۔ سردی کی وجہ سے جانی کے ہونٹ نیلے پڑ گئے تھے اور ناک برف جیسی ٹھنڈی تھی۔ کنول نے اسے کھینچ کر ہیٹر کے پاس کیا اور اپنا منہ اس کے ہونٹوں اور ناک پر رگڑنے لگی۔
’’اتنی سردی میں نکلنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘
’’بس، اچانک خیال آیا اور چلا آیا۔ ابھی سیدھا گاؤں سے ہی آ رہا ہوں۔
” "Poor Soul کنول نے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر پھراتے ہوئے کہا، میں تمہارے لئے گرم گرم کافی بنا کر لاتی ہوں۔‘‘
’’کافی تمہارے ہونٹوں سے زیادہ گرم نہ ہو گی۔ بیٹھو، ایک ضروری بات کہنی ہے۔‘‘
کنول نے اس کی سنجیدگی کو بڑے تعجب سے دیکھا اور بیٹھ گئی۔
’’میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ جانی جلدی جلدی میں کہہ گیا۔ کنول کو وہ سخت بیوقوف لگا۔
’’یہ بات کہنے کے لئے تم اتنی سردی میں گاؤں سے آئے ہو۔‘‘ وہ ہنسنے لگی۔
’’پلیز، کنول! میں سنجیدہ ہوں۔‘‘
’’لیکن میں نہیں چاہتی۔‘‘ کنول نے ہنسی روک کر سنجیدگی سے کہا۔
’’کیوں؟‘‘ جانی کو جیسے اس جواب کی امید نہیں تھی۔
’’بس، میں نہیں چاہتی، میری مرضی۔‘‘ اس نے منہ بنا کر کہا۔
’’کنول، بات کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ ہمارا اس طرح سے ملنا ٹھیک نہیں۔ لوگ باتیں کرنے لگے ہیں۔‘‘
’’لوگ۔ لوگ۔‘‘ اس نے تنگ ہو کر کہا۔ ’’لوگوں کا کام ہے باتیں کرنا۔ تم اگر لوگوں سے ڈر کر مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہو تو مجھے نفرت ہے اس سے۔‘‘
’’میرا یہ مطلب نہیں تھا۔‘‘ جانی پریشان ہو گیا۔ ’’کنول، تمہیں پتہ ہے کہ میں اپنی ذاتی زندگی میں کتنا دکھی ہوں۔ ایک دلدل ہے جس میں پھنستا جا رہا ہوں۔ فقط تم ہی مجھے بچا سکتی ہو۔ مجھے تمہارے پیار کی چھاؤں چاہئے۔ لیکن یہ حالات کب تک رہیں گے؟ تمہارے لئے بھی یہ ٹھیک نہیں۔ ہمارے معاشرہ میں یہ عزت دار طریقہ نہیں، کیونکہ ہمارے معاشرے میں ایسی عورتوں کو ’’رکھیل‘‘ کہا جاتا ہے۔ تم میرے لئے رکھیل نہیں ہو اور میں تمہارے لئے کوئی بھی ایسی بات برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ میں بھی رکھیل بن کر رہنا نہیں چاہتی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی نہیں چاہتی کہ مجھے تمہاری دوسری عورت کا نام دیا جائے، جو عام زبان میں سوتن ہوتی ہے۔ اگر لوگوں کی بات کرتے ہو تو وہ یہ بھی کہیں گے کہ میں نے تم سے شادی اس لئے کی ہے، کیونکہ تمہارے پاس پیسہ ہے، زمینیں ہیں، کار اور بنگلہ ہے۔ نہیں، میں اوروں کی نظر میں اپنا یہ کردار کبھی بھی پسند نہیں کروں گی۔‘‘
’’ویسے تو تم کہتی رہتی ہو کہ تمہیں لوگوں کی پرواہ نہیں، پھر اس بات میں پرواہ کیوں کرتی ہو؟‘‘
’’میں نے کبھی بھی پرواہ نہیں کی ہے۔ اگر پرواہ کرتی تو ایسے اکیلی نہیں رہتی اور تم سے نہ ملتی۔ لیکن میں یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ مجھے لالچی سمجھا جائے یا ایسا کہا جائے کہ میں نے تمہیں دولت کی وجہ سے پھنسایا ہے۔ تمہاری بیوی اور تمہارے رشتے دار بھی تو ایسے ہی سمجھیں گے۔‘‘
’’اوہ کنول۔‘‘ جانی سر کو رگڑنے لگا۔
’’جانی تم میری پوزیشن کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ میں خود کو ذہنی طور پر گرا نہیں سکتی۔‘‘ کنول نے اس کے گلے میں بانہیں ڈالتے کہا۔
جانی کچھ دیر تک چپ کر کے بیٹھا رہا۔ پھر کہا، ’’نہیں کنول، مجھے یہ حالات اچھے نہیں لگ رہے۔ تم پھر سے سوچو۔ میں کل اس وقت تمہارے پاس آؤں گا۔‘‘ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور جانے لگا۔ کنول نے اسے روکنا چاہا، لیکن روک خود کو لیا، کچھ کہنے سے۔ وہ چپ چاپ باہر کے دروازے تک اس کے ساتھ آئی۔ جانی دروازہ کھول کر پیچھے مڑا اور کنول کو دیکھتا رہا۔ کنول نے چاہا کہ وہ اس سے کہے، ’’تمہیں پتہ ہے کہ میں تمہیں کیوں کہتی ہوں کہ تم مجھے ایسے مت دیکھا کرو؟ مجھے لگتا ہے جیسے کہ تم مجھے آخری بار دیکھ رہے ہو۔‘‘ اور تب تک جانی دروازہ بند کر کے جا چکا تھا۔
شام سے نہ کٹتا وقت کھینچ کھینچ کر گزر گیا۔ رات سرکتی زیادہ سرد ہوتی گئی۔ دس بج گئے۔ ڈپریشن کی بہت بڑی لہر اٹھی اور کنول کے اوپر چھا گئی۔ اس کے سر میں شدید درد ہونے لگا۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور پھر کمرے میں چلنے لگی۔ اچانک اسے خیال آیا کہ جانی نہیں آئے گا۔ اب کبھی نہیں آئے گا۔ کنول ڈر گئی۔ اسے اپنی سوچ پر یقین نہ ہوا۔ وہ یہ بات ماننے کو تیار نہ تھی۔ تبھی اس کے دل میں زوردار خواہش اٹھی، سگریٹ پینے کی اور اپنے اندر وسیع اور کبھی نہ بھرنے والی کھائی کو دھوئیں سے بھرنے کی۔ اس نے الماری کھولی۔ جانی کے سگریٹوں کے چار پانچ پیکٹ پڑے تھے۔ کنول ایک پیکٹ اور ماچس لے کر کرسی پر آ بیٹھی۔ اس نے پیکٹ کھول کر سگریٹ نکالا اور اس کا دل بھر آیا۔ ہونٹ کو زور سے کاٹ کر خود کو رونے سے روکا۔ ایک قطرہ اس کے دل کی مانند بھٹک کر ہاتھ پر آ گرا۔ کنول نے ہاتھ اوپر اٹھا کر زبان سے اس قطرے کو پونچھ دیا۔ (ذائقہ کڑوا نمکین تھا، اس کی زندگی کی طرح! ) اس نے سگریٹ جلا کر ایک لمبا کش کھینچا۔ دھواں اس کے پھیپھڑوں میں بھر گیا اور وہ کھانسنے لگی۔ دو سال پہلے جب جانی نے شادی کی تھی، کنول نے پہلی بار سگریٹ پیا تھا۔ تب بھی اسے کھانسی ہوئی تھی۔ کتنے لمبے وقت کے بعد اس کی پھر سے سگریٹ پینے کی خواہش ہوئی تھی۔ کنول کو خیال آیا کہ وہ جلدی جلدی کش لے رہی تھی اور اس کا ہاتھ کانپ رہا تھا۔ پتے سب گر گئے تھے اور وہ اپنے آنگن میں سوکھے پتوں کی کھڑکھڑ کی آواز صاف سن رہی تھی۔ سردی کی ہوا کمرے کے کھلے دروازے سے اندر گھس رہی تھی۔ کنول نے اٹھ کر دروازہ بند کرنا چاہا لیکن اس نے سوچا کہ اگر جانی نے باہر کے دروازے کی کنڈی کھٹکھٹائی تو! سن کیسے سکیں گے؟ ماسی تو سوئی ہو گی۔ کنول نے دروازے کو بند کرنے کا خیال اتار دیا۔ اس نے خود کو رضائی سے اچھی طرح ڈھک لیا۔ سگریٹ ختم ہونے کو تھا۔ کنول نے اس سگریٹ سے نیا سگریٹ جلایا اور ٹوٹا ایش ٹرے میں مروڑ دیا۔
’’اکیلے پن میں اتنا ڈر کیوں ہے؟ میں ہمیشہ سے ہی ہجوم سے دور بھاگنے والی ہوں۔ اکیلا پن چاہتے ہوئے بھی کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ اکیلا پن کسی عفریت کی طرح مجھے نگلتا جا رہا ہے۔ نہیں نہیں، میں کوئی سادھو سنیاسی نہیں ہوں، جو اکیلی رہوں، لیکن اگر میں گوتم بدھ کے دور میں ہوتی تو شاید بھکشو بن جانا زیادہ پسند کرتی۔ لوگ بڑے ذلیل ہیں۔ دنیا بڑی ذلیل ہے اور میں بڑی ذلیل ہوں، جو ذلیل دنیا میں جی رہی ہوں۔ وہ ابھی تک آیا کیوں نہیں ہے؟ اسے آنا چاہئے تھا۔ کم سے کم آج۔ آج تو ضرور آئے۔ اگر آج آیا تو میں اس کی بات مان جاؤں گی۔ ایک دم ہاں کر دوں گی۔ میں نے ہمیشہ خود کو دو کشتیوں پر سوار پایا ہے۔ تبھی مجھے لگا کہ میں اب گری کہ تب گری، ایک بڑی کھائی میں۔ ہوا تو زوردار ہے لیکن پیر بے حرکت ہیں۔ جم ہی گئے ہیں۔‘‘ کنول کو ہنسی آ گئی۔ سگریٹ کا دھواں بائیں آنکھ میں گھس گیا اور آنکھ میں آگ بھر گئی۔ دونوں آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
’’اکیلا پن کتنا تباہ کن ہے۔ خطرناک ہے۔ کتنا مسلتا ہے۔ اور جانی کتنا ذلیل ہے۔ میرا اکیلا پن۔ سارے ریگستان جیسے اکیلے پن کا کچھ احساس ہی نہیں ہے۔ لیکن ابھی تک آیا کیوں نہیں۔ آج تو آئے۔ آج تو کیسے بھی کر کے آنا چاہئے۔ جانی۔ ج آ آ نی۔ ج آ آ آ آ ن۔‘‘ جنوب کی تیز ٹھنڈی ہوا باہر آنگن میں سرسرا رہی تھی۔ اس کی چیخیں سردی میں جمی برف بن گئیں۔
کنول کی انگلیاں جلنے لگیں۔ اس نے ٹوٹا ایش ٹرے میں پھینک دیا۔ عیش ٹرے سگریٹوں سے بھر چکی تھی اور نیچے فرش پر بھی سگریٹ بکھرے پڑے تھے۔ اس نے نئی سگریٹ جلائی۔ اچانک اسے محسوس ہوا کہ باہر کی کنڈی کھڑک رہی ہے۔ وہ بنا چپل کے باہر دوڑتی گئی اور بنا پوچھے دروازہ کھولا۔ باہر کوئی نہ تھا۔ ایک کار سرسراتی رستے سے گزر گئی۔ سخت سردی تھی۔ کنول دروازہ بند کر کے لوٹ کر کمرے میں کرسی پر آ کر بیٹھی اور جلدی جلدی سگریٹ پینے لگی۔ اسے خیال آیا اور وہ سگریٹوں کا پیکٹ اور ماچس لے کر باہر آنگن میں آ کر بیٹھی۔
’’پوری رات یہیں کھڑے رہ کر جانی کا انتظار کروں گی۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ چاہے سردی میں جم کر برف بن جاؤں۔ کمرے میں بیٹھ کر انتظار کرنا اب میری قوت برداشت سے باہر ہے۔ ہر پل ایسا لگ رہا ہے، جیسے کہ جانی باہر سردی میں دروازے پر کھڑا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ اب سردی میں باہر نکلا ہو۔ مجھے پتہ نہ تھا کہ پیار میں اتنی اذیت بھی ہے۔ اتنی تکلیف! وہ کون پاگل فنکار تھا، جس نے اپنی محبوبہ کے باپ کو یہ دکھانے کے لئے کہ اسے اس کی لڑکی سے کتنا پیار ہے، جلتی ہوئی موم بتی پر اپنا ہاتھ رکھ کر جلایا تھا۔ آخر کیوں؟ کیوں؟ کیوں؟ کیا یہی پیار ہے؟ یہ کیا پاگل پن ہے۔ کیا جانی بھی ایسا ہی محسوس کرتا ہو گا، جو میں محسوس کر رہی ہوں؟ ہو سکتا ہے وہ اب نہ آئے۔ میرا آخری جواب سننے کے لئے ہی تو دروازے پر کھڑا رہا تھا۔ وہ اب نہیں آئے گا۔ ایسا ہونا ہی تھا۔ ہم جب دوبارہ ملے تھے، تب مجھے محسوس ہوا تھا کہ ہم پھر سے دوبارہ الگ ہونے کے لئے ملے ہیں۔ ٹھیک ہے۔ میں بھی خود کو گرا نہیں سکتی۔ میں نے جانی کے لئے ایسا کبھی نہیں سوچا ہے کہ میں اسے اپنے پاس باندھ کر بٹھا دوں۔ میں نے اسے کبھی مجبور نہیں کیا ہے کہ وہ اپنی بیوی اور بچہ چھوڑ کر فقط میرے پاس ہی ٹکا رہے۔ اگر وہ پہلے کی ہی طرح پھر سے چلا جائے تو کیا میں اسے روک سکوں گی! روک تو میں اسے پہلے بھی نہ سکی تھی۔ تب وہ کیسے بزدلی دکھا کر چلا گیا تھا۔‘‘ کنول کے دل میں ابال آیا۔ ایک سوکھا پتّہ اڑ کر اس کے منہ پر آ کر لگا اور کھڑکھڑاتا نیچے گر گیا۔ کنول کو اپنے پیر بے حس و حرکت اور مردہ محسوس ہوئے۔
سگریٹ ختم ہو چکی تھی۔ اس نے ٹوٹا پھینک کر نیا سگریٹ نکالنے کے لئے پیکٹ کھولا۔ دو سگریٹ باقی بچے تھے۔ اس نے دونوں سگریٹ نکال کر ان کو منجمد انگلیوں میں مروڑ کر نیچے پھینک دئیے۔ اس کے بعد سُن پیروں کو کھینچتے اندر کمرے میں آئی اور بتی بجھا کر پلنگ پر لیٹ گئی۔
٭٭٭