نظمیں ۔۔۔ آغا شاہد علی / اعجاز عبید

(کشمیری)

 

اردو سیکھتے ہوئے

___________________

 

جموں کے پاس کے ایک ضلعے سے آیا تھا وہ

(اس کی اردو میں ڈوگری لڑکھڑا رہی تھی)

انیس سو سینتالیس میں ایک بر صغیر کے

دو حصوں میں ٹوٹنے کا شکار

اس نے بتایا ٹکڑوں میں تقسیم ہَوا کھانے کے بارے میں

جب کہ لوگ لہو کے الفاظ میں، موت کے حرفوں میں

نفرت میں ڈوبے ہوئے تھے

 

’مجھے صرف وہ آدھا لفظ یاد ہے

جو میرا گاؤں تھا باقی میں بھول چکا ہوں

میری یادیں خون کی لکیر کی ہیں

جس کے پار میرے دوست کسی مرحوم شاعر کے

اشعار میں ڈوب گئے

وہ چاہتا تھا مجھ سے ہمدردی ہو۔ میں نہیں کر پایا محسوس۔

میری صرف ان اشعار میں دل چسپی تھی

جنہیں میں اسے سمجھانا چاہتا تھا ۔

وہ کہتا گیا،

‘اور میں جو جانتا تھا میر کو، دیوانِ غالب کے ہر شعر نے

شاعری کو لہو کے الفاظ میں ڈوبتا ہوا دیکھا

 

اسے اب کچھ بھی یاد نہیں، جبکہ میں پاتا ہوں،

غالب کو زبانوں کے چوراہے پر کسی بھی سمت  بڑھنے سے انکار کرتے ہوئے

میرے رحم کے تھئیٹر کو دیکھنے کے لیے

بھکاری ہونے کا ڈھونگ کرتے

٭٭٭

 

 

میدانوں کے موسم

___________________

 

کشمیر میں، جہاں سال میں

چار نشان زدہ الگ الگ موسم ہوتے ہیں

امی اپنے لکھنؤ کے میدانی علاقے میں بیتے بچپن کی بات کرتی ہیں

اور اس موسم کی بھی،

مانسون،

جب کرشن کی بانسری

جمنا کے کناروں پر سنائی دیتی ہے۔

وہ بنارس کے ٹھمری گائکوں کے پرانے رکارڈس بجایا کرتی تھیں —

سدھیشوری اور رسولن،

انکی آوازوں میں چاہ ہوتی،

جب بھی بادل جمع ہوتے،

اس نظر نہ آنے والے، نیلے معبود کے لیے۔

جدائی۔ ممکن نہیں ہے جب بارشیں آتی ہیں،

ان کے ہر گیت میں یہ ہوتا تھا۔

جب بچے دوڑتے تھے گلیوں میں

اپنی اپنی گرمی کو بھگوتے ہوئے،

پیار کرنے والوں کے بیچ

چٹھیاں بدل لی جاتی تھیں۔

ہیر رانجھا اور دوسرے کئی قصے

ان کا پیار، کفر۔

اور پھر ساری رات جلتے ہوئے خوشبو کی طرح

ہوتا جواب کا انتظار۔

امی

ہیر کا درد گنگناتی تھیں

پر مجھ سے کبھی نہیں کہا

کہ کیا انہوں نے بھی جیسمن کی اگربتیاں

جلائیں جو، خاک ہوتے ہوئے،

راکھ کی چھوٹی ملائم چوٹیاں

بناتی جاتی ہیں۔ میں تصور کرتا تھا کہ

ہر چوٹی امس بھری ہوا پر

لد جاتی ہے۔

امی بس اتنا کہتی تھیں:

مانسون کبھی پہاڑوں کو پھاند کر

کشمیر نہیں آتا۔

٭٭٭

 

 

 

چاندنی چوک، دلی

___________________

 

اس گرمی کے چورا ہے کو نگل جاؤ

اور پھر مانسون کا انتظار کرو۔

بارش کی سوئیاں

زبان پر پگھل جاتی ہیں۔ تھوڑی دور

اور جاؤ گے؟

قحط کی ایک یاد

جکڑتی ہے تم کو: تمہیں یاد آتا ہے

بھوکے لفظوں کا مزا

اور تم نے نمک کے حروف چبائے تھے۔

کیا تم اس شہر کو پاک کر سکتے ہو

جو کٹی ہوئی زبان پر خون کی طرح جذب ہوتا ہے؟

٭٭٭

 

 

 

 

کشمیر سے آیا خط

___________________

 

کشمیر سمٹ جاتا ہے میرے میل باکس میں۔

چار ضرب چھ کا میرا گھر۔

مجھے صاف چیزوں سے پیار تھا ہمیشہ۔

اب

میرے ہاتھوں میں ہے آدھا انچ ہمالیہ

یہ گھر ہے۔

اور یہ سب سے قریب

جہاں میں ہوں اپنے گھر سے۔

جب میں لوٹوں گا

یہ رنگ اتنے بہترین نہیں ہوں گے،

جھیلم کا پانی اتنا صاف،

اتنا گہرا نیلا۔

میری محبت

اتنی ظاہر۔

اور میری یاد دھندلی ہو گی تھوڑی

اس میں ایک بڑا نیگیٹیو،

کالا اور سفید،

ابھی بھی پورا روشن نہیں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے