(مراٹھی)
دکھ ہوتا ہے سیانا
___________________
جب دہکتا رہتا ہے اندر باہر
دکھ
طوفان کا روپ دھارے
ہوا بن کر آتا ہے
تھرتھرانے لگتی ہے
اندر کی روشنی
اس اندھیرے میں جب
تب دکھ لالٹین کا
شیشہ بن کر آتا ہے
کتنا بھی چوکنے رہیے
جب طے ہوتا ہے دھرتی پر گر جانا
تب دکھ بچھونا بن جاتا ہے
دل جھنجھلانے لگتا ہے
چڑچڑانے لگتا ہے
تب دکھ ایک بڑی لکیر کی طرح نظر آتا ہے
کبھی بھوگے ہوئے سکھوں کی
قیمت وصول کرنے آتا ہے
کبھی آنے والے سکھوں کی خاطر
پگڑی مانگنے آتا ہے
اکتائے بیٹھے کھلاڑی کو
کبھی ‘کھو’ دینے آتا ہے
کبھی صرف ایک بدلاؤ لیے
ملنے چلا آتا ہے
دکھ ہوتا ہے سیانا
صرف ایذا نہیں پہنچاتا ہے
لیکن ہمیشہ جاتے جاتے
کچھ سیانا پن بھی دے جاتا ہے!
٭٭٭
اس نے جنم لیا
___________________
اس نے جنم لیا اور
زبان میں پیر جمائے
کھڑا رہا سختی سے!
‘بے معنی’
یہ محض ایک لفظ ہی
بیحد معنی سے پُر محسوس ہوا اسے
پھر خود کشی کے عمل کا
غیر منقسم حصہ بن کر جیتا رہا
وہ بے وقوفی بھری ایذائیں
لبالب بھری بوریت
مگر گاڑھا علم
پاگل پن کا رد عمل
غیر آسمانی بے عملی
اور بارش کا بلا کوشش انتظار
ان کے بے مثال گھیرے میں
ہچکولیں لیتا رہا…
قوتِ برداشت کے امتحان میں شکست خوردہ
وہ
ایک ناخنوں پر پالش تھکان…!
اتنا سب وقوع پذیر ہوا
نہیں جانتی وہ
کس کی چونچ سے گرا تھا بیج
اڑتے اڑتے
نہیں پوچھا اس نے نام اور پتہ
سمیٹ لیا آسانی سے کوکھ میں
یہاں وہاں سے پانی آیا
دھوپ… ہوا… اور سب کا گواہ آسمان بھی
لہلہائی بیل
عمارت کی آڑ میں
اگتے رہے جھاڑ جھنکار بھی
ارد گرد
اس سے لپٹ کر
وہ نہیں جانتا
کون سی ہے یہ شاخ
پھول پتوں کے نام سے بھی نا واقف
کھلے میں ہی پنپی
ان جھاڑیوں میں
کھوجی اس نے اوٹ
پتوں کے اندر گہرے اندر جا کر
اطمینان سے گھستا رہا وہ
ننھے پروں کو ننھی سی چونچ سے
وہیں پر کچھ دیر پھدک کر دیکھا
اور چہچہاتے ہوئے اڑ گیا…
ایک پنچھی کو
پل بھر کی اوٹ چاہیئے
اس لئے ہی ہوا
اتنا سب کچھ؟
٭٭٭