نظمیں ۔۔۔ آساوری کاکڑے / اعجاز عبید

(مراٹھی)

 

دکھ ہوتا ہے سیانا

___________________

 

جب دہکتا رہتا ہے اندر باہر

دکھ

طوفان کا روپ دھارے

ہوا بن کر آتا ہے

 

تھرتھرانے لگتی ہے

اندر کی روشنی

اس اندھیرے میں جب

تب دکھ لالٹین کا

شیشہ بن کر آتا ہے

 

کتنا بھی چوکنے رہیے

جب طے ہوتا ہے دھرتی پر گر جانا

تب دکھ بچھونا بن جاتا ہے

دل جھنجھلانے لگتا ہے

چڑچڑانے لگتا ہے

تب دکھ ایک بڑی لکیر کی طرح نظر آتا ہے

 

کبھی بھوگے ہوئے سکھوں کی

قیمت وصول کرنے آتا ہے

کبھی آنے والے سکھوں کی خاطر

پگڑی مانگنے آتا ہے

اکتائے بیٹھے کھلاڑی کو

کبھی ‘کھو’ دینے آتا ہے

کبھی صرف ایک بدلاؤ لیے

ملنے چلا آتا ہے

 

دکھ ہوتا ہے سیانا

صرف ایذا نہیں پہنچاتا ہے

لیکن ہمیشہ جاتے جاتے

کچھ سیانا پن بھی دے جاتا ہے!

٭٭٭

 

 

 

اس نے جنم لیا

___________________

 

اس نے جنم لیا اور

زبان میں پیر جمائے

کھڑا رہا سختی سے!

 

‘بے معنی’

یہ محض ایک لفظ ہی

بیحد معنی سے پُر محسوس ہوا اسے

پھر خود کشی کے عمل کا

غیر منقسم حصہ بن کر جیتا رہا

وہ بے وقوفی بھری ایذائیں

لبالب بھری بوریت

مگر گاڑھا علم

پاگل پن کا رد عمل

غیر آسمانی بے عملی

اور بارش کا بلا کوشش انتظار

ان کے بے مثال گھیرے میں

ہچکولیں لیتا رہا…

 

قوتِ برداشت کے امتحان میں شکست خوردہ

وہ

ایک ناخنوں پر پالش تھکان…!

 

اتنا سب وقوع پذیر ہوا

نہیں جانتی وہ

کس کی چونچ سے گرا تھا بیج

اڑتے اڑتے

 

نہیں پوچھا اس نے نام اور پتہ

سمیٹ لیا آسانی سے کوکھ میں

یہاں وہاں سے پانی آیا

دھوپ… ہوا… اور سب کا گواہ آسمان بھی

لہلہائی بیل

عمارت کی آڑ میں

اگتے رہے جھاڑ جھنکار بھی

ارد گرد

اس سے لپٹ کر

 

وہ نہیں جانتا

کون سی ہے یہ شاخ

پھول پتوں کے نام سے بھی نا واقف

کھلے میں ہی پنپی

ان جھاڑیوں میں

کھوجی اس نے اوٹ

پتوں کے اندر گہرے اندر جا کر

اطمینان سے گھستا رہا وہ

ننھے پروں کو ننھی سی چونچ سے

وہیں پر کچھ دیر پھدک کر دیکھا

اور چہچہاتے ہوئے اڑ گیا…

 

ایک پنچھی کو

پل بھر کی اوٹ چاہیئے

اس لئے ہی ہوا

اتنا سب کچھ؟

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے