فنون لطیفہ میں موسیقی ایک اہم درجہ رکھتی ہے۔ اس کو سمجھنا، پرکھنا ہرکسی کے بس کا روگ نہیں۔ ادیب سہیل کی موسیقی کے حوالے سے بھی خدمات نمایاں ہیں۔ جہاں انھوں نے ادب کے اندر نئے نئے تجربات سے قارئین ادب اور ادب کے طالب علموں کو نئے رُخ دیکھنے اور سوچنے پر مجبور کیا، وہیں انھوں نے موسیقی کے اُتار چڑھاؤ پر مشرقی راگوں اور رقص کے مختلف رویوں کی اس انداز میں پہچان کروائی کہ موسیقی اور رقص سے شغف رکھنے والا ہر شخص اُن کی تحریروں سے اُسی طرح استفادہ کر سکتا ہے جس طرح اُن کی نظموں اور ادبی مضامین پڑھنے والے حاصل کرتے رہے ہیں۔ ادیب سہیل دنیائے موسیقی میں موسیقی کے اُتار چڑھاؤ کو جاننے والوں کی فہرست میں اول اول نظر آتے ہیں اور اُن کی فنِ موسیقی پر دسترس سے کوئی انکاری نہیں ہو سکتا۔
ڈاکٹریونس حسنی تبصرہ کرتے ہیں کہ ’’ادیب سہیل ہمارے قدما کی طرح یک فنے نہیں وہ ہر فن مولا ہیں، افسانہ نگار ہیں، شاعر ہیں، ادیب ہیں اور صحافی ہیں اور ان سب حیثیتوں سے الگ وہ رقص اور موسیقی کی دنیا میں ایک منفرد مقام کے حامل ہیں۔ وہ تمام راگ راگنیاں خوب سمجھتے ہیں، سم اور تال سے واقف ہیں۔ بعض ساز خود بجاتے اور ریاض جاری رکھے ہوئے ہیں جس شخص کو موسیقی سے عملی دلچسپی ہو اور وہ اس رموز سے آشنا ہو وہ اپنے ادبی ذوق کی بنیاد پر موسیقی اور رقص کے نظری پہلوؤں پر اظہار خیال کا حق رکھتا ہے۔
مشرقی پاکستان میں اپنے قیام کے دوران وہ سید پور میں ڈرامے بھی پیش کرتے رہے جس میں موسیقی کا حصہ ادیب سہیل کا مرہون منت رہا۔ یہ ڈرامے اگرچہ تاریخی تھے مگر اسٹیج ڈرامہ ہونے کے باعث وہ اسٹیج کے ان تقاضوں کی تکمیل چاہتے تھے، جو رقص و موسیقی کے بغیر ممکن نہ ہوتے۔ انھوں نے رقص اور اس کے مختلف اقسام پر بڑے بھرپور مضامین لکھے ہیں۔ میں رقص وموسیقی کے معاملے میں نرا کورا ہوں۔ کسی دھن کو پسند کر لینا یا اس کا اچھا لگنا تو ہر صاحبِ ذوق کے لیے ممکن ہے میں بس اسی حد تک موسیقی سے تعلق رکھتا ہوں اس لیے ان کے مضامین میرے لیے معلومات کا خزانہ اور حیرت و استعجاب کا باعث رہے۔
رقص اور اس کے رموز و معارف پر ان کے متعدد مضامین ملکی رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔ انھوں نے بھارتیہ ناٹیم، کتھک، منی پوری، اوڑیسی، کتھاکلی، کچی پڈی، موہنی اتم وغیرہ رقصوں کے بارے میں بڑے معلوماتی مضامین لکھے ہیں۔ اسی طرح برصغیر کے مختلف سازوں، ان کی ساخت ان کو بجانے کے طریقوں اور ان کے حسن و قبح پر مشتمل ایک پروگرام وہ راولپنڈی ریڈیو اسٹیشن سے نشر کرتے رہے ہیں۔ اس پروگرام کا نام ’’ساز کہتے ہیں ‘‘ تھا۔ سازوں کی آوازوں پر مشتمل یہ پروگرام سال بھر جاری رہا اور اس پروگرام میں ادیب سہیل صاحب اس فن سے اپنی پختہ کارانہ واقفیت کا اظہار کرتے رہے۔ رقص، موسیقی ساز اور آواز کی دنیا پر ان کی گرفت ماہرانہ ہے اور وہ اس فن کے بڑے صاحب بصیرت نقاد ہیں۔
میر حسین علی امام لکھتے ہیں :ادیب سہیل نے موسیقی کے راگ اور راگنیوں کے حوالے سے ایک مکمل کتاب ترتیب دی ہے جو رنگ ترنگ کے نام سے منظر عام پر آ چکی ہے۔ اس میں دن کے چوبیس گھنٹے کے تمام راگوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ مثلاً بھیروی، گنی کلی، رام کلی، اساوری، توری، درباری، بہاگ اس کتاب میں راگوں کی کیفیات، روپ ان کا تعارف، تصوف کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے۔ کئی راگوں پر مضامین مختلف ادبی رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ رقص کی اقسام مثلاً جنوب کے بھرت ناٹیم، کتھا کلی، کچی ہڈی، اڑیسہ کا اڑوسی، بنگال کا منی پوری، اور ینٹل اسکول آف ڈانس پر بھی مضامین لکھے۔ رقص کی اقسام اس کی اشکال، اس کی کیفیت، اس کی تکنیکی باریکیوں کو حرف تحریر میں لانا ادیب سہیل کا خاصہ ہے۔ میاں تان سین پر ایک طویل نظم ادیب سہیل کی شائع ہوئی تھی جس نے بڑی شہرت حاصل کی، اس طویل نظم میں ۶۰۰ سے زائد مصرعے ہیں۔ ۳۰صفحات پر مشتمل اس نظم میں ادیب سہیل نے میان تان سین کی حیات، موسیقی پر ان کی گرفت، فن موسیقی کے حوالے سے منظوم داستان پیش کی۔
ڈاکٹرسہیل احمد خان کے مطابق ادیب سہیل نے فرہنگ موسیقی کے نام سے ایک موسیقی کی لغت کی ترتیب کا کام شروع کیا اور اس کے کچھ ابواب فنون اور دیگر رسائل میں شائع بھی ہوئے۔
عشرت رومانی ادیب سہیل کے فن موسیقی پر گوش گزار کرتے ہیں کہ: انھوں نے رقص پر کئی مضامین لکھے، ان کے موضوعات میں کتھک، کتھا کلی، کچی ہڈی، بھرت نائم، اوڑیسی، موہنی اتم، منی پوری اور اور ینٹل اسکول آف ڈانس کے حوالوں سے رقص بھی شامل ہے۔ آلات موسیقی کے حوالے سے بھی بے شمار فیچر لکھے۔
یہاں ہم ادیب سہیل صاحب کے مختلف مضامین کی چیدہ چیدہ خاصیتیں پیش کر رہے ہیں، جس سے پتا چل سکے کہ اُن کی موسیقی، رقص اور سازپر کتنی گہری نظر ہے :
ادیب سہیل: ٹھمری کے بارے میں جانکاری دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ واجد علی شاہ نے ’’سین‘‘ خاندان کے نامی گرامی موسیقاروں اور گلوکاروں سے راگ کی ترتیب لی۔ ستار بجانا قطب علی خان سے سیکھا، واجد علی شاہ کو دھرپد اور خیال پر بھی دسترس تھی لیکن ٹھمری سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا۔ اس کے علاوہ وہ کتھک رقص میں بھی مہارت رکھتا تھا۔ وہ ٹھمری کے بول بھی لکھا کرتا تھا، اس نے لکھنو کے بعد کلکتہ میں بھی ٹھمری کو رائج کیا اور خود اس طرح کے موقع نکالتا تھا کہ بڑے بڑے فن کاروں اور طائفوں کو بلا کر اس صف کو خاصی شہرت بخشی۔ ادیب سہیل مزید بتاتے ہیں کہ ٹھمری کی تاریخ میں گوہر جان اور موجود الدین بھی قابلِ ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ صوبہ بہار کی کجن بیگم بھی قابل ذکر ہیں۔
’’ستار‘‘ پر ادیب سہیل کا تحقیقی مضمون ’’ستارکی ڈھائی صدی‘‘ اہمیت کا حامل ہے۔ وہ ستار کے بارے میں قدیم ترین معلومات فراہم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ستار‘‘ جیسے قدیم ساز کی ایجاد کو امیرخسرو سے منسوب کیا جاتا ہے۔ مگر وہ اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ستار کا استعمال برصغیر سے پہلے فارس یا ترکی میں ہوا اور اس ساز کو انہی علاقوں سے منسوب کیا جاتا ہے۔ ’’ستار‘‘ کے ضمن میں فیروز خان کے بارے میں خصوصیت سے ذکر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اُس نے کئی گتیں بنائیں جو بعد میں ’’فیروز خانی‘‘ کے نام سے مقبولیت کے دوام پر پہنچیں۔
’’دھرپد‘‘ اور ’’ خیال‘‘ کے بارے میں ادیب صاحب کی رائے ہے کہ زمانۂ قدیم سے دھرپد میں جو مخصوص چار انگ مستعمل تھے آج بھی جوں کے توں بغیر کسی تبدیلی کے موجود ہیں۔ یہ چار روایتی انگ استھائی، انترہ، سنچاری، ابھوگ ہیں۔ جب کہ ’’ خیال‘‘ کے بارے میں یوں کہتے ہیں کہ راگ کے دو حصے استھائی اور انترہ ہیں لیکن اپنے اندر رنگا رنگ تانوں اور مینڈھ مرکیوں کی بے پناہ گنجائش رکھتے ہیں۔ گانے والے انھیں مختلف انداز سے گاتے ہیں۔
ادیب سہیل ہمارے عہد کے بڑے ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اُن کے کاموں کو اگر یکجا کیا جائے تو کئی کئی سو صفحات پر مشتمل یہ خزینہ ہماری آنے والی نسلوں تک منتقل ہو سکے گا۔ شاید یہ کام کوئی ادارہ یا کوئی صاحبِ ذوق شخص کر دے تو آنے والوں کے لیے مشعل راہ ہو گا۔ ہمارے بزرگ ادیب سہیل نے اپنا کام انتہائی دیانت داری سے مکمل کیا ہے اب ہماری باری ہے کہ ہم اُن کے لیے کچھ کریں، اُن کی ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے حکومت وقت کواس کا اعتراف کرنا چاہیے۔ (ماخوذ، ہماری ویب)
٭٭٭
میرے ادبی مربی وکرم فرمامرحوم ادیب سہیل کے متعلق یہ مضمون کافی کارآمدہے اور اسے بہترکیاجاسکتاہے، ان کے بعض زندہ احباب سے ملاقات اور معلومات کے حصول کے بعد
شکریہ اعجاز عبید صاحب اور سہیل احمد صدیقی صاحب۔ انجمن ترقی اردو پاکستان میں ادیب سہیل مرحوم کے ساتھ بہت وقت گزرا۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔