ایک دیوار سی کہرے کی کھڑی ہے ہر سو
پر سمیٹے ہوئے بیٹھی ہے چمن میں خوشبو
یہ اندھیرے بھی ہمارے لیے آئینہ ہیں
روبرو کرتے ہیں کردار کے کتنے پہلو
ان سلگتے ہوئے لمحوں سے یہ ملتا ہے سراغ
دم بہ دم ٹوٹ رہا ہے شب غم کا جادو
دام بردار کوئی دشت وفا سے گزرا
صورت خواب ہوا حسن خرام آہو
پھر ہوا حبس کا احساس گراں بار سہیلؔ
پھر مرا دل ہے طلب گار ہوائے گیسو
٭٭٭
جب سے ہے باد خزاں صرصر غم آوارہ
خشک پتوں کی طرح رہتے ہیں ہم آوارہ
کچھ تو ہے بات کہ ہے موسم گل کے با وصف
بوئے گل بوئے صبا بوئے صنم آوارہ
کنج در کنج ستم خوردہ غزالوں کو ابھی
تا بہ کے رکھے گی یہ لذت رم آوارہ
حجلہ سنگ سر رہ میں نہ جانے کتنے
رونمائی کو ہیں بیتاب صنم آوارہ
ہے غم زیست کا یا سوز محبت کا صلہ
عارض گل پہ جو ہے گوہر نم آوارہ
رنگ عارض کو تمازت سے بچانے کے لئے
رخ پہ لہرایا ہوا ابر کرم آوارہ
٭٭٭