ایک دن۔ ۔ بانو قدسیہ (ناولٹ سے اقتباس)

(ناولٹ سے اقتباس)

 

ٹرین حیدر آباد کے سٹیشن پر کھڑی تھی۔

اس کے ڈبے میں سے وہ رنگین اور نازک صراحیاں صاف نظر آ رہی تھیں۔ جن کی مٹی کا رنگ نارنجی اور بیل بوٹوں کا نمونہ خالص سندھی تھا۔ دو امریکن میمیں ہاتھوں میں دو دو صراحیاں تھامے دوکاندار سے سودا کر رہی تھیں۔ اُن کے لکیردار فراک گھٹنوں سے نیچے تنگ اور بغلوں تلے بہت زیادہ کھلے تھے۔ آستینیں غائب تھیں اور گرمی سے جُھلسی گردنوں اور سینوں کا کھلا حصہ بہت سرخ نظر آ رہا تھا۔

معظم نے ان کے ہاتھوں میں تھامی ہوئی صراحیوں کو بڑی للچاہٹ سے دیکھا اور اس کا جی چاہنے لگا کہ کاش وہ بھی ایک نازک صراحی زرقا کے لیئے خرید لے۔ زرقا خود بھی تو ایک ایسی صراحی تھی ممولے سی گردن، پھیلے ہوئے کولہے اور نازک نازک بازو اور پتلے سے ہاتھ۔ اس کا دہن اتنا لطیف اور ننھا تھا کہ اس پر ذرا سی مسکراہٹ بھی دباؤ ڈال دیتی۔

اس وقت ان ہی ہونٹوں سے نکلی ہوئی اک چھوٹی سی ‘ہاں ‘ اُسے میلوں کا سفر کرنے پر مجبور کر رہی تھی لیکن صراحی خریدنے کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ ٹکٹ خریدنے کے بعد اس کے پاس بمشکل اتنے پیسے بچے تھے جن کے سہارے وہ زرقا کے ہاں بس ٹیکسی میں پہنچ سکتا تھا۔ زرقا کے ہاں ٹیکسی میں پہنچنا بھی تو بہت ضروری تھا۔ کیونکہ رانی اور ککو ہمیشہ نیچے کھیلا کرتی تھیں۔ جب وہ اوپر جا کر سب کو بتائیں گی کہ معظم بھائی یہ لمبی ٹیکسی سے اترے ہیں تو زرقا ایک بار گردن اٹھا کر فخر سے سب کی طرف دیکھے گی اور دل ہی دل میں کہے گی ٹیکسی مت کہو ہوائی قالین کہو۔ شہزادے ہمیشہ باد پا قالینوں پر سفر کیا کرتے ہیں ! پھر اس کے نازک ہونٹوں پر مسکراہٹ کا بوجھ پڑ جائے گا اور وہ سر جھکا کر بندر روڈ کی رونق کو کھڑکی میں سے دیکھنے لگے گی۔

معظم کا کتنا جی چاہتا تھا کہ ایک بار ان نازک ہونٹوں پر اتنا دباؤ ڈالے اتنا دباؤ ڈالے کہ زرقا دوبارہ گھوم کر بندر روڈ کی دور تک پھیلی ہوئی رونق نہ دیکھ سکے۔ اور اس کی آنکھوں کی ساری سرد مہری، بیگانگی اور اجنبیت معظم معظم پکار اُٹھے۔ لیکن زرقا ہمیشہ اس کے قریب رہ کر بھی دور دور رہتی تھی۔ بالکل اسی طرح ناشتے کے ٹرے لئے سفید شملے والے بیرے ہوٹلوں سے گزرتے تھے اور دور رہتے تھے۔ بدقسمتی سے وہ چار انڈے جو وہ لے کر سفر پر روانہ ہوا تھا کچے نکلے۔ ان کے ساتھ اُسے ناشتہ کرنا تھا لیکن جب انڈے لائین کے قریب منڈلانے والے ایک کتے نے چاٹ لیئے تو اس نے انتقام کے طور پر چائے سے بھی پرہیز کیا۔

سماسٹہ سٹیشن پر گاڑی کافی دیر تک رکی رہی اور عین اس کے ڈبے کے سامنے مٹھائی والا تالیاں بجا بجا کر پوریاں بیلتا رہا۔ لیکن اس کی جیب میں جتنے پیسے تھے انہیں وہ کراچی کے لیئے محفوظ رکھنا چاہتا تھا۔ ان پیسوں کے ساتھ اسے زرقا کے ہاں ٹیکسی پر پہنچنا تھا اسی لیئے وہ ہر سٹیشن پر اس بے اعتنائی سے کھڑکی کی طرف پیٹھ کر لیتا جیسے ابھی کل کا کھانا بھی ہضم نہ ہوا ہو !

امریکن عورتوں نے نازک صراحیاں خریدیں سفر کی اکتاہٹ دور کرنے کے لیئے دو ایک رسالے لیئے اور پھر کینوس کے جوتے لچکاتیں اپنے ڈبے کی طرف چلی گئیں۔ معظم کے ساتھ والی سیٹ پر ایک عورت تیسری بار ناشتہ کر رہی تھی۔ اس کا دو سالہ بچہ کیک کو توڑ کر فرش پر بکھیر رہا تھا اور اس کا شوہر اخبار پڑھتے ہوئے کوئی بارھویں مرتبہ کہہ رہا تھا۔

"دیکھو بھوکی نہ رہنا۔ کہو تو کچھ اور منگوا دوں !”

وہ عورت مسلسل کچھ نہ کچھ کھا رہی تھی لیکن شوہر کے اس سوال پر وہ ہر بار کہتی۔ "توبہ! گھر جیسا آرام سفر میں کہاں۔ زندگی عذاب ہو گئی ہے نہ کچھ ڈھنگ کا کھانے کو ملا ہے نہ کام کی چائے نصیب ہوئی ہے۔ کوئی کھائے تو کیا؟

ڈیزل انجن نے لمبی سی ہوک بھری پھر گارڈ کی سیٹی سنائی دی۔ اور گاڑی آہستہ آہستہ رفتار پکڑنے لگی۔ وہ دروازے والی کھڑکی کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔ سامنے لائنوں کا جال بچھا تھا۔ گاڑی ان بھول بھلیوں میں اپنی لائن تلاش کرتی ڈگا ڈگ ڈگا ڈگ بھاگ رہی تھی۔ پھر یک لخت اس کی پشت کی جانب کسی دوسری ٹرین کے گزرنے کا ہنگامہ خیز شور اُٹھا۔ پرانی وضع کا انجن دھواں اڑاتا اپنی شافٹ فٹافٹ ہلاتا آناً فاناً نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔ ڈبوں میں بیٹھے ہوئے مرد عورتیں بچے اس کی پہچان سے بہت پہلے رخصت ہو گئے اس نے گردن موڑی اور سامنے پھیلی ہوئی جھاڑیوں، لائین پر پھیلے ہوئے پتھروں اور اکا دکا درختوں کہ دیکھنے لگا۔

وہ سوچ رہا تھا کہ اب کی بار اُسے زرقا کے ساتھ کوئی فیصلہ کن بات کر کے ہی لوٹنا ہو گا۔

بادلوں میں بسنے والی اس لڑکی کے ساتھ ملکوتی محبت کے کئی سال گزر چکے تھے۔ وہ روحانی خط لکھ لکھ کر تھک چکا تھا۔ زرقا کی پرستش کرتے ہوئے اُسے اتنی مدت بیت چکی تھی کہ اب اُس کا دل چاہتا تھا کہ کسی طرح اس بُت کو انسانی سطح پر لا کر پیار کرے۔ اس کے وجود کو محسوس کرے گرم چائے کی طرح۔ سگریٹ کے دھوئیں کی مانند۔ اپنے ملگجے تکئے کی طرح۔

گاڑی کھٹا کھٹ کراچی کی سمت بھاگی جا رہی تھی !

اور معظم سوچ رہا تھا کہ اس دفعہ اُس کا رویہ پچھلے سالوں کے مقابلے میں بہت مختلف ہو گا۔ اس بار آنکھیں جھپکا جھپکا کر ممی ممی کہنے والی گڑیا کو عورت بن کر اُس کے قریب آنا ہو گا یا پھر اس کے دل کے سنگھاسن سے اتر کر گم شدگی کے اندھیروں میں ڈوب جانا ہو گا۔

× × × × × × × ×

 

"وہ آئی پیلی ٹیکسی۔ -۔ ۔ -"ککو چلائی۔

"اونہہ۔ مجو بھائی کوئی پیلی ٹیکسی میں آئیں گے وہ تو بڑی ٹیکسی میں آئیں گے آٹھ آنے میل والی میں۔ ”

رانی بولی۔

"اچھا؟”

"اور کیا؟”

"کچھ شرط لگاتی ہو۔ ؟”ککو نے پوچھا۔

"ہاں۔ لگا لو -”

"اگر مجو بھائی پیلی ٹیکسی میں آئے نا تو تم مجھے اپنی پیلے پھولوں والی فراک دے دینا -”

"کون سی ؟۔ وہ نایئلون والی؟”رانی نے سوال کیا۔

"ہاں -”

"واہ۔ وہ تو ابھی پرسوں زکی آپا بوری بازار سے لائی ہیں -”

"پھر کیا ہے ؟ شرط تو اچھی چیز کی لگاتے ہیں نا ؟”ککو نے سر ہلا کر کہا۔

"لیکن زکی آپا نے تو فراک اس لیئے لے کے دی تھی کہ جب مجو بھائی کے ساتھ سمندر کی سیر کو جائیں تو پہنیں گے۔ ”

رانی نے بڑے فخر سے کہا۔

"وہ تو میں بھی پہن سکتی ہوں۔ لیکن خیر ہمیں کیا مجو بھائی تو بیچارے آئیں گے پیلی ٹیکسی میں -”

رانی جل کر بولی -"اچھا تو پیلی ٹیکسی میں آنے سے کیا ہوتا ہے۔ حبیب بھائی تو ہمیشہ سائیکل رکشا پر آتے ہیں -”

ککو سڑک کے قریب آہنی جنگلے کے ساتھ کھڑی تھی یہ سن کر جھٹ وہ قریب آ کر کہنے لگی۔

"حبیب بھائی مجو بھائی سے اچھے ہیں اچھے ہیں اچھے ہیں ”

رانی فلیٹ میں چڑھنے والی بڑی سیڑھیوں پر بیٹھی اپنا پھولوں والا ربن ٹھیک کر رہی تھی اس نے غصے میں آ کر بالوں میں سے ربن کھسوٹ لیا اور چلا کر بولی -"خاک اچھے ہیں۔ موٹے سے بھدے سے موٹا آلو پلپلا پیسہ لے کر گر پڑا۔ ”

"کبھی خالی ہاتھ نہیں آتے۔ ہمیشہ ہمارے لیئے کچھ نہ کچھ لاتے ہیں۔ ضرور -"ککو نے کہا۔

"تم ہو ہی لالچی بلی -”

"بلی ہو گی تُو -”

"تُو بڈھی شتر مرغ -"رانی نے چڑ کر کہا۔

"بس تمہارے تو ذہن پر ہمیشہ شتر مرغ سوار رہتا ہے اور کچھ دیکھا جو نہیں -”

"کیوں دیکھا کیوں نہیں۔ ابھی تو پچھلے ہفتے میں چڑیا گھر گئی تھی -”

ککو فخر سے بولی -"اور ہمیں حبیب بھائی جب ہم چاہیں لے جاتے ہیں -”

"یہاں کے چڑیا گھر میں رکھا ہی کیا ہے ؛۔ تم نے لاہور کا چڑیا گھر دیکھا ہوتا تو کبھی یہاں کے گاندھی گارڈن کا نام بھی نہ لیتیں -”

"بھلا وہاں اژدہا ہے کیا؟”ککو نے جل کر پوچھا۔

"اژدہا نہیں ہے لیکن پیلی چتّیوں والا چیتا تو ہے۔ یہ بڑی بڑی نارنجی آنکھیں ہیں اُس کی تم دیکھو تو مارے ڈر کے مر جاؤ۔ جب میں پچھلی دفعہ اماں کے ساتھ لاہور گئی تھی تو مجو بھائی نے مجھے خود دکھایا تھا”۔ رانی بولی۔

"وہاں زیبرا بھی نہیں ہے نہیں ہے نا؟ -”

رانی بحث میں ہار رہی تھی اس لیئے اٹھتے ہوئے بولی -"زیبرا کون سا ایسا تحفہ ہے۔ یہاں نہ تو اُودبلاؤ ہے نہ سفید مور نہ بندر۔ یہ بھی کوئی چڑیا گھر ہے۔ ذرا بھی دیکھنے کو ئی نہیں چاہتا -”

ککو کو غصہ آ گیا وہ چمک کر کہنے لگی -"اس دن تو مان گئی تھیں کہ یہاں کا چڑیا گھر زیادہ اچھا ہے -”

"اس دن تو تُو اپنی مونگ پھلیاں نہیں دیتی تھی اس لیئے میں نے کہہ دیا تھا۔ ”

ککو جھلا کر بولی”تم ہو ہی مطلبی اپنا مطلب ہوتا ہے تو سب کچھ مان جاتی ہو۔ ”

پیلی چھت والی ایک ٹیکسی بڑی شاہراہ کو چھوڑ کر فلیٹ والی سڑک کی طرف مڑی۔ اُن سے پرے والے بلاک کے پاس لمحہ بھر کے لیئے رُکی اور پھر ان کی طرف بڑھ آئی۔

ککو تالیاں پٹیتی ہوئی چلائی”دیکھا۔ -۔ -۔ دیکھا۔ -۔ -۔ دیکھا۔ -۔ -۔ مجو بھائی ٹیکسی میں آئے ہیں پیلی ٹیکسی میں۔ -۔ -۔ ہاں۔ -۔ -۔ ہاں۔ -۔ -۔ ہاں -”

رانی کو مایوسی تو ہوئی۔ لیکن معظم کے آنے کی اُسے اتنی خوشی ہوئی کہ اُسے اپنی شکست کا احساس بھی نہ رہا۔ معظم نے کار کا پٹ کھولا اپنا اٹیچی اور کمبل اٹھایا اور باہر نکل آیا۔

"ہیلو رانی۔ -۔ ککو -”

دونوں بچیاں سلام کر کے آگے بڑھیں رانی تو معظم سے چمٹ گئی لیکن ککو ٹیکسی کا میٹر پڑھنے لگی۔

"دو روپے چار آنے -”

پھر اس نے ڈرائیور کو مخاطب کرتے ہوئے کہا -"مجو بھائی اس بار تو آپ پورے چھ مہینے بعد آئے ہیں۔ ہے نا”

"ہاں کچھ دیر سے ہی آیا ہوں -”

"صبح آپ کا تار ملا تھا۔ میں تو تب سے باہر بیٹھی ہوں -”

ککو کرائے کی تفتیش کر کے لوٹی تو آتے ہی بولی۔ "آج ہمیں چھٹی تھی مجو بھائی لاسٹ سیٹرڈے -”

"اور دوسرے لوگ کہاں ہیں ؟”معظم نے بظاہر بے پروائی سے پوچھا۔

"وہ دیکھئے دیکھ رہی ہیں نیچے ”

معظم نے چہرہ اٹھا کر اوپر دیکھا۔

تیز گلناری رنگ کے پردے ایک طرف کو کیے زرقا، لیلی اور شیریں کھڑی تھیں۔ لیلی اور شیریں کی دو دو چوٹیاں سامنے سینے پر لٹک رہی تھیں اور زرقا کی لمبی بوجھل چوٹی اس کے پہلو سے نکل آئی تھی۔ معظم خوب جانتا تھا طویل بالوں کا یہ سلسلہ جسم کے کس حصے پر جا کر ختم ہوتا ہے۔

فلیٹ کے سامنے پیلی ٹیکسی کے پہنچنے سے تھوڑی دیر پہلے وہ تینوں بہنیں اپنے اپنے کپڑے درست کرنے میں مشغول تھیں۔ دُبلی پتلی لیلی نے اپنی زرد کاٹن کی قمیص دیوان پر پھینکتے ہوئے کہا -"توبہ رواج بھی کیا چیز ہے جب تک دل نہ اُوب جائے کوئی پیچھا ہی نہیں چھوڑتا۔ ان قمیصوں کا تھی کیا فیشن چلا ہے -”

شیریں قالین پر بیٹھی تھی وہ لیلی کی طرف چہرہ اٹھائے بغیر کہنے لگی۔ "اب تو ہر سڑک پر ہر لڑکی یہی پیلے کرتے پہنے نظر آتی ہے مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے سارے کراچی میں ایک ہی سیندھوری لڑکی گھوم رہی ہے۔ ”

لیلی ہنس کر بولی -"ابھی یہاں کیا دیکھا ہے تم نے لاہور میں تو یہ عالم ہے کہ کسی پر ریشمی کپڑا نظر تک نہیں آتا۔ ہمارے کالج کی تمام لڑکیاں ان ہی رنگین کاٹنوں میں نظر آتی ہیں۔ کسی نے سیاہ کالر لگا لیا ہے تو کسی نے سیاہ بٹن -”

"لیکن گلا تو بوٹ شیپ ہی اچھا لگتا ہے "شیریں نے استری کا بٹن بند کرتے ہوئے کہا۔ لیلی نے اپنی زرد قمیص کے پاس بیٹھ کر وثوق سے کہا۔ "اور آستینیں بھی چھوٹی ہی بھلی معلوم ہوتی ہیں۔ ”

ان دونوں سے ذرا پرے دیوان پر زرقا خاموش بیٹھی تھی۔ اس کے سامنے اس کے سارے کپڑے گڈمڈ دھرے تھے۔ کھلی کھڑکی میں سے سمندری ہوا کے تیز جھونکے آ رہے تھے اور کھڑکی میں لٹکے ہوئے گلناری رنگ کے لمبے لمبے پردے اِدھر اُدھر لہرا رہے تھے۔ زرقا کی لمبی گاؤ دم چوٹی نیچے تکیے پر بل کھا کر لیٹی ہوئی تھی اور ماتھے کے ارد گرد باریک بال ہوا سے لرز رہے تھے۔ اس کے گھٹنے تلے معظم کا تار دبا تھا جس میں اس کے آنے کی اطلاع درج تھی۔ وہ اس تار کہ بڑی ترکیب سے اماں کے کمرے میں سے کھسکا کر لائی تھی اور اب گھٹنے تلے پڑے ہوئے اس تار کا اسے یوں احساس ہر رہا تھا جیسے کسی کا دھڑکتا ہوا دل اس کی ران تلے آ گیا ہو۔

دوسری منزل کے اس فلیٹ میں تین کمرے تھے۔ جگہ چھوٹی تھی لیکن موزیک کے پکے فرش اور ڈسٹمپر کی ہوئی دیواروں نے اس ننھے سے فلیٹ کو بڑی صاف ستھرگی عطا کر رکھی تھی۔ بلاک کی سیڑھیاں عین ان کے دروازے کے سامنے اوپر کی طرف مڑتی تھیں۔ سیڑھیوں کا دروازہ کھلتا تو ڈرائنگ روم نظر آتا۔ اسی میں ایک جانب کھانے کی بڑی میز اور نازک ٹانگوں والی چھ کرسیاں پڑی تھیں۔ ایک طرف چمکتی پالش والا تین تختوں والا سائیڈ بورڈ تھا۔ جس پر برتنوں کی جگہ اماں جان کا پاندان ان کی سلائی کی ٹوکری اور گھریلو حساب کی کاپی دھری رہتی تھی۔

کمرے کے ڈرائنگ روم والے حصے میں ایک صوفہ دھرا تھا جس پر بوسیدہ سبز رنگ کا پھولوں والا کپڑا منڈھا تھا۔ سڑک کی جانب کھلنے والی کھڑکی پر نارنجی اور اندر کی طرف جانے والے دروازے پر گہرے نیلے رنگ کے پردے لٹکے ہوئے تھے۔ گلدانوں میں پلاسٹک اور کاغذ کے مصنوعی پھول آراستہ تھے۔ کھڑکی کے سامنے بڑا سا دیوان تھا جس پر گہرے سبز رنگ کا غلاف چڑھا تھا اور اوپر کے چھوٹے بڑے تکئے بے ترتیبی سے دھرے تھے۔ سارا گھر لڑکیوں سمیت ٹیکنی کلر تھا۔

اس ڈرایئنگ روم میں اندر کی طرف دروازے کھلتے تھے۔ جس کمرے میں لیلی شیریں اور زرقا رہتی تھیں اس کی کھڑکی سڑک کی جانب کھلتی تھی۔ ساتھ والے کمرے میں اماں، ککو اور گڈی رہتی تھیں۔ یہ کمرہ قدرے بڑا تھا لیکن اس میں کوئی کھڑکی نہ تھی جو سڑک کی جانب کھلتی ہو، اسی لیئے رانی اور ککو کو ہمیشہ فلیٹ سے اتر کر سڑک پر کھیلنا پڑتا۔

اماں جی کے کمرے کے سامنے چھوٹا سا برآمدہ اور پھر صحن تھا جس کے سامنے دائیں جانب باورچی خانہ اور بائیں طرف سٹور اور غسلخانہ تھا۔ باورچی خانے کے ساتھ دوسرے فلیٹ سے علیحدہ کرنے والی کھپچیوں کی پارٹیشن تھی۔ اس دیوار کے دو تین تختے بالکل ڈھیلے تھے اور ذرا سا دھکا لگنے پر اکھڑ جایا کرتے تھے۔ لیلی اکثر ڈھونڈ کر ہتھوڑی لاتی ڈیڑھ انچ کے کیل منگوائے جاتے اور اکھڑے ہوئے تختوں کو جوڑا جاتا۔ عین سامنے اونچی دیوار تھی جس کے ساتھ ساتھ متوازی وہ بار بندھی تھی جس پر دن بھر سمندری ہوائیں گیلے کپڑے اڑاتی رہتی۔

سٹور کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ اس میں جب کبھی ضرورت پڑتی ایک آدھ چارپائی بھی ڈال دی جاتی۔ اور یہ ضرورت عام طور پر زرقا کو ہی پیش آتی۔ اس کی دونوں بہنیں جب اتنی باتیں کرتیں کہ اس کے سر میں درد ہونے لگتا تو وہ چپکے سے اپنا چھوٹا اٹیچی اٹھاتی اور خاموشی سے اسٹور کی راہ لیتی۔ اٹیچی اٹھانا اس لیئے ضروری تھا کہ اس میں معظم کے خطوط تھے۔ گو لیلی اور شیریں ان خطوط سے واقف تھیں۔ لیکن پھر بھی وہ انہیں ان کی دستبرد سے محفوظ رکھنا چاہتی تھی۔ سٹور میں دیواروں کے ساتھ لنٹل کی دو دو سلیں لگی ہوئی تھیں اور ان پر گھر بھر کے صندوق رکھے تھے۔ لکڑی کے صندوق، چمڑے کے یخدان، فائبر کے سوٹ کیس اور بید کے مستطیل بکس۔ ان کے درمیان اتنی کھلی جگہ تھی جہاں زرقا اپنی چھوٹی سی چارپائی بچھا کر لیٹ سکتی تھی۔

یہاں چارپائی پر لیٹ کر بیس واٹ کے مدھم بلب میں معظم کے خط پڑھ کر اسے عجیب طرح کا سکون ملتا۔ اسے لگتا جیسے مجو دنیا کے تمام مردوں سے مختلف ہے۔ وہ گوشت پوست کا بنا ہوا مرد نہیں، ہجر کا ایک شعر خیام کی ایک رباعی ہے۔ اک حسین پھول ہے جو لمس سے ہمیشہ مرجھا جایا کرتا ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے