حلب کو میرا آخری سلام ۔۔۔ الیاس بابر اعوان

اے شہرِ بے پناہ تری شامِ گرد باد

شوریدہ سر خرابوں کی تعبیرِ صبح ہے

دہلیز پر کھڑی ہیں مناجاتِ نوحہ خواں

پتھر کے سازِ ہفت کی تصویر جیسے گنگ

ایک لہرِ بے کنار ہے کہتے ہیں جس کو خوں

سینوں کے تار و پود کا سودائے خام ہے

عالم کنارِ آب ہے پر تشنہ کام ہے

اے تار تار ہوتے افق تیری خیر ہو

رہنا گواہ خاک نشینوں کے خوف کا

تعمیر جن پہ ہوں گی روایاتِ رنگ و بو

توپوں کے سرخ ہونٹ بنیں گے حکایتیں

چشمہ بنے گی لہرِفسادات کی وعید

خیمے تنے رہیں گے یونہی خُوئے امن کے

اک آگ کی لپک سے بدل جائے گا زماں

اور ہم بِنائے مصلحت اندیش، خوشہ چیں

تصویرِ التزام کے بے کار حاشیے

زنجیر کو حمائلِ ایماں کیے ہوئے

آشفتگانِ دہر کی بے نام خاک ہیں

اے شہرِ بے پناہ تجھے آخری سلام

٭٭٭

One thought on “حلب کو میرا آخری سلام ۔۔۔ الیاس بابر اعوان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے