نظمیں ۔۔۔ شبانہ یوسف

مجرم

__________________________

 

وہ مجرم ہیں جن کے

دلوں میں ہر اک پل

دہکتے تخیّل کے شعلے سے جلتے ہیں

جیون کی سچائیوں کو

اُگلنے کی خاطر  یہ  لاوے مچلتے ہیں

آتش فشاں جیسے پلتے ہیں۔ ۔ ۔

اگر چہ خیالوں کی ان چمپئی تتلیوں کے پروں پر

جمی راکھ۔ ۔ ۔

ہوا کی نڈر آہٹوں پر خموشی سے اُڑتی ہے پھر بھی

ہراساں زمانے کی سہمی

سماعت کے در چونک اُٹھتے ہیں جیسے

سگِ راہ ہلتے ہوئے پات پر بھونک اُٹھتے ہیں

مخفی رہیں کس طرح سے ہمارے بطن میں پنَپتے

قلم کی محبت کے جذبے جو فقط ایک ہی حرف سے آشکارا ہوئے جاتے ہیں

گم شدہ جنتوں کی کہانی سناتے ہیں جنت کے قصّے میں پھر

سانپ تو یاد آتے ہیں

جو فطرتاً ڈستے جاتے ہیں  یہ  کون جانے

کہ ہم عورتوں کی سسکتی ہوئی خواہشوں کے صحیفے کیونکر

سدا پارسائی کے لفظوں سے بھر کے بھی

جیسے ہی شعروں میں ڈھلتے ہیں

رسوائیوں میں بدلتے ہیں

یہ  لفظ تو سائے ہیں معنی کے

معنویت کا ادراک بھی جرم ہے

سو ہمیں آخری سانس تک سنگساراس لیے ہو تے رہنا ہے

کہ ہم نے ’’عورتیں ‘‘ ہو کر

قدامت پرستوں کے عہدِ جدید میں

قلم، لفظ اور  معنی سے چاہتوں کا

تعلق رکھا ہے !!!

٭٭٭

 

 

 

 

اُس نے پھول بھیجے ہیں

__________________________

 

میں اکثر سوچتی تھی

’’وہ مجھے سوری کہے گا‘‘

آج اس نے پھول بھیجے ہیں

نہیں ! میرا جنم دن تو نہیں

یہ  چاہت کا دن بھی نہیں

اور چاہتوں کا دن منانے کے لئے

اک جاں نثاری کے ہنر سے آشناساتھی ضروری ہے

مگر روشن دنوں، بھیگی رتوں

کھلتے شگوفوں اور محبت سے اُسے کوئی محبت ہی نہیں

کہ بر سوں پہلے ہی مکر سے پُر ہواؤں نے

ازل سے موسموں کی آشناؤں نے

حسیں چاہت کے رنگوں سے بنے سارے گھروندے توڑ ڈالے تھے

مقدر پھوڑ ڈالے تھے

مگر میں نے وفا کی خواہشوں میں گم

جفا کی بارشوں میں نم

خود اپنے دل کو سمجھانے کی خاطراس کی نفرت سے بھری باتوں کے

اُن کم خواب راتوں کے

فقط اپنے ہی مطلب کے معانی بھی نکالے تھے

مگریوں کب دکھوں کے چاند ڈھلنے والے تھے

پھر بھی اُسے دل نے کبھی جو چھوڑنا چاہا

ہر اک رشتہ جفا سے توڑنا چاہا

تو کتنے ناگ خدشوں کے ارادوں کے بدن میں سر سراتے تھے

رگوں میں خوف کا دریا بہاتے تھے

سماعت میں کہیں لفظوں کے ریشم جال بنتے تھے

روایت کی۔ ۔ ۔ کبھی عزت کی دیواروں میں چُنتے تھے

کہیں معصوم چہرے مسکراتے تھے

مجھے بچّے نظر جب آتے تھے اُس پل سبھی غم بھول جاتے تھے

مگر میں سوچتی تھی کبھی تو ’’وہ مجھے سوری کہے گا‘‘

اور اب دیکھو

سسکتی سوچ کے پیلے بدن پر آج کیسی یہ  گلابی رُت اُتر آئی ہے

چاندنی بھی چارسو گدرائی ہے

کہ آج اس نے پھول بھیجے ہیں

بہت ہی خاص دن ہے سکھی

یہ  سفرِ آخرت کا دن

بنا ہے معذرت کا دن

اور اس نے پھول بھیجے ہیں !!!!!

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے