ماخذ : ایک اسلوبیاتی مطالعہ ۔۔۔ الیاس بابر اعوان

 

Stylistics یا اسلوبیات ایک ایسا تنقیدی زاویہ ہے جو کسی متن میں لسانی سائنسی اصولوں کی دریافت اور ان کے تجزیے کا نام ہے۔ یہاں لسانیات سے مراد زبان کی ساخت اور اس کا سائنسی طریقہ کار ہے نہ کہ اس کا انفرادی استعمال۔ اسلوبیات کی ترویج بیسیویں صدی میں ہوئی اور اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ زبان کے تکنیکی محاسن جیسے کہ گرامر، صرف، نحو ، صنعتِ مجاز، تشبیہ، استعارا، علامتیں اور متنی ساختیں تخلیقی اظہاریے پر کیسے اثر انداز ہوتے ہیں۔ معاصر ادبی مباحث میں کسی متن کے اسلوبیاتی مطالعے بارے ایک نکتہ بہت نمایاں ہے وہ یہ کہ کیا اسلوبیاتی دریافت کو تنقیدی تھیری سمجھا جانا چاہیے کہ نہیں ؟ کچھ نقاد اسے لبرل ہیومنزم یعنی قبل از تھیری ہی کی ایک صورت گردانتے ہیں، اس کی مختلف وجوہات ہیں، پہلی یہ کہ دونوں میں ایک مشاہداتی تعصب پایا جاتا ہے جس کی بنیاد Intiution پر رکھی جاتی ہے۔ اور اس میں کلامی اظہاریوں اور رویوں کو ایک لحاظ سے مہابیانیوں کا درجہ دے دیا جاتا کہ جس کی وجہ سے متنی اظہاریوں کی کوئی خاص لسانی گرفتاری وجود میں نہیں آپاتی۔ دوسری بات یہ کہ اسلوبیات دیگر تھیریز کی طرح معاصر ثقافتی بیانیوں اور مباحث جیسے کے فیمینزم مابعد فیمینزم، مارکسزم، ، پسِ ساختیات، مابعد نو آبادیات، ماحولیاتی تنقید، وغیرہ کا حصہ نہیں بن پاتا یعنی جب متن، ڈیٹا اور دروبست ہی ادبی مباحث کا حصہ ہوں تو دیگر ثقافتی بیانیے الگ سے رہ جاتے ہیں جو ایک طرح سے متن کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسلوبیاتی مباحث سے دیگرادبی ثقافتی بیانیے کشید نہیں کیے جا سکتے۔ کسی بھی تخلیق کار کے ہاں اس کے مستعمل Collocation , lexicalization وغیرہ کا ڈیٹا بہرحال کسی ادبی ثقافتی بیانیے کو کشید کرنے میں مددگار ضرور ثابت ہوتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں ایک کارپس تخلیق کرنے کی ضرورت ہو گی۔ جیسے کہ بڑے تخلیق کاروں کے کارپس(ام المتن) سے مخصوص ڈیٹا تلاش کر کے ان کی نظریاتی تشکیل بھی کی جا سکتی ہے۔ تیسری بات یہ ہے اسلوبیاتی مباحث Floating- signifier کے نظریے سے متفق نہیں ہوتے، یعنی وہ اس تصور کا ارتداد کرتے ہیں کہ زبان میں قدرتی طور میں معنوی اور اختراعی لچک موجود ہوتی ہے۔ اردو غزل اس لحاظ سے مزید مشکل کا شکار ہے کہ یہاں Collocation کے لیے بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یعنی فارسی ہندی، ہندی عربی مرکب بنانے کا مسئلہ اضافتوں کے مسائل، اور لسانی ماحول۔ لسانی ماحول سے مراد کسی شعری تخلیق میں تواتر سے استعمال ہونے والے الفاظ کا لسانی تاریخی ماخذ اور اس کے جوڑے ہیں، مثلاً کسی غیر مردف غزل میں مصارع میں فارسی لفظیات کے بھرمار ہو اور اس کے قوافی ہندی زبان کے ہوں تو عمومی اعتراض اس عُجب پر ہو گا حالانکہ اس میں اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں بنتی لیکن ہمارے ہاں روایتی تاثراتی تنقید میں اس کی گنجائش بہرحال نکل آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسلوبیاتی تنقید ہے کیا؟ اس کے قواعد و ضوابط کیا ہیں ؟ اور سب سے اہم بات یہ کہ اسلوبیاتی دریافت کا فائدہ کیا ہے ؟ اسلوبیاتی تنقید بارے کچھ بنیادی معلومات ابتدا میں زیرِ بحث رہی ہیں، لیکن آسان تر معنوں میں اسلوبیاتی تنقید کسی بھی تخلیق کارکا اپنی تخلیقات میں زبان کا برتاؤ اور اس کی سائنسی اصولوں پر پرکھ کا نام ہے۔ اور اس کے قواعد و ضوابط کیا ہیں ؟ اس کے قواعد و ضوابط عمومی طور پر مستعمل گرامر کے ہی قواعد ہوتے ہیں لیکن اسلوبیاتی دریافت کے لیے اسلوبیاتی گرامر کے کچھ اصول وضع کیے گئے ہیں۔ ( یاد رہے کہ اسلوبیاتی مطالعوں کے لیے کارپس اور Computational language اور اس کی مہارتوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے )، وگرنہ یہ ایک طرح سے انتہائی مشکل کام ہے کہ کسی ایک تخلیق کار کے تمام کام کا لفظ لفظ مطالعہ کرنا اور اس کے ہاں زبان کی ساخت، اسلوبیاتی عناصر، Texture ، Interval اور Modulation کا ریکارڈ رکھنا۔ اس ضمن میں سب سے اہم کام سافٹ ویئر انجینئرز ادا کرتے ہیں جو ایسے سافٹ ویئرز بناتے ہیں جو کسی عہد یا انفرادی تخلیق کار کے کارپس سے Lexical Items , concordance , collocation , Lemma , annotations , colligation وغیرہ کا ریکارڈ رکھتے ہیں تاکہ بعد ازاں متن کا مطالعہ کسی بھی قسم کی دریافت میں معاون ثابت ہو سکے۔ تاہم ان سب کے باوجود۔ فرانسیسی نقاد بوفون نے اسلوب سے متعلق ایک تاریخی جملہ کہا :

"Style is the man himself”

گویا داخلی اور خارجی عناصر جو اسلوب متعین کرتے ہیں ان کی کلی صورت کی تفہیم کا اہتمام اسلوب کہلاتا ہے جو کسی بھی تحریر کو قطعی، مختصر، پر لطف، پر تکلف، سادہ، مترنم، وغیرہ بناتا ہے۔ اسلوب اصل میں تخلیق کار کی جمالیاتی شبیہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلوبیاتی مطالعے کا فائدہ کیا ہے ؟ اس کے کچھ فوائد درج ذیل ہیں :

۱۔ یہ کسی تخلیق کار کے ہاں زبان کے مروج اصولوں کا باہم ادغام، تشکیل یا ارتداد کی معلومات دیتا ہے۔

۲۔ Schema theory کے تناظر میں اسلوبیاتی مطالعہ ہمیں اس بات کی درک دیتا ہے کہ کیسے ایک تخلیق کار World knowledge کو موجود schemas کے ڈھانچوں میں نیا کر کے دکھاتا ہے اور پس متن اس کے ذہن میں کیا چل رہا ہوتا ہے۔

۳۔ اسلوبیاتی مطالعہ کسی ایک عصر میں تخلیق کاروں کے جتھے میں سے انفرادی اور متنی ترفع اور تعینِ قدر میں مدد فراہم کرتا ہے۔

اب دیکھتے ہیں کہ دلاور علی آذر نے اپنے ہاں زبان کو کس طرح برتا اور اس کا اسلوب کیسے دریافت اور متعین کیا جا سکتا ہے۔ اس عمل کے لیے ہمیں لسانیات کی بنیادی اصطلاحات کا سہارا لینا ہو گا جن کے طفیل اسلوبیاتی دریافت ممکن ہو سکتی ہے :

۱۔ Lexeme ، لیگزیم زبان کا بنیادی اور خالص معنوی لفظی اظہاریہ ہوتا ہے جو دیگر اقسام کے Inflections سے پاک ہوتا ہے، انگریزی میں اس کی مثال کچھ یوں ہو گی کہ see ,saw , seen , seeing ایک ہی لیگزیم see کی بنیادی شکلیں ہیں۔ تخلیق کار اپنے تخلیقی الہام کی بنیاد پر بنیادی معنوی ایجنٹ کی معنوی ترفع کا باعث بنتا ہے۔ لیگزیم چونکہ ایک معنوی ایجنٹ ہوتا ہے تو اس کے لغت یافتہ معنی سے احتراز برتتے ہوئے بعض تخلیقات نئی معنوی راہ کشید کرتے ہیں۔ شعرا کے ہاں یہ سعی نثر کی نسبت زیادہ ملتی ہے۔ شاعری اور خاص کر اردو شاعری اور پھر غزل میں لفظ کی برت کا معاملہ زیادہ پیچیدہ مگر زرخیز ہوتا ہے۔ اردو میں استعارا اور صنعتِ مجاز کا استعمال لفظ کے معروف معنوی نظام میں یکسر تبدیلی لے آتے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ شاعر نے کیا ایک لفظ کے غیر معروف معنوی نظام کو دیگر مقامات پر بھی اتنی ہی آسانی سے برتا ہے یا یہ محض اتفاقی کار روائی تھی۔ اگر ایسا عمل تواتر سے ملے تو یہ اس کے اسلوبیاتی نظام کی تشکیل کا ایک منظر کشید کر سکتا ہے۔ دلاور علی آذر نے اردو غزل کے معروف لسانی اور معنوی نظام کی ہی پیروی کی لیکن اس میں اس نے فی زمانہ لسانی اور معنوی عُجب سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے روایتی اسلوب میں ہی نیا کرنے اور کہنے کی سعی کی ہے جو کہ معاصر غزل میں مشکل کوشش تھی۔ مثال کے طور ہر ایک مصرع دیکھیے :

ہوس سے جسم کو دوچار کرنے والی ہوا

ہوا ایک ایسا ایکٹو ایجنٹ ہے جو اسم کی سطح پر ایک ایسے فعل کا متقاضی تھا جو اس کو محرک ثابت کرے جیسے کہ ’’ چلنا ‘‘۔ دوچار کرنا روایتی معنوی نظام میں ہوا کے ساتھ ایک غیر معروف lexicalisation ہے، اسے Under-lexicalisation کہا جاتا ہے۔ Fowler۲ کے نزدیک یہ ایک ایسا عمل ہے ’’ جب کسی خاص اظہاریے کے لیے مناسب لفظ یا لفظوں کا مجموعہ دستیاب نہ ہو تو تخلیق کار نئی لفظیات خود اختراع کر لیتا ہے۔ گرفتار کرنا اور گرفتار ہونا روایتی معنوی نظام میں منفی تناظر میں مستعمل ہیں، لیکن یہ ہوا جس لائف ایجنٹ کو ایک خاص نامیاتی کیفیت سے دو چار کر رہی ہے وہ اس عمل سے نمو یاب ہو رہا ہے۔ گویا ہوا کا تحرک حیات بخش ہے اور اس کا جمود بھی حیات بخش ہے۔ پورا شعر یوں ہے :

ہوس سے جسم کو دوچار کرنے والی ہوا

چلی ہوئی ہے گنہگار کرنے والی ہوا

بظاہر شعر کا معنی تناظر تو منفی دکھائی دیتا ہے یعنی ایسی ہوا چلی ہے جس نے جسم کو ہوس سے دوچار کر دیا ہے اور اس مڈ بھیڑ سے جسم گنہ گار ہو گئے ہیں۔ لیکن یہ شعر معروف تلمیحاتی تناظر سے ہٹ کر نہیں دیکھا جا سکتا۔ جسم کا ترفع ہی ہوس میں ہے، وگرنہ جسم بغیر ہوس کے محض ایک پتھر ہے، بلکہ پتھر بھی نہیں ہے کہ پتھر بھی پتھر کا حریص ہے اور باہم اختلاط سے پتھروں کی نمو ہوتی ہے اور ان کی شکلیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں، گویا جسم بغیر ہوس کے محض موت ہے۔ اور موت میں کوئی کشش نہیں، گناہ انسان ہونے کی دلیل ہے۔ انسان گناہ سے ورا نہیں، بلکہ ایک لحاظ سے گناہ انسانی حسن ہے جس کے بعد انسان کا اپنے خالق کے ساتھ تعلق واضح ہوتا ہے، انسان گناہ کی سیڑھی پر چڑھتا ہے تو اُس کا خالق اُسے بچاتا ہے، اسے گناہ سے بچنے کے لیے اپنے برگزیدہ پیغمبر بھیجتا ہے۔ لیکن ہوس بنیادی جبلی عنصر ہونے کے باوجود انسانی عقل کو ایک مشکل سے دوچار کر دیتا ہے۔ گناہ میں تلذذ اور حظ ہونے کے با وجود انسان جوہر کی پاکیزگی اسے روکتی ہے۔ لیکن حیات اور انسان کی نمو اسی گناہ اور پھر مراجعت پر منحصر ہے۔ ایسے ہی یہ شعر دیکھیے :

ہر ایک چیز کا رد سے قبول آتا ہے

بہت بھلی ہے مخالف ہوا ہمارے لیے

اس شعر میں شاعر نے ہوا کو ایک اور معنویت دی ہے، شاعر ہوا کی معروف لغت کا قائل نہیں اور ہوا جیسے ایکٹو ایجنٹ کی نئی تخلیقی تجسیم اس بات کی شاہد ہے کہ شاعر معنوی ٹیبوز کو توڑنے کی سعی کرتا ہے بھلے اس کی لسانی درو بست روایت سے بہت گہری جڑت رکھتی ہے۔ کسی بھی تخلیق کار کے ہاں لسانی، معنوی اور اظہاری انفرادیت اور اُس کا تسلسل ہی اس کا اسلوب طے کرنے کا ایک طریقہ ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور بہت سے تخلیق کار زبان کو نئی شکل دیتے ہیں، جلیل عالی کے ہاں مرکبات بغیر اضافتوں کے ملتے ہیں شوق ستارہ ، خواب دریچہ وغیرہ جو کہ مروج لسانی اور شعری روایت سے مختلف ہیں، ایسے ہی ظفر اقبال کے ہاں دیگر زبانوں کے الفاظ کو کھپانا، کچھ تخلیق کار خاص کر نثرنگار اپنے ہاں کچھ خاص اظہاریے لاتے ہیں مثال کے طور پر مستنصر حسین تارڑ کے ہاں ایسے جملے کثرت سے ملتے ہیں جو بار بار آتے ہیں مثلاً راکھ اور خس و خاشاک زمانے میں تو جملے تواتر سے آتے ہیں ’’

چار مرغابیوں کا خوشی سے کوئی تعلق نہیں ‘‘ میری مستنصر حسین تارڑ سے خود بات ہوئی اور میں نے اس myth کو کھولنے کی استدعا کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’’ چار مرغابیوں کا خوشی سے کوئی تعلق نہیں ‘‘ کا کوئی معنی نہیں ہے، اور میں اِس بات پر خاصا حیران ہُوا۔ لیکن بار بار مطالعے سے یہ بات سمجھ آئی کہ ان کا کہنا در اصل یہ تھا کہ اس جملے کا کوئی متعین معنی نہیں، یعنی اس کی معنوی دریافت اس کے متنی تناظر کی محتاج ہے اور یہ ایک جملہ مختلف جگہوں پر مختلف معنی دیتا ہے، ایسے ہی تارڑ کے ہاں اسم معرفہ کے فوراً بعد اِسمِ ضمیر کا استعمال محض اتفاقی نہیں بلکہ اہتمام سے ملتا ہے، یہ کوشش اس لیے بھی کی جاتی ہے کہ قاری کی نظر ایسے متنی اہتمام کو جذب کر لے اور جب بھی کوئی متنی اظہاریہ اپنے کُل سے ہٹ کر کہیں دستیاب ہو تو اسلوبی سطح پر اِس کی پہچان آسان ہو جائے۔ نظم میں اقبال کے بعد راشد اور خاص کر اختر حسین جعفری کی نظموں کے ٹکڑے ہماری پہچان میں آ جاتے ہیں، ایسے ہی میرا جی کی نظمیں خاص کر ہندی متھ سے متعلقہ پہچان کی وجہ سے نمایاں ہو جاتے ہیں، سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ سب محض اتفاق نہیں ہے، لیکن غزل میں اپنا اسلوب بنانا خاصا مشکل کام ہوتا ہے، ظفر اقبال اس ضمن میں کامیاب رہے لیکن ایک مشکل جو اس ضمن میں سامنے آتی ہے کہ اسلوبی عُجب ہونے کے باوجود فہم میں نہیں آتا کہ اس کی وجہ شعری حظ ہے جس کی وجہ سے اسلوبی اختراع پس منظر میں رہ جاتا ہے۔ شاعروں میں اسلوب کی دریافت بہر حال ایک معمہ ہے۔ متن کی معنوی حتمیت تخلیق کار کے میلان اور طبعی عناصر کا امتزاج ہوتی ہے۔ مولانا شبلی، مولانا آزاد، سرسید اور حالی کی تخلیقات کو پڑھ کر ہم ان کی داخلی اور خارجی دنیا تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں، ایسے ہی انگریزی میں بیکن کے انشایئے پڑھیں توا س کا ایک ایک جملہ ایک مکمل انشائیہ کہلایا جا سکتا ہے۔ سید عابد علی عابد اسلوب بارے کہتے ہیں :

"اسلوب در اصل فکر و معنی اور ہئیت و صورت یا ما فیہ و پیکر کے امتزاج سے بنتا ہے۔۳”

دلاور علی آزر کی کتاب ماخذ میں کل ایک نعت اور ۹۲ غزلیات ہیں۔ جس میں سے ۱۳ غزلوں کی ردیف نجی نوعیت کی ہے یعنی سیلف کا قضیہ ہیں۔ ۰۷ غزلوں کی ردیف کائنات کے مختلف اظہاریوں بارے ہے جیسے کہ ہوا، ستارے، سمندر، خلا، خاک، دھوپ، آسمان جب کہ اکتالیس غزلوں کی ردیف بیانوی اظہاریہ ہے جیسے کہ :

چراغ جلتے ہیں، لکیر کھینچتا ہے، کے ستارے ہیں، کے خوف سے، عجب خمار تھا، چلتی ہے، اک سمندر ہے، پہ خاک ہے، گئے ہیں، کہتا ہے، سے گزرے گا، جاتا ہے، ٹوٹتا تھا، والا ہے، دی جائے، دینا ہے، بناتا ہُوا، رکے ہوئے ہیں، رکھی ہے، الگ رکھا ہے، دماغ میں ہے، کچھ ایسا تھا، بھرے ہوئے ہیں، ملتے ہیں، آتا ہے، چلی جائے گی، قریب تھا،

جب کسی شاعر کے ہاں ایسی ردیف ملے جسے ہم descriptive کے معنوں میں لیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شاعر جو کہ ایک تخلیق کار بھی ہے وہ اپنی فکری Evolution کے عمل سے گزر رہا ہے۔ یہ حرف و لفظ کی دنیا اصل میں انسان کا اپنا سماجی مقام اور سماج میں اپنے مقام سے آگے کی سفر کا نام ہے جو قدم بہ قدم اُس پر نئی نئی شبیہیں، بیانیے اور فہم کی صورتیں آشکار کرتا ہے۔ تخلیق کار کا شعوری تجربہ اور ایک عام انسان کے شعوری تجربے میں بنیادی فرق آشکار شدہ حقیقتوں کے اظہار کا ہے، اور اظہار بھی ایسا جسے ہم تہذیبی جمالیات کہتے ہیں، لیکن اسولب جمالیاتِ محض کا پیروی کا نام نہیں، اسلوبِ میں انفرادی عُجب اور مساعی کا نظر آنا از حد ضروری ہے۔ اسلوب کا تعین محض لسانی تصنع یا اختراعیت کا نام نہیں بلکہ سامنے کے لسانی تجربے کی وارفتگی اور اس کا نیا پن ہی تخلیق کار کا اسلوب متعین کرنے میں مدد دیتا ہے۔ آزر کے ہوا میں تیر چلانے کی کوشش نہیں ہے بلکہ آزر زبان کے موجود رسرمائے کو اپنے تجربے سے جوڑ کر نیا کرنے کا فن جانتا ہے۔ سمندر، کائنات، آسمان، ستارے وغیرہ محض مندر، کائنات، آسمان اور ستارے نہیں ہیں۔ mythsسے لے کر آفاقی آدرش تک اور پھر نئے سماجی علوم کے عبوری بیانیوں تک ایک سفر ہے جو ان مظاہر کے معنی متعین کرتا ہے، دلاور علی آزر نے ان استعاروں کی نئی معنوی دریافت میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے اس شعر کی تفہیم ضروری ہے۔

ہوس سے جسم کو دوچار کرنے والی ہوا

چلی ہوئی ہے گنہگار کرنے والی ہوا

ہوا حیات کا استعارا ہے، آذر نے یہاں ہوا کے نئی معنی متعین کیے ہیں، یہاں یہ محض اسم کے طور پر نہیں آیا۔ اگر آزر کی ابتدائی بیس غزلوں کا تجزیہ کیا جائے تو اس کے ہاں ہمیں

بنیادی اسم : ۲۵ عدد، بنیادی فعل:۱۵ عدد ملتے ہیں، یعنی اس کی ابتدائی غزلوں میں انسانی جبلی عملیت سے زیادہ انکشاف کا عمل غالب نظر آتا ہے، یہ امر اس بات کی عکاسی کرتا ہے جس کا اظہار پہلے کیا جا چکا ہے کہ اس کے ہاں سماج، کائنات اور ذات کا ارتقائی عمل انکشاف کی سطح پر نمایاں نظر آتا ہے۔ اور وہ چیزوں کو زیادہ describeکرتا نظر آتا ہے۔ میرا قیاس ہے کہ اردو ادب میں نظم کی نسبت غزل میں انکشاف کا عمل بہت زیادہ غالب ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ نظم میں ایک استعارا شروع سے آخر تک اپنی توسیعت سے سرشار رہتا ہے لیکن غزل میں مصرع در مصرع استعارتی نظام ہوتا ہے جو بنیادی طور پر ایک انکشافی توسیعت ہے جو آزر سمیت کئی شاعروں کے ہاں ہے تاہم آزر اسے بیانِ محض نہیں بناتا۔ اور یہ ایک دانستہ عمل ہے، یہی عمل اگر متن میں تواتر سے وقوع پذیر ہو تو اسلوب کی بنا پڑتی ہے۔ اسلوب اختراع کرتے ہوئے ایک تخلیق کار کے ذہن میں درج ذیل نکات ہوتے ہیں :

۱۔ متعلقین

۲۔ موضوعات اور موضوعاتی اسباب

۳۔ طریقہ کار

۴۔ لہجہ

۵۔ جذبہ

۱۔ متعلقین : متعلقین سے مراد وہ قارئین جو متن کی قرأت کریں گے اور ان سے معنی کشید کریں گے۔ اگرچہ تخلیقی عمل ایک فی البدیہہ عمل کا عبوری دورانیہ شمار ہوتا ہے تاہم تخلیقی متن کی تشکیلِ دگر سے ان کار ممکن نہیں۔ ورڈزورتھ کے تصورِ تخلیق اور شعر سے نکلنے کی ضرورت ہے، یہی تشکیلِ دگر شاعر کے اسلوب کو متعین کرتی ہے اور اسلوب کا چناؤ ایک لحاظ سے دانستہ اور غیر دانستہ عمل ہے۔ متعلقین کے لیے ایک خاص لسانی ماحول کشید کرنے کے لیے وہ متنی اظہاریے چننا جو تخلیق کار کو منفرد بنائیں در اصل تخلیق کار کے سابقین اور مسابقین دونوں پر منحصر ہوتا ہے۔ عمومی طور ایک تخلیق کا مروج شعری تہذیبی روایت کے زیادہ قریب ہوتا ہے اس کی معروف لفظیات اس کے ہاں در آتی ہیں۔ مثلاً آج کا شعری رویہ یا مابعد ظفر اقبال شعری منظر نامہ ترکیب سازی سے احتراز کا رویہ ہے۔ لیکن آذر کے ہاں معروف شعری روایت کا اثر دکھائی دیتا ہے۔ جو اس کے ہاں ناسٹیلجیا اور غالب شعری روایت کے تتبع پر منتج ہوتا ہے۔ نعت کی تمام ردیفیں اضافت کی مرہونِ منت ہیں۔ اس کے علاوہ یہ تراکیب دیکھیں:

آئینۂ تخلیق، روزنِ دیوار، پابندِ شب و روز، خطۂ چشم، قافلۂ تیر و تفنگ، دیدۂ خوں بار، گریزِ لفظ، شیرازۂ آہنگ، تعمیرِ سماعت، فصیلِ شہرِ خواب، بابِ سخن، فسونِ شام و سحرصورتِ امکاں، صبحِ وصل، درِ خواب، گلِ تر، برسرِ خواب، چادرِ ابرِ تعلق، شاخِ تخئیل، سوادِ ساحل ، سرِ دشتِ بدن ، شب امکاں، شورِ سگاں، وادی ء کیسر، چراغ کم سخنی، سرِ صفحۂ ہستی، آغازِ داستاں، حالِ دل، فرطِ حیرت، رزقِ زیست ایسے ہی آئندہ ردیف اولی غزل بھی اضافت کے زور پر قائم ہے۔ جام جم، دمِ طلوع، فریب عارض و لب، نشۂ رنگ، موجِ باد بہاری، وغیرہ ( ساری کی ساری تراکیب یہاں پیش نہیں کی گئی ہیں )

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تخلیق کار نے مندرجہ بالا تراکیب کیوں اختراع کیں ؟ اس کے متعلقین کون ہیں جو ان سے معنی کشید کر یں گے ؟ اور کیا ان تراکیب کا نفسِ مضمون کوئی مجسم یا ٹھوس موضوع ہے یا مبہم، غیر واضح اور floating image ہے ؟ میں نے متذکرہ بالا تراکیب کی معنویت بارے مختلف عمر اور علم کے لوگوں سے دریافت کیا تو صورتِ حال خاصی پریشان کن تھی، پھر ان کے سامنے ان تراکیب کے مصارع رکھے گئے تو بھی کافی مشکلات پیش آئیں، اس کی بہتی وجوہات سے ایک وجہ فی زمانہ غیر مفرس اور غیر معرب شعری آسانی بھی ہے۔ سلیس لفظی تشکیل سے عین مختلف اظہاریہ آزر کے اس شعری رویے پر دال ہے جو اسے عمومی شعری جمالیات کا پیرو نہیں بناتا، جس کی ایک وجہ کمرشل ازم بھی ہے۔ غالب، اقبال، راشد، فیض اور اختر حسین جعفری وغیرہ کے ہاں جس زبان کا چلن ہے اس پر اعتراض کرنا ایک انتہائی معتبر ادبی روایت کا ارتداد ہے۔ گویا آزر اسی شعری لسانی روایت کا تابع ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کے ہاں تازہ لسانی رویہ نہیں، بلکہ حیرت انگیز حد تک ان دونوں رویوں کا اختلاط ہے۔ درج ذیل شعر دیکھیے :

عجیب رات اُتاری گئی محبت پر

ہماری آنکھیں تمہارے چراغ جلتے ہیں

اس شعر سے شاعر کے داخل تک رسائی اس متن کو Valid کرنے کی کوشش ہو گی۔ محبت پر رات کا اترنا مختلف معنوں میں سمجھا جا سکتا ہے، جیسے کہ محبت پر رات کا اترنا یعنی محبت کی آزمائش، ایسے ہی ہجر، وجودی تجربہ، حتیٰ کہ وصل کی کیفیت کو بھی اس پر منطبق کیا جا سکتا ہے۔ آنکھ کا جلنا عمومی طور پر منفی جب کہ چراغ کا جلنا ایک مثبت عمل ہے تاہم رات کی بائنری کے اہتمام کی وجہ سے ہم دونوں کو مثبت ہی لیتے ہیں، لیکن لفظ ـ”عجیب” ایک غیر فطری، غیر یقینی، غیر ضروری اور ناپسندیدہ عمل کے طور پر لیا جائے گا۔ یعنی رات کا اترنا محبت کی نمو یابی کا عمل ہے جس میں چراغ اور آنکھ کا جلنا شاعر کے نزدیک ضروری نہیں ہے لیکن یہ رات عجیب ہے کہ اس میں آنکھ اور چراغ روشن ہیں۔ ہمیں اس شعر کے ذریعے شاعر کی داخلی کیفیت تک اترنا ہو گا۔ ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں :

"ایک لکھنے والے کی داخلی خصوصیات دوسرے سے الگ ہوتی ہیں۔ یہ داخلی ( یعنی مصنف کا ذہن، اس کا کردار، اس کا مزاج، اس کا علم، رجحان طبع) بیان کے خارجی عناصر پر اثر ڈالے گا اور زبان میں الفاظ کا انتخاب ترتیب کا ایک ڈھنگ، یہ خالص داخلی محرک کا نتیجہ ہے "۔ ۴

ایک تخلیق کار کا باطن اور داخل ایک سماج اختراع یا Construct ہوتا ہے جس میں خارج کا بہت گہرا عمل دخل ہوتا ہے۔ اپنے عصر سے جڑے ہوئے تخلیق کار کا تخلیقی اظہاریہ اس بات کو طے کرتا ہے کہ بطورِ فرد اس کا سماجی مقام اور عملیت کیا ہے ؟ آزر کے ہاں عمومی رویہ متشدد، احتجاج کرنے والا، اور حاوی ہونے والے فرد کا نہیں ہے، نہ ہی رونا رونے والے کا، نہ ہی خود ترحمی کا بلکہ سوال اٹھانے والے فرد کا ہے۔ وہ تمام لایعنی جدلیاتی مباحث یا تبدیلیاں جن کا براہ راست تعلق انسانی فکر اور وجدان سے ہے آزر ان پر دانش مندانہ سوال اٹھاتا ہے اور عُجب کی نشاندہی کرتا ہے۔ خود کو ایک طرف رکھ دیتا ہے کہ بطورِ فرد اس کا اپنا وجود کسی مابعد جدید اختراعی شناخت کا حصہ نہیں ہے وہ پہلے سے ہے اس شعر کو دیکھیے :

مجھے مٹی سے علاقہ ہے اُسے پانی سے

گویا مل سکتے ہیں دونوں بڑی آسانی سے

اس شعر کے دوسرے مصرع میں لفظ گویا کا الف گرنا بھی قابلِ قبول ہے کہ اس میں آزر Other کو اپنے فکری محاذ پر شکست دینے کی بجائے اسے تسلیم کرتا ہے۔ معاصر سماجی بیانیوں میں دوسرے یعنی Other کا ان کار ہی آپ کے وجودی اظہاریے کی توسیع ہے لیکن اس باہم اختلاط سے دونوں شناختیں عدم شناخت کا شکار ہو جانے کا حتمی اندیشہ ہے۔ اردو غزل کی عمومی روایت میں یہ اختلاط اور امتیاز ہی متصور ہوتا ہے لیکن اسلوب کے ہاں پسِ متن دوسرے کے وجودی اظہاریے کو تسلیم کرنا اور اس کا احترام ایک شائستہ فکر، اور نرم خو تخلیق کار کا پتہ دیتا ہے جو ماخذ میں ایک غالب رویہ ہے۔ کسی متنی تخلیق کے شعری رویے Tone بارے علم اس میں مستعمل اسمائے صفات کی تعداد اور طریق سے ہوتا ہے۔ تخلیق کار کسی عمومی اور معمولی شے کے ساتھ اسمِ صفت لگا کر اپنے وجودی حصار سے احتراز برتتا ہے اور اگر یہ تواتر سے آئے تو ذات کی نفی کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ صوفی شعری روایت میں ذات کی نفی کا عنصر غالب ہے، آزر کے ہاں عمومی طور پر اسمائے صفات کے استعمال سے گریز کا پہلو ہے لیکن خود کو کائنات کے مقابلے میں غیر موجود بیان کرنا اس کے انکسار کا اشارہ ہے۔ لیکن فقر کی منزل یقیناً توفیق اور عطا ہے۔ درج ذیل شعر دیکھیے :

پاؤں توفیق سے رکھیے گا زمیں چلتی ہے

یہ خرابہ ہے فقیروں کی یہیں چلتی ہے

دلاور علی آزر اپنے فکری محاذ اور لسانی تجربے کو ساتھ ساتھ لے کر چلنے والا شاعر ہے، اس کے ہاں لسانی تجربے کے نام پر جمالیاتی توہین کا شائبہ تک نہیں ملتا، زبان کا ترفع اس کی نئی معنوی دریافت ہوتی ہے اور نئی معنوی دریافت اس کا نیا استعمال ہے جو آزر کے ہاں تواتر سے ملتا ہے۔ اس کے ہاں شعری حظ کی حرمت اور لسانی دروبست کا ایک ایسا حسین امتزاج ہے جو معاصر شاعری میں کم کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ اردو شعر کی روایتی تہذیب سے جڑت رکھتے ہوئے اس شاعر نے اپنا اسلوب متعین کرنے کی کوشش کی ہے جس میں کامیابی اس بات کی ضامن ہے شاعر نہ صرف شعری تجربے بلکہ لسانی توسیعت کا فن بھی جانتا ہے۔ اس کی شاعری یقیناً سب کے لیے نہیں لیکن سب کے لیے اس میں حظ کا پہلو ضرور موجود ہے۔ اس شعر کے ساتھ اس مضمون کو ختم کرتا ہوں :

ہوتا ہے کوئی اور ہی لفظوں کا دروبست

بنتا ہے کوئی اور ہی آہنگ ہوا میں

٭٭٭

One thought on “ماخذ : ایک اسلوبیاتی مطالعہ ۔۔۔ الیاس بابر اعوان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے