اس کی گنتی دس تک ہے
آج بھی دنیا بالک ہے
اس کے زریں ہاتھوں میں
مٹی کی اک صحنک ہے
میرے بوڑھے کاغذ پر
ننھی منی دیمک ہے
پیاسی ناگن کے سر پر
بھولا بھالا مینڈک ہے
کالی بجلی، سرخ گھٹا
دھاگے میں کچھ پیچک ہے
کیا ورثے میں پائے گی
یہ دنیا لے پالک ہے
چہرہ تو ہے آئینہ
لیکن دل پر چیچک ہے
اس چوراہے پر ساغرؔ
اب تک ٹوٹی عینک ہے
٭٭٭