غزلیں۔ ۔ ۔ عرفان ستار

 

زباں پہ حرف ملائم بھی، دل میں کینہ بھی

عجیب شخص ہے، اچھا بھی ہے، کمینہ بھی

 

لہو تو خیر کہاں کا،  یہ  جاں نثار ترے

بہائیں گے نہ کبھی بوند بھر پسینا بھی

 

وہاں گزار دیے زندگی کے اتنے برس

جہاں نہ مجھ کو ٹھہرنا تھا اک مہینا بھی

 

جلا بروز ازل جو بنام رب سخن

اُسی چراغ سے روشن ہے میرا سینہ بھی

 

درون دل انہی متروک سلسلوں میں کہیں

چھپا ہُوا ہے تری یاد کا خزینہ بھی

 

تمہارا ذوقِ سخن ہے خیال تک محدود

ہمیں تو چاہیے اظہار میں قرینہ بھی

 

بس ایک پل کو جو دربان کی نظر چوکے

مری نگاہ میں وہ بام بھی ہے، زینہ بھی

 

تلاش ہست میں معدوم ہو، کہ ممکن ہے

عدم کی تہہ سے برآمد ہو  یہ  دفینہ بھی

 

سوال یہ  ہے کہاں سے نتھر کے آیا ہے

یہ ایک اشک ہی پانی بھی ہے، نگینہ بھی

 

ملے گی کونسی بستی میں دل زدوں کو پناہ

کہ اہل درد سے خالی ہُوا مدینہ بھی

 

وہ خواہ ساحل فرقت ہو یا جزیرۂ وصل

کسی کنارے تو لگ جائے  یہ  سفینہ بھی

٭٭٭

 

 

 

 

کوئی بھی زعم، کوئی بھی دعویٰ نہیں رہا

خود پر مجھے کسی کا بھی دھوکا نہیں رہا

 

ایسا نہ ہو کہ آؤ تو سننے کو  یہ  ملے

اب آئے، جب وہ دیکھنے والا نہیں رہا

 

میری دعا ہے تجھ سے  یہ  دنیا وفا کرے

میرا تو تجربہ کوئی اچھا نہیں رہا

 

ماحول میرے گھر کا بدلتا رہا، سو اب

میرے مزاج کا تو ذرا سا نہیں رہا

 

کہتے نہ تھے ہمیشہ رہے گا نہ اتنا رنج

گزرے ہیں چند سال ہی، دیکھا، نہیں رہا

 

کیا سانحہ ہوا ہے  یہ  آنکھوں کو کیا خبر

منظر نہیں رہا، کہ اجالا نہیں رہا

 

کیوں دل جلائیں کر کے کسی سے بھی اب سخن

جب گفتگو کا کوئی سلیقہ نہیں رہا

 

دھندلا سا ایک نقش ہے، جیسے کہ کچھ نہ ہو

موہوم سا خیال ہے، گویا نہیں رہا

 

ویسے تو اب بھی خوبیاں مجھ میں ہیں ان گنت

جیسا اُسے پسند تھا، ویسا نہیں رہا

 

میں چاہتا ہوں دل بھی حقیقت پسند ہو

سو کچھ دنوں سے میں اسے بہلا نہیں رہا

 

عرفان، دن پھریں گے ترے، یوں نہ رنج کر

کیا، میری بات کا بھی بھروسہ نہیں رہا؟

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے