________________________________________
حضورؐ اکرم
فقیر اک پائے لنگ لے کر
سعادت حاضری کی خاطر
ہزاروں کوسوں سے آپؐ کے در پہ آ گیا ہے
نبیؐ بر حق
یہ حاضری گرچہ نا مکمل ہے
پھر بھی اس کو قبول کیجے
حضورؐ، آقائے محترم
یہ فقیر اتنا تو جانتا ہے
کہ قبلۂ دید صرف اک فاصلے سے اس کو روا ہے
اس کے نصیب میں مصطفیٰؐ کے در کی تجلیاں دور سے لکھی ہیں
نبیؐ ٔاکرم
وہ سایۂ رحمت پیمبرؐ
جو صف بہ صف سب نمازیوں کے سروں پہ ہے
اس کا ایک پرتو
ذرا سی بخشش
ذرا سا فیضان عفو و رحمت
اُسے بھی مل جائے
جو شہِ مرسلینؐ
دست دعا اٹھائے کھڑا ہے اک فاصلے پہ، لیکن
نمازیوں کی صفوں میں شامل نہیں ہے، آقاؐ!
٭٭٭
________________________________________
Reductio ad absurdumکے طریق کار سے ن۔م راشد کی چار نظموں کے سلسلے کو سمجھنے کی ایک شعری کوشش۔ ۔ راشد کی نیک روح سے معذرت کے ساتھ)
اے ’’ حَسن کوزہ گر‘‘
کون ہے تُو؟ بتا
اور ’’ تُو ‘‘ میں بھی شامل ہے، ۔ ۔ ’’ہاں ‘‘، اور ’’نہیں ‘‘
تو جو خود کوزہ گر بھی ہے، کوزہ بھی ہے
اور شہر حلب کے گڑھوں سے نکالے ہوئے
آب و گل کا ہی گوندھا ہوا ایک تودہ بھی ہے
جو کبھی چاک پر تو چڑھایا گیا تھا، مگر
خشک کیچڑ سا اب سوکھتے سوکھتے
اپنی صورت گری کی توقع بھی از یاد رفتہ کیے
چاہ نیساں کی گہرائی میں
خواب آلودہ ہے
اے حسن ؔکوزہ گر
کیا جہاں زاد بھی (جو کہ ’’نادان‘‘ تھی )
باکرہ تھی جسے تو نے نو سال پہلے
’’گل و رنگ و روغن کی مخلوق‘‘ سمجھا؟
چڑھایا نہیں چاک پر ( جس کمی کا تجھے آج بھی ہے قلق!)
تیری لگتی تھی کچھ؟
کیا جہاں زاد عطّار یوسف کا مال تجارت تھی، اسباب تھی؟
یا کہ بیٹی تھی، بیوی تھی؟یا داشتہ۔ ۔ ۔
یا طوائف کی اولاد تھی، جو ابھی
سیکھ پائی نہ تھی سودا بازی کا فن؟
پیش کرتی تھی ہر آتے جاتے کو اپنی ہنسی
نفع و سودا بازی کا فن سیکھتی تھی ابھی
آج نو سال کے بعد وہ نا شگفتہ کلی
پھول ہے، کیف و مستی میں ڈوبا ہوا
آج نو سال کے بعد وہ باکرہ
انشراحی بشاشت کے اطوار سب سیکھ کر
مال و اسباب، سودا گری کا ہنر جانتی ہے کسی بیسوا کی طرح!
اے حسنؔ، علم ہے تجھ کو کیا؟
ایک عطّار یوسف کی دکّاں نہیں
اغلباً ہر گلی اس کے قدموں کی آہٹ سے واقف تھی، جو
خود ’’جہاں زاد‘‘ تھی یا کہ ’’زادی‘‘ تھی۔ ۔ ۔ ۔
کس اجنبی کی؟ اسے خود بھی کیا علم ہے !
پوچھتے تو ذرا
سب پڑوسی تمہیں یک زباں یہ بتاتے، ’’ جہاں زاد‘‘ اور
’’دخت زر‘‘ ایک ہی نام ہوتا ہے کسبی کی اولاد کا!
اب مری بات سُن
میں کہ اک جسم میں تین روحیں لیے لکھ رہا ہوں یہ قصّہ جہاں زاد کا!
میں جہاں زاد بھی ہوں، حسن کوزہ گر بھی مرا نام ہے
اور قصہ بھی میرا قلم لکھتا جاتا ہے جیسے کوئی
عالم غیب سے اس کے نوک قلم پر ہے بیٹھا ہوا
اے حسنؔ یہ بتا
تو نے پہلی کنواری بلوغت کے سالوں سے بھی پیش تر
میرے ’’ نوخاستہ ‘‘ کورے، کچّے، کنوارے بدن کو
’’ خزاں اور کہولت ‘‘سے کیوں آشنا کر دیا؟
جسم میرا تو شیشہ نہیں تھا جو پھونکوں سے بھرتی ہوا
کے سہارے کسی کوزہ گر کے تخیل کے شیشے کے کوزے میں تبدیل ہو کر
جہاں ؔ زاد بنتا!
اے حسنؔ کوزہ گر
شہر کوزہ گروں کا، حلب کی سرائے، سفر کی امیں
جس میں سب کوزہ گر، شیشہ گر شب بسر ہیں تمہاری طرح
یہ بھٹکتے ہوئے کاروانوں کی مٹی میں ڈوبی ہوئی
اک سرائے کہ جس میں نہانے کا اک حوض ہے تو سہی
پر نہانے کا یہ ’’حوض‘‘ اک ’’بسترِ وصل ‘‘ ہے
اور بستر سرائے کے اس بند کمرے میں ہے
جس میں ہم ’’ دائرے میں بندھے حلقہ زن‘‘
رات بھر
(یعنی اک رات بھر، صرف اک رات بھر)
گرم، مرطوب، ’’آبی ‘‘، ’’عرق ریز جسموں ‘‘ میں داخل رہے
اور پھر ’’ہم کنار و نفس‘‘، تیرتے تیرتے جیسے گُم ہو گئے !
ہاں، حلب کی سرائے کے اس حوض میں
اپنے نو عمر، کچے، کنوارے بدن کو ڈبوتے ہوئے
’’خشک و تر مرحلوں ‘‘سے تجرد کی چادر بھگوتے ہوئے
خوف یہ تھا مجھے اس تر و تازہ غوطہ زنی میں
کہ نکلوں گا باہر تو اپنی یہ مریل سی ’’انگشت جاں ‘‘
اپنی مٹھی میں پکڑے ہوئے جاؤں گا میں کہاں ؟
اے حَسنؔ کوزہ گر
بات کر مجھ سے، یعنی خود اپنے ہی ہمزاد سے
اور ڈر مت حقیقت سے اپنے بدن کی
کہ ڈر ہی ترے جسم و جاں کو ہے جکڑے ہوئے !
’’تشنگی جاں ‘‘کی، یعنی خود اپنی ہی مٹھی میں پکڑی ہوئی
ادھ مری خشک جاں
العطش العطش ہی پکارے گی اب آخری سانس تک
کیوں کہ تو جسم اپنا تو اس ’حوض بستر‘ میں ہی چھوڑ آیا تھا
جس میں جہاں ؔ زاد کے جسم کی
گرم، مرطوب دلداریوں کی تمازت
ابھی تک تڑپتی ہے لیٹی ہوئی
اور جنّت کے موذی سی بل کھاتی چادر کے بد رنگ دھبوں میں
لپٹی ہوئی!
ایک شب ہی حسنؔ صرف کافی تھی تیرے
ہنر کی نمائش کی یا امتحاں کی، مگر
تیری پسپائی تیرا مقدر بنی
اور کرتا بھی کیا؟
سب بنے، ادھ بنے
’’سارے مینا و جام و سبو اور فانوس و گلدان‘‘ تُو
بس وہیں چاک پر ’’اَن جنی ‘‘ اپنی مخلوق کو ترک کر کے
حلب چھوڑ کر
سوئے بغداد کیوں گامزن ہو گیا؟
پیچھے مُڑ کر اگر دیکھتا تو حسنؔ
تجھ کو احساس ہوتا کہ یہ آل تو کوکھ میں ہے تری
تیرے کوزے، سبو، جام و ساغرسبھی
’’ ادھ جنے ‘‘ تھے ابھی
اور تو اس ’’ ولادت‘‘ کے فرض کفالت سے آزاد بھی کیا ہوا
جیسے ہر فرض سے دست کش ہو گیا
ہاں، ترا اس سفر پر نکلنا ضروری تھا
بغداد تھی جس کی منزل، (سکونت فقط نو برس کے لیے !)
(ہندسہ ’نو‘ کا گنتی میں اک رکن ہے، اک مفرد عدد!)
اے حَسن ؔکوزہ گر
تو بھی ’’الجھن‘‘ ہے ان عورتوں کی طرح
جن کو سلجھا کے کہنا کہ ہم نے انہیں پا لیا
واہمہ ہے فقط
کیوں کہ میرا بدن (جو کہ تیرا بھی تھا اور کوزوں کا بھی)
تو وہیں حوض میں ڈوب کر رہ گیا تھا اسی رات
جب ہم بچھڑنے سے پہلے ملے اور گم ہو گئے !
تجھ کو اتنا تو شاید پتہ ہے کہ شب جوترے ذہن میں
ڈائنوں سی کھڑی (ایک عشرے سے اک سال کم)
تجھ کو کیوں، اے حسنؔ، پورے نو سال دھوکے میں رکھ کر
بلاتی رہی ہے حلب کی طرف!
وہ تو اب ایک ’’لب خند‘‘ عورت ہے، لڑکی نہیں
تم نے تو، اے حسن (اپنے نا تجربہ کار، کم فہم ادراک میں )
جس کو ’’نادان‘‘ سمجھا تھا تب
اب وہ دریا کا ساحل ہے بھیگا ہوا
وہ کنارہ جسے بوسہ دینے کو آ کر
پلٹتی ہوئی ساری موجیں ہمیشہ وہیں لوٹتی ہیں
جہاں اک برس، دو برس، نو برس قبل ٹھہریں تھیں بس ایک پل
عین ممکن ہے تم نے یہ سوچابھی ہو
( ’’تم‘‘ بھی تو اے حسنؔ، ’’میں ‘‘ کا ہی روپ ہو!)
اب ذرا ’’میں ‘‘ کو بھی بولنے دو، حسنؔ
ہر طرف نا صبوری کے کانٹے اُگے تھے مرے حلق میں
میں یہ کہہ بھی نہ پایا تھا تجھ کو ’’جہاں کی جنی‘‘
ہاں، یہی نام اب زیب دیتا ہے سب کسبیوں کے لیے
بھولتا ہوں کہ شاید پکارا بھی ہو
میں نے پہلے کبھی تجھ کو اس نام سے
میرے کوزے جو نو سال پہلے تلک
تھے ہر اک ’’شہر و قریہ‘‘، ہر اک ’’کاخ و کو‘‘ کا تکبر یہاں
آج آواز دے کر بلاتے ہیں، ’’آ، اے حسنؔ
اور ہم بد نما پیکروں کو کوئی شکل دے !‘‘
اور میں، اے ’’جہاں کی جنی‘‘، لوٹ آیا تو ہوں
صرف تیری ’’تمنا کی وسعت‘‘ کو پھر ماپنا چاہتا ہوں
پھر اک بار ’’آنکھوں کی تابندہ شوخی‘‘ کے پیغام کو
جاننا چاہتا ہوں۔ ۔ اگر
میری خفت، خجالت کا رد عمل
تیرا فدیہ ہے، تو میں یقیناً رکوں گا یہاں
تا کہ پھر ’’رنگ و روغن سے ایسے شرارے نکالوں ‘‘
جنھیں دیکھ کر ’’تیری آنکھوں کی تابندہ شوخی‘‘
مرے واسطے (ہاں، فقط میرے ہی واسطے )
چاندنی سی چمکتی رہے عمر بھر!
اور، تو اے حسنؔ، یہ سمجھ (بولتا ہے ترا قصہ گو)
اپنی تنہائی میں
جھونپڑے کی تعفن سے بوجھل فضا کی
عفونت، جسے تم ’’ بغل گندھ‘‘ کا عطر سمجھے ہوئے ہو
فقط ایک حیلہ ہے
یادوں کے جوہڑ میں
ڈبکی لگا نے کی خو ہے حسنؔ!
عشق بالکل نہیں !
عشق بالکل نہیں !!
اے حسنؔ کوزہ گر!
یہ مثلث ہے کیا؟
ایک تم
ایک وہ جو جہاں ؔ زاد ہے
اور وہ تیسرا؟
کون ہے وہ لبیبؔ، اس کا عاشق (کہ گاہک؟)
ہوس کار جو اس کے ’’ لب نوچ کر‘‘
زلف کو اپنی انگشت سے باندھ کر
اس کے نازک بدن سے فقط ایک شب کھیل کر چل دیا
اور وہ نائکہ
جس کی ریشم سی، مخمل سی، صیقل شدہ جلد پر
اس کے ہاتھوں کی، ہونٹوں کی ایذا دہی کے نشاں
اب بھی باقی ہیں، وہ یہ کہانی تمہیں
یوں سناتی رہی
مسکراتی رہی
جیسے شہوانیت بے حیائی نہ ہو
بلکہ لذت، حلاوت سے بھرپور
خوش ذائقہ ہو کوئی دعوت ما حضر !
اور تم، اے حسنؔ
صرف اس ’’عشق‘‘ کی بات کرتے رہے
جو فقط ایک ہی بار صدق و وفا سے کسی کوزہ گر کے
تصنع سے عاری، کھرے دل میں ڈھلتا ہے تو
چاک پر اس کے جام وسبو، ساغر و طشت میں
ایک ہی گلبدن کی نزاکت، لطافت، نفاست کے ہی رنگ کھلتے ہیں
تخلیق کی ساحری سے !
آ، حسن کوزہ گر
آ، کہیں پھر حکایت اسی رات کی
پی رہے تھے مئے ارغواں شام سے
اور میرا نشہ اس قدر بڑھ گیا
ریزہ ریزہ ہوا جام گر کر مرے کانپتے ہاتھ سے
کچھ اچنبھا نہ تھا یہ ترے واسطے
پر سکوں سی کھڑی دیکھتی ہی رہی
کیونکہ عادی تھی تُو
(ایسے بیکار سے حادثے محفلوں کی بلا نوشیوں کا ہی معمول ہیں )
گھر کے شیشوں کی درزیں سناتی رہیں
گنگ آواز میں
داستانیں کئی حادثوں کی یہاں
رنگ رلیوں کے قصے، خرابات کے تذکرے !
قصہ گو کی زباں کو کوئی کیا کہے
(اور اس کو یہ حق ہے کہ کچھ بھی کہے !)
’’مالزادی‘‘ کہے یا ’’جہاں زاد‘‘ کو ہی مونث کرے
قصّہ گو رال ٹپکاتی اپنی زباں سے بہت کچھ سنانے کو تیار ہے !
داستانوں کی سچائی کے اس مورخ کا اعلان ہے
میں، کہ اک قصّہ گو
ایک ثالث بھی ہوں اور منصف بھی ہوں
فیصلہ میری نوک قلم پر سیاہی کے قطرے سا ٹھہرا ہوا
منتظر ہے کہ کب اس کو لکھ کر سناؤں حسنؔ کو، جہاں ؔ زاد کو
یا کسی تیسرے کو جو سچائی کی کھوج میں غرق ہو!
اے حسن کوزہ گر
نو برس بعد بغداد سے لوٹ کر
گر تجھے دل کے عدسے میں اپنی ہی صورت
نظر آتی ہو
اور دہشت زدہ خود سے، تنہائی میں
لکھ رہے ہو اگر آنسوؤں سے وہ خط
جس میں اشکوں کے قطروں کے الفاظ یوں جُڑ گئے ہیں
کہ گریہ کناں چشم بس ایک صورت کو ہی دیکھتی ہے
تو تقصیر کس کی ہے، مجرم کا کیا نام ہے ؟
آؤ، راشدؔ سے پوچھیں، حقیقت ہے کیا
ؔ ’’عشق ہو، کام ہو، وقت ہو، رنگ ہو‘‘۔ ہے تو مجرم کوئی
اب خطا کار کس کو کہیں اے حسن؟
معصیت کار، مجھ کو یہ کہنا ہے، تم خود نہیں ہو حسنؔ
بد چلن تم نہیں، اے حسن کوزہ گر
ہاں، تجھے ایک عورت کے ’’ عشق ہوس ناک‘‘ نے
(صرف اک رات کی لغزش بے ریا کے لیے
باندھ کر رکھ دیا ہے سدا کے لیے !)
اور عورت بھی کیا؟
بد چلن، فاحشہ، کنچنی، رال ٹپکاتی چھنّال، اک بیسوا!
(دیکھ گالی نہ بک، اے مورخ، یہ قصہ سناتے ہوئے
زیب دیتی نہیں تجھ کو ایسی زباں !)
خیر، چھوڑو نصیحت کی یہ گفتگو
آؤ، لوٹیں حلب کی طرف
اس سرائے کو دیکھیں جہاں حوض تھا
بند کمرے تھے اور ان میں آرام کے واسطے
ایسے بستر لگے تھے کہ ان پر بچھی چادریں [
پسینے کی بو سے شرابور تھیں !
آؤ ڈھونڈیں، کہاں تھا یہ شہر حلب؟
اور حسنؔ نام کا کوزہ گر تھا کوئی
اور جہاں ؔزاد تھی کیف و رنگ و دلآرائی کی مورتی
جس کی رعنائی کی سحر کاری کا نقش ہنر
اس کے کو زوں سے ایسے چھلکتا تھا جیسے مئے ارغواں !
اے مورخ، بتا کب کی ہے داستاں
آج سے سینکڑوں یا ہزاروں برس پیشتر کی کہانی کہیں اور سنیں
آؤ ڈھونڈیں انہیں
سالہا سال کی چکنی مٹی کے نیچے جو دب تو گئے
’’پا شکستہ‘‘ بھی تھے ’’سر بریدہ‘‘ بھی تھے
لوک قصّوں میں لیکن وہ ’’با دست و سر‘‘
قصّہ گویوں کے مرغوب کردار ہیں
آؤ دیکھیں کہیں خاکنائے بر آورد میں ایک تھل
جس میں ٹیلے بھی ہوں اور مٹّی کے انبار بھی
اور کوزہ گروں کی بنائی ہوئی
بھٹّیوں کے کچھ آثار شاید نظر آ رہے ہوں کہیں
’’یہ تاریخ ہے ازدحام رواں ‘‘
در گذراس کو کرنا ہمیں زیب دیتا نہیں
’’یہ دبے ہیں ‘‘ اگر، تو انہیں کھود کر
’’رہزن وقت‘‘ سے ہے بچانا ہمیں
کوئی کوزہ، کوئی جام ہوسالم و معتبہ
تو اسے کاوش و اعتنا سے نکالیں کہ شاید
کسی ’’رنگ کی کوئی جھنکار‘‘، ’’خوابوں کی خوشبو‘‘
’’لب کاسۂ جاں ‘‘ میں خوابیدہ ہو!
عین ممکن ہے یہ چاک، بھٹّی، طباخ اور تسلہ
یہ بوتل، یہ لوٹا، یہ ساغر، سبو
آبگینہ، صراحی، یہ بط، سب اسی ہاتھ کے ہی کرشمے تھے تب
جس کے فن کے لیے بس جہاں زاد کا حسن موجود تھا
اس لیے کہنہ تاریخ کی جستجو میں لگے دوستو
غور و پرداخت سے کام لو
اورسوچو کہ ان ٹھیکروں میں نہاں ہے وہ فن
جس میں مخفی ہے قصّہ حسنؔ اور جہاں زادؔ کا
اور میں کیا کہوں
میں تو شاعر ہوں، اک قصّہ خواں ہوں جسے
’’تتلیوں کے پروں ‘‘ اور جہاں زاد کے اس ’’ دھنک رنگ‘‘ چہرے
کے سب خال و خد کا(بغیر اس کو دیکھے ہوئے ہی) پتہ ہے
کوزہ گرؔ نے ’’جو کوزوں کے چہرے اتارے ‘‘
ا نہیں بھی یہی قصّہ خواں جانتا ہے
کہ خود بھی وہ شاید اسی قافلے کا جہاں گرد ہے !
فن تو وہ آنکھ ہے جو کھلی ہے زماں کے تواتر میں اے راشد کوزہ گر!
تو ’’ ہمہ عشق ہے، تو ہمہ کوزہ گر، تو ہمہ تن خبر‘‘
لیکن اک بات کہنے کو جی چاہتا ہے کہ میں
خود تمہاری طرح ہوں حسن کوزہ گر
آب و گل بھی نہیں، رنگ و روغن نہیں
کوئی بھٹّی نہیں
لفظ ہی لفظ ہیں
اور انہی سے میں کوزے بنانے کے فن میں ہنر مند ہوں
ہاں، جہاں زاد سے میری بھی رسم و رہ ایک مدّت سے ہے
اور فن کے تجاذب کی تحریک بھی مجھ کو دی ہے کسی ایک ’’نادان‘‘ نے
اپنی کچی جوانی کی نا پختہ پہلی بلوغت کے دن
جب وہ ’’نادان‘‘ تھی
میں بھی نادان تھا
نا رسا آس تھی
بے طلب پیاس تھی
چار سو یاس تھی
اس زمانے میں تو
بس ’’گماں ‘‘ ہی ’’گماں ‘‘ تھی مری زندگی
کچھ بھی ’’ممکن‘‘ نہ تھا
ما سوا اک گزرتی ہوئی رات کے
صبح آئی تو پھر یوں لگا
جیسے خورشید اپنے افق سے فقط ایک لمحہ اٹھا
اورسارے ’’طلوعوں ‘‘ کی دیرینہ تاریخ کو بھول کر
پھر افق میں وہیں غوطہ زن ہو گیا
ہاں اگر نونؔ میمؔ آج یک جا کریں
اور راشدؔ کو اس میں ملائیں، تو پھر
ہم اکیلے نہیں
راکھ میں اب بھی کچھ کچھ سلگتی، دھواں دیتی چنگاریاں
اک صراحی کی گردن کے ریزے، تراشے لب جام کے
خول بط کا، کسی آبگینے کا ٹوٹا ہوا
ایک خردہ، ’’گل و خاک کے رنگ روغن‘‘ ہیں سوکھے ہوئے
سب تبرکات جو ’’ اک جواں کوزہ گر‘‘
’’اپنے کوزے بناتا ہوا، عشق کرتا ہوا‘‘
’’اپنے ماضی کے تاروں میں ‘‘ راشدؔ سے بھی اور مورخ سے بھی
عشق اور فن کے بندھن میں باندھا گیا!
الٹو پلٹو، کہ یہ ’’رنگ و روغن کی مخلوق‘‘ شاید تمہارے لیے
کوزہ گر اور جہاں زاد کے عشق کی
ما بقیٰ داستاں میں اضافہ کرے
اور تاریخ داں، تو اگر داستاں یہ سمجھ جائے، تو
کوزہ گر کے خیالوں کی، خوابوں کی مورت بنا
’’عشق کے معبدوں پر ‘‘ عقیدت سے جا کر چڑھا
وہ ’’پسینے کے قطرے ‘‘، وہ ’’ فن کی تجلّی‘‘
رسالت کا وہ درد، جو کاروانوں کی مٹّی سا جیسے
’’ رواں ہے زماں سے زماں تک‘‘
جسے ہفت خواں شاعروں نے
محبت کے قصوں میں گھڑ کر امر کر دیا
کیا یہی ایک مقصد تھا راشدؔ تمہارا
کہ کوزے پکانے کی
یخ بستہ سوئی ہوئی راکھ میں کچھ سلگتے ہوئے کوئلے
گر ملیں
تو کہانی گھڑیں
اور ثابت کریں، عشق ’’ سریاب‘‘ بھی ہے تو ’’ پایاب ‘‘بھی
اور حسن کوزہ گر، قیس و فرہاد سب
اپنی اپنی جگہ
کامراں بھی ہوئے اور ناکام بھی
اور ہم داستانیں جو لکھتے رہے
اپنے اپنے دلوں میں کہیں
برگ گل کی طرح
ایک چہرہ سجا کر اسی کی پرستش میں غلطاں رہے !
اپنے اپنے دلوں میں سجائے ہوئے
ایک چہرے میں لیلیٰ بھی مستور ہے
اور شیریں بھی ہے
ہاں، حسنؔ کوزہ گر کی جہاں زادؔ کو
وہ رسائی نہ مل پائی جس کی وہ حقدار تھی
اور راشدؔ کا فن
لوک قصّوں، اساطیر یا عشق کی
داستانوں کے فن سے بہت دور تھا
یہ بھی سچ ہے کہ راشد کی یہ چار نظمیں بہت خوب ہیں
پر مورخ کی یا قصّہ گو کی نہیں !
٭٭٭
(2006)ء
آسماں کی چھت کہاں ہے ؟
________________________________________
وَجَعَلنَا اُلسََمَاء سَقَّفَا مَحفوظا (سورۃ النبا:۲۳)
اپنے گھر کے صحن میں یوں ششدر و حیراں کھڑا ہوں
جیسے رستہ کھو گیا ہو
دھیرے دھیرے پاؤں میرے
صحن کے کیچڑ میں دھنستے جا رہے ہیں
جسم کے کیچڑ میں دھنسنے کا تصور روح فرسا توہے، لیکن
اس سے بچنے کا کوئی چارہ نہیں ہے
سر کھجاتا، نیچے اوپر، دائیں بائیں دیکھتا ہوں
دائیں بائیں کچھ نہیں ہے
نیچے کیچڑ ہے، زمیں ہے
اور اوپر؟
ایک لمحے کے لیے یہ یاد آتا ہے کہ شاید میرے اوپر
انت سے بے انت، یعنی اِس افق سے اُس افق تک
آسماں پر
چارپائیاں سلسلہ در سلسلہ رکھی ہوئی ہیں
جن پہ میرے
پچھلے جنموں کی تکانیں سو رہی ہیں۔
بد حواسی میں زمیں سے پوچھتا ہوں
آسماں کی چھت کبھی گرتی نہیں ہے
پر مجھے اتنا بتاؤ
آسماں کی چھت کہاں ہے ؟
٭٭٭
خانۂ مجنونِ صحرا گرد بے دروازہ تھا
________________________________________
کوئی دروازہ نہیں تھا قفل جس کا کھولتا
سر نکالے کوئی سمت الراس بھی ایسی نہیں تھی جس سے رستہ پوچھتا
ایک قوس آسماں حّدِ نظر تک لا تعلق سی کہیں قطبین تک پھیلی ہوئی تھی
دھند تھی چاروں یُگوں ۰ کے تا بقائے دہر تک۔ ۔ ۔ (۰ یُگ : قرن)
اور میں تھا!
اور میں تھا
لاکھ جنموں کی مسافت سے ہراساں بھاگ کر
اعراف کے لا سمت صحرا میں بھٹکتا
کوئی روزن، کوئی در، کوئی دریچہ ڈھونڈتا، پر
یہ بھٹکنا خود میں ہی بے انت، ابد الدہر تھا
ایسی سناتن ۰، قائم و دائم حقیقت (۰سناتن : قدیم ترین)
جس سے چھٹکارہ فقط اک اور قالب میں دخول عارضی تھا
اس جنم میں جو نئی زنجیر میں پہلی کڑی تھی
ان گنت کڑیوں کی صف بستہ قطاروں سے مرتب!
اور میں خود سے ہراساں
یہ کہاں برداشت کر سکتا تھا
جس زنجیر سے میں، تسمہ پا، اک لاکھ جنموں کی مسافت سے صیانت پا چکا ہوں
اس میں پھر اک بار بستہ بند ہو کر چل پڑوں
بے انت جنموں کے نئے پیدل سفر پر؟
ہاں مجھے تسلیم ہے یہ
خانۂ مجنونِ صحرا گرد کی بے در مسافت!
میرے ’ہونے ‘اور ’بننے ‘کے گزرتے وقت کا دورانیہ
برزخ کے باب و در سے عاری دشت میں ہی
تا بقائے دہر تک
جنموں کے دوزخ سے رہائی کے لیے !
٭٭٭
گذر گیا ہے کوئی راستہ بتاتا ہوا
________________________________________
جو تیز تیز چلا جا رہا تھا رستے پر
وہ کس قبیل سے تھا، کس سے یہ سوال کروں ؟
رکا تھا صرف اک لمحے کو مرے پاس وہ شخص
کہ جس کے ماتھے پہ روشن تھے نقش را ہوں کے
ہزار برسوں کی لمبی مسافتوں کے نشاں
ابھرتی، پھیلتی، مٹتی ہوئی وہ ریکھائیں
جنہیں نہ دیکھ کر دیکھیں، تو چلتی پھرتی ہوئی
نشانیاں نظر آتی تھیں گذرے وقتوں کی!
رکا تھا، اور اشارے سے کچھ کہا تھا مجھے
’’وہ راستہ توہے، پر خط مستقیم نہیں
اسی پر چلتے چلو، قوت ارادی سے
تلاش کرتے چلوسب نشانیاں اپنی
وہ موڑ جن پہ تمہیں مڑ کے آگے بڑھنا ہے۔ ‘‘
کہاں گیا ہے مرا ایک پل کا رہبر زیست
میں جانتا نہیں، پر پھر بھی چلتا جاتا ہوں
ہر ایک موڑ ہدایات کا پلندہ ہے
کہیں پہ ’داخلہ ممنوع ہے ‘ کا سگنل ہے
کہیں پہ تیروں سے، انگشت نما قوسوں سے
نشان زد ہیں سبھی راستے، ٹھہر جاؤ
بنظر غور پڑھو، کس طرف کو جانا ہے
میں ایک لمحہ توقف کے بعد چلتا ہوں
ہدایتوں کا پلندہ، معّمہ رستوں کا
یہ کیسی بھول بھلّیاں ہے مذہبوں کی کہ میں
پھنسا ہوا ہوں مومنات و دینیات کے بیچ
تمام عمر گنوائی ہے یوں بھٹکتے ہوئے !
سکندروں کے قبیلے سے میں نہیں تھا مگر
مجھے بھی خضر نے رستے میں لا کے چھوڑ دیا!
٭٭٭
نہیں، نہیں، مجھے جانا نہیں ابھی۔ اے مرگ
________________________________________
نہیں، نہیں، مجھے جانا نہیں ابھی، اے مرگ
ابھی سراپا عمل ہوں، مجھے ہیں کام بہت
ابھی تو میری رگوں میں ہے تیز گام لہو
ابھی تو معرکہ آرا ہوں، بر سر پیکار
یہ ذوق و شوق، یہ تاب و تواں، یہ بے چینی
ابھی تو میرے تمتع پہ منحصر ہے یہ جنگ!
نہیں، نہیں، مجھے جانا نہیں ابھی، اے مرگ
یہ رزمیہ جو مری زیست کا مقدر ہے
یہ حرف حرف تحارب، یہ لفظ لفظ جہاد
مرا یہ نعرۂ تکبیر، صف شکن ’رن بیر ‘
اسے تو ظلم و تشدد کی جڑ کو کاٹنا ہے
اسے تو زشت خُو دشمن سے جنگ جیتنی ہے
نہیں، نہیں، مجھے جلدی نہیں کوئی، اے مرگ
کہ اب یہ لفظ مرے گل نہیں ہیں، کانٹے ہیں
مجھے پرونا نہیں کتخداؤں کے سہرے
مجھے سجانا نہیں باکرہ بتولوں کو
مجھے تو تیغ زن غازی کی طرح لڑنا ہے
مری قضا، مجھے کچھ وقت دے کہ مجھ کو ابھی
جہاں کے فرض کفایہ کو پورا کرنا ہے !
٭٭٭
اٹھائی گیر تھا، وہ عزرائیل تھا ہی نہیں
________________________________________
میں نصف جان لیے جی رہا ہوں مدّت سے
کہاں تو ربط تھا، ادغام تھا رگ و پے میں
کہاں یہ حال ہے اب بکھرا بکھرا رہتا ہوں
وہ کاملیت و وحدت، سواد اعظم کُل
نہیں رہے کہ میں اب لخت لخت پھرتا ہوں
میں لِیر لِیر سا، اک قطع دائرہ سا جزو
پرَخچوں میں بٹا ہوں، ورَق ورَق سا کیوں ؟
کچھ ایک سال ہوئے، میں بھی تھا تمام و کمال
کہ اپنے آپ میں کامل تھا، ثابت و سالم
اٹُوٹ، اَن بٹا، اک شخص، خود میں واحد و کُل
پھر ایک دن کسی رہزن نے میرا نصف وجود
جھپٹ کے چھین لیا مجھ سے ایک لمحے میں
کہا کہ اس کو تو مُلک عدم کو جانا ہے
تم اپنے آپ میں زندہ رہو، رہو نہ رہو!!
کہاں کی مرگ مفاجات، کیسا صدمۂ جاں ؟
یہ کیسا کوُچ، کہاں کا بلاوا، کیسا وصال؟
بھلا کبھی کسی انساں کا نصف حصّہ بھی
غریق رحمت پروردگار ہوتا ہے ؟
اٹھائی گیر تھا، وہ عزرائیل تھا ہی نہیں !
جو نصف جان مری لے گیا ہے دھوکے سے !!
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
(اپنی اہلیہ کی پانچویں برسی کے دن لکھی گئی نظم)
٭٭٭
________________________________________
وقل من جد فی امر بطالبہ
فلستصحب الصبر الا فاز با الظفر
(حضرت علیؓ)
علیؓ مشکل کشا سے پوچھنا مشکل تو تھا، لیکن
مرا علم الیقیں رکھتے ہوئے یہ پوچھنا بے حد ضروری تھا
کہا، مشکل کشا اتنا بتائیں اس سوالی کو
اگر صبر و رضا کے بند حجرے میں مقید، کلمہ خواں بیٹھا رہوں میں
معتصم ایقان پر
یہ سوچ کر، اللہ سب کچھ دیکھتا ہے، جانتا ہے
کیا وہ میرے حال سے یوں بے خبر ہو گا؟
کہا میں نے ( ذرا گستاخ بن کر)
مجھ سے ہو سکتا تھا جو کچھ، کر چکا ہوں
فقر و فاقہ سہہ لیا ہے
زندگی بھر محنت و ایمانداری ’’ہیچ مقداری‘‘ ۰ مرا ایماں رہا ہے۔
اور وہ کیسا خدائے عزّ و جل ہے
دیکھتا سب کچھ ہے، لیکن لاتعلق، اجنبی سا
وہ سدا خاموش رہتا ہے ؟
کہاں اخفائے حق ممکن ہے اس اللہ سے جو
حاضر و ناظر ہمہ جا ہے
وہ ربّ العرض ہے، منعم حقیقی ہے
وہ سب کچھ دیکھتا ہے، پھر بھی کیوں خاموش رہتا ہے ؟
کہا میں نے یہ سب کچھ؟
کب کہا؟
کس کو کہا؟
مشکل کشا کو؟
جی نہیں، اے ستیہ پال آنند صاحب
آپ نے شاید
بدن سے ماورا بودھی بصیرت کی زباں سے
ذہن کی گہرائی میں ڈوبے ہوئے کل شب
یہ استفسار خود سے ہی کیا ہو گا ۔ ۔ ۔
لبادہ اوڑھ کر سوچوں کا
استغراق کے عالم میں شاید سو گئے ہو گے۔
جواباً کیا کہا حضرت علیؓ نے ؟
پوچھتا ہوں ذہن سے، بیدار ہونے پر
تو میرا ذہن اک پرچی تھما دیتا ہے میرے ہاتھ میں
جس پر کوئی نسخہ لکھا ہے صاف اردو میں
’’بہت کم ایسے ہوتا ہے، حصول آرزو میں کچھ نہ کچھ تاخیر ہوتی ہے
کد و کاوش سے، لیکن
جہد کرنا، مستعد رہنا حصول آرزو میں
صبر کو قوت بنا لینا ۔ ۔ ۔ ۔ یہی کچھ تو کہا تھا میں نے پہلے بھی۔ ‘‘
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ترجمہ ایسا بہت کم ہوا ہے کہ کسی نے کسی کام کے حصول کی کوشش کی ہو اور صبر کو نہ چھوڑا ہو، پھر بھی کامیاب نہ ہوا ہو ۰۰علامہ اقبال
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
٭٭٭
کیسا پیراہن یوسُف ہے یہ؟
________________________________________
کیسی چادر یہ چڑھائی ہے مری قبر پہ آج؟
میری آنکھوں کے لیے کون سا سرپوش ہے یہ؟
کیسا پیراہن یوسُف ہے جو تم لائے ہو؟
میں تو تابوت کے اندر سے بھی
دیکھ سکتا ہوں کہ میرا ذہن ہے بیدار ابھی !
تم جو صدیوں سے بزر جمہروؤں، داناؤں کے ساتھ
کرتے آئے ہو، وہ میرے علم میں ہے
عارفوں اور حکیموں سے تمہیں بَیر ہے، میں جانتا ہوں
ان کی تقدیس سے، تہذیب نفس سے تم کو
کچھ علاقہ ہی نہیں، کوئی تعلق ہی نہیں
ان کی قبروں کو مزاروں میں بدل کر تم نے
روضہ و تربت و اہرام سجا ڈالے ہیں
مسخرہ پن کی کوئی حد بھی تو ہوتی ہو گی!
تم نے ان روضوں کو جاگیر سمجھ کر ان کو
محفلوں، میلوں کے منڈووں میں بدل ڈالا ہے
میں تو بینا ہوں، مرا ذہن ہے زندہ اب تک
جانتا ہوں کہ یہ با زندگی، یہ دھوکا دھڑی
مجھ سے بھی ہو گی۔ ۔ ۔ مجھے پیر بنا کر تم خود
ایک سجادہ نشیں، ایک مجاور کا لباس
تاج، کفتان، اک پا پاغ کلاہ زر بفت
زیب و زینت سے پہن کر، بہمہ عزت سے
اک نئی پھولوں کی چادر مجھے اوڑھاؤ گے
اور میں، لحد کے اندر ہی پڑا تڑپوں گا
استخواں ہوں، مگر یہ ذہن ہے بیدار ابھی
اندھے یعقوب سے لائی گئی اس چادر کو
پیرہن یوسف کنعان سمجھ کر، اپنے
ذہن کو بھی سلا دوں گا دم محشر تک!
٭٭٭
پھکّڑ تماشہ A Farce
________________________________________
(نوٹ) اردو شاعری کی مروجہ اصناف میں، ڈرامہ کے تحت، جہاں طربیہ تمثیل کا ذکر آتا ہے، وہاں Farce کا ذکر مفتود ہے۔ یہاں تک کہ ’ریختی‘ کے دور انحطاط میں، یا ’زٹلیؔکے تتبع میں تحریر کردہ شاعری یا چرکیں ؔ کے بول و براز سے لتھڑے ہوئے غلیظ کلام کو بروئے کار لا کر بھی اردو میں اس صنف کی طرف کسی نے توجہ مبذول نہیں کی۔ ہندی میں ’ناٹک‘ کی صنف کے تحت جہاں ’پھکڑ تماشا‘ ملتا ہے، وہاں دیگر لوک اصناف بھی موجود ہیں جو میلوں ٹھیلوں میں مقامی بولیوں سے عبارت تھیں اور ہندی ادب کی تاریخ میں ان کا ذکر ’’ لوک ساہیتہ‘‘ کے تحت کیا جاتا ہے۔ یورپ کی زبانوں میں (بشمولیت انگریزی) farce ڈرامے ہمیشہ مقبول رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ لیکن جہاں فارسی میں ڈرامہ کا نہ ہونا اردو میں اس صنف کے مفقود ہونے کی ایک وجہ تھی وہاں دوسری یہ تھی کہ اردو کا highbrow یعنی ’نک چڑھا‘ شاعر ہمیشہ آس پڑوس کی مقامی لسانی اکائیوں کو اردو سے کمتر سمجھتے ہوئے ان کی طرف توجہ دینے کی بابت سوچنے سے ہی قاصر تھا۔
"The elements of absurdity, comical, ludicrousness, ridiculousness, droll and funny have always been present in English drama,” writes Dr. Johnson, the first historian of English literature.
________________________________________
کوچہ و بازار میں، سڑکوں پہ محو رقص لوگ
سیدھے، ٹیڑھے، پستہ قد، لمبے تڑنگے مرد و زن
کانسٹیبل، پیش کار و منشی و عرضی نویس
خوانچے والے، چھابڑی والے، دکانوں کے ملازم
جوتے پہنے، ننگے پاؤں
میلی شلواروں کو، ٹخنوں تک لٹکتی دھوتیوں کو
پتلی ٹانگوں پر سجائے
کوچہ و بازار میں سڑکوں پہ محو رقص لوگ!
رقص میں غلطاں، ٹھہاکے اور بڑھکیں مارتے
گاتے، اچھلتے، صد ہزار و صد ہزار و صد ہزار
لوگوں کا سیلاب، اک ہڑبونگ، ریلا۔ ۔ ۔ ۔
آگے بڑھتا، پیچھے ہٹتا، پھر پلٹتا، آگے بڑھتا
مست، مست و مست، مست
کون ہیں یہ لوگ، بھائی؟
کون ہیں یہ لوگ، بھیا؟
شہر میں وارد ہوا مَیں۔ ۔ ۔ اجنبی خود سے ہی شاید پوچھتا ہوں
کوئی بھی مجذوب، ’’می رقصم‘‘ قبیلے کا نظر آتا نہیں ہے
کس سے پوچھوں ؟
سب ہی تو ہیں مست، مست و مست، مست!
ایک کبڑا، چلتے چلتے
اپنی نا ہموار سانسوں کو ذرا معمول پر لانے کو جیسے رُک گیا، تو۔ ۔
میں نے پوچھا
کیا کوئی تقریب ہے، تہوار ہے، ؟یہ جشن، حضرت
کس خوشی میں ہے ؟کوئی شہزادہ کیا پیدا ہوا ہے ؟
ہاں، کہا کبڑے نے اپنی ڈیڑھ دو ٹانگوں پہ مینڈک سا پھدک کر
ہاں، ہمارے نوے سالہ بادشہ کے ہاں ولادت کی خوشی ہے
سولہہ سالہ ان کی بیوی کے بطن سے
کل ہی اک گل گوتھڑا پیدا ہوا ہے
تخت کا وارث، ہمارے شہر کا یہ شہزادہ
کل ہمارا حکمراں ہو گا !کہا کبڑے نے اور پھر
ڈیڑھ دو ٹانگوں پہ مینڈک کی طرح اچھلا۔ ۔ ۔ ۔ تو میں بھی
لا محالہ پوچھ ہی بیٹھا۔ ۔ ۔ ۔ یہ سارے لوگ آخر
کس لیے خوش ہیں، کوئی کیا اور بھی تقریب ہے، بھائی بتاؤ
ہاں، کہا کبڑے نے، ہم سب کو
ہمارے بادشہ نے تین دن تک مفت کھانا۔ ۔ ۔
روٹی، کپڑا اور مکاں دینے کی گارنٹی بھی دی ہے !
٭٭٭