٭ پرانا سوال سہی مگر اپنی ’’تجریدی مفہومیت‘‘ کو بر انگیخت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ ’’ غزل کی ولایت ‘‘ سے منکر ہو جائیں ؟
آنند: جی نہیں، ’’تجریدی مفہومیت کو بر انگیخت‘‘ کرنے سے اگر آپ کی مراد تعقل پرستی یا عمق فکر کی بِنا پر میرا کسی بھی شعری تخلیق میں مفہوم کھوجنے کی حس کو محرک کرنا ہے، تو یہ جواز میرا غزل کی ولایت سے ’ منکر‘‘ ہو جانے کا بالکل نہیں ہے۔
یہ عرض کر دوں کہ میں غزل کی ولایت سے per se (لاطینی، بمعنیin itself, یا intrinsically ) بالکل منکر نہیں ہوں لیکن میں اس کو ایک الگ ولایت کا سب سے اہم شہری سمجھتا ہوں۔ یہ الگ ولایت Oral Literature یا میری خود ساختہ اصطلاح Orature کی ہے۔ اس اقلیم کے دیگر شہریوں میں ماہیا، ٹپہ، بیت بندی، کبِت، تک بندی، کافی، بارہ ماسہ، لوری، مقفیٰ اکھان وغیرہ کی ہے، جو زبانی سنانے یا گائی جانے والی اصناف ہیں، نہ کہ تحریر شدہ ادبی نگارشات۔ اسی لیے اسے ’کلام‘، ’سخن‘ کی اُپادھی دی گئی ہے۔ ’تحریر‘ نہیں کہا گیا۔ اسی لیے ہم ’شعر کہا ہے ‘، ’غزل کہی ہے ‘ وغیرہ کو درست تسلیم کرتے ہیں۔ ’’غزل لکھی ہے یا شعر لکھا ہے، ‘‘ اس جملے کو بھونڈا سمجھا جائے گا۔
چونکہ مغرب میں ’سنانے ‘ کی کوئی روایت نہیں ہے۔ ’لکھنے ‘ یا ’پڑھنے ‘ کی ہی ہے، اس لیے لفظ ’سنانا‘ کا انگریزی ترجمہ نہیں ہو سکتا۔ یہ کانسیپٹ ہی مغرب کے ذہن سے عنقا ہے۔ اس نے ایک شعر سنایا یا غزل سنائی کا کیا ترجمہ ہو گا ؟ He read out his poem OR He recited his poem.یہ جملے تو یک طرفہ پڑھنے کا عمل ظاہر کرتے ہیں۔ ’سنانا‘ میں جو دو طرفہ عمل ہے وہ ان سے ظاہر نہیں ہوتا۔ ہلکی پھلکی سی بات ہے، لیکن لفظ’سنانا‘ میں کچھ اس طرح کا عمل موجود ہے، جیسے کہ اپنے شعر یا غزل کو ایک پڑیا میں لپیٹا اور سامع کے کان میں جا کر انڈیل دیا۔ ’’وہ مجھے یہ بات خصوصی طور پر سنا کر گیا ہے ‘‘ جیسے کسی بھی جملے کا انگریزی ترجمہ یا تو بالکل ہو ہی نہیں سکے گا یا تشنہ رہ جائے گا۔ اس لحاظ سے غزل سنی سنائی جانے والی یا گائی جانے والی صنف کے طور پر Oral Literature ہے۔ چبھتا ہوا سوال ہے لیکن آپ سے پوچھنا ضروری ہے، کیا آپ فلمی گانوں کو لٹریچر کہیں گے ؟
کلاسیکی غزل، ایران میں بھی اور ہندوستان میں بھی، گا کر نہیں سنائی جاتی تھی، جب یہ دربار سے نکل کر، پہلے تو قلعے کی چار دیواری کے اندر اور پھر اس کے بعد یہ چار دیواری پھلانگ کر باہر پہنچی تو اس کی جائے عافیت طوائفوں کے کوٹھے تھے۔ آپ کیا تصور کر سکتے ہیں کہ میر، غالب، ذوق اور داغ اپنی غزلیں گا کر پڑھتے ہوں گے، ہاں، یہ درست ہے کہ ان کی غزلیں طوائفیں اپنی محفلوں میں گا کر سناتی تھیں۔ اب آج کا منظر نامہ دیکھ کر سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ غزل گو شعرا (خصوصی طور پر شاعرات اور خصوصی طور پر انڈیا میں ) صرف ترنم پر ہی اکتفا نہیں کرتے، اپنی body language (بدن بولی) سے، اسٹیج پر گھوم پھر کر ایکٹنگ کرتے ہوئے، کسی بھی شعر کے مصرع اولیٰ کو تین بار اُٹھا کر اور پھر مصرع ثانی کو ادا کرتے ہوئے جیسے سامعین کے کانوں میں پڑیا میں باندھ کر پہنچاتے ہیں۔
اب لوٹ کر ’’تجریدی مفہومیت‘‘ کی طرف آئیں۔ آپ کے سوال میں، قبلہ، یہ ایک inherent اقبالیہ بیان بھی ہے کہ مفہومیت کے حوالے سے صنف غزل شاید نادار ہے اور میں یعنی یہ خاکسار ستیہ پال آنند چونکہ شاعری میں معنی و مفہوم کے خزانے کی تلاش میں سرگرداں ہے، اس لیے اس نے غزل کی مملکت سے راہ فرار اختیار کر کے نظم کی بدیسی اقلیم میں ہجرت کی ہے۔ چلئے، میں آپ کے در پردہ کئے ہوئے اس قیاس پر ایمان لے آتا ہوں کہ غزل اس حوالے سے نادار ہے، لیکن میری ہجرت کی وجہ یہ نہیں ہے۔ اس کا ذکر آگے آئے گا۔
عصر حاضر کی غزل میں دو اڑھائی صدیاں ایک ساتھ کندھے سے کندھا ملائے ہوئے چل رہی ہیں۔ جہاں کلاسیکی غزل ہے، جس کی مثال (کم کم ہی سہی) لیکن گاہے بگاہے کچھ اشعار میں مل ہی جاتی ہے، وہاں نیم کلاسیکی غزل اور روایتی غزل ڈھیروں کی تعداد میں رسالوں اور شعری مجموعوں میں گروہ در گروہ موجود ہے۔ ’’جدید غزل‘‘ تو شاید ایک غلط nomenclature ہو لیکن اس کے تحت بھی، کانوں کو کچھ نا شنیدہ سے محسوس ہونے والے اشعار مل ہی جاتے ہیں۔ پھر موضوع، مضمون، ماحول، مالہ و ماعلیہ کے حوالے سے روایت سے بالکل کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے ایسے غزل گو شاعر بھی ہیں، جو گلی محلے، گھر گرہستی، پریوار (ماں، بیوی، بچوں ) کو جیسے ناٹک میں کردار کی حیثیت دے کر اشعار میں انہیں اسٹیج پر مرکزی نشست دیتے ہیں۔ اور پھر (آخر میں ) ایسے شاعر بھی ہیں جو ٹنوں tonnes کے حساب سے ایسی غزلیں کہہ رہے ہیں، جن کا سر پیر، گردن، چہرہ، دھڑ کچھ بھی نہیں ہے۔ صرف الفاظ کا ہیر پھیر ہے ۔ (نام نہیں لوں گا، لیکن آپ پہچان جائیں گے کہ میرا اشارہ کس محترم شاعر کی طرف ہے !)
٭ نظم میں لایعنیت کی جتنی گنجائش ہے، غزل تو اس کا عشر عشیر بھی برداشت نہیں کرتی ؟
آنند: اس مفروضے سے صنف نظم کی سبکی ہوتی ہے، نہ صنف غزل کی عزت بڑھتی ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ غزل میں پیش پا افتادہ، چبے چبائے ہوئے الفاظ، مصطلحات، عبارت آرائی، عذب البیانی، استعارہ، تمثال، علامت، اور سب سے بڑھ کر، ہزاروں بلکہ لاکھوں بار پہلے استعمال میں لائے گئے مضامین کی جتنی گنجائش ہے، نظم تو اس کا عشر عشیر بھی برداشت نہیں کرتی (آپ کے الفاظ دہرا رہا ہوں )، تو آپ کیا جواب دیں گے ؟
٭ نظم گوئی علمی طریق اور اسِتدلالی طرز عمل مانگتی ہے جب کہ غزل خالص جذباتی منطق کو دہرا کر بھی اپنا مقصد حاصل کر لیتی ہے ؟
آنند: حضور، فیض گنجور ضیاؔ صاحب، آپ میرے دل کی بات کہتے کہتے، نصف جملہ کہنے کے بعد، پس آگاہی ملتے ہی، رُک گئے۔ یہاں تک تو آپ درست فرماتے ہیں کہ ’’۔ نظم گوئی علمی طریق اور اسِتدلالی طرز عمل مانگتی ہے۔ ۔ ۔ ‘‘اس کے بعد پس آگاہی میں آپ کچھ کچھ کہتے کہتے ایک اصطلاح برت گئے، جو میرے لیے contradiction in terms ہے، یعنی اصطلاحی تضاد بیانی ہے۔ ’’جذباتی منطق‘‘ یعنی emotional logic، ان دو الفاظ میں قطبینی تضاد ہے۔ جی نہیں، اگر غزل منطق کی اپج ہے، تو غزل غزل ہونے سے رہی۔ کیونکہ منطق تو جیومیٹری کی تھیوریم کی طرح ہے۔ مثال:
(Given : To Prove : and Proof. Therefore the triangles are congruent ) یا الجبرا کی طرح ہے )
to re-unite parts : Al (Arabic) meaning "the”, plus
gebera (Hebrew) meaning "to unite "۔
٭ غزل کے معروف ارکان موسوم بہ ہیں جب کہ نظم کے مختلف حصوں کے نام ابھی محتاج تعارف ہیں۔ ۔ ۔ کوئی تبصرہ ؟
آنند: ضروری نہیں ہے کہ ہم نئے نام، فارسی لغت یا عربی قابوس سے نکال نکال کر ہی انہیں اردو نظم پر چسپاں کر دیں۔ انگریزی کے ارکان بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ ہم اب آسانی سے ایسی اصطلاحات استعمال کر ہی رہے ہیں۔ سمبل، مونتاژ، (لٹریچر)بیک فلیش، فاسٹ فارورڈ، ٹیگ کرنا وغیرہ (فوٹو گرافی، کمپیوٹر)۔ ۔ ۔ اس گلوبل ولیج (عالمی گاؤں ) میں اب اپنی زبانوں کا ناموس بچانے کے لیے حجاب یا برقع ضروری نہیں ہے۔
٭ نظم شاعر کے کردار کی کڑی مشقت ہے جب کہ غزل شاعر کے اخلاص کی ۔ ۔ ۔ ؟
آنند: کردار اور اخلاص۔ ۔ ۔ دو کلیدی الفاظ کو کیسے آپ نے ’فساد قبل الذکر‘ کی فہرست میں شامل کر لیا؟ ان میں تو کوئی تضاد نہیں، کوئی مغائرت نہیں ہے۔ غزل بھی شاعر کے کردار کی کڑی مشقت ہے۔ شاعر کیا کہتا ہے، وہ کب ایک ’مصرع تر‘ کی صورت دیکھتا ہے ؟ کتنا خون جلتا ہے ایک مصرع تر کی صورت دیکھنے میں ؟ میر تقی میرؔ کا شعر کی تلاوت ہی فرمائیے کہ اس نے ایک ’دیوان جمع کرنے ‘میں کتنا خون جلایا تھا۔ میرؔ کی ہی باز گشت میری ایک پنجابی غزل کے شعر میں ہے :
انگلی انگلی، پوٹا پوٹا ، تُپکا تُپکا چویا خون
تاں جا کہ اک دو شعراں دی زلف سنواری کل راتی
تخلیقی قوت کی کارکردگی دونوں اصناف سخن میں یکساں ہے۔ البتہ غزل کی صنف میں کچھ موضوعات (جیسے کہ خود ترحمی self pity ) اور کچھ مضامین استعاروں، تمثالوں، اصطلاحات کی اس قدر فراوانی ہے کہ تخلیقی قوت میں جس طرح ہر انگلی سے قطرہ قطرہ خون ٹپکتا ہے، شعرا ء اس کے درد زہ birth tangs سے بچنے کے لیے ایک موٹر مکینک کی طرح اس شعری گودام سے ضرورت کے فاضل پرزے spare parts (جو بین المتونیت inter-textuality کی تھیوری کی رو سے ان کے ذہن میں پہلے ہی موجود ہوتے ہیں )ایک ایک کر کے اٹھاتے ہوئے جڑتے چلے جاتے ہیں، انہیں یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ یہ ’آمد‘ در اصل ’آورد‘ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میری طرح نظم کے شاعر بھی (جن کی تربیت غزل کی مشق سخن میں ہوئی ہے ) اس سے بچ نہیں پاتے۔ ۔ ۔
۔ آپ کے لیے یہ شاید ایک دلچسپ لطیفہ ہی ہو، لیکن اس بدعت سے بچنے کے لیے کوئی چالیس برس پہلے میں نے ایک ترکیب یہ نکالی، کہ ایسے الفاظ کی ایک فہرست بنائی اور ہر نظم کے مکمل ہونے سے پہلے اس کی فائنل قطع و برید میں بغور یہ دیکھنا شروع کیا کہ اس فہرست کا کوئی لفظ کہیں لا شعوری طور پر استعمال میں تو نہیں آ گیا ہے۔ اور پھر ایک ماہر جرّاح کی طرح اسے کاٹ کر پھینک دیا۔ یہ امر آپ کے لیے باعث تفریح ہو گا کہ اس جدول بندی میں لفظ ’دل‘ سر فہرست تھا۔ جو درجنوں مختلف النوع معانی میں (گوشت کے لوتھڑے سے لے کر لطیف جذبات کی آماجگاہ تک) غزلیہ شاعری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا لطیفہ در لطیفہ یہ ہے کہ ایک عزیز مسمی بہ زیف سید سے (جو اس وقت یہاں واشنگٹن ڈی سی میں وائس آف امریکا کے عملے میں ایک ممتاز جگہ پر تھے اور آجکل اسلام آباد میں بی بی سی سے منسلک ہیں ) اور جو تقریباً ہر ہفتے اتوار کو مجھ سے ملنے غریب خانے پر تشریف لاتے تھے اور کچھ گھنٹے میرے ساتھ گذارتے تھے، اس مسئلے پر بات کرتے ہوئے میں نے ان کے ساتھ ایک شرط بد دی کہ اگر وہ میری چھ سو نظموں میں سے کسی ایک میں بھی لفظ ’’دل‘‘ نکال کر دکھا دیں، تو فی لفظ دس ڈالر کے حساب سے میں ادائی کروں گا۔ حسنِ اتفاق دیکھیے کہ انہوں نے میری شاعری کے دس مجموعوں کے لگ بھگ پندرہ سو صفحات (اور تیس ہزار سطور ) کو چھانتے ہوئے ایک نظم میں لفظ ’دل‘ دیکھ ہی لیا۔ اور دس ڈالر جیت لیے۔ (اگر موصوف یہ تحریر پڑھیں گے تو انہیں یاد آ ہی جائے گا!)
٭ استحضاریت شعر کا خاصہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر نام نہاد آمد کا غوغا کیسا ؟
آنند: اسی ’’استحضاریت‘‘ ( مستحضر، یاد کیا ہوا، مرتسم کیا ہوا، نوک بر زبان ہونا، یاد میں محفوظ ہونا) کو تو انگریزی میں inter-textuality اور اردو میں بین المتونیت کہا جاتا ہے۔ اور یقیناً یہ شعر کا خاصہ ہے، لیکن بھائی جان، صنف غزل کا تو مکمل انحصار ہی اسی بات پر ہے۔ زندگی اس قدر تیزی سے بدل رہی ہے کہ ہم عالمی گاؤں بن چکے ہیں۔ اگر آج بھی ہم ڈھیروں کے حساب سے وہی پرانی تشبیہیں اور استعارات برتیں گے جو بطور خیرات فارسی نے ہمارے کشکول میں تین صدیاں پہلے ڈال دیے تھے، تو پھر اللہ اللہ، خیر صلّیٰ۔ اس سلسلے میں اپنی ایک نظم جو لگ بھگ نصف صدی پہلے یعنی 1957ء میں لکھی گئی، پیش کرتا ہوں۔ شاید اس میں آپ کو جواب مل سکے۔
ہماری آنے والی نسل کو کیسے خبر ہو گی؟
بہت سے رت جگے جھیلے
بہت آہ و بکا میں وقت گذرا
غم پرستی کے سیہ حُجرے میں پہروں بیٹھ کر روئے
صنم پوجے ملال و حُزن کے ان بُت کدوں میں، جو
سخن کے بُت تراشوں اور غزل کے آذروں نے
اپنے وقتوں میں تراشے تھے
بہت غزلیں کہیں، شعروں میں حُسن و عشق کے پیکر تراشے
خود سے باتیں کیں
بڑے ہی خوبصورت استعاروں کی زباں میں بات کہنے کا ہنر سیکھا
بزرگوں کے وہ گُر ازبر کیے
جو شعر کہنے میں معاون تھے
بہت کچھ کر لیا، دیوان چھاپے، محفلوں میں داد حاصل کی
مگر آخر کِیا کیا؟
کون سی سچائیوں کے نخل کی یہ آبیاری تھی؟
یہ کیسی شاعری تھی، انفعالیت، شکست ذات، خود ترسی کی قدریں تھیں
جنہیں معصوم ذہنوں میں سمویا تھا
سمجھ کر جوہر فن، حسنِ روح، شاعری ہم نے ؟
کبھی اس حُزن کے حجرے سے نکلیں تو!
کبھی تازہ ہوا میں سانس لینے کو تو راضی ہوں
کبھی سوچیں کہ ہم نے کیا دیا ہے
آنے والی نسل کو اس کی وراثت میں ؟
کوئی ایسا صحیفہ، جس میں پورے دور کی تاریخ لکھی ہو؟
صحیفہ جو تدّبر کی علامت ہو، تعقل سے عبارت ہو
صحیفہ جس میں مخفی ہو کسی گُذرے ہوئے کل کی کہانی
عصرِ حاضر کے معانی کے تناظر میں ؟
صحیفہ، فلسفے کا، عشق کا، راز طریقت کا؟
صحیفہ، صاف پانی کا وہ چشمہ
عکس جس میں جھلملاتا ہو سبھی روشن مناروں کا
شبیہیں قوم کے معمار فنکاروں کی
جو ہر دور میں تاریخ سازی میں معاون تھے ؟؟؟؟
اگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں کچھ سوچنا ہو گا
بہت سی اور راتیں جاگ کر ہی کاٹنا ہوں گی
انہی شعری صحیفوں کی عبادت میں
اگر خون رگ جاں سے نہ لکھ پائے یہ فن پارے
ہماری آنے والی نسل کو کیسے خبر ہو گی؟
اگر آپ اجازت دیں تو میں ان سطروں کو دہرا دوں جو آپ کے سوال (یعنی یاد کے دفینوں سے کھود کر نکالی ہوئی شاعری کا بعینہ یا کچھ تبدل و اشتراک کے ساتھ روپ) کے بارے میں ہے۔
یہ کیسی شاعری تھی، انفعالیت، شکست ذات، خود ترسی کی قدریں تھیں
جی ہاں، آورد کا غوغا کیوں، مائی باپ؟۔ اسی پر شاکر رہیں۔ انفعالیت، شکست ذات اور خود ترحمی کے اشعار کہے جائیں اور داد وصول کرتے جائیں۔ لیکن میں، جنم جنمانتر کا باغی کیسے اس پر شاکر رہ سکتا تھا۔ اس کے بعد میں نے پے در پے اور نظمیں لکھیں جن میں اس بات کا اعادہ تھا کہ میں یہ ’شعری صحیفے ‘ لکھ کر اپنا فرض پورا کروں گا۔ اس کا اعلان میں نے دو برسوں کے بعد ایک اور نظم میں کیا، جو ممبئی سے شائع ہونے والے ماہنامہ ’شاعر‘ میں چھپی۔ اور اس پر بحث میں نامور اہل قلم (بشمولیت مرحوم سردارؔ جعفری نے حصہ لیا) آپ بھی دیکھیں اور داد دیں کہ میرا اعلان جنگ خالی خولی دھمکی ہی نہیں تھا، میں اس پر ایک عمر سے عمل کرتا چلا آ رہا ہوں۔ نظم کا عنوان ہے
میں خوابوں، خیالوں کا دریوزہ گر
میں خوابوں خیالوں کا دریوزہ گر
اپنا کشکول پھیلائے پھرتا رہا ہوں
ہمہ تن سوال و تجسس، کہ شاید
مجھے کوئی خیرات مل جائے، درویش شیراز، مُلّائے رومی سے
………
تو میں پرو لوں
خیالوں کو، خوابوں کو الفاظ کی جھالروں میں !
کہوں خود سے، میرے تہی شکم کشکول کی بھوک
اب مٹ گئی ہے
اسے سیر حاصل تشفی کا احساس ہونے لگا ہے
میں کم مایہ، محتاج، اردو کا شاعر تھا
جب بھی کبھی میں نے ان دو تونگر فقیروں کا در کھٹکھٹایا
فقیری کو دیکھا
تونگر کو پرکھا
تو جو کچھ بھی پایا۔ ۔ ۔ ۔ فقط ایک ہی لفظ
یا اس کی تفسیر سلک بیاں میں
فقط ’عشق‘ اور ’عشق‘ اور ’عشق‘ اور ’عشق
کہیں عشق، ’عشق ازل گیر‘ دیکھا
کہیں عشق، ’عشق ابد تاب‘ پایا
تعشق سے لے کر پرستش تلک
ایک ہی لفظ کی منقبت، مدح خوانی!
میں کب ڈھونڈھ سکتا تھا اس عنکبوتی جھمیلے میں
کچھ ایک سلجھے ہوئے تار، جو عصر حاضر میں
مجھ جیسے دریوزہ گر کی تشفی کا سامان بنتے ؟
یہ مانا کہ اپنے حکیمانہ افکار میں
اپنے وقتوں میں ملّائے رومیؔ
فرشتہ صفت ایک ہاتف تھا، جس کا
ہر اک لفظ سر بستہ راز طریقت تھا
تفسیر میں جس کی یزدانیت تھی
یہ مانا کہ درویش شیراز اپنے سخن کے
نمود و تناظر میں کاہن بھی تھا اور درویش بھی، پر
غزل گفتنی کو فقط مے پرستی
’لب، لعل‘، ’چشم فسوں ساز‘، ’یار طرحدار‘ کے دائروں میں
ہی رکھ کر پرکھنا طریقت نہیں ہے
تصوف کا پہلو جھلکتا بھی ہو، تو
یہ عشق حقیقی و عشق مجازی کی سوزن
مرا کون سا چاک سیتی؟
میں دریوزہ گر لفظ و معنی کا
نادار اردو زباں کا گدائے سخن
فارسی کی حلاوت سے اپنا تہی کاسۂ ذہن
صدیوں تلک تو
بڑے شوق سے بھرتا آیا ہوں، لیکن
مجھے اپنی کم مائے گی سے بھی بڑھ کر
حقیقت کا واضح نشاں مل چکا ہے
کہ میں چار صدیوں سے
اپنی ہی مرضی سے
گمراہ ہوتا چلا آ رہا ہوں !
میں ’’ عشق ازل گیر‘‘، ’’عشق ابد تاب‘‘ کا سست رفتار
ذہنی سفر چھوڑنا چاہتا ہوں
مجھ اب ضرورت ہے اس فلسفے کی
محرک رہا ہے جو صدیوں سے مغرب کی سبقت، ترقی پسندی
قدم زن قیادت کا ہر مسئلے میں !
مجھے اب ضرورت ہے اس کاوش فکر کے نظریے کی
کہ جس سے میں صدیوں کی غفلت کی زنجیر توڑوں
اندھیرے سے نکلوں، جہالت کو چھوڑوں !
میں اردو کا شاعر۔ ۔ ۔ خیالوں کا، خوابوں کا دریوزہ گر اب
اجازت کا طالب ہوں
ملائے رومیؔ سے، درویش شیراز سے
اے بزرگو
مجھے اب مرے حال پر چھوڑ دو!
میں نئے دور کی اس صدی میں ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ تمہارے
’سبو‘، ’ جام‘، ’ساغر‘، ’لب لعل‘، ’عیش و طرب‘، ’شمع عارض‘
گل و بلبل و گلشن و آشیانہ و برق تپاں
رہبر و راہزن، دشت پیمائی، مجنون و لیلے و محمل
سفینہ و ساحل و گرداب۔ ۔ ۔ ۔ دیوار و در۔ ۔ ۔
منصف و قاضی ٔ شہر، زندان و دار و رسن
۔ ۔ ۔ غزل گفتنی کے سبھی استعاروں
اشاروں، کنایوں کی اس بزم سے رخصتی چاہتا ہوں۔
1980ء
۰۰۰ (ہر دو اصطلاحات ن م راشدؔ سے مستعار)
٭ غزل میں نئے مضامین کی معدومیت کا رونا رونا کیا انسانی دماغ کی ’’ عبقری فعالیت ‘‘پر چیلنج اور تحدی نہیں۔ ؟
آنند: غزل گو شاعر کے ہاں، افسوس، صد افسوس، اس دماغ کو بیدار کرنے کا وقت ہی نہیں ہے جس میں ایک قدر معتبر کے طور پر ’عبقری فعلیت‘ یعنی ذہین، فطین، ہونے کی سطح پر فعال ہونا موجود ہو۔ وہ تو ذہن کے گودام کے شیلفوں پر رکھے ہوئے ان spare parts کو اٹھا اٹھا کر جب اپنی غزل میں فِٹ کرتا ہے تو اسے یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ ’ آمد‘ ہے، کیونکہ ذہن نے براہ راست ایک استعارے، یا ایک تشبیہ پر استوارسلک بیان میں، من و عن، جچے تُلے الفاظ میں ایک خوبصورت جملہ اسے فراہم کر دیا ہے۔ ؎ ہر کہ خیانت کند، البتہ بترسد ۔ ۔ بیچارہ شاعر نہ کرے ہے نہ ڈرے ہے : بیچارے شاعر کو تو یہ بھی علم نہیں کہ اس سے پہلے اس نے اساتذہ کے کلام میں یا اپنے ہمعصروں کے کام میں کتنی بار اس کو دیکھا ہو گا اور عادت ثانیہ کے طور پر اسے اٹھا کر اپنی یادداشت کے گودام کے ذخیرے میں ایک شیلف پر سجا دیا ہو گا۔
٭ نظم گو شاعر اور غزل گو شاعر کے فکری جذباتی تنوع اور معاشرتی برتاؤ پر بات ہو سکتی ہے ؟ یا اسے فطری ساختیات اوراسلوبیاتی دِساتیر میں ہی دیکھنا ہو گا۔ ۔ ۔ ؟
آنند: جی ہاں، بالکل ہو سکتی ہے۔ پہلے اگر ’’فکری، جذباتی تنوع‘‘ کو ہی لیں، تو سوال در سوال اور جواب در جواب کی ضرورت نہیں پڑے گی اور بر سبیل تذکرہ ’’معاشرتی برتاؤ‘‘ کا ذکر بھی آ جائے گا۔
’’فکری، جذباتی، تنوع‘‘۔ ۔ ۔ آپ نے، محترم، ’فکری ‘ اور ’جذباتی‘ کے مابین commaیعنی سکتہ روا نہیں رکھا، اس لئے میں اب ’’فکری اور جذباتی تنوع‘‘ کے سیاق و سباق میں دیکھ کر جواب لکھ رہا ہوں۔ ساسیئر سے مجھے کچھ قرض لینا پڑے گا۔ وہ کہتا ہے کہ قاری یا سامع کو’ تنوع‘ اس وقت مسحور کرتا ہے جب لسانی عمل میں کوئی تخلیق اپنے عناصر میں congruity اور incongruity یعنی ارتباط و تضاد کے ذو جہتی تفاعل کے ہونے کے باوجود معنویت کو قائم رکھ سکنے کی اہل ہو۔ اسی وسیلے سے ابلاغ اور تنوع باہم بغلگیر ہو جاتے ہیں۔ فکر اور جذبہ( اس ترتیب سے ) یا جذبہ اور فکر (اس ترتیب سے ) بہم دگر اگر منسلک ہوتے چلے جائیں تو معنی خیزی اپنے عروج پر رہتی ہے۔ نظم گو شاعر سہولیت کے ساتھ یہ قول اپنے فعل میں نبھاتا چلا جاتا ہے کیونکہ اسے پیچھے مڑ کر دیکھنے اور اپنی یادداشت کے شیلفوں سے فاضل پرزے اٹھا کر جڑنے کی ضرورت پیش نہیں آتی جبکہ غزل گو شاعر (میں نوّے فیصد نہیں کہوں گا!)آخری ممکنہ حد فاصل تک اصطلاحات، جملے، استعارے، ’مفت موسوم مصطلحات‘ جوں کے توں اٹھا کر جڑتا چلا جاتا ہے کہ فکر اور جذبہ نام کی دو بے تصنع اور بے آمیز ذہنی کیفیات پس پشت پڑتی چلی جاتی ہیں۔
اب فطری ساختیات اور اسلوبیاتی دساتیر کی طرف متوجہ ہوں۔ مجھے پھر ساسیئر اور بلوم فیلڈ Leonard Bloomfield کی طرف لوٹنا پڑے گا۔ فطری ساختیات پر زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم سب نہ صرف ساسیئر کے کام سے واقف ہیں، بلکہ پس ساختیات کے حوالے سے دریداؔ کے افکار کے بارے میں بھی کماحقہ آگاہی رکھتے ہیں۔ البتہ اسلوبیاتی دساتیر (یعنی اسلوب کے بارے میں وضع کیے گئے دستور، نقول، نمونے، آئین وغیرہ) کے بارے میں بات کو آگے بڑھائیں۔ غزل کا چلن ہی کوزے میں دریا کو بند کرنے یعنی مختصر ترین عبارت آرائی میں زیادہ سے زیادہ مفہوم کو فِٹ کرنا ہے۔ اس مسئلے کو اردو شعرا نے (بہ نسبت فارسی شعرا کے، کہ فارسی شعرا کے پاس فارسی کے علاوہ کوئی بیرونی ماڈل موجود ہی نہیں تھا، جبکہ اردو کے پاس فارسی کے دساتیر موجود تھے ) حل کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ میرؔ تو خدائے سخن تھا، اس نے سہل پسندی میں ہی روزمرہ کی زبان کا اختلاط کلاسیکی اسلوب سے کیا اور خوب کیا۔ شاید اس لیے بھی کہ ولی دکنی اور امیر خسرو کی مثالیں اس کے سامنے موجود تھیں۔ غالبؔ نے اپنی مدوریت اور ملفوفیت سے حتیٰ الوسع، حتیٰ الشعور (اور حتیٰ الامکان ) تک فایدہ اٹھایا۔ ترقی پسند تحریک کے آنے کے بعد بھی (اور اس کے اختتام تک) یہ اصول و ضوابط جاری رہے۔ ( یہاں میں نہ صرف صنف غزل کی بات کر رہا ہوں بلکہ اختر شیرانی کے رومانی دور کے بعد اور اقبال کے pro-Islamicدور کے بعد بھی ترقی پسند تحریک کے وقتوں میں صنف نظم نے بھی اسلوب کی سطح پر کوئی انقلابی رد و قدح یا رد و بدل نہیں کیا، اس کی طرف بھی اشارہ کر رہا ہوں۔ )
جدیدیت کی نام نہاد so-called تحریک کے سالوں میں (یہ تحریک جو انڈیا میں زیادہ اور پاکستان میں کم، ایک برساتی نالے کی باڑھ کی طرح آئی اور خس و خاشاک چھوڑ کر اتر گئی) میں البتہ نہ صرف زبان کی شکست و ریخت ہوئی بلکہ de-construction کے آزمودۂ کار اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر زبان سے ایسی کھلواڑ کی گئی کہ خدا پناہ ! اس میں ملوث کچھ شعرا نے تو ایسے شعر موزوں کر کے نہ صرف اس تحریک کو ہی نقصان پہنچایا بلکہ اپنی کھلّی بھی اڑائی۔ ؎ سورج کو چونچ میں لیے مرغا کھڑا رہا ۔ ۔ ۔ اور ؎ بکری میں میں کرتی ہے : بکرا منمناتا ہے یا شاید اس کے الٹ، بکرا منمناتا ہے، بکری میں میں کرتی ہے۔ یہاں میں، نظم اور غزل، دونوں کے حوالے سے اپنے لکھے ہوئے ایک مضمون سے ایک اقتباس پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ یہ مضمون بجنسہ میری کتاب ’’کتھا چار جنموں کی‘‘ میں موجود ہے۔ ایک مقالہ جو میں نے لکھا وہ تخلیقی قوت کی اس کارکردگی کے بارے میں تھا، جو فنکار کے ذہن میں پہلے ایک موہوم سی اور بعد میں ایک بہت شدید ’’ٹینشن‘‘ کی شکل میں وارد ہوتی ہے، اور فن پارہ مکمل ہونے کے بعد کتھارسس سے تحلیل ہو کر ایک قسم کی آسودگی کا احساس چھوڑ جاتی ہے۔ یہ مقالہ اس سوال کے جواب کے فٹ نوٹ کے طور پر پیش کر رہا ہوں۔
انگریزی لفظ tension یونانی لفظtensio اور اس کی اسمِ جامد شکل tensus سے آیا ہے۔ ارسطو نے اپنی بوطیقا میں اس ہیجان کی سی کیفیت کے لیے جس کا علاج اس نے کتھارسس catharsis فرض کیا، یہی دو الفاظ استعمال کیے ہیں۔ میں نے اس لفظ کے ممکنہ اردو نعم البدل الفاظ، ہیجان، کھچاؤ، تناؤ (ذہنی اور جسمانی) پر ارسطو کی اصطلاح کے حوالے سے غور کیا تو مجھے یہ تینوں نا کافی محسوس ہوئے۔ بہر حال 1964ء میں تحریر کردہ ایک ریسرچ پیپر جو P.E.N. کی کانفرنس کے لیے مجھے لکھنا تھا، میں نے یہ سوچ کر کہ ’’کتھارسس‘‘ پر توہزاروں صفحے لکھے جا چکے ہیں، لیکن ’’ٹینشن‘‘ پر جو ایک آرٹسٹ تخلیق کے عمل سے پہلے محسوس کرتا ہے، بہت کم کام ہوا ہے، اس موضوع کا انتخاب کیا اور چونکہ میں انگریزی کے علاوہ سنسکرت میں بھی شد بد رکھتا تھا، سنسکرت کاویہ شاستر کو کھنگالنے سے مجھے جو موتی ملے، انہیں میں نے بقدر ظرف اس مقالے میں استعمال کیا۔
یہ درست ہے کہ جذباتی اور نفسیاتی کھینچا تانی سے ہمارے دل و دماغ میں جو ہلچل پیدا ہوتی ہے اگر اسے بڑھنے دیا جائے اور اس کا سدِباب نہ کیا جائے تو اس کا اخراج فساد، مار پیٹ، قتل اور خود کشی میں نمایاں ہو سکتا ہے۔ اس لیے اگر حیاتیاتی اور نفسیاتی علوم کی مدد سے اس کو خارج کیا جا سکے تو ’مریض‘ اپنی نارمل حالت میں واپس آ سکتا ہے۔ یونانی اطباء کو بھی اس کا علم تھا، اس لیے جب ارسطو نے یہ کہا کہ ایک ٹریجڈی اسٹیج پر کھیلے گئے واقعات کی بنا پر تماشائیوں کے ایسے جذبات کو رحم اور خوف سے خارج کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے، اس لیے افلاطون کی ’’ ری پبلک‘‘ میں جہاں دیگر پیشہ وروں کو مناسب جگہ اور رتبہ دیا گیا ہے، وہاں ڈرامہ نویسوں کو بھی دیا جانا ضروری ہے۔ یہاں تک تو طلبہ کو سمجھانا آسان تھا، لیکن میں نے اس مقالے میں مثالوں سے یہ واضح کیا کہ جب تک ہم عصری حوالوں سے، جن میں نسل، قومیت، مذہب اور رنگ کی بنیاد پر فسادات کا ایک لا اختتام سلسلہ جاری ہے، ان حالات کو ارسطو کے نظریے میں کچھ توسیع کر کے نہ بتائیں، ہم طلبہ کو نہیں سمجھا پائیں گے، کہ ارسطو کا نظریہ کس حد تک نا مکمل ہے۔ اسی طرح نصاب کی متنی تدریس سے تجاوز کر کے میں اپنے طلبہ سے جو باتیں کرتا تھا، ( اور میں نے جس کے بارے میں اپنے مقالے میں تفصیل سے لکھا )، ان میں یہ باریک نکتہ بھی شامل تھا کہ حقیقت نگاری اور سماجی حقیقت نگاری Realism & Social Realismمیں کیا فرق ہے۔ اوّل الذکر صدیوں سے قابل قبول اس چلن سے انحراف تھا جسے ہم رومانی اور تخیلی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن روسی انقلاب سے کچھ قبل اور پھر اس کے بعد شد و مد سے موخر الذکر کا دور شروع ہوا جس میں مقصدیت اور مروجہ جمالیاتی اسلوب سے بغاوت تھی، یہاں تک کہ سیاسی اور سماجی تشکیل نو کے لیے بھی ادب کو آلۂ کار بنا لیا گیا۔ ترقی پسند مصنفین کی تگ و دو بھی دونوں ممالک، یعنی ہندوستان اور پاکستان میں اسی کے زیر اثر شروع ہوئی۔ ان برسوں میں عقیدہ، جاگیردارانہ تکلف، روحانی اقدار کی پابندی، بورژوا اخلاقیات کی بھرپور مخالفت کی گئی۔ پھر وہ دور آیا، جب روس کی دیکھا دیکھی ہماری زبانوں میں بھی ادیبوں اور قارئین، دونوں نے یہ محسوس کیا کہ وہ بھٹک گئے ہیں۔ یورپ میں تو جنگ عظیم کے ختم ہوتے ہوتے جدیدیت کی تحاریک شروع ہو چکی تھیں، لیکن ہمارے ہاں قدرے دیر سے پہنچیں۔ ہم لوگ بہت پیچھے تھے، یعنی جب بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ژاں پال سارترؔ کے وجودیت کے فلسفے کی بحث زوروں پر تھی ہم ابھی انجمن ترقی پسند مصنفین کی داغ بیل ڈال رہے تھے۔ جیمز جوائس کا ناول ’’یولیسیِس‘‘ انگلینڈ میں 1922ء میں چھپا جب کہ اردو والوں نے اس کے بارے میں بات چیت کرنا تیس چالیس برس بعد شروع کیا۔ سارترؔ کے فلسفۂ وجودیت کے حوالے سے یہ بات لکھنا ضروری ہے کہ کہیں کہیں اس میں ادبی روایات سے بغاوت کا چلن مختلف نہیں تھا، تہذیبی بیڑیوں کو کاٹنے کی باتا س میں بھی کہی جاتی تھی، بورژوا اخلاقیات اور مادیت سے بچ کر چلنے کی ہدایت اس میں بھی دی جاتی تھی۔ جنسی موضوعات سے پردہ پوشی کی روایت سے انحراف اس میں بھی تھا، لیکن ہوا یہ کہ مایوسی، تکان، مستقبل کے بارے میں بد اعتمادی، جہد لا حاصل جب ادبی موضوعات میں رواج پا گئے تو انسان کی افضل تریں حیثیت کے بارے میں ’’ڈی ٹراپ‘‘ de-trop یعنی بیکار، فضول کا نظریہ پنپنے لگا۔ اسلوب کی سطح پر علامت کے ابہام، استعارے کی ملفوفیت اور مدوریت کے اجزا در آئے اور شعری تخلیقات تو ایک معّمہ بن کر رہ گئیں۔
جہاں یورپ میں اشتراکی حقیقت پسندی کو بالائے طاق رکھ کر جدیدیت کو اپنا لیا گیا تھا وہاں ہمارے ہاں یہ دونوں تحاریک کچھ برسوں تک ساتھ ساتھ چلتی رہیں، لیکن آخر روایت سے کلیتاً بغاوت نہ کئے بغیر بھی جدیدیت کے اجزائے ترکیبی ہمارے ادب میں رواج پا گئے۔ ’’حقیقت نگاری کے غیر جمالیاتی اور صحافتی اسلوب کی جگہ پر ما فوق الفطرت اور فطرت کی علامتوں سے مادی اور زمینی حقیقت کی ترجمانی رواج پا گئی۔ اردو ادب کے جزیروں میں ہی سہی، لیکن پاکستان میں کم اور ہندوستان میں زیادہ یہ امور دیکھنے میں آئے کہ defamiliarization یعنی غیر مانوسیت اور anachronism یعنی سہو زمانی کے طریق کار سے جمالیات اور معنویت کہ تہہ داری پیدا کی گئی۔ مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں ہے، اور میں اسے hindsight سے دیکھ سکتا ہوں، (کیونکہ ان میں بیشتر قلمکار ذاتی سطح پر میرے واقف تھے !) کہ یہ لوگ غیر منطقی اور ابسرڈ absurd تحریریں ارادتاً لکھ رہے تھے۔ یورپ میں بھی سَرریئلسٹوں Surrealists کے بارے میں یہ بات اب غلط نہیں سمجھی جاتی کہ وہ گراف بنا کر، اس کیچ یا نقشہ بنا کر، اپنی تحریر کو خلط ملط کرنے اور متن کی ’’آنکھ ناک کان کو اس کے جسم کی کسی بھی جگہ پر ٹرانسپلانٹ کرنے ‘‘ کی کوشش جان بوجھ کر کیا کرتے تھے۔ ان کی تحریروں میں جنس و جبلت بطور موضوع یا مضمون نہ بھی ہوں تو بھی ان کا ذکر برملا ہوتا تھا۔ لیکن گفتگو میں یورپ کے معروف دانشوروں کا نام لینے تک ہی ان کیے مطالعہ کی سد سکندری تھی۔ اگر ان سے پوچھے جائے کہ ییک لاکاں، جس کا نام وہ لے رہے ہیں، کون سے ملک سے یا کس زبان سے یا کس دور سے تعلق رکھتا تھا، تو انہیں کچھ پتہ نہ تھا۔ اگر یہ کلید بھی دے دی جائے کہ اس نے نشاۃ ثانیہ Renaissance کی تحریک کو جدید دور اور قرون وسطی کی کڑی بتایا ہے تو بھی انہیں کوئی سراغ نہیں مل سکتا تھا۔ ایک بار میں نے کوئی پچیس برس پہلے دہلی کے اردو دانشوروں کے ایسے ہی ایک گروپ میں سوئٹزرلینڈ کے مورخ جیکب برک ہارٹ Jacob Berchart کا ذکر کیا اور کہا کہ موجودہ جدیدیت سے بہت پہلے اس نے نشاۃ ثانیہ کی اصطلاح کے ساتھ ساتھ ان عوامل کی نشاندہی کر دی تھی جنہیں آج ہم جدیدیت کے بنیادی عناصر کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ اور یہ تھے، فردیت کے نظریہ کا فن پر اطلاق، دنیا اور فرد کی باہمی کشمکش کی نئے سرے سے دریافت، فرد اور حکومت کے تعلق باہمی کا ادب سے اخراج۔ ۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ سب خاموش بیٹھے تھے۔ ان میں وہ بھی تھے جو بزعم خود اپنے آپ کو اردو میں جدیدیت کے قائد کے بعداس کا سب سے بڑا ideologue سمجھتے تھے۔
٭٭٭