آپ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی بھی شہری محفل میں کھڑے ہو جائیں اور تبادلہ خیال کرنے کی کوشش کریں تو سوائے بزرگوں کے، ہر مخاطب دو چار جملوں کے بعد ایک لفظ کا استعمال ضرور کرے گا۔ یو نو (You Know) اور اگر اس سے ملتا جلتا لفظ نہ کہے تو دوران گفتگو ہاتھوں کو زور زور سے مخاطب کے چہرے کے سامنے ضرور ہلائے گا تاکہ جو وہ نہیں کہ سکا وہ ہاتھوں کی حرکات سے پہنچا سکے۔ گفتگو اگر انگریزی میں شروع ہوئی ہے تو دو چار جملوں کے بعد اردو کی پٹڑی پر آ جائے گی مگر اس میں انگریزی الفاظ کا جا بجا استعمال درد کے پیوند کی طرح ہر گھڑی لگتا چلا جائے گا۔ اور اس کے بعد پھر انگریزی کا ایک جملہ سنگ گراں کی طرح آپ کے حسن سماعت کے لئے لڑھکا دیا جاتا ہے۔ *ہم میں سے زیادہ تر حضرات ابلاغ کے معاملے میں تقریباً اسی طرح درد زہ کی سی کیفیت سے دوچار رہتے ہیں۔ * دوچار فقرے بولنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ ابلاغ مکمل نہیں ہوا چنانچہ پھر اردو سے انگریزی یا اس کے برعکس گیئر بدلا جاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنے کلچر کے متعلق بے یقینی کا شکار ہیں اور صحیح طور پر اپنا ثقافتی تشخص نہیں کر پا رہے۔
زبان اظہار کا موثر ترین ذریعہ ہے۔ ترقی یافتہ قوموں میں زبان تیزی سے ترقی کرتی ہے اور اس میں نئے الفاظ کا اضافہ تیزی سے ہوتا چلا جاتا ہے۔ اردو زبان میں بھی الفاظ کا اضافہ ہوا ہے انگریزی الفاظ کی کھپت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ مگر اگر غور سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ترقی محض مادی میدان میں ہوئی ہے جبکہ سماجی میدان میں ہنوز جمود کا سا عالم طاری ہے۔ نئے محاورے، نئی ضرب الامثال، نئی کہاوتوں، نئی تشبیہات و تلمیحات کا استعمال کم دیکھنے میں آتا ہے۔
میرے والد صاحب اپنے سکول کے طالبعلموں میں ایک ہر دلعزیز سائنس ٹیچر کے طور پر مشہور تھے۔ ایک دن جب میں نے ان سے کامیابی کا راز پوچھا تو کہنے لگے کہ مخاطب کی ذہنی سطح، ماحول اور زبان کا خیال رکھنا لازمی ہے۔ ایک دہقانی لڑکے کو نیوٹن یا بوائل کے اصول آپ انگریزی یا اردو کی اصطلاحات میں پڑھانے کی کوشش کریں گے تو ناکام رہیں گے۔ اسے پنجابی زبان میں گاوں کی عام زندگی سے مثالیں دے کر ہی اچھی طرح سمجھا سکتے ہیں۔ یعنی اصل اہمیت ابلاغ کی ہے چاہے اردو میں ہو، انگریزی میں یا پھر پنجابی میں۔ میں نے اس اصول کو پلے باندھ لیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد لاہور میں ایک ستر سالہ خاتون مسز مسرت نے ایک ملاقات کے دوران مجھے زندگی کا ایک اور سبق دیا کہ ان کے والد نے ان کے بچپن میں ہی کہا تھا کہ *جب اردو بولنا تو خالص اردو بولنا اور جب انگریزی بولنا تو خالص انگریزی بولنا۔
معیاری اردو اور انگریزی صرف کتابوں تک محدود ہو کر رہ گئی۔ لفظ آنٹی کے پردے میں خالہ، چچی، تائی یا پھوپھی کون چھپا ہے معلوم نہیں پڑتا اور ریڈرز ڈائجسٹ میں انگریزی لطیفہ پڑھ کر سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کریں۔ سکول کے بچے اردو پڑھنے کے لئے ٹیوٹر ڈھونڈھتے ہیں۔ شاید کچھ عرصہ کے بعد لوگ ایک دوسرے سے یہ کہتے نظر آئیں گے
یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو ، جو نہ دے مجھ کو زباں اور
بعض اوقات چو این لائی بہت یاد آتے ہیں جنہیں ایک غیر ملکی ملاقات کے دوران انگریزی بولنے کو کہا گیا تو ان کی طرف سے ایک جواب آیا جو تاریخ کے سینے پر ہمیشہ کے لئے رقم ہو گیا "چین گونگا نہیں ہے "۔
٭٭٭