ڈاکٹر نارنگ ’ساختیات‘ ہی کے نہیں ’’خود ساختیات‘‘ کے بھی ماہر ہیں ۔۔۔ مشفق خواجہ

ڈاکٹر نارنگ صاحب جب بھی پاکستان تشریف لاتے ہیں تو یہاں کی ادبی دنیا میں زلزلہ سا آ جاتا ہے۔  عام زلزلے سے زیر زمین سطح پر ارتعاش پیدا ہوتا ہے،ڈاکٹر نارنگ قضیۂ زمین برسرِ زمین کے قائل ہیں۔

ان سے ملنے کے لیے لوگ بے تاب ہوتے ہیں اور وہ خود بھی سراپا اشتیاق بن جاتے ہیں۔  ہر ایک سے اس طرح ملتے ہیں جیسے صرف اسی سے ملنے کے لیے انہوں نے زحمتِ سفر اُٹھائی ہو۔  پچھلے ہفتے کراچی میں ایک مرتبہ پھر ڈاکٹر نارنگ کے حوالے سے خلوص و محبت کے بے مثال مناظر دیکھے میں آئے۔  اس مرتبہ موصوف کی آمد کا سبب عالی صاحب تھے۔  اس ابہام کی توضیح یہ ہے کہ مئی کے دوسرے ہفتے میں عرب امارات میں عالی صاحب کا جشن منایا گیا۔  نارنگ صاحب نے اس جشنِ طرب میں شرکت کی اور ان کی شان میں ایک خوبصورت مقالہ پڑھا۔  اس مقالے میں عالی صاحب کی اتنی تعریف تھی کہ ان کے لیے اکیلے واپس آنا مشکل ہو گیا۔  لہٰذا نارنگ صاحب انہیں کراچی چھوڑنے آئے۔  کراچی میں نارنگ صاحب کا قیام ایک ایسے علاقے میں تھا جو شہر سے بہت دور ہے،اس لیے خیال تھا کہ وہ ہجومِ عاشقاں سے محفوظ رہیں گے اور عالی صاحب کے بارے میں مقالہ لکھنے سے جو تھکن ہوئی ہے اس کا ازالہ کریں گے۔  لیکن سننے میں آیا ہے کہ صبح کاذب ہی سے عشاق ان کے ہاں پہنچ جاتے تھے۔  کوئی اخبار کے لیے انٹرویو لیتا تھا کوئی اپنی کتاب پر رائے کے لیے تحریری درخواست سامنے رکھتا تھا۔  حد تو یہ ہے کہ ڈاکٹر عالیہ امام نے بھی انہیں اپنے ہاں مدعو کیا حالانکہ ترقی پسند ڈاکٹر نارنگ سے اتنا ہی پرہیز کرتے ہیں جتنا خالص ادب سے۔  لیکن ڈاکٹر عالیہ امام بہت فراخ دل ہیں،وہ خاص خاص رجعت پسندوں کو بھی شایانِ توجہ سمجھتی ہیں۔  خود ڈاکٹر نارنگ بھی فراخ دلی میں کچھ کم نہیں ہیں۔  ترقی پسندوں سے وہ ایسی محبت سے ملتے ہیں جیسے ساتھ کے کھیلے ہوں۔  ایک محفل میں تو انہوں نے پروفیسر ممتاز حسین کو اپنا معنوی استاد بھی کہہ دیا۔  اس پر استاد لاغر مرادآبادی نے فرمایا: ’’ڈاکٹر نارنگ ساختیات کے ماہر ہیں۔  ساختیات میں لفظوں سے بحث ہوتی ہے،معنوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔  اس لیے معنوی استاد کا مطلب ہے لفظی استاد۔  ڈاکٹر نارنگ نے بھی ساختیات کا نقّارہ اس زور سے بجایا ہے کہ سننے والوں کے کان گنگ اور دماغ ماؤف کر دیے ہیں۔  سمجھنے والے خاموش ہیں اور نہ سمجھنے والے واہ واہ، سبحان اللہ کا شور مچا رہے ہیں۔  نارنگ صاحب کی کراچی میں موجودگی کے دوران انتظار حسین نے بھی لندن جاتے ہوئے چند گھنٹوں کے لیے کراچی میں قیام کیا۔  لندن کے اردو مرکز میں ان کے ساتھ ایک شام منائی جا رہی ہے۔  کراچی کی ایک دعوت میں ڈاکٹر نارنگ اور انتظار حسین کی ملاقات ہوئی۔  کسی نے انتظار حسین سے پوچھا: ’’آپ لندن اکیلے جا رہے ہیں یا آپ کے ساتھ کوئی مقالہ نگار بھی جا رہا ہے۔‘‘ انہوں نے ڈاکٹر نارنگ کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کر جواب دیا ’’میں جمیل الدین عالی کی طرح مقدور نہیں ہوں کہ نوحہ گر کو ساتھ رکھوں۔‘‘ نارنگ صاحب کا نیا تنقیدی مجموعہ ’’ادبی تنقید اور اسلوبیات‘‘ حال ہی میں شائع ہوا ہے۔  اس کا ایک نسخہ انہوں نے ہمیں عنایت فرمایا ہے۔  یہ نہایت فکر انگیز مقالات کا مجموعہ ہے۔  اردو میں ایسے تنقیدی مجموعے کم شائع ہوئے ہیں جن میں روایتی تنقید سے ہٹ کر بات کی گئی ہو۔  اس میں میرؔ،انیسؔ اور اقبال کی اسلوبیات کے تجزیے ہیں۔  فیض و عالی کے معنیاتی نظام کے جائزے ہیں۔  شہر یار،بانی،ساقی فاروقی اور افتخار عارف کی شاعری کے توصیفے ہیں۔  نثری نظم کی شناخت بتائی ہے۔  خواجہ حسن نظامی اور ڈاکٹر ذاکر حسین کی خصوصیات بیان کی ہیں۔  اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو یہ مجموعہ ضرور پڑھنا چاہیے کہ اردو شاعری کی اتنی تعریف کسی دوسری جگہ نہیں ملے گی۔  ڈاکٹر نارنگ نے ان دونوں پر لکھتے ہوئے قلم توڑ دیا ہے۔  انہوں نے یہ اچھا ہی کیا ہے۔  اگر وہ خود قلم نہ توڑتے تو اس کتاب کے پڑھنے والے توڑ دیتے۔

٭٭٭

(’خامہ بگوش‘ سے ماخوذ)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے