نہ پوچھو مدینہ میں کیا دیکھ آئے
درِ پاک خیرالوریٰ دیکھ آئے
حسیں سبز گنبد وہ نوری منار ہے
سرِ فرش عرش عُلیٰ دیکھ آئے
کوئی اُن سے پوچھے تو رحمت کا عالم
جو طیبہ کو ایک مرتبہ دیکھ آئے
کھجوروں کے جھُرمٹ میں رقصاں بہاراں
کہو جا کے بادِ صبا دیکھ آئے
بشر کو جہاں سے ملی سر بلندی
وہیں سر ملک کا جھکا دیکھ آئے
کوئی غیب ان سے چھپا تو نہیں ہے
جو آنکھوں سے نورِ خدا دیکھ آئے
یہ ایماں ہے اپنا کہ طیبہ میں جا کر
مجلّیٰ جمال خدا دیکھ آئے
کہاں تیری تقدیر میں ہے یہ بیکلؔ
کہ جا کہ درِ مصطفٰےؐ دیکھ آئے
٭٭٭
ان کا در چومنے کا صلہ مل گیا
سر اٹھایا تو مجھ کو خدا مل گیا
عاصیوں کا بڑا مرتبہ مل گیا
حشر میں دامنِ مصطفی مل گیا
ان کھجوروں کے جھرمٹ میں کیا مل گیا
باغِ خلدِ بریں کا پتا مل گیا
جس کو طیبہ کی ٹھنڈی ہوا مل گئی
بس اسے زندگی کا مزا مل گیا
مدحتِ مصطفی کا یہ احسان ہے
میرا حسان سے سلسلہ مل گیا
کچھ نہ پوچھو کہ میں کیسے بیکل ہوا
مجھ کو کملی میں نورِ خدا مل گیا
٭٭٭
خزاں سے کوئی طلب نہیں ہے بہار لے کر میں کیا کروں گا
نگاہ ساقی رہے سلامت خمار لے کر میں کیا کروں گا
کہاں وہ حال بلال حبشی کہاں وہ عشق اویس قرنی
نبی کی فرقت میں جی رہا ہوں قرار لے کر میں کیا کروں گا
کوئی ہے شام وطن پہ رقصاں کوئی ہے صبح چمن پہ نازاں
بساط میری ہے خاک طیبہ نکھار لے کر میں کیا کروں گا
ائے مخلصو تم مجھے نہ چھیڑو یہ رسم الفت تمہیں مبارک
شہ مدینہ کا عشق لاؤ یہ پیار لے کر میں کیا کروں گا
کتاب اول پہ نقش قرآں وہ روئے انور پہ زلف پیچاں
قسم ہے شمس و قمر کی لیل و نہار لے کر میں کیا کروں گا
نگاہ منکر نکیر چمکی تو ان کا بیکلؔ مچل کے بولا
نبی کے جلوؤں میں گم ہے شمع مزار لے کر میں کیا کروں گا
٭٭٭
ہر اک صبح منور انہیں کے نور کی ضو
ہر اک شام تجلّی کی آرزو ہیں حضور ؐ
اجل ٹھہر کہ ابھی تیرے ساتھ چلتا ہوں
مگر یہ دیکھ، ابھی میرے روبرو ہیں حضور ؐ
کوئی بھی دیکھے تو ان کی نگاہ ایماں سے
اجل کی لاج، قیامت کی آبرو ہیں حضور ؐ
کہیں سے بھی انہیں دل سے پکاریے تو سہی
مدینہ رہ کے، قریب رگ گلو ہیں حضور ؐ
ہر اک نفس ہے درود و سلام میں بیکل
خدا گواہ! یقیناً چہار سو ہیں حضور ؐ
٭٭٭