بیگار
کہاں ہو تم ۔۔۔
ادھر دیکھو
قلم کی روشنائی
نیلگوں صحرا کی شاموں سے
سنہری کاغذوں کی کشتیوں میں
ریت
بھر کرلا رہی ہے
ہوا دھیرے سے نغمے
بارشوں کے گا رہی ہے!!!
٭٭٭
پھٹے غبارے
کہاں چھپائی ہے خوشبو تم نے
کہاں رکھے ہیں سخن تمہارے
نجانے بارش کہاں گئی ہے
یہاں تو بس خاک اڑ رہی ہے
کہیں بھی سوندھے بدن نہیں ہیں
نہ سبز پیڑوں پہ گل کھلے ہیں
نہ رنگیں آنچل میں کوئی لڑکی
ہوا بھی لگتی ہے سوئی سوئی
میں اجنبی سی وہاں کھڑی ہوں
جہاں تم ہوتے تھے مجھ سے پہلے
بہت پریشاں ہیں خواب سارے
ادھر اُدھر وہ بھٹک رہے ہیں
غبارے تیزی سے پھٹ رہے ہیں۔
٭٭٭