کھیل
__________________
کائی ہری تھی، ہری رہی
کہیں اندر ہی اندر
میں برسوں نڈھال رہی
پہلے تو صرف
اپنی دھڑکن سنی تھی میں نے
بجلی چمک گئی تو
اک راہ جگمگائی
اور دور سے کسی کی آواز مجھے سنائی
جوں ہی قریب پہنچی
جانے کہاں وہ کھوئی
نہ پاس آئی میرے
اور
نہ مجھ سے دور ہوئی۔۔ ۔ !
٭٭٭
پرچھائیں کی مہک
__________________
اُس شام کے ڈھلتے رنگوں میں
ہر منظر کی تصویر ملی
کب کیسے تم مجھ سے بچھڑے
اس راز سے پردہ اٹھ نہ سکا
میں بوجھل دل کی خاموشی سے
کون سی بات کریدوں اب۔۔ ۔
وہ سایہ تھا۔۔
میں خوشبو ہوں
کب آنکھ کے جال میں آتے ہیں۔۔۔!
٭٭٭