نظمیں ۔۔۔ ثناء اللہ ظہیرؔ

 

ادھورا اندمال

 

ذہن میں اب بھی سلگتا ہے وہ لمحہ

جب میں

قصرِ پرویز میں چھوڑ آیا تھا شیریں اپنی

 

کان پر روز قلم رکھ کے نکلتا تھا

(کہ تیشہ ہے مرا)

روز اک دودھیا الفاظ کی نہر

قصرِ پرویز تلک جاتی تھی

صرف شیریں کو پتہ چلتا تھا

 

کوہِ قرطاس کو سرمے میں بدل ڈالا ہے

روز کی تیشہ زنی نے

قصرِ پرویز کی تختی ہی بدل ڈالی ہے

وقت نے

(جو مرا مرہم بھی ہے)

 

وقت کی راکھ نے ہر چیز کو ڈھانپا تو ہوا ہے

لیکن

آج بھی تہہ میں سلگتا ہے وہ لمحہ

مرا لمحہ

 

 

***

 

دھوپ سے مصافحہ

 

روشن دان سے آتی دھوپ میں گرد کے ذرّے

تاروں سے بڑھ کر روشن ہیں

دھوپ کے ایک سرے پر میرا سر ہے

جو کچھ لمحے پہلے تک

خلا میں گھومتے برفیلے سیاروں جیسا تھا

اب روشن ہے

آنکھ کے سامنے پھیلی دھوپ میں اڑتے ذرے

لمحہ بہ لمحہ

کائنات کے پھیلنے جیسا منظر باندھ رہے ہیں

٭٭

 

بجھے ہوئے تاروں کا برادہ کمرے میں بھرتا ہے اور نکل جاتا ہے

خنکی گھٹتی جاتی ہے

ا ب برف بھی پگھلے گی

برف جو میرے سر پہ جمی ہے

برف جو میری سوچ پہ طاری ہے

برف جو میری آدھی عمر نگل کر آدھی عمر کی گھات میں ہے

٭٭

 

روشن دان سے آتی دھوپ

گرد کے گدلے ذروں کو روشن کر دینے والی دھوپ

تھوڑی دیر میں میرا اندر چمکائے گی

دھوپ کے ایک سرے پر میرا سر بھی ہے

***

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے