داستان
__________________
قبروں پر دیے بجھ گئے ہیں
اور
درختوں میں ستارے ٹوٹ رہے ہیں
بوسیدہ کواڑوں پر
خاموشی دستک دیتی ہے
اداسی اور محبت سے بوجھل ہوا
سیٹیاں بجاتی
زمانوں سے گذر رہی ہے
کیلنڈر سے سال دنوں کی طرح اتر رہے ہیں
آنگنوں میں چارپائیاں اوندھی پڑی ہیں
اور چولھوں میں راکھ سرد ہو چکی ہے
بچوں کی آنکھوں میں
کھلونے ٹوٹ گئے ہیں
اور دکھتی چھاتیوں میں
شہد خشک ہو گیا ہے
اکھڑی ہوئی سڑکوں پر
ماتمی جلوس آواز لگاتا ہے
اور ڈھولک کی تھاپ پر
لڑکیاں، وداع کے گیت گا رہی ہیں
نیند کی مہک میں لپٹی عمارتوں میں
سانسیں رینگ رہی ہیں
دریچوں میں چاند تھک کر سو گیا ہے
رات کے کیچڑ میں لت پت گلیاں
جاگ رہی ہیں
وہ سامنے، گلی کے موڑ پر
کانپتے لیمپ کی زرد روشنی میں
ایک سایہ
کیا تمھیں نیند آ گئی ہے!؟؟
٭٭٭
وچ مرزا یار پھرے
__________________
(ایک نظم جس کا ابتدائی مسودہ ڈاکٹر ابرار احمد نے آپریشن تھیٹر کی دیوار پر لکھا تھا۔۔۔ جب پہلی بار انھیں ایک لاش کے پوسٹ مارٹم کے تجربے سے گزرنا پڑا۔۔ عارفہ شہزاد کا بیان)
لکھ۔ نیند نہیں آتی
اور خواب نظر آتے ہیں
کروٹ لیں تو عمریں ٹوٹ جاتی ہیں
بارشوں میں بھیگے ہوئے دل، نچڑ جاتے ہیں
اور وقت کی دلدل میں
دنیائیں ڈوب جاتی ہیں
لکھ۔
موت کے پچھواڑے سے شہر آواز دیتا ہے
سڑکیں اکھڑ رہی ہیں
اور غلیظ پانیوں میں سانپ بہ رہے ہیں
مغلظات میں لفظوں کی تہذیب ہے
اور تہذیب میں، سورماؤں کا نطفہ ہے
جابر پٹھوں کا تناؤ ہے
متلی سے عالم کو ثبات ہے
لکھ۔
آنکھیں پھیلی ہوئی پتلیوں میں منظر انڈیل رہی ہیں
لوگ مر جاتے ہیں
اور ان کے گلے سڑے جسموں سے دھرتی جھومتی ہے
لاشوں کی ہمسائیگی میں
ان کی بند آنکھوں
اور نکلی ہوئی زبانوں سے گرتی رطوبت کے
زہر آلود چھینٹوں میں
وحشی صداؤں کا گرداب ہوتا ہے
لکھ کھلے دہانوں میں جہنم کی آگ ہے
اور گدلی انتڑیوں میں کیچ کھولتا ہے
سجی ہوئی میزوں پر
حریص معدے الٹ جاتے ہیں
ماتھوں پر دعائیں، داغ بن جاتی ہیں
اور آہنی دانتوں میں دل چبا دیے جاتے ہیں
باتوں کی آگ سے ہونٹ سیاہ ہو جاتے ہیں
زخمی ہاتھوں سے پوریں جھڑ جاتی ہیں
بستروں پر بغل گیر تنفس بو چھوڑ دیتا ہے
کھوپڑیوں میں علوم کے کیڑے
کلبلاتے رہ جاتے ہیں
کوکھ کے اندھیرے، کبھی ساتھ نہیں چھوڑتے
لکھ۔
آنکھیں پھوڑ دی جائیں گی
اعضاء اکھاڑ دیئے جائیں گے
عمارتیں سروں پر آ گریں
دھرتی پھٹ جائے
اور آسمان کو الٹا لٹکا دیا جائے
اور لکھ ۔۔۔۔
اور لکھ ۔۔۔۔
’’گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے‘‘
٭٭٭
ہر روز
__________________
ہر روز کوئی قلم ٹوٹ جاتا ہے
کوئی آنکھ پتھرا جاتی ہے
کوئی روزن بجھ جاتا ہے
کوئی دہلیز اکھڑ جاتی ہے
کوئی سسکی جاگ اٹھتی ہے
کوئی ہاتھ ٹھنڈا ہو جاتا ہے
کوئی دیوار گر جاتی ہے
اور کوئی راستہ بن جاتا ہے
ہر روز کہیں کوئی چھت بیٹھ جاتی ہے
کوئی درخت کٹ جاتا ہے
کوئی خواب بکھر جاتا ہے
کوئی آہٹ رخصت ہو جاتی ہے
اور ایک آواز —- اپنی آمد کا
اعلان کر دیتی ہے
کوئی جنگل اگ آتا ہے
اور ایک زمانہ — معدوم ہو جاتا ہے
ہر روز کوئی نیند ٹوٹ جاتی ہے
کوئی آنکھ لگ جاتی ہے
کوئی دل بیٹھ جاتا ہے
اور کوئی زخم بھر جاتا ہے
ایک قصہ ادھورا رہ جاتا ہے
ہر قصے کی طرح
کوئی گیت سو جاتا ہے
کوئی تان الجھ جاتی ہے
کوئی سانس پھول جاتی ہے
اور خاموشی چھا جانے سے پہلے
کوئی دھن چھڑ جاتی ہے
انگلیاں چلتی رہتی ہیں
تار ٹوٹتے رہتے ہیں!
ہر روز کوئی بارش تھم جاتی ہے
کوئی زمین سوکھ جاتی ہے
کوئی چولہا سرد ہو جاتا ہے
کوئی بستی اجڑ جاتی ہے
——- کسی تعمیر کے نواح میں
کوئی خوشبو سو جاتی ہے
ایک دریا اپنا رخ تبدیل کر لیتا ہے
اور کناروں پر ایک آگ جل اٹھتی ہے
ہر روز کوئی پھول کھل اٹھتا ہے
کوئی ہوا چل پڑتی ہے
کوئی مٹی اڑ جاتی ہے
اڑ جاتی ہے اور بکھر جاتی ہے
ہونے کی لذت سے سرشار چہروں پر
کوئی کھڑکی بند ہو جاتی ہے
اور کوئی دروازہ کھل جاتا ہے
کھلا رہتا ہے دیر تک
کوئی پہیہ رک جاتا ہے
کوئی سواری اتر جاتی ہے
کوئی پتہ ٹوٹ جاتا ہے
کوئی دھول بیٹھ جاتی ہے
اور ایک سفر تمام ہو جاتا ہے
شاخ جھول جاتی ہے
اور کوئی پرندہ اڑ جاتا ہے
ان دیکھی فضاؤں کی جانب
اجنبی گھٹاؤں کی جانب
ہر روز میری آنکھ سے، تمھارے لیے
ایک آنسو– گر جاتا ہے
ہونٹوں سے ایک دعا اتر جاتی ہے
دل میں ایک دھاگہ ٹوٹ جاتا ہے
اور ایک دن — گزر جاتا ہے
دنوں پر دن گرتے چلے جاتے ہیں
گھاس پر سوکھے پتوں کی طرح
مٹھی سے گرتی ریت کی طرح
گزرتے چلے جاتے ہیں
آنکھ سے گزرتے منظروں کی طرح
ہوا میں بہتے بادلوں کی طرح
اور ایک روز ——
موسم گدلا جائیں گے
چہرے ساکت ہو جائیں گے
شور تھم جائے گا
سارے دن
میرے اندر — غروب ہو جائیں گے
اور آتے ہوے روز میں ——–
ٹوٹا ہوا قلم
ایک نام کا دھبا
اور کٹی ہوئی انگلیوں کے نشان رہ جائیں گے!
٭٭٭
مجھے ڈر لگتا ہے
__________________
آؤ ہم آج ہی کھل کر رو لیں
جانے کب وقت ملے
آنکھ میں جتنے بھرے ہیں آنسو
آؤ ہم آج بہا دیں ان کو
گھات میں عمر بھی ہے
وقت بھی رفتار بھی ہے
کون جانے کہ ملیں راستے کب منزل سے
کون جانے کہ رہا ہوں گے سفر سے کب تک
کون جانے یہاں کس رت کی ردا سے اتریں
پھول جن میں تری مہکار نہ ہو
کون یہ جان سکے تیرے حروف
میرے ہونٹوں سے کہاں ٹوٹ گریں
شہر آئندہ کے بت خانے میں
کیا پتہ اک تری تصویر نہ ہو
یوں تو اب کیا ہے جو کھونا ہے مجھے
اب تو بس چین سے سونا ہے مجھے
٭٭٭