لال پلکا
لال پلکا اُڑ کے آیا ہے
بہت ہی دور سے
پیغام لایا ہے
سرائے نور سے
غٹ غوں، غٹر غوں
کھول کر دیکھوں
لکھا ہے کیا خطِ تقدیر میں
کتنے یگوں کی قید ہے
کتنی رہائی ہے
مقدم کون سا دن،
کون سی لیلیٰ شبِ تاخیر ہے
غم کی خبر ہے یا خوشی کی
نقشِ حُب ہے یا دمِ تعزیر ہے۔۔۔
مہر کس نے ثبت کی ہے
کس کی خاتم کا نشاں ہے
کس طلائی ہاتھ کی تحریر ہے۔۔۔
حاشیے میں کیا رقم ہے
کیا نوشتہ ہے مِرا اس عالمِ تقصیر میں
زخمی پروں سے
ہشت منظر پار کرتا، راس چگتا
لال پلکا اُڑ کے آیا ہے
بہت ہی دور سے۔۔۔
لال پلکا: کبوتر کی ایک قسم جس کا رنگ سرخ، پوٹا، دُم اور بازو سفید ہوتے ہیں۔
٭٭٭
میں نے شاعری کی انتہا دیکھ لی تھی!
نانا جی کے ساتھ
کھیتوں میں کام کرتے ہوئے
برساتی ندی کے پار بیلے میں
بکریاں چَراتے،
مکو کی جھاڑیوں کو چھیڑتے
اور کیکر کی چھاؤں میں
اچار کے ساتھ روٹی کی سرشاری میں
نشیبی نالے سے پانی پیتے ہوئے
میں نے دیکھا شاعری کو
انتہا پر، اپنے اصلی روپ میں
ابتدا کا تو معلوم نہیں
تب پتا تھا نہ اب
لیکن انتہا کو پہلے دیکھ لینا
عینک کے بغیر
حقیقت کی بے لباسی میں، سر تا پا برہنہ
زندگی اور موت کے باہم آمیز نشے سے کم نہ تھا
نانا جی کی باتوں سے
میں نے خاموشی سیکھی
اور خدا کی نظمائی ہوئی فطرت سے
آسمانی گیتوں کی بازگشت
جو زمین کی سب سے نچلی تہوں سے پھوٹ رہی تھی
ابھی کسی ارسطو، کسی نیرودا کو
میں نہیں جانتا تھا
اور کسی شاعر کا
میرے اندر ظہور نہیں ہوا تھا
فقط نانا جی تھے
اور میں تھا
اور اونچے نیچے کھیت تھے
اور ہوا تھی
اور بادل تھے
اور اچانک امنڈ آنے والی بارش تھی
اور ان سب کے درمیان
خواہ مخواہ پھیلی ہوئی
ایک اَن مَنی سی تنہائی تھی
جو تب سے اب تک
اُسی ایک پوز میں ٹھہری ہوئی ہے
جس پوز میں اسے کائناتی فریم کے اندر چپکایا گیا تھا
بس ہمارے منظر نامے بدل گئے ہیں
نانا جی ہمیشگی کی نیند سو چکے ہیں
اور میں ہموار ہوتی ہوئی آبائی قبروں سے دُور
اپنے نواسے کی انگلی پکڑ کر
قریبی پارک میں
اُسی کی طرح چھوٹے چھوٹے قدموں سے بھاگ رہا ہوں
اور شاعری کسی پلے لینڈ میں
کبھی نہ رکنے والا جھولا جھول رہی ہے!!
٭٭٭