ڈاکٹر ابرار سے میری بالمشافہ دو ہی ملاقاتیں ہیں ایک دفعہ اس کے کلینک میں دس پندرہ منٹ کی ملاقات اور ایک دفعہ عنبرین صلاح الدین کی کتاب کے فنکشن میں ہم دونوں نے اس کی کتاب پر مضمون پڑھا تھا مگر اُس سے ملاقات اور تعلق کی دوسری صورتیں بھی رہی ہیں جو بالمشافہ ملاقات سے کہیں بلند اور سچی ہوتی ہیں۔ سب سے زیادہ ملاقاتیں تو نظم نگری میں ہوتی ہیں۔ میں اس کی نظموں کی پرانی قاری ہوں ہماری فکر اور ہمارے جذبات اکثر ٹہلتے ٹہلتے نظم کے ایک ہی کنج میں آن ٹھہرتے ہیں اور وہیں میری ملاقات موہوم کی مہک تلاشتے ابرار سے ہو جاتی ہے اور ہم علیک سلیک کے لئے رُک جاتے ہیں۔ یوں لگتا ہےجیسے ابرار کہہ رہا ہو کہ پروین آخری دن سے پہلے میں اپنے ہمزاد اور بہشت گُم گشتہ "موہوم” کی مہک ڈھونڈ رہا ہوں تم نے کہیں دیکھی؟ میں کہتی ہوں ابرار! تمہاری مہک تمہاری نظمیں ہیں اور تمہارا "موہوم” تمہارا گماں ہے تمہارا یقیں ہے۔ اس یقین اور گماں میں تمہارا قاری بھی تمہارے ساتھ ہے۔
سن دو ہزار سات میں میری شناسائی ابرارسے ہوئی۔ نظم کے حوالے سے ہماری بات چیت فون پر یا میسج پر ہو جاتی تھی ایک احترام اور ہم خیالی کا رشتہ سا بن گیا۔ میں اسے ڈاکٹر کہہ کر بلاتی ہوں اور وہ مجھے کامریڈ کہہ کر بلاتا ہے ۔۔۔۔ کامریڈ ایک بلند رشتہ ہے جو بالائے صنف نظریاتی بنیاد پر قائم ہوتا ہے اس میں بہت وقار اور بہت عزت ہے ڈاکٹر ابرار کو عزت دینے اور مجھے احترام جیتنے کا وصف آتا ہے کہ خدا نے یہ وصف قدرتی طور پر ودیعت کر رکھا ہے۔ میرا شرف انسان پر ایمان ہے اور لفظ کامریڈ کسی یوٹوپیا میں آپ کو وہ ذہنی ہم آہنگی۔ نظریاتی جڑت اور خطہ فکر عطا کرتا ہے جہاں سب انسان ایک دوسرے سے الگ نہیں، بلکہ جُڑے ہوئے ہوتے ہیں، جہاں انسان آپس میں بغیر کسی گھٹن۔ تعصب اور صنفی امتیاز سے بالا ہو کر گفتگو کر سکتے ہیں۔ خیال کے دئے روشن کر سکتے ہیں۔ ہمیں جب بھی ایک دوسرے سے کچھ پوچھنا ہوتا ہے بلا جھجک پوچھتے ہیں تبادلۂ خیالات کرتے ہیں کبھی کبھار کوئی میڈیکل مشورہ بھی دُور بیٹھے اُس سے لے لیتی ہوں اس "دُور درشن” مفت طبی مشورے سے فائدہ حاصل کرنا بھی ہمارے تعلق کی ایک جہت ہے۔
دوستو ڈاکٹر ابرار کو میں اس کی ذات سے زیادہ نظم کے حوالے سے جانتی ہوں یوں ہماری بات یہاں اب اُس کی نظم کے بارے میں ہو گی۔
ابرار کی نظم کا forte وہ چار نکات ہیں جس پر اس کی نظم کی بنیاد کھڑی ہے اور وہ ہیئت ہے یعنی نثری نظم جسے وہ اپنی پسند سے اختیار کرتا ہے جبکہ وہ آزاد نظم اور غزل کہنے پر بھی یکساں قدرت رکھتا ہے۔ وہ فارم کو فالو کرنے میں تخلیقی بہاؤ کے ساتھ چلنے کا قائل ہے۔
تو دوستو ہم جن چار نکات کی بات کر رہے تھے وہ درج ذیل ہیں
(1) ناسٹلجیا
(2) محبت
(3) رنج رائیگانی
(4) مٹی کی خوشبو
ہم باری باری ان نقاط پر بات کرنے کی کوشش کریں گے سب سے پہلا نقطہ تو ناسٹلجیا ہے ناسٹلجیا کا یہ سفر گو کہ عمر کی موجودہ سٹیج پر شروع ہونا چاہیے تھا مگر یہ کیفیت اس کی پہلی کتاب ’آخری دن سے پہلے‘ کی نظم قصباتی لڑکوں کا گیت سے شروع ہوئی درد کی ایک لے وہیں سے شروع ہو گئی تھی جو تیز تر ہوتی ہوئی اس کی نظم کو رسیلا، سریلا اور "میلوڈیس” بناتی چلی گئی۔ یہ نظم آس کی اگلی ناسٹیلجک نظموں کا پیش لفظ ثابت ہوئی۔ ملاحظہ کیجیے آس کی یہ نظم ناسٹلجیا کے کتنے روپ دکھاتی ہے۔
قصباتی لڑکوں کا گیت
ہم تیری صبحوں کی اوس میں بھیگی آنکھوں کے ساتھ
دنوں کی اس بستی کو دیکھتے ہیں
ہم تیرے خوش الحان پرندے،ہر جانب
تیری منڈیریں کھوجتے ہیں
ہم نکلے تھے تیرے ماتھے کے لیے
بوسہ ڈھونڈنے
ہم آئیں گے،بوجھل قدموں کے ساتھ
تیرے تاریک حجروں میں پھرنے کے لیے
تیرے سینے پر
اپنی اکتاہٹوں کے پھول بچھانے
سر پھری ہوا کے ساتھ
تیرے خالی چوباروں میں پھرنے کے لیے
تیرے صحنوں سے اٹھتے دھوئیں کو اپنی آنکھوں میں بھرنے
تیرے اجلے بچوں کی میلی آستینوں سے، اپنے آنسو پونچھنے
تیری کائی زدہ دیواروں سے لپٹ جانے کو
ہم آئیں گے
نیند اور بچپن کی خوشبو میں سوئی
تیری راتوں کی چھت پر،اجلی چار پائیاں بچھانے
موتیے کے پھولوں سے پرے، اپنی چیختی تنہائیاں اٹھانے
ہم لوٹیں گے تیری جانب
اور دیکھیں گے تیری بوڑھی اینٹوں کو
عمروں کے رتجگے سے دکھتی آنکھوں کے ساتھ
اونچے نیچے مکانوں میں گھیرے،گزشتہ کے گڑھے میں
ایک بار پھر گرنے کے لیے
لمبی تان کر سونے کے لیے
ہم آئیں گے
تیرے مضافات میں مٹی ہونے کے لیے!
اتنی حسین نظم میں مختلف دُکھ اور یادیں ہیں جو شاعر کا سرمایۂ بے بہا ہے جن سے وہ کبھی دست بردار نہیں ہوا۔ یہ نظمیں اس کی دھرتی ماں سے اٹوٹ وابستگی اور وفا کی داستانیں ہیں۔ اس نظم اور دیگر نظموں میں کہیں اپنے قصبے کو چھوڑے کا دُکھ، urbanization کا دکھ، کہیں بہتر مستقبل کے لیے اپنے آبائی علاقوں اور آبائی گھروں کو چھوڑنے کا دُکھ ۔۔۔۔ ساری شاعری میں بکھرا پڑا ہے اس حوالے سےمیں ذاتی طور پر اُس کی اس قبیل کی نظموں کو پڑھتے ہوئے گہرے دُکھ میں ڈوب جاتی ہوں اور بعض اوقات رو پڑتی ہوں۔ کیونکہ ہجر اور ہجرت کا یہ دُکھ ہماری جنریشن کو کُچھ زیادہ اُٹھانا پڑا۔ ہماری پیدائش ایک نوزائیدہ ملک میں ہوئی تھی۔ ہمیں بہتر مستقبل کی خاطر آبائی گھروں کو چھوڑ کر شہروں میں آباد ہونا پڑا زندگی کی آسودہ سادگی کو چھوڑ کر شہروں کی جلتی بلتی سرزمینوں کو اختیار کرنا پڑا۔ یہ کوئی آسان بات نہیں تھی۔
کُچھ دیگر نظموں کے اقتسابات
رات بھر کون تھا ساتھ میرے/ جسے میں بتا رہا تھا/ اس جگہ شہر تھا / اور سیٹی بجاتے ہوئے نوجوان / اس پہ اُتری ہوئی رات سے/ یوں گزرتے/ کہ جیسے یہی ہو گزرگاہ ہستی
(نظم جوتے بیت کاٹتے ہیں)
اسی طرح ایک اور نظم ” آنکھیں ترس گئی ہیں ” سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے
جانے تیری مٹی میں / گھُل مل جانے تک/کتنے پل کتنی صدیاں ہیں/ اِس سرحد سے اُس سرحد تک/ کتنی مسافت اور پڑی ہے/ ان رستوں میں کتنی بارشیں برس گئی ہیں/ آنکھیں میری/ تیری راتوں کو ترس گئی ہیں!
آئیے اب ہم اس کی نظم کی عمارت کے اہم اور دوسرے ستون کی طرف آتے ہیں یعنی ستون محبت۔ محبت ابرار کے ہاں ایک سچے اور شدید جذبے کی صورت پائی جاتی ہے۔ اور مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اردو شاعری کے ماضی اور موجودہ دور کے اکثر شاعروں کی طرح اُس کی شاعری سے کسی پیشہ ور، مشہور زمانہ کلاسیکی شبیہ کو تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ ابرار کی شاعری سے وہ عام سی لڑکی (مگر ابرار کے لئے خاص لڑکی) برآمد ہوتی ہے جس نے بچپن یا نوجوانی میں اُس کی محبت میں دُکھ اُٹھائے،مار کھائی، زخموں کا لہو پی کر گنگناتی رہی۔ بحیثیت عورت میں ابرار کی اس وابستگی اور وفا سے بہت متاثر ہوں ۔۔۔۔۔ اور یہ کہ عمر بھر اُسی کا عکس اُسی کا دکھ اسے "نظم رلاتا” رہا تو دوستو، ابرار کی محبت کی نظمیں صرف نظمیں نہیں اُسی مجبور محبت کے آنسو ہیں جنھیں وہ سدا شاعری میں روشن کرتا اور نظموں کی آنکھ سے روتا رہا اس قبیل کی ایک اہم اور میرے تجزیے کو سپورٹ کرتی ہوئی نظم "وہ کیا تم تھے؟” سے چند اقتباسات
کیا وہ تم تھے/ جو میلوں بھاگتے جاتے تھے/ تپتی تلملاتی دھوپ میں/ اک سائےکو ہمراہ کرنے
بدن پر مار کے دھبے/ نہیں تھے چھین پائے/ جس کے ہونٹوں پر مچلتے/ گیت کے لفظوں کی یورش کو
کہیں دیوار پر چلتے ہوئے/ دیوانگی کی دل زدہ چیخوں میں بھر کر نام میرا/ آسمانوں کے کناروں کو اُلٹ دیتے ہوئے تم تھے!/ جو زخموں کا لہو پی کر / نشے میں گنگناتے تھے/
زمانے بھر کے ظالم ہاتھ/ بے بس تھے/ تمہاری چیخ کو قیدی بنانے میں تمہارے دل سے/ اک دھبہ مٹانے میں ۔۔۔۔
فنا ہے زندگی کا دوسرا پرتو / مقدر ہے/ ہر اک جذبے، ہر اک افتاد کا/ فراموشی ہے دستور محبت بھی/ فراموشی/ مگر پھر بھی/ اگر یہ ہے تمہارا سچ / تو وہ کیا تھا؟
یہ وہ بنیادی نظم تھی جس سے ہم ابرار کی محبت کا سراغ لگا سکتے ہیں یہی جذبہ آگے جا کر سبلائم ہوتا ہے تو اس نغمہ جاں فزا میں ڈھل جاتا ہے:
تو تکلم مرا لکنت میری/ تو مری تشنہ لبی، میری لگن /تو زمیں پر مرے ہونے کا سبب، میرا گماں۔۔ ۔ !
اب ہم اُس کے تیسرے نکتے رنج رائیگانی کی طرف آتے ہیں۔ ویسے تو رنج رائیگانی آج کے آشوب زدہ انسان کے باطن اور خاص طور آج کے ہر شاعر ادیب کی تخلیقات میں موجود ہے۔ ابرار چونکہ ناسٹیلجک بھی ہے اور حساس بھی، تو اُس کی نظم میں رائیگانی ایک گہرے شیڈ کے طور پر دیکھی جا سکتی ہے
ہمیں معلوم ہے / یہ شام بکھر جائے گی/ اور یہ رنگ/ کسی گوشہ بے نام میں کھو جائیں گے/ یہ زمیں دیکھتی رہ جائے گی / قدموں کے نشاں
رات بھر/ میں دیے جلاتا ہوں، ان قبروں پر/جو میرے دل میں بنتی چلی جا رہی ہیں ۔۔۔۔ / ایک ایسی رات میں پھرتا رہتا ہوں/ جس کے کنارے معدوم نہیں ہوتے۔
نہ اب گھر بار ہی کُچھ ہے
نہ کوئے یار ہی کُچھ ہے
ادھر بھی کیا رہا باقی
نہ اس پار ہی کچھ ہے
اب ہم اس کی نظم کے چوتھے شیڈ کی طرف آتے ہیں۔ اس محدود سے وقت اور مضمون کی نوعیت کے حساب سے ایک ہی نظم پیش کرسکوں گی۔
اجنبی جگہیں
اجنبی مٹی میں
کشادہ دلی اور انتظار کی مہک ہوتی ہے
دیکھی ہوئی زمینوں کی دھول اور مبہم مانوسیت
آوازیں بڑھتی ہیں
ہمارے کپڑوں سے لپٹ جانے کو
دریچے آنکھیں بن جاتے ہیں
ایک اجنبی باس
الوہی سرشاری سے
ہمارے مساموں میں اتر جانے کو بے چین ہو جاتی ہے
اجنبی جگہوں کو ہم یوں رکھتے ہیں جیسے ہمارے حافظوں میں ان کے خواب دبے ہوں
جیسے مکانوں سی اٹھتے دھوئیں کے پاس کہیں
ہمارے لئے ضیافت کا اہتمام ہو
ہر جانب دروازے کھلے ہوں
جن میں ہم داخل نہیں ہو پاتے
اجنبی جگہیں
سب سے زیادہ مناسب ہوتی ہیں
انسو بہانے اور یاد کرنے کو
انھیں جو سانس کی طرح ساتھ رہے
اور پتھر کی طرح اجنبی ہو گئے
باہیں پھیلائے بلاتی رہتی ہیں یہ جگہیں
فراق کے گیتوں سے لبریز
ہواؤں کی خنکی بن کر
اور ہم ۔۔۔۔۔
اپنے ارد گرد کے شور میں سن نہیں پاتے
خود اٹھائی ہوئی دیواروں سے کبھی نکل نہیں پاتے
اور ایک روز
اس لا تعلق زمین میں خاموش کر دئیے جائیں گے
ابرار نظم کے جسم کو روح بخشنے والا، اس کے روپ کو سروپ دینے والا، بصارت اور بصیرت کی سرحد پر کھڑا ایک اہم نظم نگار ہے۔ وہ ایک صاحب دل شاعر ہے جو اپنے دل کو نظم میں یوں جھونک دیتا ہے کہ نظم بذات خود یا تو دل بن جاتی ہے یا اس کے اشکوں میں دھلا کندن کا ایک ٹکڑا۔
ابرار کی شاعری سراپا شاعری ہے وہ کسی نظرئیے، ہئیت صنف یا رجحان کی محتاج نہیں بس یادوں کا ایک دیا ہے جس کی روشنی میں بیٹھ کر وہ سخن کرتا ہے خود کو اجالتا اور اپنے عہد کو روشن کرتا ہے۔ وہ بظاہر کسی آدرش کا پابند نہیں مگر اس کا آدرش زمین ہے، انسان ہے، مٹی کی مہک ہے، جیون کے دکھوں کا احساس ہے
٭٭٭