مظفر حنفی کی مینا بول رہی ہے ۔۔۔ انصار احمد معروفی

پروفیسر مظفر حنفی نے اخیر عمر تک بچوں کے لیے لکھا ہے اور بہت خوب لکھا ہے، ان کے کلام میں بچوں کی سی شرارت، بچوں کی آنکھ مچولی، اور بچوں کی سی تمام شوخیاں جمع ہو گئی ہیں، اگر یہ کہا جائے کہ بچوں کے لیے انھوں نے جتنا کچھ لکھا ہے ؛ چاہے وہ بالکل چھوٹے یعنی چار سے سات سال تک کے ہوں، یا آٹھ سے دس برس تک کے نونہال ہوں، یا پھر گیارہ سے چودہ برس تک کے سنجیدہ لڑکے ہوں، یا پندرہ برس سے اٹھارہ برس کے با شعور لڑکے ہوں، عمر کے حساب سے سب کے لیے ایسی ایسی چٹ پٹی اور دلچسپی سے بھر پور نظمیں لکھی ہیں جنھیں کسی گھر کے دوچار بچے اگر ایک ساتھ یک بارگی ہی پا جائیں تو پھر مطالعہ میں سبقت لے جانے کے معاملے میں آپس میں طاقت کا مظاہرہ کرنے لگیں، مگر طاقت ور کم زور پر غالب آ جائیں۔

حنفی صاحب کی کلیات ادب اطفال یعنی ’’بول میری مینا‘‘ کو ناقدین ادب اطفال نے بچوں کے مطالعے کے لیے سب سے مکمل اور مفید تسلیم کیا ہے، کیوں کہ انھوں نے بچوں کی دلچسپی اور ان کی دلکشی کے تمام متوجہ کرنے والے اسباب کو اس کلیات ادب اطفال میں جمع کر دیا ہے۔  انھوں نے بچوں کی نازک عمر کے حساب سے انھیں چار زمروں میں تقسیم کر کے ہلکی پھلکی اور چٹ پٹی نظمیں تخلیق کی ہیں۔  پروفیسر مظفر حنفی صاحب نے اپنی نظموں کو اصلاحی اور سبق آموز بنانے پر توجہ مرکوز کرنے کا اتنا لحاظ نہیں کیا ہے جتنا انھوں نے بچوں کو اردو ادب سے جوڑنے اور ان کو کتابوں سے قریب کرنے کا سامان فراہم کرنے پر ان کی توجہ کو مرکوز کیا ہے۔  وہ جانتے ہیں کہ اگر کوئی نظم محض اصلاحی ہو، اور کسی استاد کی طرح ہر وقت کسی نصیحت کو پابندی سے انجام دینے کی طرف متوجہ کرنے والی ہو تو بچے اس سے بہت جلد اوب جاتے ہیں اور پھر مطالعے سے برگشتہ ہو جاتے ہیں۔  اس لیے انھوں نے ایسا دلچسپ اور مختصر پیرایۂ بیان کا انتخاب کیا جس کی وجہ سے بچے ان کی اور ان جیسے شاعروں کی نظموں کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر پڑھتے چلے جائیں اور مسکراتے جائیں، اور بے اختیار ہو کر اپنے بھائیوں اور بہنوں کی توجہ کو اس نظم کے اشعار سنانے کی جانب مبذول کر لیں کہ بھائی ذرا یہ شعر اور نظم دیکھو۔  کبھی اپنے سے چھوٹے بچوں کو وہ نظم بیٹھا کر سنانے اور گنگنانے لگیں اور انھیں ہنسنے ہنسانے پر مجبور کر دیں۔

مگر نظموں کو شوخ اور دلچسپی کی جانب مرکوز کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ انھوں نے اپنی نظموں کے ذریعے محض بچوں کے دل بہلانے اور انھیں دلکش کھلونا دینے کا کام کیا ہے، جس سے بچے اگرچہ اردو کے قریب ہو جائیں مگر اپنی اسلامی اور تہذیبی روایات و اقدار سے دور ہو جائیں۔  اور ان کے اندر مذہبی بیزاری اور تہذیبی منافرت کا عنصر پنپتا جائے، بلکہ ان کی نظمیں اتنی مؤثر اور دامن دل کو کھینچنے والی ہیں جس کا بچے شوق سے مطالعہ کریں گے، اور ان کو پڑھ کر ویسے ہی دلی خوشی کا اظہار کریں گے جیسے وہ اپنے کسی بہت ہی پیارے کھلونوں سے کھیل کر اپنا شوق پورا کرتے اور قلبی فرحت محسوس کرتے ہیں۔

’’بول میری مینا‘‘ میں کل نظمیں تقریباً 140 ہیں، جنھیں چار حصوں میں منقسم کیا گیا ہے، ان کی یہ تمام نظمیں عمر کے حساب سے لکھی گئی ہیں، جن میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ وہ لمبی نہ ہوں، اور ایک صفحے میں مکمل ہو جائیں۔  ان میں سے چند ہی نظمیں ایسی ہیں جو دو صفحے پر پھیلی ہیں۔  مظفر صاحب نے اپنی نظموں میں اس بات کا لحاظ کیا ہے کہ ہر نظم شرارت سے بھر پور ہے، ایسا لگتا ہے جیسے کوئی شریر بچہ اپنے ماں باپ یا دادا دادی سے کسی کام کے لیے ضد کر رہا ہے اور اپنی پسند کی چیزوں میں من مانی کرنے کے لیے ہمک رہا ہے، اکثر بچے پابندی اور ہر وقت کی ڈانٹ ڈپٹ سے گھبراتے اور ایسے لوگوں سے نظریں بچا کر اپنی خواہش پوری کرتے ہیں، مگر پکڑے جانے پر ڈانٹ اور سزا کے بھی قابل ٹھہرا دیے جاتے ہیں، اس لیے جو توانا ہوتا ہے وہ تو اپنے شوق میں لگ جاتا ہے، اور جو ذرا ڈرپوک یا ماں باپ کی خفگی سے لرزاں رہتا ہے وہ اپنی شرارتوں کے لیے اجازت لینا چاہتا ہے اور ’’اف یہ پابندی‘‘ میں کہتا ہے:

ٹھنڈا ٹھنڈا رہنے دو نا

ٹب میں بیٹھا رہنے دو نا

پانی بہتا رہنے دو نا

اب کون ماں باپ ہوں گے جو بھلا اس کی اجازت دیں گے؟ جس کی وجہ سے پانی جو ضائع ہوتا ہے، وہ ہو گا ہی، الٹے اگلے دن کسی ڈاکٹر کے یہاں جانے کی ضرورت پڑ جائے گی، اس لیے ذمہ داروں کی جانب سے روکا جاتا ہے:

نا بیٹا انمول ہے پانی

پانچ روپے فی ڈول ہے پانی

نو گھنٹے سے گول ہے پانی

مگر بچہ کہاں اور کب اس باریکی میں جاتا ہے، وہ کہتا ہے:

جس کو کھلتا ہے کھلنے دو

بھٹی سا گھر مت جلنے دو

کولر پنکھے سب چلنے دو

جیسی ضد ویسا ہی جواب ملتا ہے:

کیسی الٹی مت ہے ثمرہ

یہ گندی عادت ہے ثمرہ

بجلی کی قلت ہے ثمرہ

مگر شرارتی ثمرہ اس پر بگڑ جاتی ہے:

اس گرمی کی ایسی تیسی

پردیسی ہو کار کہ دیسی

بھیا بند نہ کرنا اے سی

آئیے دیکھیں بچہ اخبار میں بچوں سے متعلق کیسی کیسی خبریں شائع ہوتی ہیں؟

صاف کر گئے کتے نانی اماں کی بالائی

خالہ بلی گھر آئی تو نوری پر غرائی

حمرا نے پھر گیلی کر دی توشک اور رضائی

وجو اور عدنان نے بودی سب گملوں میں پانی

عرشی کے پین میں بھر دی ہے جانے کس نے کافی

آج مدیحہ نے ہنس ہنس ہنس کر پی لی کڑوی صافی

بالکل چھوٹے بچوں کے لیے ان کی یہ نظم ’’رسی اور لسی‘‘ کے عنوان سے ہے، جس میں جمن خان دونوں چیزیں جیسے تیسے بیچ دیتے ہیں:

دائیں ہاتھ پہ لسی ہے

بائیں جانب رسی ہے

لسی بیچی اسی (80) ہاتھ

رسی بالائی کے ساتھ

سیدھے سادے جمن خان

نہیں چلا پائے دوکان

بچوں کی آزادی اور کھیل سے متعلق اتوار کے بارے میں وہ کہتے ہیں:

یہ دن ہنسنے گانے کا ہے

موقعہ موج منانے کا ہے

کھانے اور کھلانے کا ہے

کوئی دکھ مت جھیلو بچو

کھیلو بچو، کھیلو بچو

ان کی تمام نظموں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے بچوں کے لیے آسان لفظیات کا انتخاب کیا ہے، ثقیل الفاظ سے گریز کرتے ہوئے آسان سے آسان اور چٹ پٹی بنانے کی کوشش کی ہے، نظموں میں بہت زیادہ درس دینے سے گریز کیا ہے، مگر اس سے یکسر احتراز نہیں کیا ہے، جسے بچے بآسانی ہضم کر جائیں گے۔  ادب اطفال کے بہت سے شعرا کے برخلاف انھوں نے کتاب میں انتساب، تقریظات، عرض مرتب اور دوسرے غیر ضروری مضامین سے بالکلیہ احتراز کیا ہے، اس لیے اس میں ایک لفظ بھی اس سلسلے کا نہیں لکھا گیا ہے، فہرست کے بعد سیدھے نظمیں شروع ہو گئی ہیں۔  وہ جانتے ہیں کہ بچوں کو ان تعریضات اور وضاحتوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، وہ ان چیزوں کو منہ نہیں لگاتے اور سیدھے اپنی مطلوبہ نظموں کا رخ کرتے ہیں۔  انھوں نے گویا شاعروں کو بھی اپنے عمل سے اس بات کی رہنمائی کی ہے کہ ان چیزوں سے گریز بہتر ہے۔  دوسری جو بات سب سے اہم ہے وہ یہ کہ پروفیسر مظفر حنفی مرحوم نے چھوٹی چھوٹی نظمیں لکھی ہیں، اور ان میں ایک شوخ اور شریر بچہ بن کر دکھایا ہے، جس میں بچپن کی تمام شرارتیں سر چڑھ کر بول رہی ہیں، جسے پڑھ کر بچوں کی تمام نفسیات اجاگر ہو جاتی ہیں، انھوں نے اطفال کی تمام شوخیوں اور تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر آسان لفظیات کا انتخاب کیا ہے اور نظم کو خوب سے خوب تر بنانے کی کوشش کی ہے۔  اس طرح ادب اطفال میں انھوں نے اپنا نام ممتاز رکھنے کی جو کوشش کی ہے اسے یقیناً کامیاب کوشش سے تعبیر کیا جائے گا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے