اس نے سوچا، میں رات بھر بیٹھا رہوں گا۔ یہی میری سزا ہے۔ ٹیلی گرام میں ایک سادہ سا جملہ تھا۔ اوفیلیا کی حالت نازک ہے، وہ ٹرین میں سو سکتا تھا، مگر ان حالات میں یہ بات اسے بیہودہ سی لگی۔ اس لئے وہ فرسٹ کلاس کے ڈبے میں تھکا ہوا بیٹھا رہا اور فرانس پر رات چھا گئی۔
اسے در اصل اوفیلیا کے سرہانے ہونا چاہئیے تھا مگر اوفیلیا اسے ناپسند کرتی تھی، لہٰذا وہ ٹرین میں تھا۔
اس کے اندر کہیں بہت گہرائی میں کالا اور بھاری بوجھ سا تھا۔ جیسے اداسی سے بھرا ہوا کوئی ٹیومر، جس کے نیچے اس کی زندگی دبی جا رہی ہو۔ زندگی کے بارے میں وہ ہمیشہ سنجیدہ رہا تھا اور اب سنجیدگی اس پر محیط تھی۔ اس کا حسین کلین شیو چہرہ جس پر گھنی اور سیاہ پلکیں تھیں، اذیت کے عالم میں ایک طرف کو جھکا ہوا تھا۔
(ٹرین کی وہ جہنمی رات) کچھ بھی تو اصلی نہ تھا۔ اس کے سامنے دو عمر رسیدہ انگریز عورتیں تھیں، جو بہت دیر سے مری ہوئی پڑی تھیں۔ وہ اپنے آپ کو بھی مردہ ہی سمجھ رہا تھا۔
سرحد کے پہاڑوں میں دھندلی صبح آہستہ آہستہ نمودار ہوئی اور اس صبح کو اس نے اس طرح دیکھا، جیسے نہ دیکھ رہا ہو۔ اس کا دماغ دوہرانے لگا
جب صبح ہوئی، دھندلی اور اداس
اور سویرے کی بارش کی سردی بڑھی
تو اس کی خاموش پلکیں بند ہو گئیں
اس کی صبح ہماری صبح سے مختلف تھی
اس کے تنقیدی شعور کو یہ اشعار سطح سے گرے ہوئے محسوس ہوئے، مگر اس احساسِ حقارت کے باوجود، اس کے سادھوؤں جیسے اذیت زدہ چہرے پر کوئی تبدیلی رونما نہ ہوئی۔
اب وہ اٹلی میں تھا۔ اس نے بیزاری سے ادھر ادھر دیکھا۔ اس کی قوتِ احساس قریب قریب ختم ہو چکی تھی۔ بس یہ ہے کہ اس نے جب زیتون کے درختوں اور سمندر کو دیکھا تو اسے ہلکی سی بیزاری کا احساس ہوا۔ ایک شاعرانہ فریب سا۔
جب وہ ان بلیو سسٹرز کی قیام گاہ پر پہنچا، جن کی پناہ میں اوفیلیا گئی تھی، تو دوسری رات شروع ہو چکی تھی۔ اسے بڑی راہبہ کے کمرے میں لے جایا گیا۔ راہبہ اسے دیکھ کر اٹھی، تعظیماً جھکی اور خاموش رہی۔ تھوڑے سے توقف کے بعد اس نے فرانسیسی میں کہا، ’’افسوس، وہ آج سہ پہر انتقال کر گئی۔‘‘
وہ بے وقوفوں کی طرح کھڑا رہا، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اور اپنے خوبصورت اور توانا سادھوؤں جیسے چہرے کے ساتھ خلا میں گھورتا رہا۔
بڑی راہبہ نے اپنا سفید اور حسین ہاتھ نرمی سے اس کے بازو پر رکھا اور اس کے چہرے پر نظریں جما دیں
’’حوصلہ‘‘ اس نے نرمی سے کہا ’’حوصلہ‘‘۔
وہ ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ جب کوئی عورت اس طرح اس پر جھکتی تھی تو وہ ہمیشہ خوف زدہ ہو جاتا تھا۔ تہ در تہ اسکرٹ میں بڑی راہبہ کا عورت پن کچھ زیادہ ہی نمایاں تھا۔
’’جی ہاں۔ درست‘‘ اس نے انگریزی میں جواب دیا۔ ’’کیا میں اسے دیکھ سکتا ہوں‘‘۔
بڑی راہبہ نے گھنٹی بجائی اور ایک کم عمر سسٹر داخل ہوئی۔ اس کا رنگ کسی حد تک زرد تھا مگر اس کی بھوری آنکھوں میں کوئی معصوم سی اور شریر سی بات تھی۔ بڑی عورت نے اس کا تعارف کرایا، چھوٹی عورت نے جھجکتے ہوئے کچھ رسمی الفاظ کہے۔ مگر میتھیو نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا جیسے کوئی ڈوبتا ہوا آدمی آخری سہارا چاہتا ہو۔ کم عمر سسٹر نے اپنے سفید ہاتھ کھولے اور شرماتے ہوئے ایک ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ کم عمر سسٹر کا سفید ہاتھ جیسے کوئی سوتا ہوا پرندہ جو ذرا بھی مدافعت نہ کر سکے۔ اور بے پایاں اداسی کے پاتال میں میتھیو نے سوچا۔ کیسا پیارا ہاتھ ہے۔
وہ ایک خوبصورت مگر سرد راہداری سے گذرے اور ایک دروازے کو کھٹکھٹایا۔ میتھیو اداسی کے جہنم میں بہت دور نکل گیا تھا۔ پھر بھی اسے اس عورت کے نرم اور تہ در تہ سیاہ اسکرٹ کا احساس تھا جو اس کے سامنے پھڑپھڑاتی ہوئی تیزی سے چل رہی تھی۔ جب دروازہ کھلا تو وہ ڈر گیا۔ مقدس کمرے میں سفید بستر کے چاروں طرف موم بتیاں جل رہی تھیں۔ موم بتیوں کے قریب ایک اور سسٹر بیٹھی تھی جس کا چہرہ قدیم انسانوں جیسا تھا، اس کے سر پر سفید رو مال تھا۔ اس نے مقدس کتاب سے نظریں اٹھا کر میتھیو کو دیکھا۔ پھر وہ اٹھی۔ ایک موٹی عورت۔ وہ تھوڑی سی خمیدہ ہوئی۔ میتھیو نے دیکھا کہ سینے کی نیلی سلک کے آگے دو مٹیالے رنگ کے ہاتھ ایک کالی تسبیح کے دانے گھما رہے ہیں۔
تینوں عورتیں جو سلک کے کالے اسکرٹ پہنے ہوئے تھیں، خاموشی سے بستر کے سرہانے جمع ہو گئیں۔ پھر بڑی سسٹر نے انتہائی نفاست کے ساتھ مردہ چہرے سے سفید کپڑے کی نقاب اٹھائی۔
میتھیو نے اپنی بیوی کا بے جان مگر خوبصورت چہرہ دیکھا، اور اسی لمحے قہقہے جیسی کسی چیز نے اس کے اندر چھلانگ لگائی۔ اس کے حلق سے عجیب سی آواز نکل گئی۔ اور اس کے چہرے پر ایک غیر معمولی مسکراہٹ پھیل گئی۔ کرسمس کے درخت کی طرح تھرتھراتی ہوئی موم بتی کی روشنی میں سروں پر رو مال باندھے ہوئے تینوں عورتیں اسے رحمدلی کے ساتھ دیکھ رہی تھیں۔ چھ آنکھیں تھوڑے سے خوف کے ساتھ اچانک حیران ہوئیں، پھر ان میں تبدیلی آئی، پھر حیران ہوئیں اور حیرت میں ڈوب گئیں۔ وہ تین چہرے جو موم بتیوں کی روشنی میں اس کے سامنے تھے، ان پر ایک عجیب سی خلاف مرضی مسکراہٹ پھیلنے لگی۔ تینوں چہروں پر ایک ہی مسکراہٹ مگر ایک دوسرے سے مختلف۔ جیسے تین نازک پھول کھل رہے ہوں۔ زرد سسٹر کے چہرے پر یہ ہنسی یوں تھی جیسے تکلیف کے آثار ہوتے ہیں۔ مگر اس میں ایک شرارت آمیز مسرت بھی تھی۔ دوسری سسٹر نسبتاً سن رسیدہ تھی اور اس کی بھنویں سیدھی سیدھی تھیں، اس کا چہرہ ایک کافرانہ مسکراہٹ سے ترچھا ہو گیا۔ یہ مسکراہٹ آہستہ، لطیف اور محرابی تھی۔ تیسرے چہرے کی ہنسی نازک، بے حجاب اور آزاد تھی۔ اس نے ہنسی کو روکنے کی بڑی کوشش کی مگر میتھیو کا چہرہ مزاحیہ انداز میں اس کی طرف اٹھا ہوا تھا، اس نے اپنی نظریں نیچی کر لیں اور پھر اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلتی ہی چلی گئی۔
کم عمر زرد سسٹر نے اپنے چہرے کو ہاتھوں سے چھپا لیا مگر اس کا پورا جسم ہنسی سے کانپ رہا تھا۔ بڑی راہبہ خود کو سنبھالتی ہوئی جذباتی آواز میں بولی، آہ بے چاری، اس کی موت پر تو آنسو امڈے ہی چلے آتے ہیں۔ اس کے باوجود کمرے میں دبی دبی سی کھی کھی کی آواز گونجتی رہی۔ موٹی سسٹر تسبیح کے کالے دانوں کو تیزی سے گھماتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی، مگر بے آواز ہنسی اس کے ہونٹوں سے جدا نہ ہوئی۔
میتھیو اچانک بستر کی طرف مڑا کہ کہیں مردہ بیوی یہ سب کچھ دیکھ تو نہیں رہی۔
اوفیلیا لیٹی ہوئی بہت خوبصورت اور دل کش لگ رہی تھی۔ اس کی نوکدار چھوٹی سی مردہ ناک اوپر کو اٹھی ہوئی تھی۔ اس کا چہرہ کچھ ایسا تھا جیسے کسی ضدی بچے کا چہرہ آخری ضد میں ٹھہر کر رہ گیا ہو۔ میتھیو کی ہنسی غائب ہو گئی اور بہت بڑے دکھ نے اس کی جگہ لے لی۔ وہ رویا نہیں بلکہ بے معنی انداز میں گھورنے لگا۔ اس کا چہرہ کچھ ایسا بن گیا جیسے کہہ رہا ہو، میں جانتا تھا کہ یہ بڑا دکھ میری قسمت میں ہے۔
اوفیلیا اتنی حسین ہے، اتنی بچوں کی طرح، اتنی ہوشیار، اتنی ضدی، اتنی تھکی ہوئی اور اتنی مردہ۔ اس سوچا
ان کی شادی کو دس سال گذر چکے تھے مگر وہ اپنی تکمیل نہ کر سکا تھا۔ نہیں، کسی طرح بھی نہیں۔ اوفیلیا ہمیشہ اپنی مرضی چلاتی تھی، وہ اس سے محبت کرتی تھی اور ضدی ہو گئی تھی۔ بارہ دفعہ وہ اسے چھوڑ کر چلی گئی، بارہ دفعہ عقل مند ہوئی یا متنفر یا ناراض اور بارہ دفعہ ہی اس کے پاس واپس آئی تھی۔
ان کے اولاد نہ تھی اور اسے جذباتی طور پر اولاد کی تمنا تھی۔ اس کے لئے وہ بڑا رنجیدہ رہتا تھا۔
اب وہ کبھی اس کے پاس واپس نہیں آئے گی۔ یہ تیرہویں بار تھی اور وہ ہمیشہ کے لئے جاچکی تھی۔ لیکن کیا وہ واقعی ہمیشہ کے لئے جاچکی تھی۔ یہ سوچتے ہوئے اسے یوں لگا جیسے اوفیلیا اسے ہنسانے کے لئے اس کی پسلیوں میں گدگدی کر رہی ہو۔ وہ تھوڑا سا کسمسایا اور غصہ سے اس کی پیشانی پربل پڑ گئے۔ ’’میں نہیں ہنسوں گا‘‘۔ مضبوطی سے اپنے چوکور جبڑے کو دباتے ہوئے اور اپنے بڑے بڑے دانتوں کو جماتے ہوئے اس نے مسلسل اشتعال دلانے والی مردہ عورت پر نظر ڈالی۔
’’میں خود ہی اپنی تکمیل نہیں چاہتا۔ میں اپنی ناتمامیوں کے ساتھ ہی زندہ رہوں گا۔‘‘
وہ اچانک تینوں عورتوں کی طرف مڑا جو پیچھے کی طرف موم بتیوں کے آگے نظر سے اوجھل ہو گئی تھیں۔ اور اب سفید رو مال باندھے ہوئے اس کے اور تاریکی کے درمیان منڈلا رہی تھیں۔ اس کی آنکھیں چمک اٹھیں اور اس نے اپنے دانت چمکائے ’’میں اس کا گنہگار ہوں‘‘، وہ بڑبڑایا۔
’’صبر کرو‘‘ بڑی راہبہ نے کہا اور اس کے دونوں ہاتھ پہلے تو لہرائے، پھر آپس میں پیوست ہو گئے اور چوڑی چوڑی آستینوں میں ایسے لگ رہے تھے جیسے پرندوں کے جوڑے گھونسلے میں بسیرا لیتے ہیں۔
میتھیو نے اپنے سر کو جھکولا دیا اور چاروں طرف دیکھا جیسے مقابلے کو تیار ہو۔ بڑی راہبہ جو پس منظر میں تھی، اس نے دعا پڑھی اور اس کی تسبیح ٹھہر گئی۔ زرد کم عمر سسٹر اور بھی پیچھے چلی گئی، مگر موٹی سسٹر کی کالی آنکھیں اس کے اوپر ابدی مسخرے ستاروں کی طرح چمک رہی تھیں۔ اور ایک بار پھر اس کی پسلیوں میں گدگدی ہونے لگی۔ اس نے بحث کرنے کے انداز میں عورتوں سے کہا ’’دیکھئے میں بہت پریشان ہوں، بہتر یہ ہے کہ اب چلا جاؤں‘‘۔ وہ ایک دل چسپ سی گھبراہٹ میں اِدھر اُدھر ہو گئیں۔ وہ دروازے کی طرف بڑھا لیکن جاتے ہوئے بھی اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلنے لگی۔ جسے موٹی سسٹر کی کالی چمکیلی آنکھ نے دیکھ لیا۔ اور وہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا، کاش میں اس کے دونوں زرد خاکستری ہاتھ پکڑ سکوں جو عشرت پسند انداز میں وصال پر آمادہ پرندوں کی طرح خمیدہ ہیں۔
مگر وہ تو اپنے ادھورے پن کے ساتھ جینا چاہتا تھا۔ ’’ہائے ہائے‘‘ وہ آپ ہی آپ چیخا۔ اور جب وہ چیخ رہا تھا تو اس نے محسوس کیا کوئی چیز اس کی پسلیوں میں گد گدی کر رہی ہے اور کہہ رہی ہے۔ مسکراؤ
تینوں عورتیں جو اس بڑے کمرے میں پیچھ رہ گئی تھیں، انھوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور ایک لمحہ کے لئے ان کے ہاتھوں نے پرواز سی کی، جیسے چھ پرندے اچانک کسی جھاڑی میں سے اڑیں اور پھر واپس آ کر بیٹھ جائیں۔
’’آہ بے چاری، بڑی راہبہ نے رحمدلی سے کہا۔
’’ہائے بے چاری‘‘، جن عمر سسٹر نے موہوم اور تیکھے اضطرار کے ساتھ کہا۔
’’آہ‘‘ کالی آنکھوں والی نے کہا۔
بڑی سسٹر بے آواز چلتی ہوئی پلنگ کے پاس گئی اور مردہ چہرے پر جھک گئی ’’معلوم ہوتا ہے کہ یہ سمجھتی ہے، بے چاری۔ کیوں کیا خیال ہے۔‘‘
رو مال باندھے ہوئے تینوں سر ایک ساتھ جھکے اور پہلی بار انھوں نے اوفیلیا کے ہونٹوں کے کونے میں خفیف سی طنزیہ شکن دیکھی۔
’’اس نے اسے دیکھ لیا ہے‘‘۔ کم عمر جذباتی سسٹر نے سرگوشی کی۔
بڑی سسٹر نے احتیاط سے کامدار نقاب ٹھنڈے چہرے پر ڈال دی۔ پھر انھوں نے تسبیحیں ہاتھ میں لے کر رسمی دعا مانگی۔ اس کے بعد بڑی سسٹر نے دو موم بتیوں کو شمع دان میں عمودی زاویہ سے جمایا۔ کالے چہرے والی موٹی سسٹر مقدس کتاب لے کر پھر بیٹھ گئی۔ دوسری دونوں دروازے کی طرف آہستہ آہستہ بڑھیں۔ اور بڑی سی سفید راہداری میں نکل گئیں۔ اپنی سیاہ پوشاکوں میں وہ اس طرح چل رہی تھیں جیسے کسی دریا پر کالے ہنس۔ چلتے چلتے وہ اچانک ٹھٹک گئیں۔ ایک ساتھ انھوں نے ایک مایوس سے آدمی کو ایک ملگجے سے اوور کوٹ میں دیکھا جو راہداری کے آخری سرے پر سردی میں ٹہل رہا تھا۔ بڑی راہبہ کے قدم تیز ہو گئے۔
میتھیو نے انھیں اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا۔ گداز بدن، جامد چہرے، گم شدہ ہاتھ۔ جوان سسٹر تھوڑا پیچھے رہ گئی تھی۔
’’معاف کیجئے گا‘‘ اس نے کہا جیسے سر راہ کہہ رہا ہو ’’میں اپنا ہیٹ کہیں بھول آیا ہوں۔‘‘
اس نے مایوسی کے ساتھ اپنا بازو لہرایا اور اب اس کے چہرے پر مسکراہٹ نام کو بھی نہ تھی۔
٭٭