نئے شمارے کے ساتھ پھر ایک بار آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔
اس بار کچھ دن پہلے تک مجھے خوشی تھی کہ اس بار یاد رفتگاں کے گوشے میں کسی کی یادیں شامل نہیں ہوں گی، لیکن پھر یکے بعد دیگرے اختر شمار کے سانحۂ ارتحال کی خبر پاکستان سے اور میرے بزرگ دوست کرامت علی کرامتؔ کے انتقال کی خبر ہندوستان سے ملی۔ اس لئے ان گوشوں کی وجہ سے اس شمارے کی ضخامت پھر دو سو صفحات کے قریب ہو گئی ہے۔ ویسے قارئین کو یاد ہو گا کہ جب پانچ چھ احباب کو یاد کیا جاتا تھا تو شمارے کی ضخامت کو پانچ سو صفحات سے کم میں سمیٹنا بھی مشکل ہو جاتا تھا!! میری خواہش تو یہی ہے کہ کاش کسی بار اس قسم کا گوشہ شائع کرنے کی نوبت ہی نہ آئے؟
کچھ باتیں اس بار کے گوشۂ یاد رفتگاں کے سلسلے میں، بلکہ ایک مرحوم دوست کرامت علی کرامتؔ کے ضمن میں۔
کرامت صاحب سے میرا بہت پرانا رشتہ تھا میری شعری تاریخ میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ یعنی اگر چہ سب سے پہلے میری غزل کتاب، لکھنؤ میں عابد سہیل نے جولائی ۱۹۶۷ء میں چھاپی، لیکن اس کے بعد تواتر سے نہ صرف شاعری، بلکہ ایک تنقیدی مضمون بھی غالباً نومبر ۶۷ء سے ۶۸ء کے دوران شاخسار، کٹک میں شائع ہوا اور پہلی غزل کی منظوری میں کرامت صاحب کا خط ملا تھا، اور اس کے بعد ’شاخسار‘ کے بانی کرامت صاحب کی بجائے امجد نجمی اور اطہر عزیز خط و کتابت کرتے رہے، اور یہی پہلا رسالہ تھا جو میرے نام اعزازی طور پر جاری ہوا تھا۔ کرامت صاحب ایک عرصے سے گوشہ نشین تھے، اس لئے اب ان کا کوئی نام بھی نہیں لیتا تھا۔ شاید ادبی دنیا انہیں بھول چکی تھی۔ اسی لئے ان کا گوشہ ترتیب دیتے وقت مجھے زیادہ سکون قلب حاصل ہوا۔ ان کی شخصیت کے بارے میں ایک مضمون انٹر نیٹ سے مل گیا جو اس گوشے میں شامل ہے، ان کی اپنی تخلیقات کا انتخاب میرا اپنا ہے۔
پچھلے شمارے میں میرے دوست ڈاکٹر رؤف خیر کا رشید حسن خاں کی عبقری شخصیت کے کمزور پہلوؤں کی نشان دہی کرتے ہوئے ایک مضمون شائع کیا گیا تھا۔ اس بار اس پر رد عمل کے طور پر حنیف سید نے مراسلہ لکھا ہے۔ اگرچہ ’سَمت‘ میں مراسلے شائع کرنے کی کوئی روایت نہیں ہے، لیکن اس کی اہمیت کی وجہ سے یہ مراسلہ شائع کیا جا رہا ہے۔
امید ہے کہ شمارہ آپ کو پسند آئے گا۔
ا۔ ع۔