خوبصورت سا بھرم توڑ گیا تھا کوئی
دور رہتی تھی کہیں چاند پہ بڑھیا کوئی
لوگ دو گز کے مکانوں میں بھی رہتے ہیں جہاں
کوئی دروازہ، نہ آنگن نہ دریچہ کوئی
وہ فراعین ہیں کہ روحِ زمیں کانپتی ہے
اور اس عہد میں آیا نہیں موسا کوئی
میں بھی روتا ہی رہا نرگسِ بے نور کے ساتھ
دیکھ پایا نہ مجھے دیدۂ بینا کوئی
دفن کر دیتے ہیں خوابوں کو یوں ہی آنکھوں میں
شاید آ جائے نظر تجھ سا مسیحا کوئی
آج سیرت نہیں، صورت کو نظر ڈھونڈتی ہے
عمر ڈھل جاتی ہے، آتا نہیں رشتہ کوئی
اب فرشتوں سے ملاقات کہاں ممکن ہے
کاش انساں ہی زمیں پر نظر آتا کوئی
پھر نہ چھا جائے اندھیرا مری آنکھوں میں کہیں
پھر دکھاتا ہے مجھے خواب سنہرا کوئی
عمرِ نو سے ہی مسائل مرے محبوب رہے
میرے خوابوں میں نہ رضیہ ہے نہ رادھا کوئی
جو نئی نسل کو آفات کا حل بتلاتا
کیا بچا ہی نہیں اس شہر میں بوڑھا کوئی؟
٭٭٭
ذرا اس شوخ کو کچھ اور سنجیدہ بناتے ہیں
پھر اس کے بعد اس کو اپنا گرویدہ بناتے ہیں
ابھی اپنے سوا کچھ بھی نظر آتا نہیں شاید
ادھر آ زندگی تجھ کو جہاں دیدہ بناتے ہیں
قلم سے وار کرنا ظالموں کی ظالمیت پر
اسے اب مشغلہ اپنا پسندیدہ بناتے ہیں
بہاروں کی وگرنہ اہمیت یہ بھی نہ سمجھے گا
سو ہم کچھ موسمِ دل کو خزاں دیدہ بناتے ہیں
اندھیرا چھا گیا ہے ظلم کا چاروں طرف یارو
وہ موسم آ چکا ہے دل کو جب دیدہ بناتے ہیں
جنوں کا کچھ اثر شہرِ گریباں تک نہیں پہنچا
سو دامن کو ابھی کچھ اور چاکیدہ بناتے ہیں
ابھی کچھ حسن میں آزرؔ کمی محسوس ہوتی ہے
ابھی کچھ اور اس بت کو تراشیدہ بناتے ہیں
انھیں حل کرنے میں آزرؔ جبھی تو لطف آئے گا
مسائل کو ابھی کچھ اور پیچیدہ بناتے ہیں
٭٭٭
زمیں تو ہے ہی زمیں، آسمان بھی سے نہیں
مرا مقابلہ میرے سوا کسی سے نہیں
یہ اور بات کہ تاجِ سخن ملا لیکن
وہ مطمئن ابھی اپنی سخن وری سے نہیں
سبھی نے آگ کے دریا میں دل گرا ہی دیا
اسے سنبھال کے رکھا گیا کسی سے نہیں
تضاد خود میں بھی پاؤ گے تم محبت میں
کبھی سبھی سے ملو گے، کبھی کسی سے نہیں
یہ شہر والے تمھیں بیچ کر نہ کھا جائیں
ملو سبھی سے مگر اتنی عاجزی سے نہیں
کبھی کبھی اسے لمحات کر گزرتے ہیں
جو کام ہو سکا صدیوں کی زندگی سے نہیں
اب اس زمانہ میں ایسا بھی کوئی کام ہے کیا؟
سرسوتی سے ہوا ہو جو لکشمی سے نہیں
٭٭٭