(اردو محفل فورم (https://urduweb.org/mehfil) میں عرفان عابد نے جون ایلیا کی زمین میں ایک غزل پوسٹ کی تو میری فرمائش پر اسی طرح پر محفل فورم کے دوسرے اراکین شعراء نے بھی غزلیں کہہ ڈالیں۔ یہ ’’گلدستہ‘‘ مع اصل غزل یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ ا ع)
غزل ۔۔۔ جون ایلیا
عمر گزرے گی امتحان میں کیا
داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا
میری ہر بات بے اثر ہی رہی
نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
اپنی محرومیاں چھپاتے ہیں
ہم غریبوں کی آن بان میں کیا
خود کو جانا جدا زمانے سے
آ گیا تھا مرے گمان میں کیا
شام ہی سے دکان دید ہے بند
نہیں نقصان تک دکان میں کیا
اے مرے صبح و شام دل کی شفق
تو نہاتی ہے اب بھی بان میں کیا
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا
ٍ
خامشی کہہ رہی ہے کان میں کیا
آ رہا ہے مرے گمان میں کیا
دل کہ آتے ہیں جس کو دھیان بہت
خود بھی آتا ہے اپنے دھیان میں کیا
وہ ملے تو یہ پوچھنا ہے مجھے
اب بھی ہوں میں تری امان میں کیا
یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا
ہے نسیم بہار گرد آلود
خاک اڑتی ہے اس مکان میں کیا
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
٭٭٭
غزل ۔۔۔ عرفان عابدؔ
راز کہتی ہے رات کان میں کیا؟
آج آئے گا کوئی دھیان میں کیا؟
آپ کہتے ہیں جس کو دِل اپنا
کوئی دَر بھی ہے اِس مکان میں کیا؟
دیکھتی بھی ہے اور نہیں بھی نظر
تیر رکھتے ہیں یوں کمان میں کیا؟
اک طرف دِل ہے، اک طرف دنیا
عشق ڈالے گا امتحان میں کیا؟
اِس زمیں پر جو مل نہیں پاتے
پھِر وہ ملتے ہیں آسْمان میں کیا؟
میرے دامن میں اور کچھ بھی نہیں؟
خار تھے صرف گلستان میں کیا؟
حُسنِ کردار ہو تو بات ہے کچھ
ورنہ رکّھا ہے خاندان میں کیا
وہ جو دولت سے پیار کرتے ہیں
میں کروں عرض ان کی شان میں کیا
ظلم کو ظلم تو کہو، لوگو
اتنی طاقت نہیں زبان میں کیا؟
عابدؔ اتنے گِلے مقدّر سے؟
لوگ جیتے نہیں جہان میں کیا؟
٭٭٭
غزل ۔۔۔ سید عاطف علی
آن میں کیا ہے اور آن میں کیا
اس نے میرے کہا یہ کان میں کیا
سسکیوں کی صدا ہے اک، دل میں
کوئی بستا ہے اس مکان میں کیا
اڑ گئیں حسرتیں دھواں بن کے
کچھ بچا بھی ہے نیم جان میں کیا
دل کی دنیا کا کر دیا سودا
بیچنے کو بچا دکان میں کیا
گہہ ترنم، گہے تبسم ہے
یہ قصیدہ ہے اس کی شان میں کیا
خالی ترکش ہے سامنے ہے غزال
آخری تیر تھا کمان میں کیا
کوئلہ ایک بس سلگتا ہے
اور باقی ہے خاکدان میں کیا
کہہ دے آخر، نہ بڑبڑا اتنا
پھر وہی بات آئی دھیان میں کیا
ہاں یا نا، کچھ نہ کہہ سکا عاطف
عشق نے پوچھا امتحان میں کیا!
٭٭٭
غزل ۔۔۔ محمد شکیل خورشید
بھید ہے اتنی آن بان میں کیا
تم کو شک ہے تمہاری شان میں کیا
سارا جنگل ہے سانس روکے ہوئے
ہے شکاری کوئی مچان میں کیا
اس نُچی لاش پر کھڑے ہیں جو گدھ
مال باقی ہے کچھ دکان میں کیا
ایک دریا نے جھیل سے پوچھا
کچھ سکوں ہے تری امان میں کیا
یہ جو سنتے ہیں شوق سے سب لوگ
کچھ نئی بات ہے بیان میں کیا
یہ زمانہ ہے شور کا عادی
کہہ رہے ہو دبی زبان میں کیا
ساری دنیا ہے اس کی مدح سرا
میں نیا لکھوں اس کی شان میں کیا
شوقِ پرواز نے سوال کیا
میں ہوں محدود آسمان میں کیا
خالی دیوار پوچھتی ہے شکیل
گھر بنا تھا کبھی مکان میں کی
٭٭٭
غزل ۔۔۔ محمد عظیم
ایسا ہو گا نہ اُس جہان میں کیا؟
قید ہوں گے ہم اک مکان میں کیا؟
شان اللہ کی بیان کرے
ہے یہ طاقت کسی زبان میں کیا؟
امتحان اور بھی کئی ہیں ابھی
گھِر کے بیٹھا ہوں خاندان میں کیا
سوچتا ہوں وہ جانتا ہے سب
راز پنہاں ہے امتحان میں کیا؟
چند لمحوں کا کھیل ہے انسان
اور ہے آدمی کی جان میں کیا؟
ہے ہدایت بس اس کے ہاتھ میں دوست
ورنہ رقت نہیں اذان میں کیا؟
یوں ہی گزرے گی عمر اپنی عظیم
یعنی اس ایک ہی کے دھیان میں کیا؟
٭٭٭
غزل ۔۔۔ علی اشرف
گھول دوں رس تمہارے کان میں کیا
کچھ کہوں، مادری زبان میں کیا
چاکلیٹ اور پھول کے مانند
پیار بِکتا ہے اب دکان میں کیا
پاس مَیں امتحاں میں ہو جاؤں
پاس بیٹھو گے امتحان میں کیا
جس کو پانے میں ایک عمر لگی
مَیں گنوا دوں اسے اک آن میں کیا؟
نہ مِلا مَیں اگر زمیں پہ کہیں
مجھ کو ڈھونڈو گے آسمان میں کیا
کام میں دھیان کیوں نہیں لگتا
کوئی رہنے لگا ہے دھیان میں کیا
شبِ فرقت سی ہی کٹی شبِ وصل؟
کوئی پردہ تھا درمیان میں کیا
کوئی غم، کوئی داغ، کوئی دکھ
کچھ نہیں دو گے آج دان میں کیا
میں تو لا دوں گا بالیاں، لیکن
آپ پہنیں گی ان کو کان میں کیا
مجھ سے اچھا نہ مِل سکے گا تجھے
یہ نہیں ہے تِرے گمان میں کیا ؟
کیوں بلایا ہے اس نے شرما کر
آج تنہا ہے وہ مکان میں کیا
جونؔ کی طرح میرا بھی اشرف!
نام ہو گا بھرے جہان میں کیا ؟
٭٭٭
غزل ۔۔۔ امین شارق
دِل نے چاہا تھا خُود گُمان میں کیا؟
بدلا منظر ہے ایک آن میں کیا؟
کوئی تو ہو جو داستان سُنے
سو چُکے ہیں سبھی جہان میں کیا؟
تیری منزل اسی زمین پہ ہے
ڈھُونڈتا ہے تُو آسمان میں کیا؟
ظُلم کے باوجود بھی چپ ہو
لفظ خاموش ہیں زبان میں کیا؟
ظُلم کو دیکھ کر یوں جی نہ جلا
تیِر ناپید ہیں کمان میں کیا؟
کُچھ خطا عقل کی بھی ہے لوگو!
دِل ہی پاگل ہے جِسم و جان میں کیا؟
دل کے ارمان راکھ راکھ ہوئے
یہ دھُواں سا ہے اِس مکان میں کیا؟
حُسن ہی بے وفا اگر نکلے
عِشق جیتے گا اِمتحان میں کیا؟
جِس کو لوگوں کا کُچھ خیال نہ ہو
اُس کی عِزت ہو خاندان میں کیا؟
عشق شاید اسی کو کہتے ہیں
کُچھ نظر میں ہے اور دھیان میں کیا؟
ہائے محبُوب کے لب و عارض
اِک غزل کہہ دُوں ان کی شان میں کیا؟
اے خِزاں دِیدہ پیڑ تُو ہی بتا
یہ خموشی ہے گُلستان میں کیا؟
شورِ دل کے علِاوہ وصل کی شب
تیرے میرے تھا درمیان میں کیا؟
بات میری اثر نہیں رکھتی
کچھ کمی ہے مرے بیان میں کیا؟
جون کی رُوح خُواب میں شارؔق
یہ غزل کہہ گئی ہے کان میں کیا؟
٭٭٭
غزل ۔۔۔ عبدالرؤوف
نفرتوں کے سوا ہے دان میں کیا؟
اور ہے شہرِ بدگمان میں کیا؟
کیوں ہیں خاموش میرے قتل پہ سب
کوئی زندہ نہیں جہان میں کیا؟
یوں اکڑ کر جو چل رہے ہو تم
چھید کرنا ہے آسمان میں کیا؟
آپ اس نفرتوں کی منڈی میں
پھول رکھ بیٹھے ہیں دکان میں کیا
جسم جھلسے ہیں سائبان میں جو
پھر وہ پائیں گے سائبان میں کیا؟
عشق میں ہو جو مبتلا، اُس کو
ڈالیے اور امتحان میں کیا؟
یہ بدلتا ہوا ہر آن جہاں
’’آن میں کیا ہے اور آن میں کیا‘‘
ہم بجز خوف پا سکیں گے کبھی
تیرے اس شہرِ بے امان میں کیا؟
اشک بے ساختہ چھلک ہی پڑے
آپ آئے تھے میرے دھیان میں کیا؟
دل تھا طوفانِ غم کی زد میں مرا
آپ رہتے بھی اس مکان میں کیا
ہم سخن ہو گئے سبھی اُن کے
شہد رکھتے ہیں وہ زبان میں کیا
٭٭٭